محنت کشوں کے مسائل جوں کے توں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوام (محنت کشوں) کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب...


Zuber Rehman January 01, 2014
[email protected]

پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوام (محنت کشوں) کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب امیروں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ قانون ہے کہ جب جنس کی قیمت بڑھتی ہے تو عوام کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور جب زائد پیداوار ہو تو سرمایہ داروں کو ذخیرہ اندوزی کرنا پڑتی ہے اور کمی ہو تو قیمت بڑھانے کے لیے بھی۔ نتیجتاً عمومی گروتھ ریٹ کم ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات آج اظہرمن الشمس ہے۔ امریکا کی گروتھ ریٹ (پیداواری شرح) 8 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد پر آ گئی ہے، چین کی 11 فیصد سے 7 فیصد، بھارت 8 سے 6 فیصد، یورپ کی 1 فیصد اور صفر فیصد، جاپان کی سفر فیصد اور روس کی 1 فیصد پر آ گئی ہے۔ اس صورتحال میں دنیا کے 2000 امیروں کے پاس 138 ٹریلین ڈالر کی رقم ہے جب کہ روزانہ اس دنیا میں بھوک سے 75 ہزار انسان مر رہے ہیں۔

ہمارے حکمران بجائے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی تک و دو میں لگنے کے، کبھی افغانستان، کبھی بھارت، کبھی بنگلہ دیش اور کبھی ترکی سے پینگیں اور کشیدگی بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پنجاب کی نواز حکومت ہو یا کے پی کے کی انصاف حکومت۔ پاکستان کے 3 کروڑ بے روزگار نوجوانوں میں صرف ایک لاکھ نوجوانوں کو قرضے دیے جا رہے ہیں وہ بھی ایسی شرائط کے ساتھ کہ وہ شرائط پوری کرتے کرتے تنگ آ کر نہ لینے پر کان پکڑ لیں۔ یہی صورت حال کے پی کے کی ہے، وہاں بھی مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ مہنگائی کا بالر چھکے پر چھکے مار رہا ہے اور عوام زخمی ہو ہو کر نڈھال ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی صورت حال سندھ کی بھی ہے اور نام نہاد ترقی پسند اور قوم پرستوں کی۔ بلوچستان کی حکومت نے بھی بلوچ عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ یہ نہیں بتاتے کہ انھوں نے گزشتہ حکومتی دور میں کتنے کارخانے لگا کر لوگوں کو روزگار دیا یا پھر صرف اردگان کا استقبال کرتے رہے۔ اس لیے بھی کہ وہ نیٹو کا رکن ملک ہے اور وہاں جرمنی کا فوجی اڈہ ہے۔ حکومت پاکستان قرضوں پر قرضہ لیے جا رہی ہے اور قرضوں سمیت سود کی ادائیگی بھی کرتی جا رہی ہے۔ نتیجہ نہ صرف صفر پہ ہے بلکہ امریکی سامراج ہمیں ڈالر دے کر 14ء میں ہمارے مغربی پڑوس سے جا رہا ہے۔ یہی صورت حال چین کی بھی ہے۔ بلوچستان سے نکلنے والے سونے کے 51 فیصد چینی سرمایہ دار لے جا رہے ہیں۔

گزشتہ 2012ء میں پاکستان نے امریکا سے اگر کُل خریدے جانے والے اسلحے میں سے 35 فیصد امریکا سے خریدا ہے تو چین سے 42 فیصد۔ عوام کو بھول بھلیوں میں ڈالنے اور ان کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرنے کے لیے صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو عوامی دکھوں اور پریشانیوں کا ذمے دار قرار دے رہی ہیں۔ جب کہ سب ہی نے مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ کرنے اور سرمایہ داروں کو سرمایے کی لوٹ میں اضافہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ جتنے روزگار دیے جا رہے ہیں وہ صرف پارٹی کارکنوں (وہ بھی ایک قلیل اقلیت کو) رشتے داروں، منظور نظر اور کمیشن کے لیے جوڑ توڑ کرنے والوں کو۔ گزشتہ دنوں شاہراہ فیصل کراچی میں ایک کمپنی کو 6 انجینئرز کی ضرورت تھی جہاں انٹرویو کے لیے 350 نوجوان آئے تھے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنے انجینئرز کیسے آئے ہوں گے؟ پھر میں قریب گیا اور ان سے کچھ سوالات کیے جو کہ بڑی اچھی انگریزی میں جواب دے رہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ افراط زر، مہنگائی اور لوگوں کی قوت خرید کی کمی ہے۔ ہر چیز کی قیمتوں میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دالیں پنجاب، سندھ، پختونخوا اور بلوچستان سب ہی جگہ 150 روپے کلو ہیں، خوردنی تیل 200 روپے کلو، دودھ 60 سے 80 روپے کلو، چاول 60 سے 140، آٹا 45 سے 55، گوشت مختلف اقسام کے 300 سے 700 روپے فی کلو جب کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم ازکم تنخواہ ایک صنعتی مزدور، کھیت مزدور، مچھیروں یا دیہاڑی دار مزدور کی 10,000 روپے ہو گی۔ ملک کے تمام محنت کشوں باقاعدہ ہوں یا بے قاعدہ کام کرنے والوں کو چار ہزار سے چھ ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ نہیں ملتی۔ کسی کسی ادارے میں 7/8 ہزار ملتے ہیں۔ کُل مزدوروں میں سے صرف 5 فیصد کو 10,000 روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اب اس 10 ہزار کو بھی اگر جوڑ لیں تو پتہ چلے گا کہ وہ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر وہ کرایے کے مکان میں ہیں تو ٹوٹا پھوٹا دو کمروں کا مکان بھی 4/5 ہزار روپے سے کم میں نہیں ملے گا۔ اب باقی 5 ہزار میں باورچی خانے کا خرچہ، دوا دارو اور ٹرانسپورٹ بھی شامل ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1970ء میں سونا 71 روپے تولہ تھا جب کہ ایک مزدور کی تنخواہ 68 روپے تھی۔ لانڈھی کراچی کے مزدوروں نے اپنی تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر کروانے کے لیے ہڑتال کی تھی۔ مطالبہ تو مکمل پورا نہ ہوا تھا لیکن 69 روپے تنخواہ کر دی گئی۔ اور اب آج کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ سونا 51,000 روپے تولہ اور تنخواہ 10,000 (بقول سرکار کے) بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہم آلو، چاول، مچھلی اور گوشت وغیرہ برآمد کرتے ہیں جب کہ عوام آلو 50 روپے کلو، چاول 100 روپے، مچھلی 300 روپے اور گوشت 500 روپے کلو خریدتے ہیں۔ ان برآمداتوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔

ہاں مگر سرمایہ داروں اور کمیشن خوروں کو ضرور فائدہ ہے۔ روئی، کینو، سبزیاں اور مویشی بھی برآمد کر کے ہم فخر کرتے ہیں جب کہ لنڈے کا کپڑا پہنتے ہیں، مہنگی سبزیاں خریدتے ہیں، انتہائی مہنگے داموں میں مویشی خریدے جاتے ہیں۔ اور سوال کریں تو کہا جاتا ہے کہ توانائی مہنگی ہے اس لیے ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ جب کہ آلودگی سے پاک شمسی توانائی حاصل کرنا پاکستان کے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔ شمسی توانائی سے اس وقت پوری دنیا میں صرف 15 ٹیٹرا واٹ بجلی خرچ ہو رہی ہے جب کہ شمسی توانائی سے 86,000 ٹیٹرا واٹ، ہوا سے 870 ٹیٹرا واٹ اور تھرمل سے 32 ٹیٹرا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ شمسی توانائی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ جرمنی، چین، اٹلی، جاپان اور امریکا میں استعمال ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ 2010ء سے پہلے پاکستان شمسی توانائی کے استعمال میں سری لنکا اور نیپال سے بھی پیچھے تھا مگر اب اس میں سالانہ کئی گنا تک اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے تین سالوں سے پاکستان میں سولر انرجی کا استعمال 8 میگاواٹ سے 800 میگاواٹ تک جا پہنچا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور لوڈشیڈنگ ہے۔ جب کہ معیاری خاصیت کے سولر پینل کی عمر 30 سے 40 سال تک ہوتی ہے۔

مسئلہ قیمت کی یک مشت ادائیگی کا ہے۔ اگر حکومت رعایت دیدے اور بینک آسان شرائط پر قرض دینا شروع کر دیں تو یقینا لوگ بجلی اور ڈیزل سے جان چھڑا لیں۔ جب زیادہ تعداد میں سولر ٹیوب ویل لگنا شروع ہو جائیں گے تو قیمت خود بخود کم ہوتی جائے گی۔ کبھی موبائل فون 80 ہزار کا ہوتا تھا جو اب 800 روپے میں بھی مل جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 10 لاکھ ٹیوب ویل ڈیزل اور بجلی سے چل رہے ہیں اور اوسطاً ہر ایک 40 فیصد سے 70 فیصد توانائی ضایع کر رہا ہے۔ صرف بلوچستان میں 21 ہزار ٹیوب ویل کو تقریباً 500 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ اگر ٹیوب ویل، سولر انرجی پر تبدیل کر لیے جائیں تو پاکستان میں 3500 میگاواٹ بجلی بچ سکتی ہے۔ سولر ٹیوب ویل کو چلانے کے لیے کسی خاص ہنر کی ضرورت نہیں، یہ سورج نکلنے پر خود بخود کام شروع کر دیتا ہے اور جب تک روشنی ملے کام کرتا رہتا ہے۔ معیاری ٹیوب ویل بادلوں اور بارشوں میں بھی کام کرتا رہتا ہے۔ اس کی کوئی مرمت کی ضرورت نہیں سوائے اس کے کہ اس پر مٹی پڑنے سے اسکو وائپر سے صاف کر دیا جائے۔ ہم روزانہ اپنی فصلوں کو پانی نہیں دیتے مگر یہ ٹیوب ویل ہر روز پانی دیتا ہے۔ ہم پانی کو جمع کر کے محفوظ کر سکتے ہیں اور ضرورت پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ریزرو واٹر میں فش فارمنگ کی جا سکتی ہے۔

مگر مسئلہ ہے ترجیہات کا۔ ہم ایک میزائل کے بنانے اور ٹیسٹ کرنے میں 6 ارب روپے خرچ کر دیتے ہیں اور سال میں 18 میزائل کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ جب کہ ایک میزائل کے ٹیسٹ کے اخراجات سے کئی سولر پینل خریدے جا سکتے ہیں۔ ہم صحت اور تعلیم کے شعبوں میں دنیا کے 132 اور 134 ویں نمبر پر ہیں جب کہ اسلحے کی پیداوار اور خرید و فروخت میں ہمارا 11 واں نمبر ہے۔ اس وقت پاکستان کی تمام تر ترقیوں کی رکاوٹیں توانائی ہے اور ہم توانائی با آسانی حاصل کر کے اوروں کو برآمد کر سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم لوگوں کا فائدہ کرنا چاہتے ہیں یا سرمایہ داروں کا؟ اب تک اس 65 سال میں جو کچھ فائدہ ہوا ہے وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں کا نہ کہ شہریوں (محنت کشوں) کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں