میں اور پکوڑے والا
پھوار پڑی۔ پیڑوں پر آسن جمائے پرندے چہکنے لگے۔ بیل بوٹے جی اٹھے۔
KARACHI:
پھوار پڑی۔ پیڑوں پر آسن جمائے پرندے چہکنے لگے۔ بیل بوٹے جی اٹھے۔
شمال سے آنے والی سرد ہوائوں نے گلیوں میں رقص شروع کیا، تو زندگی پہلو میں دمکتی محسوس ہوئی۔ میاں صاحب اور میں نے مفلر لپیٹے، چھڑی بغل میں مار، سوئیٹر چڑھائے، اور مشہور و معروف، بابو پکوڑے والے کی سمت رخت سفر باندھا، جس کا پتھارا تجاوزات کے زمرے میں آتا۔ اور اِس بات پر بابو اکثر فخر کیا کرتا تھا۔
پکوڑوں میں نمک تیز تھا، مگر میاں صاحب مزے لے کر کھاتے رہے۔ جس کاغذ پر پکوڑے دھرے تھے، وہ کسی اخبار کا پہلا صفحہ تھا۔ اُس پر ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی خبر تھی۔ خبر پڑھ کر میاں صاحب نے گہرے دُکھ کا اظہار کیا، اور ہلاک شدگان کو ''شہید'' قرار دیا۔ ایک باشعور صحافی کی طرح میں نے میاں صاحب کی بات سے اتفاق کیا، اور اثبات میں گردن ہلانے لگا۔
اِس بات پر پہلو میں کھڑے باریش بزرگ کا چہرہ منور ہو گیا۔ اُنھوں نے دل میں میاں صاحب کی تعریف کی۔ اُن کے بیان کو رحمان کا فضل قرار دیا، اور غصے میں آ گئے۔
ٹھیک اُسی پل ڈیزل سے چلنے والی، دھواں چھوڑتی ایک ویگن پہلو سے گزری۔ دھواں پکوڑوں پر اترا، تو اُن کا مزہ دوبالا ہو گیا۔ بزرگ مزید منور ہو گئے۔
کہیں قریب ہی کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ کچرا چنے والے پر شک کی بنا پر، یا شاید فقط تفریح کی غرض سے، بھونک رہے تھے۔
بابو نے کمال رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند پکوڑے اچھال دیے۔ اور حاضرین کو بتانے لگا کہ پتھارا لگانے سے قبل وہ ٹارگٹ کلر تھا۔ پھر اُسے برے کرموں کا بہت برا پھل ملا۔ شادی کے بعد اس نے توبہ کی، اور اِس جگہ کو اپنا اڈا بنا لیا۔
''یہ پتھارا میں نے قرض لے کر لگایا۔'' بابو نے سینہ پھولاتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی آنکھ ماری، گو اِس کی ضرورت نہیں تھی۔ ''ہم جیسے نوجوانوں کو اگر تھوڑا قرض مل جائے، تو ہم اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایشین ٹائیگر بن سکتے ہیں۔''
مجھے بابو جیسے ادھیڑ عمر شخص کی جانب سے خود کو نوجوان قرار دینے کا عمل بہت اچھا لگا۔ اور میں اُسے گھورنے لگا۔ میاں صاحب بھی اُس کے خیالات سے متاثر نظر آئے۔ انھوں نے عہد کیا کہ اگر قدرت نے موقع دیا، تو وہ بابو جیسے پاکستان کے تمام نوجوانوں کو قرضے دیں گے، تا کہ وہ گندی باتیں چھوڑ کر اچھی باتیں کر سکیں۔
'' بھائی صاحب، قرضوں سے پہلے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بانٹیں۔''
یہ جملہ اچانک برآمد ہوا۔ میں اور میاں صاحب، دونوں ہی نہیں سمجھ سکے کہ اِس کا ماخذ کون تھا۔
''اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی۔۔۔'' اس چونکا دینے والے الفاظ کا ماخذ پہلو میں کھڑے باریش بزرگ تھے۔ پہلے تو ہم نے خیال کیا کہ قرض کی تجویز، غالباً سودی نظام کی قباحت کے باعث انھیں ناگوار گزری، پھر ہم نے جانا کہ وہ بھی اس اخباری ٹکڑے سے استفادہ کر رہے تھے، جس پر پکوڑے لپیٹ کر بابو نے اُنھیں پکڑائے تھے۔
اچانک شور اٹھا۔ وہ لڑکے لڑکیوں کی ٹولی تھی۔ ان کی توانا آواز اور چہروں سے جھلکتا لاابالی پن اِس بات کا غماز تھا کہ اُنھیں عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں۔ انھوں محلے کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں، اور اُس کی تعریف کر رہے تھے کہ کل چاچا سام کے خلاف مظاہرے میں وہ پورے دن دھوپ میں کھڑا رہا۔
ٹولی میں شامل ایک نوجوان نے منہ ٹیڑھا کر کے کہا: ''دھوپ میں کھڑا ہونا ہی اصل انقلاب ہے۔''
میاں صاحب نے تاسف سے سر ہلایا اور کہا: ''کرکٹر کے لیے دھوپ میں کھڑا ہونا تو کوئی کمال نہیں۔ ہاں اگر میری طرح 'میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں' سے ٹکر لیتا، تو اور بات تھی۔''
ایک نوجوان سیلیبریٹیز کے انداز میں پکوڑے کی دکان پر آیا، اور انگریزی نما اردو میں تقریر کرنے لگا۔ پھر اس نے نعرے لگائے۔''زندہ ہے۔۔۔''
بابو نے اُسے چند پکوڑے پکڑا دیے۔
اس نے کریڈٹ کارڈ نکالا۔ بابو ہنسنے لگا۔ '' کوئی بات نہیں۔ تمھارے ڈیڈی سے لے لوں گا۔''
نوجوان نے کاندھے اچکائے۔ میاں صاحب کو سلام کیا۔ میاں صاحب نے اس کے ڈیڈی کی خیریت پوچھی۔
اچانک دائیں جانب کچھ ہلچل ہوئی۔ وہ ایک عورت تھی، جو ٹماٹر کی بڑھتی قیمتوں پر آڑھتی سے الجھ رہی تھی۔ قریب ہی ایک آدمی کھڑا آلوئوں کو غصے سے گھور رہا تھا۔ غصے میں احساس محرومی بھی تھا۔ فروٹ کے ٹھیلے سے چند سیب ہوا میں بلند ہوئے، اور آسمان کی سمت پرواز کر گئے۔ چند بچے پتنگ سمجھ کر ان کے پیچھے بھاگے۔ اِسی اثناء میں ایک سوٹ بوٹ والے صاحب نے اپنی گاڑی کو لات رسید کی، سی این جی کی بندش کو ''شرم ناک'' قرار دیتے ہوئے حکومت کو بے نقط سنانے لگے۔ فوراً اُن کے نام نوٹس آ گیا۔
قریبی میڈیکل اسٹور سے امراض قلب کی دوا خریدنے والے بزرگ، دوا کی قیمت سنتے ہی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے۔
سامنے والے فلیٹ سے ہم پر ڈرون حملہ ہوا۔ وہ کاغذی جہاز تھا، جو میری ناک سے ٹکرا کر زمین پر آ رہا۔ میں نے کاغذ کی تہ کھولی۔ کسی نوجوان کی ''سی وی'' تھی۔ بے چارہ، بے روزگاری سے اوب چکا تھا، اور اب سامنے بالکونی میں کھڑی پری وش کو تک رہا تھا۔
کاغذی ڈرون کے فوراً بعد ہمیں حقیقی دھماکے سنائے دیے۔ شمال سے دھواں اٹھنے لگا۔ چاچا سام اور ماما کرزئی نے ایک دوسرے کو آنکھ ماری۔ رینجرز نے آپریشن شروع کیا، اور ٹارگٹ کلرز نے ٹارگٹ کلنگ۔ انڈین فلموں پر پابندی عاید ہوئی، اور دھوم تھری ریلیز ہو گئی۔
منظر کی یکسانیت سے اکتا کر میں نے میاں کو مخاطب کیا۔ ''کیوں نہ کچھ اور پکوڑے لیے جائیں؟''
''ضرور، مگر اب کی بار مسالا ذرا کم رکھوائیے گا۔'' میاں صاحب مسکرائے۔ ''ویسے یہاں نوش کرنے سے بہتر ہے کہ ہم گھر چلیں۔ جانے کب پھوار پڑنے لگے۔ اور ویسے بھی۔۔۔ پبلک میں کھانا کچھ مناسب نہیں لگتا۔''
پھوار پڑی۔ پیڑوں پر آسن جمائے پرندے چہکنے لگے۔ بیل بوٹے جی اٹھے۔
شمال سے آنے والی سرد ہوائوں نے گلیوں میں رقص شروع کیا، تو زندگی پہلو میں دمکتی محسوس ہوئی۔ میاں صاحب اور میں نے مفلر لپیٹے، چھڑی بغل میں مار، سوئیٹر چڑھائے، اور مشہور و معروف، بابو پکوڑے والے کی سمت رخت سفر باندھا، جس کا پتھارا تجاوزات کے زمرے میں آتا۔ اور اِس بات پر بابو اکثر فخر کیا کرتا تھا۔
پکوڑوں میں نمک تیز تھا، مگر میاں صاحب مزے لے کر کھاتے رہے۔ جس کاغذ پر پکوڑے دھرے تھے، وہ کسی اخبار کا پہلا صفحہ تھا۔ اُس پر ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی خبر تھی۔ خبر پڑھ کر میاں صاحب نے گہرے دُکھ کا اظہار کیا، اور ہلاک شدگان کو ''شہید'' قرار دیا۔ ایک باشعور صحافی کی طرح میں نے میاں صاحب کی بات سے اتفاق کیا، اور اثبات میں گردن ہلانے لگا۔
اِس بات پر پہلو میں کھڑے باریش بزرگ کا چہرہ منور ہو گیا۔ اُنھوں نے دل میں میاں صاحب کی تعریف کی۔ اُن کے بیان کو رحمان کا فضل قرار دیا، اور غصے میں آ گئے۔
ٹھیک اُسی پل ڈیزل سے چلنے والی، دھواں چھوڑتی ایک ویگن پہلو سے گزری۔ دھواں پکوڑوں پر اترا، تو اُن کا مزہ دوبالا ہو گیا۔ بزرگ مزید منور ہو گئے۔
کہیں قریب ہی کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ کچرا چنے والے پر شک کی بنا پر، یا شاید فقط تفریح کی غرض سے، بھونک رہے تھے۔
بابو نے کمال رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند پکوڑے اچھال دیے۔ اور حاضرین کو بتانے لگا کہ پتھارا لگانے سے قبل وہ ٹارگٹ کلر تھا۔ پھر اُسے برے کرموں کا بہت برا پھل ملا۔ شادی کے بعد اس نے توبہ کی، اور اِس جگہ کو اپنا اڈا بنا لیا۔
''یہ پتھارا میں نے قرض لے کر لگایا۔'' بابو نے سینہ پھولاتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی آنکھ ماری، گو اِس کی ضرورت نہیں تھی۔ ''ہم جیسے نوجوانوں کو اگر تھوڑا قرض مل جائے، تو ہم اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایشین ٹائیگر بن سکتے ہیں۔''
مجھے بابو جیسے ادھیڑ عمر شخص کی جانب سے خود کو نوجوان قرار دینے کا عمل بہت اچھا لگا۔ اور میں اُسے گھورنے لگا۔ میاں صاحب بھی اُس کے خیالات سے متاثر نظر آئے۔ انھوں نے عہد کیا کہ اگر قدرت نے موقع دیا، تو وہ بابو جیسے پاکستان کے تمام نوجوانوں کو قرضے دیں گے، تا کہ وہ گندی باتیں چھوڑ کر اچھی باتیں کر سکیں۔
'' بھائی صاحب، قرضوں سے پہلے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بانٹیں۔''
یہ جملہ اچانک برآمد ہوا۔ میں اور میاں صاحب، دونوں ہی نہیں سمجھ سکے کہ اِس کا ماخذ کون تھا۔
''اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی۔۔۔'' اس چونکا دینے والے الفاظ کا ماخذ پہلو میں کھڑے باریش بزرگ تھے۔ پہلے تو ہم نے خیال کیا کہ قرض کی تجویز، غالباً سودی نظام کی قباحت کے باعث انھیں ناگوار گزری، پھر ہم نے جانا کہ وہ بھی اس اخباری ٹکڑے سے استفادہ کر رہے تھے، جس پر پکوڑے لپیٹ کر بابو نے اُنھیں پکڑائے تھے۔
اچانک شور اٹھا۔ وہ لڑکے لڑکیوں کی ٹولی تھی۔ ان کی توانا آواز اور چہروں سے جھلکتا لاابالی پن اِس بات کا غماز تھا کہ اُنھیں عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں۔ انھوں محلے کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں، اور اُس کی تعریف کر رہے تھے کہ کل چاچا سام کے خلاف مظاہرے میں وہ پورے دن دھوپ میں کھڑا رہا۔
ٹولی میں شامل ایک نوجوان نے منہ ٹیڑھا کر کے کہا: ''دھوپ میں کھڑا ہونا ہی اصل انقلاب ہے۔''
میاں صاحب نے تاسف سے سر ہلایا اور کہا: ''کرکٹر کے لیے دھوپ میں کھڑا ہونا تو کوئی کمال نہیں۔ ہاں اگر میری طرح 'میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں' سے ٹکر لیتا، تو اور بات تھی۔''
ایک نوجوان سیلیبریٹیز کے انداز میں پکوڑے کی دکان پر آیا، اور انگریزی نما اردو میں تقریر کرنے لگا۔ پھر اس نے نعرے لگائے۔''زندہ ہے۔۔۔''
بابو نے اُسے چند پکوڑے پکڑا دیے۔
اس نے کریڈٹ کارڈ نکالا۔ بابو ہنسنے لگا۔ '' کوئی بات نہیں۔ تمھارے ڈیڈی سے لے لوں گا۔''
نوجوان نے کاندھے اچکائے۔ میاں صاحب کو سلام کیا۔ میاں صاحب نے اس کے ڈیڈی کی خیریت پوچھی۔
اچانک دائیں جانب کچھ ہلچل ہوئی۔ وہ ایک عورت تھی، جو ٹماٹر کی بڑھتی قیمتوں پر آڑھتی سے الجھ رہی تھی۔ قریب ہی ایک آدمی کھڑا آلوئوں کو غصے سے گھور رہا تھا۔ غصے میں احساس محرومی بھی تھا۔ فروٹ کے ٹھیلے سے چند سیب ہوا میں بلند ہوئے، اور آسمان کی سمت پرواز کر گئے۔ چند بچے پتنگ سمجھ کر ان کے پیچھے بھاگے۔ اِسی اثناء میں ایک سوٹ بوٹ والے صاحب نے اپنی گاڑی کو لات رسید کی، سی این جی کی بندش کو ''شرم ناک'' قرار دیتے ہوئے حکومت کو بے نقط سنانے لگے۔ فوراً اُن کے نام نوٹس آ گیا۔
قریبی میڈیکل اسٹور سے امراض قلب کی دوا خریدنے والے بزرگ، دوا کی قیمت سنتے ہی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے۔
سامنے والے فلیٹ سے ہم پر ڈرون حملہ ہوا۔ وہ کاغذی جہاز تھا، جو میری ناک سے ٹکرا کر زمین پر آ رہا۔ میں نے کاغذ کی تہ کھولی۔ کسی نوجوان کی ''سی وی'' تھی۔ بے چارہ، بے روزگاری سے اوب چکا تھا، اور اب سامنے بالکونی میں کھڑی پری وش کو تک رہا تھا۔
کاغذی ڈرون کے فوراً بعد ہمیں حقیقی دھماکے سنائے دیے۔ شمال سے دھواں اٹھنے لگا۔ چاچا سام اور ماما کرزئی نے ایک دوسرے کو آنکھ ماری۔ رینجرز نے آپریشن شروع کیا، اور ٹارگٹ کلرز نے ٹارگٹ کلنگ۔ انڈین فلموں پر پابندی عاید ہوئی، اور دھوم تھری ریلیز ہو گئی۔
منظر کی یکسانیت سے اکتا کر میں نے میاں کو مخاطب کیا۔ ''کیوں نہ کچھ اور پکوڑے لیے جائیں؟''
''ضرور، مگر اب کی بار مسالا ذرا کم رکھوائیے گا۔'' میاں صاحب مسکرائے۔ ''ویسے یہاں نوش کرنے سے بہتر ہے کہ ہم گھر چلیں۔ جانے کب پھوار پڑنے لگے۔ اور ویسے بھی۔۔۔ پبلک میں کھانا کچھ مناسب نہیں لگتا۔''