عالمی حالات کی نئی صورت گری میں پاکستان کا کردار

یوریشیائی تصور کے حقیقت میں تبدیل ہونے کے راستے میں عرب ممالک کی ایران کے ساتھ مخاصمت بڑی رکاوٹ ہے۔

خطے کی معیشت و سیاست کا ایک نیا دور ہمارے سامنے شروع ہورہا ہے۔ معاشی و ثقافتی اعتبار سے باہم مربوط یوریشیا کا خطہ تاریخی شاہراہ ریشم کے عہد سے تیرہویں صدی سے پندرھویں صدی تک اپنا وجود رکھتا تھا۔

یہ شاہراہ صرف تجارتی راستہ نہیں بلکہ افراد اور افکار کی آزادانہ آماجگاہ رہی ہے جس کے نتیجے میں ثقافتوں کا ملاپ ممکن ہوا۔ ہم ایک بار پھر اس منظر کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں۔ یوریشیا کی یہ دیرینہ جغرافیائی اکائی کیوں فراموش کردی گئی۔ روس اور برطانوی سلطنت کے قیام اور ان کی مسابقت کا اس میں اہم کردار رہا۔

1462 سے 1505عیسوی کے دوران میں زار ایوان سوئم کے دور میں روسی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس عہد میں گولڈن ہورڈ کی بالادستی ختم ہوئی اور روسی سلطنت کے رقبے میں تین گنا اضافہ ہوا۔ پندرہویں صدی میں مغربی یورپ نے سمندری سفر میں سائنسی انقلاب برپا کیا تو تجارت کے لیے زمینی راستوں کی جگہ نئی سمندری گزرگاہوں نے لے لی۔

برطانویوں، ہسپانویوں اور ولندیزیوں نے ان سمندری راستوں سے نئے خطے دریافت کیے اور اپنی نوآبادیات کا دائرہ بڑھایا۔ 1600میں قائم ہونے والی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر جنوبی ایشیا میں ہندوستانی نوآبادیات قائم کرکے اس دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ برطانیہ کے حریف روس نے وسطی ایشیا اور مغربی چین کی جانب اس کے بڑھتے قدم روک لیے۔

شمال میں روس کی دسترس جس سمندر تک تھی وہ صدیوں سے منجمد ہے اس لیے زار پیٹر اول کے دور سے روس کی نگاہیں گرم پانیوں تک رسائی پر لگی تھیں۔ سترھویں سے بیسویں صدی کے مابین روس اور برطانیہ کے درمیان خطے کی اقوام کو قابو کرنے کے لیے ''گریٹ گیم'' کا میدان سجایا گیا۔ ان دو قوتوں کے مابین جاسوسی کے اس مقابلے کے نتیجے میں بالآخر سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی۔

یوریشیا کا تصور کبھی دم نہیں توڑ سکا بلکہ بیسویں صدی کے آخرمیں روس اور برطانیہ کی نوآبادیاتی قوتوں کے خاتمے نے اسے نئی زندگی دی۔ دوسری عالمی جنگ سے جنم لینے والی دو قطبی دنیا کا مختصر دور گزرا اور دنیا میں کئی قوتیں سر اٹھانے لگیں جن میں چین بڑی قوت بن کر ابھرا اور یوریشیا کے احیا کی باگ اس کے ہاتھ میں آگئی۔

نومبر 2020میں ''یوریشیا؛ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ'' کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا ''ای سی او 1985میں قائم ہوئی تھی، یہ بنیادی طور پر امریکا اور برطانیہ کی ایما پر بننے والی اور ایران، پاکستان، ترکی پر مشتمل علاقائی تعاون تنظیم (آر سی ڈی) کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی جس نے خطے میں ہونے والے کمیونسٹ مخالف بغداد پیکٹ اور سینٹو کی جگہ لی۔

1992میں ای سی او میں سات ممالک ؛ افغانستان ، آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہوئے۔ اس تنظیم میں شامل ممالک کا مجموعی رقبہ یورپ سے دگنا ہے... اس خطے کا اوسط فی کس جی ڈی پی 4300 امریکی ڈالر تھا۔ 2015میں خطے میں ہونے والی بیرونی براہ راست سرمایہ کاری 37ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی۔ چین کے بی آر آئی منصوبے کا محور اور مرکزی انحصار بھی اسی خطے پر ہے۔ سی پیک کے بانی کے طور پر چین نے پاکستان کے معاشی مسائل دور کرنے میں مدد کی اور روس ان حالات میں ایک نئے اتحادی کے طور پر سامنے آیا۔''


27نومبر کو اسی حوالے سے ایک اور کالم میں ذکر کیا گیا ''اپنے آغاز کے فقط پانچ برس بعد، یعنی6 اکتوبر 2020 تک دس ہزار ٹرینیں یہ پورٹ کراس کر چکی تھیں... Belt and Road Initiative فقط ایک تصور نہیں، بلکہ ایشیا کے مشرق سے یورپ کے مغرب تک پھیلی ایک عملی حقیقت ہے اورسی پیک شمال سے جنوب تک اس کی اہمیت میں اضافہ کرنے والا عنصر، جو چین اور وسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے مشرق وسطی اور شمالی افریقا سے جوڑتا ہے۔''

سی پیک نے پاکستان کو خطے کا محور بنادیا ہے۔ وسطی ایشیا اور افغانستان تک پھیلاؤ کے بعد معاشی اعتبار سے سی پیک تاریخی شاہراہ ریشم کا احیا کردے گا اور اس کا مدار پاکستان پر ہوگا۔ گوادر اور ایرانی بندرگاہ چابہار مل کر اس راستے کو وسطی اور مشرق قریب کے خطے سے جوڑتی ہیں اور اس کے خدوخال ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ لیکن اس خواب کے حقیقت میں بدلنے تک کئی دشوار مراحل طے ہونا باقی ہیں۔

یوریشیائی تصور کے حقیقت میں تبدیل ہونے کے راستے میں عرب ممالک کی ایران کے ساتھ مخاصمت بڑی رکاوٹ ہے۔ مذہب سے جڑے ان اختلافات کی جڑیں اقتدار کی کشمکش میں پیوست ہیں ، جس کا امریکا اور اسرائیل نے بانٹوں اور راج کرو کے پرانے اصول پر عمل کرکے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ تیل کی گرتی قیمتیں اور ماحول دوست ایندھن کی بڑھتی جستجو سے عرب دنیا کی قیادت خطرے میں ہے کیوں کہ ان کے قائدانہ کردار کا انحصار تیل اور اس سے حاصل ہونے والی دولت پر ہے۔

پاکستان کو عرب دنیا سے اپنے مذہبی اور معاشی رشتوں کی وجہ سے اس صورت حال میں اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کی ضرورت ہے۔ تیل کی کمزور ہوتی معاشی قوت کے نتیجے میں ابھرنے والی قوتوں کے ساتھ تعلقات پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے اور اس کے ساتھ ہمارے تعلق کی تاریخی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ایران کے تعاون کے بغیر سی پیک کی موثر تکمیل ممکن نہیں۔ چابہار اور افغانستان میں امن ہی سے یہ منصوبہ مکمل اور موثر ہوگا۔

بی آر آئی کی وجہ سے عالمی قیادت اور حتیٰ کہ علاقائی قوتوں کی باہمی مسابقت کمزور ہوتی جارہی ہے اور ایک کثیر القطبی دنیا وجود پا رہی ہے۔ پاکستان کے مرکزی کردار کے باوجود یوریشیا کے تصور کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ بھارت اپنی خفیہ اور اعلانیہ شرانگیزی سے باز آجائے۔ بھارت کے عزائم اور عناد نے خشکی سے گھرے مشرقی و مغربی خطے کی تجارت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عالمی اقتدار میں مختلف قوتوں کی شراکت داری اور یوریشیا کاسفر اب روکا نہیں جاسکتا۔ پاکستان بی آر آئی کا اٹوٹ حصہ ہے، اگر بھارت اپنی ذہنیت تبدیل کرکے سی پیک میں شامل ہوجائے تو پورے خطے کی اقتصادی ترقی کئی گنا تیز ہوجائے گی۔

سی پیک اور بی آر آئی کے ساتھ معاشی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر ہمارے لیے منفرد اور بے پناہ مواقعے ہیں۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے سے پاکستان کی معیشت اور خطے میں سیاسی کردار نئی بلندیوں کو پہنچ جائیں گے۔ افغان امن عمل میں پاکستان کی عالمی پذیرائی اس کی تازہ جھلک ہے لیکن ابھی بہت سے منزلیں طے ہونا باقی ہیں۔ پالیسی سازی کی سطح پر پاکستان میں چین کی بالادستی کے بڑھتے خدشات پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ عالمی تعلقات کی اس نئی صورت گری سے جنم لینے والی دنیا درست تفہیم کا اسکولوں ، یونیورسٹیوں اور میڈیا میں پرچار کرنے کی ضرورت ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی صورت میں چین کے سیاسی اصولوں کو سمجھا جاسکتاہے۔ ''تیانشیا'' کے اس اصول کا مفہوم ہے ایک آسمان تلے، جس کی روشنی میں چین پوری دنیا کو دیکھتا ہے۔ یہ تصور بالادستی کے بجائے باہمی تعاون اور شراکت داری کے اصول پر مبنی ہے۔ پاکستان جتنی جلد یہ بات سمجھ لے گا، اتنی ہی جلد خطے میں اپنا مرکزی کردار حاصل کرلے گا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔)
Load Next Story