شملہ پہاڑی سے کے ٹو تک
گولڈی لاک اصول یہ بتاتا ہے کہ پانچ میل کے بجائے ایک میل بھاگیں۔ ڈھائی ہزار سے دو ہزار کیلوریز پر آئیں۔
16جنوری کو امریکی دوست وینیسا اوبرائن کا تپتا ہوا پیغام ملا۔ '' کمال ہوگیا۔ ناممکن، کو ممکن بنا لیا گیا۔'' خبر حاضر تھی اور اس لیے دلچسپی سے پڑھی کہ بھیجنے والی خود بھی ''امپاسیبل'' کارواں کا حصہ ہے۔
وینیسا ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کرنے والی دنیا میں پہلی امریکی اور برطانوی خاتون ہے لیکن اس سے زیادہ حیران کن بات نیو یارک میں بیٹھنے والی ایک خاتون بینکر کی کوہ پیمائی کے جان لیوا شوق سے وابستگی تھی، جس کے لیے اس نے اپنی لاکھوں ڈالرز کی جاب چھوڑ کر جان داؤ پر لگا دی تھی۔
وینیسا کا 16 جنوری کے حوالے سے پیغام، کوہ پیمائی کے سب سے دشوار سمجھے جانے والے چیلنج کے حوالے سے تھا۔ تاریخ میں پہلی بار دس نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تین مختلف ٹیموں سے تعلق رکھنے والے دس نیپالی کوہ پیماؤں نے رات ایک بجے اپنا سفر شروع کیا اور ہفتے کی شام تقریباً پانچ بجے وہ 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
دوسری جانب الپائن کلپ آف پاکستان کے مطابق اسپین سے تعلق رکھنے والے سیون سمٹ ٹریکس کے معاون لیڈر سرگئے منگوٹ وہ کیمپ ون سے بیس کیمپ کی جانب آتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔ کے ٹو کا خونی پہاڑ ابھی تک 86 جانیں لے چکا ہے، لیکن انسانی عزم نے مشکل ترین موسم میں بھی اسے سرنگوں کر کے، واقعی ایک ناممکن کو ممکن بنا دیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو نیو یارک میں اپنی ملازمتیں چھوڑ کر پہاڑوں میں خوار ہوتے ہیں، سرد موت کو گلے سے لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور ایسا ہونا چاہیے بھی یا نہیں؟ آج کل موٹیویشن کی شامت آئی ہوئی ہے اور اس پر مختلف حوالوں سے حاشیہ آرائی ہوتی رہتی ہے۔ موٹیویشن کے ماہرین اس امر پر برسوں غور کرتے رہے ہیں کہ انسان کو کون سی چیز کسی چیلنج کو پورا کرنے پر اکساتی ہے اور اس میں کسی خاص کام کو کرنے کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اس حوالے سے گولڈی لاک اصول بہت معروف ہے اور اسے کافی کامیابی کے ساتھ نئی مہارتوں، عادتوں اور رویوں کے سیکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
گولڈی لاک ایک چھوٹی بچی اور بچوں کی ایک مشہور ترین کہانی کا کردار ہے۔ اسے تین ریچھوں والی کہانی میں دلیہ مختلف طریقوں سے بنا کر مختلف برتنوں میں پیش کیا گیا۔ اسے جو دلیہ پسند آیا اور اس نے شوق سے کھایا وہ تھا جو کہ '' نہ زیادہ گرم تھا، نہ زیادہ ٹھنڈا، بالکل مناسب درجہ حرارت تھا'' ۔ دو گولڈی لاک اصول کا دل یہی بات ہے ''نہ زیادہ مشکل کہ ناممکن لگے، نہ اتنا آسان کہ بچوں کا کھیل ہوجائے'' ۔ نہ تو کل صبح بغیر کسی تیاری کے، کے ٹو پر چڑھنے کی ٹھان لیں کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے اور اگر شملہ پہاڑی سر کرنے کی نیت کریں گے تو شاید صبح اٹھ ہی نہیں پائیں گے، کہ اس میں بھلا کون سی خاص بات ہے۔
جب سے نیا سال آیا ہے، نیو ایئر ریزولیوشن اور گولز پر بات ہوتی رہی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ بس تین فیصد افراد اپنے خوابوں کو تحریر میں لاتے ہیں اور پھر ان کی بھی ایک محدود تعداد انھیں سچا کر پاتی ہے۔ کیونکہ کچھ ایسی غلطیاں ہیں جو اس سفر پر چلنا ناممکن بنادیتی ہیں۔ یا تو وہ گولز اور اہداف اتنے اونچے طے ہوجاتے ہیں کہ ان تک پہنچنا ایک معجزے سے کم نہیں لگتا اور کوشش میں ہی بندہ ہانپ کر رہ جاتا ہے۔ یا وہ اہداف اتنے عامیانہ لگتے ہیں کہ وہ بندے کو بستر سے اٹھا نہیں پاتے۔ یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر گولڈی لاک اصول کو اپنایا جائے۔
''نہ ناممکن، نہ بچوں کا کھیل، بالکل درست، بالکل وسط کا کام''۔ جیسے کہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ ''بہترین کام وسط کے کام ہیں'' میں اسے وسط کا قانون کہتا ہوں، اور میرے خیال میں یہ اپنے بدلاؤ کے لیے یہ بہترین قانون ہے۔ دو انتہاؤں کے بیچ میں زندگی ممکن ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر نیا سال شروع ہوا ہے اور آپ اپنے موٹاپے کے پیچھے ڈانگ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ یکم جنوری کو صبح پانچ بجے اٹھ کر پانچ میل دوڑ لگتی ہے۔ کھانے میں میٹھا ترک کردیا جاتا ہے۔ گھر میں سبزیوں اور پتوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور اعلان عام ہوجاتا ہے کہ اب ڈریم باڈی یا ڈریم فٹنس پروگرام شروع کر دیا گیا ہے اور ڈھائی ہزار کیلوریز کے بجائے اب ہزار کیلوریز استعمال ہوں گی۔ چارٹ بن جاتے ہیں اور مشکیں کس لی جاتی ہیں۔ تاہم 90 فی صد ایسے ارادے سات دن سے پہلے ہی جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ''کولڈ ٹرکی پرنسپل'' کی کہانی ہے۔ جس کا مطلب ہے آناً فاناً ہر چیز کی چھٹی۔ دی گیم از اوور۔ آج، ابھی اور اسی وقت سے تمباکو نوشی یا شراب نوشی یا میٹھا نوشی کی چھٹی۔ اعدادوشمار کے مطابق 5 فی صد لوگ ایسا کر بھی لیتے ہیں، مگر یہ ایک انتہا ہے۔ نتیجتاً 95 فی صد ایک مہینے سے چھ مہینے کے اندر واپس اپنی ڈگر پر آجاتے ہیں اور اگلی مرتبہ پھر ایسے ہی کسی پلان کی نیت کرلیتے ہیں۔
یاد رکھیں! آپ کی عادتیں آپ کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے آپ کو روز پنجہ آزمائی کرنی پڑے گی۔ اگر قوت ارادی کے زور پر جنگ کریں گے تو کیسے، پہلے بتایا گیا کہ ول پاور ایسا مسئلہ نہیں جو کہ استعمال سے تگڑا ہو، بلکہ وہ کمزور ہوتا ہے۔ دو چار دن تو آپ ہمت کرتے ہیں اور پھر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
گولڈی لاک اصول یہ بتاتا ہے کہ پانچ میل کے بجائے ایک میل بھاگیں۔ ڈھائی ہزار سے دو ہزار کیلوریز پر آئیں۔ چینی چھوڑیں تو پھلوں سے میٹھا کشید کرلیں۔ ہر روز ورزش کرنی مشکل ہے تو ہر دوسرے دن کرلیں۔ توانائی بحال رکھیں۔ تاہم اپنے کیے پر قائم ہوجائیں۔ چھوٹے قدم اٹھائیں، مگر روز اٹھائیں۔ وہی ہاتھی کھانے کا فارمولا۔ پورا ہاتھی کھایا جاسکتا ہے اگر بھورا بھورا روز کھلایا جائے۔ عادتیں اسی طرح ہمارے خودکار نظام کا حصہ بنتی ہیں، انھیں سسٹم سے نکالنے کے لیے ان کو روز بروز تھکانا ضروری ہے۔
گولڈی لاک اصول بہت سی جگہوں پر کارآمد ہے۔ ہماری اکثر حکومتیں اور خاص طور پر موجود حکومت اسی بحران کا شکار ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں، ڈیڑھ کروڑ گھر، پانچ ہزار ارب ٹیکس میں اضافہ، منہ پر مارنے کے لیے دو سو ارب ڈالر اسی انتہائی نفسیات کی عکاسی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ جب آپ اس اونچے پہاڑ کو نہیں پھلانگ پاتے تو بالکل ڈھے جاتے ہیں۔ جب کہ زندگی کے ٹو کی چوٹی اور شملہ پہاڑی کے درمیان میں واقع ہے، اگر آپ وسط کے اصول کو پکڑ لیں گے تو ناکام نہیں ہوں گے۔
وینیسا ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کرنے والی دنیا میں پہلی امریکی اور برطانوی خاتون ہے لیکن اس سے زیادہ حیران کن بات نیو یارک میں بیٹھنے والی ایک خاتون بینکر کی کوہ پیمائی کے جان لیوا شوق سے وابستگی تھی، جس کے لیے اس نے اپنی لاکھوں ڈالرز کی جاب چھوڑ کر جان داؤ پر لگا دی تھی۔
وینیسا کا 16 جنوری کے حوالے سے پیغام، کوہ پیمائی کے سب سے دشوار سمجھے جانے والے چیلنج کے حوالے سے تھا۔ تاریخ میں پہلی بار دس نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تین مختلف ٹیموں سے تعلق رکھنے والے دس نیپالی کوہ پیماؤں نے رات ایک بجے اپنا سفر شروع کیا اور ہفتے کی شام تقریباً پانچ بجے وہ 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
دوسری جانب الپائن کلپ آف پاکستان کے مطابق اسپین سے تعلق رکھنے والے سیون سمٹ ٹریکس کے معاون لیڈر سرگئے منگوٹ وہ کیمپ ون سے بیس کیمپ کی جانب آتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔ کے ٹو کا خونی پہاڑ ابھی تک 86 جانیں لے چکا ہے، لیکن انسانی عزم نے مشکل ترین موسم میں بھی اسے سرنگوں کر کے، واقعی ایک ناممکن کو ممکن بنا دیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو نیو یارک میں اپنی ملازمتیں چھوڑ کر پہاڑوں میں خوار ہوتے ہیں، سرد موت کو گلے سے لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور ایسا ہونا چاہیے بھی یا نہیں؟ آج کل موٹیویشن کی شامت آئی ہوئی ہے اور اس پر مختلف حوالوں سے حاشیہ آرائی ہوتی رہتی ہے۔ موٹیویشن کے ماہرین اس امر پر برسوں غور کرتے رہے ہیں کہ انسان کو کون سی چیز کسی چیلنج کو پورا کرنے پر اکساتی ہے اور اس میں کسی خاص کام کو کرنے کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اس حوالے سے گولڈی لاک اصول بہت معروف ہے اور اسے کافی کامیابی کے ساتھ نئی مہارتوں، عادتوں اور رویوں کے سیکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
گولڈی لاک ایک چھوٹی بچی اور بچوں کی ایک مشہور ترین کہانی کا کردار ہے۔ اسے تین ریچھوں والی کہانی میں دلیہ مختلف طریقوں سے بنا کر مختلف برتنوں میں پیش کیا گیا۔ اسے جو دلیہ پسند آیا اور اس نے شوق سے کھایا وہ تھا جو کہ '' نہ زیادہ گرم تھا، نہ زیادہ ٹھنڈا، بالکل مناسب درجہ حرارت تھا'' ۔ دو گولڈی لاک اصول کا دل یہی بات ہے ''نہ زیادہ مشکل کہ ناممکن لگے، نہ اتنا آسان کہ بچوں کا کھیل ہوجائے'' ۔ نہ تو کل صبح بغیر کسی تیاری کے، کے ٹو پر چڑھنے کی ٹھان لیں کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے اور اگر شملہ پہاڑی سر کرنے کی نیت کریں گے تو شاید صبح اٹھ ہی نہیں پائیں گے، کہ اس میں بھلا کون سی خاص بات ہے۔
جب سے نیا سال آیا ہے، نیو ایئر ریزولیوشن اور گولز پر بات ہوتی رہی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ بس تین فیصد افراد اپنے خوابوں کو تحریر میں لاتے ہیں اور پھر ان کی بھی ایک محدود تعداد انھیں سچا کر پاتی ہے۔ کیونکہ کچھ ایسی غلطیاں ہیں جو اس سفر پر چلنا ناممکن بنادیتی ہیں۔ یا تو وہ گولز اور اہداف اتنے اونچے طے ہوجاتے ہیں کہ ان تک پہنچنا ایک معجزے سے کم نہیں لگتا اور کوشش میں ہی بندہ ہانپ کر رہ جاتا ہے۔ یا وہ اہداف اتنے عامیانہ لگتے ہیں کہ وہ بندے کو بستر سے اٹھا نہیں پاتے۔ یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر گولڈی لاک اصول کو اپنایا جائے۔
''نہ ناممکن، نہ بچوں کا کھیل، بالکل درست، بالکل وسط کا کام''۔ جیسے کہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ ''بہترین کام وسط کے کام ہیں'' میں اسے وسط کا قانون کہتا ہوں، اور میرے خیال میں یہ اپنے بدلاؤ کے لیے یہ بہترین قانون ہے۔ دو انتہاؤں کے بیچ میں زندگی ممکن ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر نیا سال شروع ہوا ہے اور آپ اپنے موٹاپے کے پیچھے ڈانگ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ یکم جنوری کو صبح پانچ بجے اٹھ کر پانچ میل دوڑ لگتی ہے۔ کھانے میں میٹھا ترک کردیا جاتا ہے۔ گھر میں سبزیوں اور پتوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور اعلان عام ہوجاتا ہے کہ اب ڈریم باڈی یا ڈریم فٹنس پروگرام شروع کر دیا گیا ہے اور ڈھائی ہزار کیلوریز کے بجائے اب ہزار کیلوریز استعمال ہوں گی۔ چارٹ بن جاتے ہیں اور مشکیں کس لی جاتی ہیں۔ تاہم 90 فی صد ایسے ارادے سات دن سے پہلے ہی جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ''کولڈ ٹرکی پرنسپل'' کی کہانی ہے۔ جس کا مطلب ہے آناً فاناً ہر چیز کی چھٹی۔ دی گیم از اوور۔ آج، ابھی اور اسی وقت سے تمباکو نوشی یا شراب نوشی یا میٹھا نوشی کی چھٹی۔ اعدادوشمار کے مطابق 5 فی صد لوگ ایسا کر بھی لیتے ہیں، مگر یہ ایک انتہا ہے۔ نتیجتاً 95 فی صد ایک مہینے سے چھ مہینے کے اندر واپس اپنی ڈگر پر آجاتے ہیں اور اگلی مرتبہ پھر ایسے ہی کسی پلان کی نیت کرلیتے ہیں۔
یاد رکھیں! آپ کی عادتیں آپ کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے آپ کو روز پنجہ آزمائی کرنی پڑے گی۔ اگر قوت ارادی کے زور پر جنگ کریں گے تو کیسے، پہلے بتایا گیا کہ ول پاور ایسا مسئلہ نہیں جو کہ استعمال سے تگڑا ہو، بلکہ وہ کمزور ہوتا ہے۔ دو چار دن تو آپ ہمت کرتے ہیں اور پھر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
گولڈی لاک اصول یہ بتاتا ہے کہ پانچ میل کے بجائے ایک میل بھاگیں۔ ڈھائی ہزار سے دو ہزار کیلوریز پر آئیں۔ چینی چھوڑیں تو پھلوں سے میٹھا کشید کرلیں۔ ہر روز ورزش کرنی مشکل ہے تو ہر دوسرے دن کرلیں۔ توانائی بحال رکھیں۔ تاہم اپنے کیے پر قائم ہوجائیں۔ چھوٹے قدم اٹھائیں، مگر روز اٹھائیں۔ وہی ہاتھی کھانے کا فارمولا۔ پورا ہاتھی کھایا جاسکتا ہے اگر بھورا بھورا روز کھلایا جائے۔ عادتیں اسی طرح ہمارے خودکار نظام کا حصہ بنتی ہیں، انھیں سسٹم سے نکالنے کے لیے ان کو روز بروز تھکانا ضروری ہے۔
گولڈی لاک اصول بہت سی جگہوں پر کارآمد ہے۔ ہماری اکثر حکومتیں اور خاص طور پر موجود حکومت اسی بحران کا شکار ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں، ڈیڑھ کروڑ گھر، پانچ ہزار ارب ٹیکس میں اضافہ، منہ پر مارنے کے لیے دو سو ارب ڈالر اسی انتہائی نفسیات کی عکاسی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ جب آپ اس اونچے پہاڑ کو نہیں پھلانگ پاتے تو بالکل ڈھے جاتے ہیں۔ جب کہ زندگی کے ٹو کی چوٹی اور شملہ پہاڑی کے درمیان میں واقع ہے، اگر آپ وسط کے اصول کو پکڑ لیں گے تو ناکام نہیں ہوں گے۔