فائدہ کس کے لیے
ہمارا ملک بہت خوبصورت ہے۔ یہاں طرح طرح کی نعمتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی ہیں...
KARACHI:
ہمارا ملک بہت خوبصورت ہے۔ یہاں طرح طرح کی نعمتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی ہیں، پھل ایسے ذائقے دار کہ نہ پوچھیے، نارنگی کو ہی لیجیے سردیوں کا خاص تحفہ ایک ایک پھانک میں ایسا ذائقہ ایسی لذت کہ واہ واہ نکلے، اسی لیے تو پروردگار نے فرمایا ہے کہ ''تم اور کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے''۔ بیشک کہ ہر نعمت شاندار ہے اور ہمارے ملک کی تو بات ہی کیا ہے۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے ہماری ممانی امریکا سے تشریف لائیں دسترخوان پر رکھے فروٹ دیکھ کر فرمانے لگیں کیا اعلیٰ ذائقہ ہے میرے ملک کے پھلوں کا۔۔۔ ہمیں خیال گزرا کہ شاید انھیں پسند نہیں آئے لیکن ان کے آگے کے جملوں نے ڈھیروں خون بڑھا دیا ۔ کہنے لگیں امریکا میں ایک سے ایک فروٹ، کیلے کو ہی لو ایسے بڑے بڑے کیلے خوب موٹے اور کھاؤ تو ذرا ذائقے دار نہیں اور کہاں ہمارے پاکستان کے چیتری والے چھوٹے سائز کے کیلے کیسے میٹھے۔۔۔۔کیسے ذائقے دار کہ دل خوش ہو جائے۔
وہاں کے رہنے والے تو ایسے بد ذائقہ فروٹ کھانے کے عادی ہیں لیکن جس کے منہ کو پاکستان کے فروٹ کا ذائقہ لگ چکا ہو اسے کہاں امریکا اور چائنا کے فروٹ پسند آئے۔۔۔۔ شکل و صورت ایسی کہ سیدھی دل میں اتر جائے پر ذائقہ۔۔۔ توبہ۔۔۔۔۔ ایسی ہی کچھ کہانی سنی جب ہمارے ایک جاننے والے بھارت سے کسی مشہور دکان کی مٹھائی غالباً برفی تھی تحفتاً لائے، بڑا سا خوبصورت ڈبہ کھولا تو سفید سفید چاندی کے ورق لگے مٹھائی دیکھنے میں بڑی خوبصورت لگی ایک ٹکڑا اٹھایا اور منہ میں رکھا، تاثر یہ تھا کہ جیسے پاکستان کی برفی منہ میں گھل جاتی ہے ایسا ہی ہو گا پر نہ پوچھیے دل ایسا برا ہوا کہ رزق سمجھ کر جتنی منہ میں ڈالی جیسے تیسے کر کے نگل لی باقی دوبارہ ڈبے کی نذر ہو گئی ۔ پورے ہفتے وہ مٹھائی کسی نے نہیں کھائی اور آخر کار وہ ردی پیپر والے کی نذر ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ بھارت میں اسی طرح کی بدذائقہ مٹھائیاں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہیں۔ ذرا سوچیے ایک اچھی برانڈ کی مٹھائی کا یہ حال ہے تو بغیر کسی شناخت کی مٹھائیاں کیسی ہوتی ہوں گی۔
سال دو سال پہلے پیاز کی قلت ہو گئی، قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں۔ ایک پیاز والے سے پوچھا کہ پیاز کی قیمتوں کو کیا آگ لگ گئی تو کہا کہ پیاز انڈیا جا رہی ہے وہاں ہماری پاکستانی پیاز کی بڑی مانگ ہے اس لیے کہ یہاں کی پیاز کا ذائقہ بڑا اچھا ہوتا ہے سالن بھی کالا نہیں ہوتا جب کہ وہاں کی پیاز کے ذائقے میں تلخی ہوتی ہے اور سالن بھی کالا کر دیتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی بات ہی کچھ اور ہے یہاں کے کھانے ایسے ذائقے دار کہ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں، اسی طرح پاکستانی کپڑا دیکھئے اور بھارتی کپڑا دیکھئے واضح فرق نظر آئیگا کسی زمانے میں بڑا مشہور تھا کہ انڈیا کی ساڑھیاں بڑی زبردست ہوتی ہیں ہماری ایک جاننے والی نے بڑے اہتمام سے بھارت سے ساڑھیاں منگوائیں۔ وہ بنارسی ساڑھیاں اچھی خاصی مہنگی تھیں انھوں نے اٹھا کر اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے رکھ دیں اور جب سال بھر بعد وقت دینے کا آیا تو ساڑھی کا سارا کام یعنی بنارسی حصہ الگ ہو گیا یعنی رکھے رکھے ہی گَل گئیں۔
پاکستان کے مقابلے میں زیادہ استعمال کی جانیوالی ساڑھیاں یقینا تعداد میں وہاں زیادہ فروخت ہوتی ہونگی لیکن ان کی کو الٹی پاکستان کے مقابلے میں انتہائی خراب ہوتی ہے۔ نوے کی دہائی کے مقابلے میں آج کل بھارتی اشیا کے استعمال کا کریز کسی حد تک کم ہوا ہے۔بات ہو رہی تھی پاکستان کے ذائقے دار پھلوں کی۔ تو جناب یہاں کی سبزیوں کی بھی کیا بات ہے حالانکہ کراچی میں سپلائی کی جانیوالی سبزیوں میں زیادہ وہ اقسام بھی شامل ہیں کہ جسے ملیر کے گندے پانی سے سینچا جاتا ہے لیکن ہم آپ سب کھا رہے ہیں پھر بھی کیا ذائقہ ہے ہماری سبزی کا۔ لوکی، کھیرا، بھنڈی تورئی اور ساگ کی جانب دیکھئے تو ایک الگ خوبصورت ہریالی کی بہار ہے۔ خوبصورت خوشبو والی تیکھی سبز مرچیں ہوں یا شملہ مرچیں جو دور سے ہی دیکھنے میں ذرا نخریلی سی بھی نظر آتی ہیں۔ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں خدا جانے ایسی ایسی نعمتیں پیدا کی ہیں کہ جن کا تصور بیرون ملک ممکن ہی نہیں لیکن کچھ عرصے سے سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں ہوش ربا مہنگائی رہی۔
اوسط درجے کے لوگ تو سبزیوں اور پھلوں کی ونڈو شاپنگ ہی کرتے رہے کہ ان کی قیمتیں جیب کی قدر سے خاصی باہر تھیں۔ اسی طرح پیاز کی قیمتیں جو اب جا کر ذرا کچھ بحال ہوئیں تو خواتین نے سکھ کا سانس لیا ورنہ ان بڑھی ہوئی قیمتوں سے گھر کا بجٹ درہم برہم ہو چکا تھا۔ ہم جیسے لوگ کیا جانے کہ سبزیوں کی قیمتوں میں آگ کیوں لگی ہے کیوں پیاز کی قیمتوں کو ہائی بلڈ پریشر لاحق ہوا ہے لیکن جب ایک خاص طبقے کی جانب دیکھتے ہیں جو ملک بھر میں پیاز آلو کو بھی نہیں چھوڑتے اور اپنا منافع بنانے کی خاطر ملک میں گرانی کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں حالانکہ اس دھندے میں انھیں منافعے کی شرح اس حساب سے بھی نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں پھر ایسی ٹریڈ کا فائدہ کیا خدا جانے؟پچھلا سیزن ایسے ہی گزر گیا اور ہم اچھے اور سستے آم کی تمنا ہی کرتے رہے بعد میں عقدہ کھلا کہ پاکستان کی اچھی نسل کا آم پینتیس روپے کلو کے حساب سے بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے حالانکہ اسی آم کی پاکستان میں ساٹھ ستر روپے کی قیمت فروخت تھی پھر یہ 35روپے کا جنجال کیوں قبول کیا گیا؟ یہ سائنسی فارمولا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، ویسے ہم سب شیخ صاحب کو برا تو کہتے ہیں لیکن اسی بندے نے پیاز، آلو، ٹماٹر پر اتنا شور مچایا کہ اب جا کر کہیں ٹماٹر نچلا بیٹھا ہے۔
خبر یہ ہے کہ پچھلے 5مہینوں میں پاکستان کے پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات کا حجم بہتر رہا یعنی پھل 40فیصد جب کہ سبزیاں 33 فیصد جب کہ پھلوں کی برآمدات سے 14کروڑ 34لاکھ ڈالر ملے اور سبزیوں کی برآمدات سے 2کروڑ سے 4کروڑ تک کی برآمدی رقوم میں اضافہ ہوا جب کہ اس برس اور آیندہ نئے برس برطانیہ، امریکا، یوکرائن اور یورپ سمیت مزید ممالک کو برآمد کی جائے گی۔ترقی کا سفر بہت خوبصورت ہوتا ہے، ان 14کروڑ 34 لاکھ ڈالرز اور 4کروڑ ڈالرز سے میرا فائدہ ہوا اور نہ میری قوم کا۔۔۔۔ ان 5مہینوں کے اخبارات کو کھنگال کر دیکھئے مہنگائی سے کتنے گھر اجڑے، کتنی ماؤں نے دریاؤں اور نہروں میں اپنے بچوں سمیت کود کر جان دی کیونکہ ان غریبوں کے پاس اتنے پیسے ہی کب ہوتے تھے کہ جن سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں یہ کیسا ترقی کا سفر ہے جس میں جمع اور ضرب نہیں ہوتا صرف منفی منفی ہو رہا ہے۔ میرے سندھ کے غریب لوگوں کی منفی، پنجاب کے غریب لوگوں کی منفی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کی منفی۔۔۔۔ اے حضرت یہ بزنس کے کون سے ڈھنگ ہیں جن میں اپنا دامن ہی کھوٹا ہو رہا ہے پھر یہ بچا کچھا نفع کس کا اور کس کام کا۔۔۔۔؟