مقبرہ علی مردان خان
رنگ بدلتی اور خستہ حال اینٹوں سے بنی پُرشکوہ اور خواب ناک عمارت
باری دوآب کے سب سے بڑے شہر لاہور کو اُس کی وُسعت اور کثرتِ آبادی کی وجہ سے بی نظیر کہا جا سکتا ہے۔
لاہور کا ایک علاقہ ہے جہاں کسی زمانے مغل شہزادوں کی پُرتعیش رہائش گاہیں واقع تھیں، اس علاقے کو اب ''مغل پورہ'' کہا جاتا ہے۔ آج بھی اس علاقے میں نکل کھڑے ہوں تو اِس کی گنجان آباد گلیوں میں ہمیں کوئی نہ کوئی مقبرہ یا مغلیہ دور کی مسجد مل ہی جائے گی۔ اِن میں سے ایک مقبرہ شاہجہاں کے تعمیراتی مشیر اور انجینئر علی مردان خان کا بھی ہے جس کے بارے میں لکھا گیا کہ یہ مقبرہ، مقبرہ جہانگیر کی گل بہار آرائشوں اور شان و شوکت کی عظمتوں کی ہمسری کرتا تھا۔
اس مقبرے کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے پہلے علی مردان خان کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ایک کُرد خاندان میں پیدا ہونے والا علی مردان، شہنشاہِ ایران شاہ عباس اول کے دربار سے منسلک ایک فوجی افسر ''گنج علی خان'' کا بیٹا تھا جو تقریباً تیس سال تک کرمان کا حاکم رہا۔ گنج علی کی وفات کے بعد شاہ عباس نے اس کے لڑکے علی مردان خان کو ''خان'' کا خطاب دیا اور قندھار کی ریاست عطا کر دی۔
1629 میں شاہ عباس کی وفات کے بعد تخت اس کے بھتیجے شاہ صفی کو ملا جس نے شاہ عباس سے مخلص لوگوں کو دربار سے نکالنا شروع کر دیا۔ جب علی مردان کو خود پر بھی یہ تلوار لٹکتی نظر آئی تو اُس نے شاہ صفی کا ساتھ چھوڑ کر اپنی سلطنت قندھار سمیت شاہجہاں کی ملازمت میں آنے کا فیصلہ کیا۔ شاہجہاں نے بھی علی مردان کو ہاتھوں ہاتھ لیا کہ وہ قندھار پر مغل قبضہ چاہتا تھا اور یوں علی مردان خان مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گیا۔
علی مردان اپنی قابلیت کی بدولت جلد ہی شہنشاہ کا منظورِنظر بن گیا۔ شاہجہاں نے اسے نہایت اِنعام و اکرام سے نوازا اور اس کے وسیع تجربے کی بُنیاد پر مختلف ادوار میں کشمیر، کابل اور لاہور کی گورنری بھی عطا کی۔1639 میں اسے ''امیر العمراء " کے خطاب سے نوازا گیا۔ ساتھ ہی سات ہزار فوجیوں کی سربراہی (ہفت ہزاری) دے کر کابل سے دہلی تک پھیلے پنجاب کا صوبہ دار بنا دیا گیا۔
علی مردان خان کی اصل وجہ شہرت ان کا بہترین تعمیراتی ذوق اور شاہی عمارتوں کی اعلٰی منصوبہ سازی تھی۔ مؤرخ کنہیا لال لکھتے ہیں کہ علی مردان خان عمارت کے کام میں ایسا استاد تھا کہ کروڑوں روپے اس کے ہاتھ سے صرف ہوئے۔ علی مردان کا باغ المشہور نو لکھا باغ، دہلی کی نہر جو شہر کے قدیم حصے اور لال قلعہ میں رواں ہے۔
اِس نے ہی کھدوائی۔ دہلی سے ہانسی حصار تک جانے والی نہرفیروزپور کی درستی کروائی اور دریائے راوی سے نہر ہنسلی مادھوپور بھی اس نے کھدوائی جسے لاہور لا کر شالامار باغ کو سیراب کیا گیا۔ شالامار باغ کا آبی نظام بھی علی مردان خان کی قابلیت کا مرہونِ منت ہے (جس میں اور بھی کچھ لوگوں کی محنت شامل ہے)۔ اس کے علاوہ علی مردان نے کشمیر، لاہور، پشاور اور کابل میں بھی بہت سی عمارتیں اور باغات تعمیر کروائے۔
مقبرے پر لگے ایک کتبے کے مطابق مُغلیہ دربار میں آپ نے اٹھارہ سال سے زائد عرصہ بڑی بڑی یادگاریں بنوائیں جن کی خوش اسلوبی و استحکام دیکھ کر نام ور ماہر حیران رہ جاتے۔ کچھ کتابوں میں اُس کی تعمیرات کے حوالے سے مبالغہ آمیزی سے بھی کام لیا گیا ہے۔1659 میں کشمیر جاتے ہوئے راستے میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ شاہجہاں کے حکم پر اس کی میت کو لاہور لا کر اسی پُرشکوہ مقبرے میں والدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا جو اس نے اپنی والدہ کے لیے خود بنوایا تھا۔
نہ جانے کیوں لیکن اکثر مقامی افراد صاحبِ قبر کو کوئی بزرگ ہستی سمجھتے ہوئے اس مقبرے کو مردان خان کا دربار کہتے ہیں اور یہاں دعائیں مانگنے بھی آتے ہیں۔ جب میں وہاں گیا تو زیرزمین واقع مرقد والا کمرہ اگر بتی کی خوشبو سے مہک رہا تھا اور تبرک کے طور پر مکھانے بھی پاس ہی رکھے تھے۔
لاہور شہر کا یہ حسین مقبرہ مغلپورہ کے انسانی جنگل میں چھپا ہوا ہے جس کا راستہ محکمۂ ریلوے کی بنائی گئی ایک خواب ناک سرنگ سے ہو کر جاتا ہے۔
مُغل پورہ کی ریلوے لوکو ورکشاپ کے پہلو میں بوسیدہ عمارتوں کے ساتھ ایک طویل سرنگ نما راستہ کافی اندر تک چلا گیا ہے جس کے اوپر لوہے کے جنگلے لگا کر اسے اور زیادہ پُراسرار بنا دیا گیا ہے۔ اوپر بیلوں اور سبز پتوں سے ڈھکے ہوئے جنگلے کی بدولت یہاں سردی کی شدت اور زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ لمبی اور کم چوڑی اس سرنگ کے بیچ میں پہنچ کر کہیں نہ کہیں آپ کو عجیب سا ڈر اور خاموشی محسوس ہوتی ہے۔
اِس سرنگ میں چلتے ہوئے پہلے بائیں جانب ایک چھوٹا سا راستہ وسیع احاطے میں کھلتا ہے جہاں حضرت شیخ حامد القادری سہروردیؒ کا مزار اور علی مردان خان کی مسجد واقع ہے۔ اُسی سرنگ میں آگے چلتے جائیں تو دائیں جانب ایک دروازہ آپ کو اس مقبرے تک لے جائے گا۔
میں جب اس چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہوا تو ایک اُجڑا ہوا گھاس کا میدان سامنے تھا جہاں جابجا خودرو پودے اور جھاڑیاں اُگ چکی ہیں۔ یہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ میں حیران تھا۔ یہ حیرانی تھی کہ کروڑوں کی آبادی والے اتنے بڑے شہر کے بیچ میں ایک ایسا ویرانہ کتنا خواب ناک سا لگتا ہے جہاں مجھے اپنی سانسوں کی آواز اور دل کی دھڑکن واضح طور پر سنائی دے رہی تھی۔ یہی وہ خاص جگہیں ہوتی ہیں جو آپ کے تخیل کو جِلا بخشتی ہیں، جو آپ کو دھیان لگانے پر مجبور کرتی ہیں، جو آپ کو شور شرابے سے دور برسوں پیچھے کہیں ماضی میں لے جاتی ہیں اور آپ اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر ایک ہی سانس میں اپنی تمام تھکان کو ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ یہی لاہور کی خاصیت، اِس کا حسن ہے۔ یہی تو لاہور ہے پیارے۔
ویسے میں نے اس تنہائی سے بچنے اور مقبرے کی بناوٹ پر گفتگو کرنے کے لیے دو اور دوستوں کو بھی بُلا رکھا تھا مرزا عثمان بیگ اور پروفیسر ذیشان ہاشمی صاحب جو کچھ ہی دیر بعد وہاں آن موجود ہوئے۔ اس میدان کی گہری خاموشی کے بیچ میں شاہجہان کا قابل ترین انجینیئر محوِاستراحت ہے۔لاہور کے دیگر کچھ مقبروں کی طرح علی مردان کا مقبرہ بھی ہشت پہلو (آٹھ کونوں والا) طرزِتعمیر کا حامل ہے، جو خشتی اینٹوں کے ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ چبوترے کے شمال اور جنوب کی جانب ایک ایک حوض بنایا گیا ہے جس میں اب کچرا بھرا ہے۔ شمالی سمت کا حوض قدرے بڑا ہے۔
سنگِ سرخ اور پتھر سے بنے مقبرے کے ہر طرف شان دار قسم کے بلند محرابی دروازے بنائے گئے ہیں (جنہیں اب جنگلے لگا کر بند کر دیا گیا ہے ماسوائے ایک کے)۔ لاہور میں ایسا کوئی بلند مقبرہ نہیں ہے جس کے محراب اتنے بلند و بالا ہوں۔ مقبرے کے نچلے ڈھانچے پر دوگنے گنبد اُٹھائے گئے ہیں جو باہر سے دیکھنے پر ایک بڑا گنبد معلوم ہوتے ہیں۔
گنبد کے ساتھ تمام آٹھ کِناروں پر چھوٹے گُنبد والی چھتریاں/گُنبدیاں بنائی گئی تھیں جن میں سے زیادہ تر ختم ہو چکی ہیں جب کہ کچھ اب بھی باقی ہیں۔ یہ چھوٹی سے محرابی چھتریاں سولہویں اور سترہویں صدی میں بننے والے مغل مقبروں کا شان دار حصہ تھیں۔ مقبرے کے اندر جائیں تو گنبد کے نیچے بیچ میں ایک قبر کا نشان باقی ہے۔ داخلی دروازے کے دائیں طرف سیڑھیاں ہیں جو چھت پر جاتی ہیں جب کہ دوسری جانب ایک راستہ نیچے تہہ خانے کو جاتا ہے جہاں تین قبریں موجود ہیں۔ بیچ والی قبر کچھ بڑی ہے اور اس پر نواب علی مردان خان ولد امیر گنج علی خان لکھا ہے۔ ایک طرف کی قبر آپ کی والدہ جب کہ تیسری کسی نامعلوم کی ہے۔ علی مردان کی قبر کے سرہانے ایک پگ بھی رکھی گی ہے جو عموماً مزاروں پر دیکھنے میں آتی ہے۔
اندھیرے تہہ خانے کے آٹھوں جانب سرنگ نما لمبی کھڑکیاں بنی ہیں جِن سے چھن چھن کہ سورج کی مدھم روشنی اندر آتی ہے جب کہ یہاں رکھے چراغ بھی کمرے کے اندھیرے سے لڑنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ کمرے کی چھت پر جیومیٹری کے مختلف ڈیزائن اور پھول بوٹوں کا کام ابھی بھی باقی ہے۔
مقبرے کا شان دار فریسکو آرٹ ورک کہیں کسی محراب میں آخری سانسیں لے رہا ہے جو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس جگہ کی کیا شان و شوکت رہی ہو گی۔
دوسری جانب والی سیڑھیاں چڑھیں تو گنبد کے مشرقی سمت بنے دروازے سے ہم مقبرے کی چھت پر جا نکلتے ہیں جہاں ایک عظیم الشان گُنبد ہمارا منتظر ہے، جیسے دہائیوں سے یہ اپنا سنگھار کسی کو دکھانا چاہتا ہو۔ اس مقبرے سے سورج غروب ہونے کا کیا ہی شان دار نظارہ تھا جو زندگی کی مانند آہستہ آہستہ ڈھلتا چلا جا رہا تھا۔چھت پر آپ اوپر کی گُنبدیوں (چھوٹی محرابیں بصورت ہشت پہلو جن پر ایک گُنبد بنا ہے) کا بغور مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ کچھ گنبدیاں جو ٹوٹ چکی تھیں ان کے اب چبوترے باقی ہیں۔
چھت سے ہی کچھ اور سیڑھیاں اونچائی پر چلی گئی ہیں جو آپ کو مرکزی گنبد کے غربی سمت بنے دروازے سے اندرونی گنبد تک لے جاتی ہیں جس کے چاروں طرف چلنے کے لیے جگہ چھوڑی گئی ہے۔ یہ ایک بلند چبوترہ ہے جس کے کناروں پر ادھ جلے چراغ پڑے ہوئے تھے۔ یہ ایک عجیب اور منفرد سا طرزِ تعمیر ہے کہ مقبرے کے ایک گنبد کے اوپر دوسرا بنا ہوا ہے جب کہ آپ پہلے گنبد کو اوپر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔
اس مقبرے کو مؤرخ نور احمد چشتی نے یوں بیان کیا ہے؛
ہشت پہلو صورت مقبرہ، جس کے چاروں طرف آٹھ دروازے جن میں صرف ایک کھلا ہے اور باقی گلاب سنگھ پھوونڈیہ نے بند کرا کے میگزین رکھا تھا۔ جب مقبرے کے اندر جائیں تو ایک روشن دان نظر آتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیچے اس مقبرے کے تہہ خانہ ہے۔ اندر مقبرے کے آٹھوں پہلوؤں میں آٹھ دھن کلاں، دو دو درجے والے۔ ان کے اوپر ایسے ہی اور آٹھ دھن محرابی۔ہر محراب کے اوپر گُنبدی ہشت پہلو، بلند اور آٹھ آٹھ دھن ولی۔گنبد کے درمیان میں سرِزمین ایک پُختہ چبوترہ اور اس پر مشرق کے سمت ایک قبر اور دو کا نشان معلوم ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ ایک بہت بڑے باغ میں بنایا گیا تھا جس کے شمالی سرے پر ایک دو منزلہ محرابی دروازہ اب بھی موجود ہے۔ قیاس ہے کہ اسی قسم کا دروازہ چوکور باغ کے جنوب، مشرق اور مغرب میں بھی موجود تھا جو اب نہیں رہا۔ شمالی سمت کا دروازہ گھاس اور جھاڑیوں کے ایک قطعے کے پار موجود ہے۔ اس کے بیچوں بیچ ایک بڑی محراب اور محرابی دروازہ جب کہ دونوں اطراف میں اوپر نیچے ایک ایک محراب بنی ہے۔ اس کے اوپر چاروں طرف چھوٹی چھوٹی گنبدیاں بنی ہیں۔ دروازے پر اب بھی پچی کاری و جُڑت کاری کا خوب صورت کام دیکھا جا سکتا ہے جو اس وقت کے فن کاروں کے ہُنر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محراب کی اندرونی جانب ایک گنبد اور دیگر اور محرابیں بنی ہیں جو طرزِتعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔
سکھوں نے اس مقبرے کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ اس کی تینوں منزلوں میں موجود سنگِ سُرخ اور سنگِ ابری کی بڑی بڑی اینٹیں اُکھاڑ لیں اور شمال میں موجود ایک ڈیوڑھی بھی ختم کر دی۔ لاہوری خشت فروشوں نے بھی بھرپور حصہ ڈالتے ہوئے چار دیواری کی اینٹیں اْڑا لیں۔ماضی چھوڑیں اس بدنصیب عمارت کا تو حال بھی کچھ خاص اچھا نہیں۔ برسوں سے بند پڑی یہ عمارت محکمۂ آثارِقدیمہ اور پاکستان ریلوے کے درمیان متنازعہ بنی ہوئی ہے اور دونوں ہی اس کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ایک عرصہ تک اس کے دروازے پر قفل پڑا رہا۔ افسوس کہ ہم اپنے زندہ ورثے کو خود ہی قتل کر رہے ہیں۔ میری حکومتِ وقت اور محکمہ آثارِ قدیمہ سے اپیل ہے کہ اس خوب صورت مقبرے کی مرمت اور تزئین و آرائش کروا کے فی الفور عوام الناس کے لیے کھولا جائے۔ اس کے باغات اور حوض کو دوبارہ سے بہتر کر کے چالو کیا جائے۔ جس طرح محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر نے دائی انگہ کے مقبرے کو نکھار دیا ہے وہی کام یہاں بھی نظر آنا چاہیے۔ امید ہے کہ کسی افسر کو اس کی بحالی کا خیال بھی آئے گا۔
رنگ بدلتی اور خستہ حال اینٹوں سے بنی اس پُرشکوہ عمارت جس کی جڑوں سے جابجا مختلف پودے سر نکالے کھڑے ہیں یوں جیسے اس کے تمام رازوں کے امین ہوں، اِس کے گُنبد و محرابوں پر پھڑ پھڑاتے کبوتر، دسمبر کی تیز ٹھنڈی ہوا، خالی حوض، ڈھلتے سورج اور ویرانی کو دیکھ کر یہ شعر ذہن میں آگئے؛
سہمی سہمی سی فضاؤں میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے فریاد کناں ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے
لاہور کا ایک علاقہ ہے جہاں کسی زمانے مغل شہزادوں کی پُرتعیش رہائش گاہیں واقع تھیں، اس علاقے کو اب ''مغل پورہ'' کہا جاتا ہے۔ آج بھی اس علاقے میں نکل کھڑے ہوں تو اِس کی گنجان آباد گلیوں میں ہمیں کوئی نہ کوئی مقبرہ یا مغلیہ دور کی مسجد مل ہی جائے گی۔ اِن میں سے ایک مقبرہ شاہجہاں کے تعمیراتی مشیر اور انجینئر علی مردان خان کا بھی ہے جس کے بارے میں لکھا گیا کہ یہ مقبرہ، مقبرہ جہانگیر کی گل بہار آرائشوں اور شان و شوکت کی عظمتوں کی ہمسری کرتا تھا۔
اس مقبرے کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے پہلے علی مردان خان کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ایک کُرد خاندان میں پیدا ہونے والا علی مردان، شہنشاہِ ایران شاہ عباس اول کے دربار سے منسلک ایک فوجی افسر ''گنج علی خان'' کا بیٹا تھا جو تقریباً تیس سال تک کرمان کا حاکم رہا۔ گنج علی کی وفات کے بعد شاہ عباس نے اس کے لڑکے علی مردان خان کو ''خان'' کا خطاب دیا اور قندھار کی ریاست عطا کر دی۔
1629 میں شاہ عباس کی وفات کے بعد تخت اس کے بھتیجے شاہ صفی کو ملا جس نے شاہ عباس سے مخلص لوگوں کو دربار سے نکالنا شروع کر دیا۔ جب علی مردان کو خود پر بھی یہ تلوار لٹکتی نظر آئی تو اُس نے شاہ صفی کا ساتھ چھوڑ کر اپنی سلطنت قندھار سمیت شاہجہاں کی ملازمت میں آنے کا فیصلہ کیا۔ شاہجہاں نے بھی علی مردان کو ہاتھوں ہاتھ لیا کہ وہ قندھار پر مغل قبضہ چاہتا تھا اور یوں علی مردان خان مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گیا۔
علی مردان اپنی قابلیت کی بدولت جلد ہی شہنشاہ کا منظورِنظر بن گیا۔ شاہجہاں نے اسے نہایت اِنعام و اکرام سے نوازا اور اس کے وسیع تجربے کی بُنیاد پر مختلف ادوار میں کشمیر، کابل اور لاہور کی گورنری بھی عطا کی۔1639 میں اسے ''امیر العمراء " کے خطاب سے نوازا گیا۔ ساتھ ہی سات ہزار فوجیوں کی سربراہی (ہفت ہزاری) دے کر کابل سے دہلی تک پھیلے پنجاب کا صوبہ دار بنا دیا گیا۔
علی مردان خان کی اصل وجہ شہرت ان کا بہترین تعمیراتی ذوق اور شاہی عمارتوں کی اعلٰی منصوبہ سازی تھی۔ مؤرخ کنہیا لال لکھتے ہیں کہ علی مردان خان عمارت کے کام میں ایسا استاد تھا کہ کروڑوں روپے اس کے ہاتھ سے صرف ہوئے۔ علی مردان کا باغ المشہور نو لکھا باغ، دہلی کی نہر جو شہر کے قدیم حصے اور لال قلعہ میں رواں ہے۔
اِس نے ہی کھدوائی۔ دہلی سے ہانسی حصار تک جانے والی نہرفیروزپور کی درستی کروائی اور دریائے راوی سے نہر ہنسلی مادھوپور بھی اس نے کھدوائی جسے لاہور لا کر شالامار باغ کو سیراب کیا گیا۔ شالامار باغ کا آبی نظام بھی علی مردان خان کی قابلیت کا مرہونِ منت ہے (جس میں اور بھی کچھ لوگوں کی محنت شامل ہے)۔ اس کے علاوہ علی مردان نے کشمیر، لاہور، پشاور اور کابل میں بھی بہت سی عمارتیں اور باغات تعمیر کروائے۔
مقبرے پر لگے ایک کتبے کے مطابق مُغلیہ دربار میں آپ نے اٹھارہ سال سے زائد عرصہ بڑی بڑی یادگاریں بنوائیں جن کی خوش اسلوبی و استحکام دیکھ کر نام ور ماہر حیران رہ جاتے۔ کچھ کتابوں میں اُس کی تعمیرات کے حوالے سے مبالغہ آمیزی سے بھی کام لیا گیا ہے۔1659 میں کشمیر جاتے ہوئے راستے میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ شاہجہاں کے حکم پر اس کی میت کو لاہور لا کر اسی پُرشکوہ مقبرے میں والدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا جو اس نے اپنی والدہ کے لیے خود بنوایا تھا۔
نہ جانے کیوں لیکن اکثر مقامی افراد صاحبِ قبر کو کوئی بزرگ ہستی سمجھتے ہوئے اس مقبرے کو مردان خان کا دربار کہتے ہیں اور یہاں دعائیں مانگنے بھی آتے ہیں۔ جب میں وہاں گیا تو زیرزمین واقع مرقد والا کمرہ اگر بتی کی خوشبو سے مہک رہا تھا اور تبرک کے طور پر مکھانے بھی پاس ہی رکھے تھے۔
لاہور شہر کا یہ حسین مقبرہ مغلپورہ کے انسانی جنگل میں چھپا ہوا ہے جس کا راستہ محکمۂ ریلوے کی بنائی گئی ایک خواب ناک سرنگ سے ہو کر جاتا ہے۔
مُغل پورہ کی ریلوے لوکو ورکشاپ کے پہلو میں بوسیدہ عمارتوں کے ساتھ ایک طویل سرنگ نما راستہ کافی اندر تک چلا گیا ہے جس کے اوپر لوہے کے جنگلے لگا کر اسے اور زیادہ پُراسرار بنا دیا گیا ہے۔ اوپر بیلوں اور سبز پتوں سے ڈھکے ہوئے جنگلے کی بدولت یہاں سردی کی شدت اور زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ لمبی اور کم چوڑی اس سرنگ کے بیچ میں پہنچ کر کہیں نہ کہیں آپ کو عجیب سا ڈر اور خاموشی محسوس ہوتی ہے۔
اِس سرنگ میں چلتے ہوئے پہلے بائیں جانب ایک چھوٹا سا راستہ وسیع احاطے میں کھلتا ہے جہاں حضرت شیخ حامد القادری سہروردیؒ کا مزار اور علی مردان خان کی مسجد واقع ہے۔ اُسی سرنگ میں آگے چلتے جائیں تو دائیں جانب ایک دروازہ آپ کو اس مقبرے تک لے جائے گا۔
میں جب اس چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہوا تو ایک اُجڑا ہوا گھاس کا میدان سامنے تھا جہاں جابجا خودرو پودے اور جھاڑیاں اُگ چکی ہیں۔ یہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ میں حیران تھا۔ یہ حیرانی تھی کہ کروڑوں کی آبادی والے اتنے بڑے شہر کے بیچ میں ایک ایسا ویرانہ کتنا خواب ناک سا لگتا ہے جہاں مجھے اپنی سانسوں کی آواز اور دل کی دھڑکن واضح طور پر سنائی دے رہی تھی۔ یہی وہ خاص جگہیں ہوتی ہیں جو آپ کے تخیل کو جِلا بخشتی ہیں، جو آپ کو دھیان لگانے پر مجبور کرتی ہیں، جو آپ کو شور شرابے سے دور برسوں پیچھے کہیں ماضی میں لے جاتی ہیں اور آپ اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر ایک ہی سانس میں اپنی تمام تھکان کو ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔ یہی لاہور کی خاصیت، اِس کا حسن ہے۔ یہی تو لاہور ہے پیارے۔
ویسے میں نے اس تنہائی سے بچنے اور مقبرے کی بناوٹ پر گفتگو کرنے کے لیے دو اور دوستوں کو بھی بُلا رکھا تھا مرزا عثمان بیگ اور پروفیسر ذیشان ہاشمی صاحب جو کچھ ہی دیر بعد وہاں آن موجود ہوئے۔ اس میدان کی گہری خاموشی کے بیچ میں شاہجہان کا قابل ترین انجینیئر محوِاستراحت ہے۔لاہور کے دیگر کچھ مقبروں کی طرح علی مردان کا مقبرہ بھی ہشت پہلو (آٹھ کونوں والا) طرزِتعمیر کا حامل ہے، جو خشتی اینٹوں کے ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ چبوترے کے شمال اور جنوب کی جانب ایک ایک حوض بنایا گیا ہے جس میں اب کچرا بھرا ہے۔ شمالی سمت کا حوض قدرے بڑا ہے۔
سنگِ سرخ اور پتھر سے بنے مقبرے کے ہر طرف شان دار قسم کے بلند محرابی دروازے بنائے گئے ہیں (جنہیں اب جنگلے لگا کر بند کر دیا گیا ہے ماسوائے ایک کے)۔ لاہور میں ایسا کوئی بلند مقبرہ نہیں ہے جس کے محراب اتنے بلند و بالا ہوں۔ مقبرے کے نچلے ڈھانچے پر دوگنے گنبد اُٹھائے گئے ہیں جو باہر سے دیکھنے پر ایک بڑا گنبد معلوم ہوتے ہیں۔
گنبد کے ساتھ تمام آٹھ کِناروں پر چھوٹے گُنبد والی چھتریاں/گُنبدیاں بنائی گئی تھیں جن میں سے زیادہ تر ختم ہو چکی ہیں جب کہ کچھ اب بھی باقی ہیں۔ یہ چھوٹی سے محرابی چھتریاں سولہویں اور سترہویں صدی میں بننے والے مغل مقبروں کا شان دار حصہ تھیں۔ مقبرے کے اندر جائیں تو گنبد کے نیچے بیچ میں ایک قبر کا نشان باقی ہے۔ داخلی دروازے کے دائیں طرف سیڑھیاں ہیں جو چھت پر جاتی ہیں جب کہ دوسری جانب ایک راستہ نیچے تہہ خانے کو جاتا ہے جہاں تین قبریں موجود ہیں۔ بیچ والی قبر کچھ بڑی ہے اور اس پر نواب علی مردان خان ولد امیر گنج علی خان لکھا ہے۔ ایک طرف کی قبر آپ کی والدہ جب کہ تیسری کسی نامعلوم کی ہے۔ علی مردان کی قبر کے سرہانے ایک پگ بھی رکھی گی ہے جو عموماً مزاروں پر دیکھنے میں آتی ہے۔
اندھیرے تہہ خانے کے آٹھوں جانب سرنگ نما لمبی کھڑکیاں بنی ہیں جِن سے چھن چھن کہ سورج کی مدھم روشنی اندر آتی ہے جب کہ یہاں رکھے چراغ بھی کمرے کے اندھیرے سے لڑنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ کمرے کی چھت پر جیومیٹری کے مختلف ڈیزائن اور پھول بوٹوں کا کام ابھی بھی باقی ہے۔
مقبرے کا شان دار فریسکو آرٹ ورک کہیں کسی محراب میں آخری سانسیں لے رہا ہے جو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس جگہ کی کیا شان و شوکت رہی ہو گی۔
دوسری جانب والی سیڑھیاں چڑھیں تو گنبد کے مشرقی سمت بنے دروازے سے ہم مقبرے کی چھت پر جا نکلتے ہیں جہاں ایک عظیم الشان گُنبد ہمارا منتظر ہے، جیسے دہائیوں سے یہ اپنا سنگھار کسی کو دکھانا چاہتا ہو۔ اس مقبرے سے سورج غروب ہونے کا کیا ہی شان دار نظارہ تھا جو زندگی کی مانند آہستہ آہستہ ڈھلتا چلا جا رہا تھا۔چھت پر آپ اوپر کی گُنبدیوں (چھوٹی محرابیں بصورت ہشت پہلو جن پر ایک گُنبد بنا ہے) کا بغور مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ کچھ گنبدیاں جو ٹوٹ چکی تھیں ان کے اب چبوترے باقی ہیں۔
چھت سے ہی کچھ اور سیڑھیاں اونچائی پر چلی گئی ہیں جو آپ کو مرکزی گنبد کے غربی سمت بنے دروازے سے اندرونی گنبد تک لے جاتی ہیں جس کے چاروں طرف چلنے کے لیے جگہ چھوڑی گئی ہے۔ یہ ایک بلند چبوترہ ہے جس کے کناروں پر ادھ جلے چراغ پڑے ہوئے تھے۔ یہ ایک عجیب اور منفرد سا طرزِ تعمیر ہے کہ مقبرے کے ایک گنبد کے اوپر دوسرا بنا ہوا ہے جب کہ آپ پہلے گنبد کو اوپر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔
اس مقبرے کو مؤرخ نور احمد چشتی نے یوں بیان کیا ہے؛
ہشت پہلو صورت مقبرہ، جس کے چاروں طرف آٹھ دروازے جن میں صرف ایک کھلا ہے اور باقی گلاب سنگھ پھوونڈیہ نے بند کرا کے میگزین رکھا تھا۔ جب مقبرے کے اندر جائیں تو ایک روشن دان نظر آتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیچے اس مقبرے کے تہہ خانہ ہے۔ اندر مقبرے کے آٹھوں پہلوؤں میں آٹھ دھن کلاں، دو دو درجے والے۔ ان کے اوپر ایسے ہی اور آٹھ دھن محرابی۔ہر محراب کے اوپر گُنبدی ہشت پہلو، بلند اور آٹھ آٹھ دھن ولی۔گنبد کے درمیان میں سرِزمین ایک پُختہ چبوترہ اور اس پر مشرق کے سمت ایک قبر اور دو کا نشان معلوم ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ ایک بہت بڑے باغ میں بنایا گیا تھا جس کے شمالی سرے پر ایک دو منزلہ محرابی دروازہ اب بھی موجود ہے۔ قیاس ہے کہ اسی قسم کا دروازہ چوکور باغ کے جنوب، مشرق اور مغرب میں بھی موجود تھا جو اب نہیں رہا۔ شمالی سمت کا دروازہ گھاس اور جھاڑیوں کے ایک قطعے کے پار موجود ہے۔ اس کے بیچوں بیچ ایک بڑی محراب اور محرابی دروازہ جب کہ دونوں اطراف میں اوپر نیچے ایک ایک محراب بنی ہے۔ اس کے اوپر چاروں طرف چھوٹی چھوٹی گنبدیاں بنی ہیں۔ دروازے پر اب بھی پچی کاری و جُڑت کاری کا خوب صورت کام دیکھا جا سکتا ہے جو اس وقت کے فن کاروں کے ہُنر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محراب کی اندرونی جانب ایک گنبد اور دیگر اور محرابیں بنی ہیں جو طرزِتعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔
سکھوں نے اس مقبرے کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ اس کی تینوں منزلوں میں موجود سنگِ سُرخ اور سنگِ ابری کی بڑی بڑی اینٹیں اُکھاڑ لیں اور شمال میں موجود ایک ڈیوڑھی بھی ختم کر دی۔ لاہوری خشت فروشوں نے بھی بھرپور حصہ ڈالتے ہوئے چار دیواری کی اینٹیں اْڑا لیں۔ماضی چھوڑیں اس بدنصیب عمارت کا تو حال بھی کچھ خاص اچھا نہیں۔ برسوں سے بند پڑی یہ عمارت محکمۂ آثارِقدیمہ اور پاکستان ریلوے کے درمیان متنازعہ بنی ہوئی ہے اور دونوں ہی اس کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ایک عرصہ تک اس کے دروازے پر قفل پڑا رہا۔ افسوس کہ ہم اپنے زندہ ورثے کو خود ہی قتل کر رہے ہیں۔ میری حکومتِ وقت اور محکمہ آثارِ قدیمہ سے اپیل ہے کہ اس خوب صورت مقبرے کی مرمت اور تزئین و آرائش کروا کے فی الفور عوام الناس کے لیے کھولا جائے۔ اس کے باغات اور حوض کو دوبارہ سے بہتر کر کے چالو کیا جائے۔ جس طرح محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر نے دائی انگہ کے مقبرے کو نکھار دیا ہے وہی کام یہاں بھی نظر آنا چاہیے۔ امید ہے کہ کسی افسر کو اس کی بحالی کا خیال بھی آئے گا۔
رنگ بدلتی اور خستہ حال اینٹوں سے بنی اس پُرشکوہ عمارت جس کی جڑوں سے جابجا مختلف پودے سر نکالے کھڑے ہیں یوں جیسے اس کے تمام رازوں کے امین ہوں، اِس کے گُنبد و محرابوں پر پھڑ پھڑاتے کبوتر، دسمبر کی تیز ٹھنڈی ہوا، خالی حوض، ڈھلتے سورج اور ویرانی کو دیکھ کر یہ شعر ذہن میں آگئے؛
سہمی سہمی سی فضاؤں میں یہ ویران مرقد
اتنا خاموش ہے فریاد کناں ہو جیسے
سرد شاخوں میں ہوا چیخ رہی ہے ایسے
روحِ تقدیس و وفا مرثیہ خواں ہو جیسے