سردیوں کی خاموشی کا تخلیقی سحر
دسمبر میں جب پہاڑوں پر برف گرنے لگتی ہے تو پورا ملک سردی کی لپیٹ میں کانپ اٹھتا ہے۔
دسمبر میں جب پہاڑوں پر برف گرنے لگتی ہے تو پورا ملک سردی کی لپیٹ میں کانپ اٹھتا ہے۔ لوگ شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تا کہ برفباری کے حسن سے محظوظ ہو سکیں۔ لوگ آتشدان کے قریب بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف خشک میوے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔گھروں میں ہیٹر جلائے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ چائے اور کافی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ سردیوں کی خاموشی بڑی بامعنی ہے۔ دھوپ کی حدت میں پودے اور درخت زندگی سے بھرپور دکھائی دیتے ہیں اور شامیں عجیب سی اداسی میں ڈوب جاتی ہیں۔ سردیوں کی خاموشی اپنے اندر ایک تخلیقی عمل لیے ہوتی ہے۔ یہ تنہائی ہے جس کے بارے میں ایمرسن کہتا ہے ''مجھے یقین ہے کہ انسان کو ذات کی تنہائی اس کے خیال کو ایک عظیم طاقت بخشتی ہے، اس کے لفظ تنہائی سے جلا پاتے ہیں۔ یہ احساس کتاب سے حاصل شدہ سوجھ بوجھ سے بڑھ کر ہے'' یہ حقیقت ہے کہ دسمبر کی چھٹیوں میں بہت سے لوگ اپنے بکھرے اور تھکے ہوئے احساس کو مجتمع کرتے ہیں۔ ان ہی دنوں میں سیر و سیاحت کی سرگرمیاں عروج پر نظر آتی ہیں۔دوسری طرف تیز سردی کی لہر لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیتی ہے اور خیال کو پرواز کی طاقت مل جاتی ہے۔ یکسوئی اور فراغت کے یہ لمحے ذہن کو پورا سال طراوت عطا کرتے ہیں۔ کرسمس کے ہنگامے سرد پڑتے ہی دنیا نئے سال کا جشن منانے لگتی ہے۔ یہ ایک تبدیلی ہے۔ تبدیلی جو موسموں کا حصہ ہے۔ جو ذہنی ارتقا کا سفر ہے۔ ایک مسلسل عمل ہے۔ ہم سیکھتے ہیں ہر آنیوالے نئے دن میں، اور ہر سال ہماری سوچ کو وسعت عطا کرتا ہے۔ گزرا ہوا وقت آئینے کی طرح ہے، جس میں عمل کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔
ہم نئے سال کے احاطے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے انھیں دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ جیسے اندھیرا اور روشنی ایک دوسرے کا تضاد ہیں، مگر اندھیرے سے روشنی کی اہمیت باقی ہے۔ چیزیں ایک ہی سمت میں محو سفر رہیں تو کبھی متضاد رخ طے کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح غلطی بھی اصلاح کا اخلاقی پہلو سمیٹے سوچ کو نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔
وقت کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ذہنی واہمہ ہے۔ جو تین حصوں میں تقسیم ہے ماضی، حال اور مستقبل۔ گزرا ہوا سال ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ جس کا ہم نے تجربہ کیا۔ جو فقط ہماری یادوں میں محفوظ ہے بالکل اسی طرح ہمارا مستقبل ہے جو حال کے لمحوں میں ہمارے ساتھ نہیں ہے مگر سوچ، خیال یا خواب کی صورت ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے مستقبل کوئی ٹھوس حقیقت نہیں ہے ماضی کی طرح۔ ہم فقط حال کے لمحوں میں جیتے ہیں لیکن ہمارا حال ماضی کے تلخ تجربوں بھرا ہوتا ہے یا پھر مستقبل کی خوش گمانیوں میں گزرتا ہے گویا کہ حال بھی ایک واہمہ ہے۔ جو قیاس آرائیوں یا خوش گمانیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ پھر ہم خود کہاں ہیں؟ وقت کے کس حصے میں ہیں؟ درحقیقت یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دنیا کی قدیم تہذیبوں نے ہزارہا سال پہلے ڈھونڈ نکالا تھا کہ وقت لمحہ موجود کا بیش قیمت حصہ ہے۔ وقت ایک کیفیت ہے۔
چاہے انسان اسے ایک واہمے کی صورت گزار دے یا حال کی حقیقت سے سمجھوتہ کر کے اسے یقین کا روپ دے ڈالے۔ حال ہی سچ ہے، جو ابھی ہماری دسترس میں ہے مگر تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یہ ''ابھی'' بھی ماضی کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ ہر لمحہ رخ بدلتا ہے۔ حال، حقیقت پسندی، تجزیے اور سکون کا متلاشی ہے۔ اگر یہ تین رویے حال میں نہیں ملتے تو وقت واہمہ بن جاتا ہے۔ آئن اسٹائن ماضی، حال اور مستقبل کو اکائی سمجھتا تھا اور وقت کو فریم آف ریفرنس میں دیکھتا تھا۔ کیفیت کے تناظر میں وقت کو محسوس کرنا ایک ذہنی عمل ہے جیسے بے سکونی، اضطراب و انتشار میں وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ ذہن ایک مخصوص کیفیت میں وقت کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے لیکن ذہنی سکون کی حالت میں وقت گزرنے کے عمل میں ترتیب ہوتی ہے۔ مشاہدہ تجربہ و تجزیہ تعمیری عمل بن جاتے ہیں۔ ہم جس طرح عام زندگی میں وقت کا زیاں کرتے ہیں وہ بھی ہماری منتشر ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔ شخصی بے ترتیبی وقت کو منتشر کرتی ہے۔دنیا کے مختلف ملک وقت کی منصوبہ بندی منفرد انداز سے کرتے ہیں۔ کچھ ممالک Present Oriented کہلاتے ہیں، جو فقط حال کا وقت بہتر طریقے سے گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ تہذیب و تمدن کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان ممالک میں فلپائن، لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔
دوسری جانب ایسے ممالک ہیں جو Future Oriented ہیں جو مستقبل پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ قومیں دور اندیش اور حقیقت پسند کہلاتی ہیں۔ وقت کی بہتر منصوبہ بندی اور کام کے بہتر معیار کو اولیت دیتی ہیں۔ ایسے ممالک میں امریکا سرفہرست ہے۔ یورپ و امریکا کے ممالک کو مونوکرونک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ملک وقت کے پابند، کام سے مخلص ہوتے ہیں۔ کچھ ممالک میں لوگ ایک وقت میں بہت سے کام کرتے ہیں۔ کام میں مداخلت کے عادی ہوتے ہیں۔ وقت کی بہت پابندی نہیں کرتے ان ممالک میں چین، برازیل، اسپین، عرب ممالک اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔
وقت کی صحیح منصوبہ بندی، تنظیم اور اسے اپنی موافقت میں استعمال کرنا ایک فن ہے۔ کچھ لوگ ایک دن میں ترتیب سے بہت سارے کام کر لیتے ہیں جب کہ اکثریت وقت کی کمی کا رونا روتی رہتی ہے۔ جب ذہن میں بہت سی پریشانیاں گھر کر لیتی ہیں تو خیال غیر واضح ہو جاتے ہیں۔ ایک غیر واضح ذہن وقت کی بہتر ترتیب نہیں کر پاتا۔
دن کے مختلف اوقات کے الگ تقاضے ہیں۔ اسی طرح دن، ہفتے اور مہینے اور زندگی کے باقی سال توازن اور ترتیب کے طلب گار ہیں۔ وقت کے بدلتے اطوار انسانی مزاج اور طبیعت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جنھیں Circadian Rhythm کہا جاتا ہے۔ جو ہارمونز کی تبدیلی، دل کی دھڑکن، تنفس اور درجہ حرارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں توازن میں رکھنے کے لیے نیند، غذا، جسمانی مشق، ذہنی چستی، مزاج اور جسم کا نظام مثبت و فعال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تمام تر چیزوں کا توازن ذہنی و جسمانی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انھیں Biorhythm کہا جاتا ہے۔
پورے دن کو توازن میں رکھنے کے لیے مختلف اوقات کے اثر و افادیت سے آگاہی ضروری ہے۔ صبح دس سے گیارہ بجے تک ذہن کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ یہ وقت سیکھنے کے عمل کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ تین بجے آرام کا وقت ہے۔ اسی دوران معلومات کو دہرانے سے وہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ رات نو بجے کے وقت جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ پرتکلف ڈنر لیتے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ اسی دورانیے میں Melatonin (آرام کے ہارمونز) بڑھتے ہیں لہٰذا کھانا اس سے پہلے تناول کرنا چاہیے۔
یہ سطریں جب آپ پڑھ رہے ہوں گے نئے سال کا آغاز ہو چکا ہو گا۔ لہٰذا آپ کو نیا سال مبارک ہو۔ سردیوں کے ان دنوں میں مجھے گاؤں کا بڑا سا باورچی خانہ یاد آ جاتا ہے۔ جب اہل خانہ آگ کے قریب بیٹھ کے حال احوال لیتے، ہنستے مذاق کرتے اور پہیلیاں بوجھتے۔ جہاں آگ جلتی ہے وہ جگہیں انرجی سینٹر (قوت کا مرکز) کہلاتی ہیں۔ اور جس جگہ بہت سے لوگ مل بیٹھتے ہیں، وہاں باہمی اشتراک کی طاقت فضا میں محسوس کی جا سکتی ہے۔