نیا سال کراچی میں امن ہو گا
کسی عقیدے، نظریے، آئیڈیالوجی یا رہنما کے ساتھ وابستگی اور لگاؤ کے کسی عمل کے نتیجے...
KARACHI:
کسی عقیدے، نظریے، آئیڈیالوجی یا رہنما کے ساتھ وابستگی اور لگاؤ کے کسی عمل کے نتیجے میں عمومی طور پر کسی اظہار کے لیے ہمت و جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جہاں استبداد و جبر کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جائیں تو پھر اس تناور درخت کو کاٹنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
کراچی میں انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی جڑوں میں نفرت کا بیج ڈالنے والوں کا بنیادی مقصد صرف اور صرف پاکستان کو کمزور ہی نہیں بلکہ تباہ و برباد کرنا ہے۔ ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والے شہر کو لسانیت، قوم پرستی، مذہب اور فرقہ پرستی میں اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اب اسے یکجا کرنے کے لیے کسی خونی انقلاب کی ضرورت رہ گئی ہے۔ کراچی میں لسانیت کی بنیاد پر مہاجر، سندھی تو کبھی مہاجر پختون یا بلوچ کا جھگڑا سوچی سمجھی سازش کے تحت کھڑا کیا گیا تو کبھی دیہی و شہری تفریق کی طبقاتی جنگ نے وسائل پر قبضے کی سازشوں کو جنم دیا۔
لیکن اس تمام صورتحال میں مجرمانہ طور پر ایسے عنصر کو پنپنے دیا گیا جس نے پاکستان میں امن کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ملک کے دفاعی اداروں اور قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والے انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں نے کراچی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ دنیا کے انتہائی مطلوب اشخاص کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
مئی 2013ء کے ملکی انتخاب میں پاکستان کی تین سیاسی جماعتوں کو واضح طور پر انتخاب میں حصہ لینے سے منع کیا گیا۔ جس میں پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم شامل تھیں۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو انتہا پسند تنظیم کی جانب سے پسندیدہ جماعتیں و ثالث بنا کر واضح تفریق کر دی گئی تھی۔ حسب توقع مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ان کی پسندیدہ حکومتیں مل گئیں۔ جب کہ سندھ میں پی پی کی جانب سے واضح اکثریت کے باوجود، امن و امان کے مسائل قائم و دائم رہے۔ ایم کیو ایم اپنا ووٹ بینک و مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اے این پی کی پارلیمانی سیاست کا صفایا ہو گیا۔
واضح طور پر سندھ جہاں کراچی جیسے معاشی شہ رگ کا عظیم مسئلہ موجود تھا مسلم لیگ (ن) کی درد سری سے بچنے کا موقع ملا اور قیام امن و امان کی گھنٹی پی پی پی کے گلے میں ہی باندھ دی گئی۔ بلوچستان میں بغیر اختیارات کے حکومت قوم پرستوں کو دے کر مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان کے مسئلے سے بھی جان چھڑا لی جب کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے لیے چٹیل میدان ہموار کر دیا کہ ڈرون حملوں، کرپشن، مہنگائی اور دیگر انتخابی منشور پر عمل کریں۔ جس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہاں گمبھیر مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آیندہ الیکشن کے لیے مسلم لیگ (ن) کو مزید واضح کامیابیاں ملنے کی خوش فہمی رہے گی۔ پنجاب اور وفاق کی حکومت مسلم لیگ (ن) کو میسر آ گئی اور ملک کے تین بڑے صوبوں کے معاشی، سماجی مسائل، صوبائی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے جواز نے پنجاب کے لیے ترقی کی راہیں کھول دیں۔
وفاق اور پنجاب کی جانب سے اس وقت آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کے مسائل سنجیدہ ہونے کے سبب پنجاب، غیر ملکی سفارت اور سرمایے کے لیے ایک آئیڈیل صوبہ بن کر سامنے آ چکا ہے۔ وفاق اور پنجاب میں دونوں بھائیوں کی یکجہتی اور یکساں پالیسی کے سبب جو مسائل پنجاب کے لیے ماضی میں پیدا ہوتے رہے، اب ان کا دور دور تک پتہ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے شدت پسندوں کو پنجاب میں نہ آنے کی اپیل کی تھی جس پر ان کی سابقہ حکومت پر کافی لے دے ہوئی تھی۔ کسی بھی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اگر اسے ترقی کرنا ہے تو پھر امن و امان کے مسئلے کو پہلے حل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کوسوں دور ہے اور پنجاب شدت پسندی اور انتہا پسندی کی اس لہر سے اتنا متاثر نہیں ہے جس طرح باقی صوبے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس چاہے حکومت کی جانب سے ہو یا کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے، ان سب کا مشترکہ اعلامیہ یہی ہوتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ دوسری جانب حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے شہید جوانوں پر متنازعہ بیان بازی نے فوج کے مورال پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ ملکی تاریخ میں احسن انداز میں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان کی تبدیلی کے بعد اہم صورت حال یہ ہے کہ پاک فوج کی جانب سے گزشتہ ڈاکٹرئن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور اب بھی پاک فوج کی جانب سے اندرونی دشمنوں کو اولین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
نئے جرنیل راحیل شریف کی جانب سے واضح اعلان سامنے آیا کہ فوج کے خلاف کسی قسم کی جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اہم صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تاحال تینوں صوبوں میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ اور عوام میں بے چینی اپنی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ ایوانوں میں مڈٹرم انتخابات کے حوالے سے بازگشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے اور عوام میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مخصوص ایجنڈا دیا گیا جس میں سب سے اہم 2014ء میں نیٹو افواج کی باحفاظت واپسی اور نئی افغان حکومت کے انتخاب میں جو ستمبر 2014ء تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
گو کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کی صورت حال کو اسی ناکام کپتان کے ہاتھ میں دے دیا گیا جو اپنی سابقہ حکومت میں ناکام پالیسیوں کی بنا پر موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ کراچی کے وسائل پر قبضے کی جنگ میں لسانی سیاست کی ناکامی کے بعد قوم پرستی کو ہوا دی گئی جس میں سیکڑوں بے گناہ بھینٹ چڑھ گئے تو اب طے شدہ ایجنڈے کے تحت فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت پر مبنی سیاست کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ عام انتخابات میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے متوقع طور پر کامیابیاں تو حاصل نہیں ہو سکیں، لیکن بلدیاتی انتخابات میں چونکہ حلقہ انتخاب محدود و نچلے طبقے تک اثر رساں ہوتا ہے۔ اس لیے توقع یہی کی جا رہی ہے کہ اس بار کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کے نمایندے بڑی تعداد میں منتخب ہوں گے جو عوام سے نچلی سطح پر پہلے ہی حاوی ہو رہے ہیں۔
کراچی کو ایک طرف لسانی و قوم پرستی کی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا تو اب سیاست کا دوسرا روح فرسا پہلو انتہا پسندی ہے جس میں متواتر تیزی آتی جا رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کو عوام میں مذہبی عقائد کی بنا پر جذبات مشتعل کرنے میں آسانی ہے اس لیے محدود حلقہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ان کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
گو کہ کراچی میں میئر شپ پر قبضے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن کے علاوہ انوکھا کالا قانون بھی نافذ کیا گیا ہے۔ اس لیے آنے والے دن امن و امان کے حوالے سے حوصلہ افزا نتائج کی نوید نہیں دے رہے۔
امریکا کی جانب سے کراچی پولیس کو 90 سے زائد جدید پولیس موبائلوں کی امداد بھی 2014ء میں نیٹو فورسز کے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے پولیس کی استعداد کار کو بڑھانے کا ایک موثر ہتھیار دینے کی کوشش ہے۔ لیکن کراچی، بلوچستان، خیبرپختونخوا کے نئے منظر نامے میں افغانستان میں نئی آنے والی حکومت کے حوالے سے طالبان حمایتی حلقوں کی کامیابی کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ اب اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں اس سے معمولی ادراک رکھنے والا بھی بے خبر ہرگز نہیں ہو گا۔
کسی عقیدے، نظریے، آئیڈیالوجی یا رہنما کے ساتھ وابستگی اور لگاؤ کے کسی عمل کے نتیجے میں عمومی طور پر کسی اظہار کے لیے ہمت و جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جہاں استبداد و جبر کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جائیں تو پھر اس تناور درخت کو کاٹنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
کراچی میں انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی جڑوں میں نفرت کا بیج ڈالنے والوں کا بنیادی مقصد صرف اور صرف پاکستان کو کمزور ہی نہیں بلکہ تباہ و برباد کرنا ہے۔ ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والے شہر کو لسانیت، قوم پرستی، مذہب اور فرقہ پرستی میں اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اب اسے یکجا کرنے کے لیے کسی خونی انقلاب کی ضرورت رہ گئی ہے۔ کراچی میں لسانیت کی بنیاد پر مہاجر، سندھی تو کبھی مہاجر پختون یا بلوچ کا جھگڑا سوچی سمجھی سازش کے تحت کھڑا کیا گیا تو کبھی دیہی و شہری تفریق کی طبقاتی جنگ نے وسائل پر قبضے کی سازشوں کو جنم دیا۔
لیکن اس تمام صورتحال میں مجرمانہ طور پر ایسے عنصر کو پنپنے دیا گیا جس نے پاکستان میں امن کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ملک کے دفاعی اداروں اور قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والے انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں نے کراچی کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ دنیا کے انتہائی مطلوب اشخاص کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
مئی 2013ء کے ملکی انتخاب میں پاکستان کی تین سیاسی جماعتوں کو واضح طور پر انتخاب میں حصہ لینے سے منع کیا گیا۔ جس میں پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم شامل تھیں۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو انتہا پسند تنظیم کی جانب سے پسندیدہ جماعتیں و ثالث بنا کر واضح تفریق کر دی گئی تھی۔ حسب توقع مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ان کی پسندیدہ حکومتیں مل گئیں۔ جب کہ سندھ میں پی پی کی جانب سے واضح اکثریت کے باوجود، امن و امان کے مسائل قائم و دائم رہے۔ ایم کیو ایم اپنا ووٹ بینک و مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اے این پی کی پارلیمانی سیاست کا صفایا ہو گیا۔
واضح طور پر سندھ جہاں کراچی جیسے معاشی شہ رگ کا عظیم مسئلہ موجود تھا مسلم لیگ (ن) کی درد سری سے بچنے کا موقع ملا اور قیام امن و امان کی گھنٹی پی پی پی کے گلے میں ہی باندھ دی گئی۔ بلوچستان میں بغیر اختیارات کے حکومت قوم پرستوں کو دے کر مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان کے مسئلے سے بھی جان چھڑا لی جب کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے لیے چٹیل میدان ہموار کر دیا کہ ڈرون حملوں، کرپشن، مہنگائی اور دیگر انتخابی منشور پر عمل کریں۔ جس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہاں گمبھیر مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آیندہ الیکشن کے لیے مسلم لیگ (ن) کو مزید واضح کامیابیاں ملنے کی خوش فہمی رہے گی۔ پنجاب اور وفاق کی حکومت مسلم لیگ (ن) کو میسر آ گئی اور ملک کے تین بڑے صوبوں کے معاشی، سماجی مسائل، صوبائی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے جواز نے پنجاب کے لیے ترقی کی راہیں کھول دیں۔
وفاق اور پنجاب کی جانب سے اس وقت آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کے مسائل سنجیدہ ہونے کے سبب پنجاب، غیر ملکی سفارت اور سرمایے کے لیے ایک آئیڈیل صوبہ بن کر سامنے آ چکا ہے۔ وفاق اور پنجاب میں دونوں بھائیوں کی یکجہتی اور یکساں پالیسی کے سبب جو مسائل پنجاب کے لیے ماضی میں پیدا ہوتے رہے، اب ان کا دور دور تک پتہ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے شدت پسندوں کو پنجاب میں نہ آنے کی اپیل کی تھی جس پر ان کی سابقہ حکومت پر کافی لے دے ہوئی تھی۔ کسی بھی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اگر اسے ترقی کرنا ہے تو پھر امن و امان کے مسئلے کو پہلے حل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کوسوں دور ہے اور پنجاب شدت پسندی اور انتہا پسندی کی اس لہر سے اتنا متاثر نہیں ہے جس طرح باقی صوبے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس چاہے حکومت کی جانب سے ہو یا کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے، ان سب کا مشترکہ اعلامیہ یہی ہوتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ دوسری جانب حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے شہید جوانوں پر متنازعہ بیان بازی نے فوج کے مورال پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ ملکی تاریخ میں احسن انداز میں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان کی تبدیلی کے بعد اہم صورت حال یہ ہے کہ پاک فوج کی جانب سے گزشتہ ڈاکٹرئن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور اب بھی پاک فوج کی جانب سے اندرونی دشمنوں کو اولین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
نئے جرنیل راحیل شریف کی جانب سے واضح اعلان سامنے آیا کہ فوج کے خلاف کسی قسم کی جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اہم صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تاحال تینوں صوبوں میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ اور عوام میں بے چینی اپنی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ ایوانوں میں مڈٹرم انتخابات کے حوالے سے بازگشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے اور عوام میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مخصوص ایجنڈا دیا گیا جس میں سب سے اہم 2014ء میں نیٹو افواج کی باحفاظت واپسی اور نئی افغان حکومت کے انتخاب میں جو ستمبر 2014ء تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
گو کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کی صورت حال کو اسی ناکام کپتان کے ہاتھ میں دے دیا گیا جو اپنی سابقہ حکومت میں ناکام پالیسیوں کی بنا پر موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ کراچی کے وسائل پر قبضے کی جنگ میں لسانی سیاست کی ناکامی کے بعد قوم پرستی کو ہوا دی گئی جس میں سیکڑوں بے گناہ بھینٹ چڑھ گئے تو اب طے شدہ ایجنڈے کے تحت فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت پر مبنی سیاست کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ عام انتخابات میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے متوقع طور پر کامیابیاں تو حاصل نہیں ہو سکیں، لیکن بلدیاتی انتخابات میں چونکہ حلقہ انتخاب محدود و نچلے طبقے تک اثر رساں ہوتا ہے۔ اس لیے توقع یہی کی جا رہی ہے کہ اس بار کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کے نمایندے بڑی تعداد میں منتخب ہوں گے جو عوام سے نچلی سطح پر پہلے ہی حاوی ہو رہے ہیں۔
کراچی کو ایک طرف لسانی و قوم پرستی کی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا تو اب سیاست کا دوسرا روح فرسا پہلو انتہا پسندی ہے جس میں متواتر تیزی آتی جا رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کو عوام میں مذہبی عقائد کی بنا پر جذبات مشتعل کرنے میں آسانی ہے اس لیے محدود حلقہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ان کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
گو کہ کراچی میں میئر شپ پر قبضے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن کے علاوہ انوکھا کالا قانون بھی نافذ کیا گیا ہے۔ اس لیے آنے والے دن امن و امان کے حوالے سے حوصلہ افزا نتائج کی نوید نہیں دے رہے۔
امریکا کی جانب سے کراچی پولیس کو 90 سے زائد جدید پولیس موبائلوں کی امداد بھی 2014ء میں نیٹو فورسز کے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے پولیس کی استعداد کار کو بڑھانے کا ایک موثر ہتھیار دینے کی کوشش ہے۔ لیکن کراچی، بلوچستان، خیبرپختونخوا کے نئے منظر نامے میں افغانستان میں نئی آنے والی حکومت کے حوالے سے طالبان حمایتی حلقوں کی کامیابی کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ اب اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں اس سے معمولی ادراک رکھنے والا بھی بے خبر ہرگز نہیں ہو گا۔