میڈیا اور چیلنجز پہلا حصہ
فن سپہ گری کے پیشے سے منسلک افراد کی طرح آج کے دور میں صحافی بھی اپنے قلم کی حرمت...
فن سپہ گری کے پیشے سے منسلک افراد کی طرح آج کے دور میں صحافی بھی اپنے قلم کی حرمت اور آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کر دینے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ جس طرح ایک سپاہی اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے اسی طرح قلم کے مجاہد آزادی صحافت، عوام کے بنیادی حقوق اور اطلاعات تک رسائی کے حق کے تحفظ کے لیے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں اور آزادی صحافت کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں صحافت کے پیشے سے وابستہ افراد اظہار رائے کی آزادی، عوام کے بنیادی اور جمہوری حقوق کی حفاظت، کرپشن اور لاقانونیت کے خاتمے، ریاستی جبر و تشدد اور دہشت گردوں و انتہا پسند عناصر کی مذموم کارروایوں سے خوفزدہ نہ ہوتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آزادی صحافت کے پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ انٹر نیشنل نیوز سیفٹی انسٹیٹیوٹ (INSI ) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2013 ء میں دنیا بھر میں 127 صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری انجام دینے کی بنا پر قتل کیے گئے جن میں سب سے زیادہ ایشیاء میں 39 ، مشرق وسطیٰ میں 32، افریقہ میں 30 اور 26 امریکا میں قتل کیے گئے۔ ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر شام رہا جہاں 20 دوسرے اور تیسرے نمبر پر انڈیا اور فلپائن 13-13، چوتھے پر عراق 11 اور پانچویں نمبر پر پاکستان رہا جہاں 10 صحافی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ عالمی صحافتی تنظیموں کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2012 ء میں 121صحافی، 2011 ء میں 107 اور 2010 ء میں 110 صحافی قتل کر دیے گئے تھے اس طرح گزشتہ چار سال کے دوران قتل کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد 465 کے قریب رہی ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا سے وابستہ افراد بلا کسی خوف و دباؤ کے اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے عوام کو حقائق سے آگاہ رکھنے میں مصروف ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک میں ریاستی ادارے انھیں کسی قسم کی سیکیورٹی یا تحفظ فراہم کرنے بری طرح ناکام ثابت رہے ہیں۔
رواں سال کے دوران اقوام متحدہ میں صحافیوں کے تحفظ کے بارے میں ہونے والے ایک اجلاس میں شریک چار ممالک کے صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی لیڈر دنیا بھر میں صحافیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا نوٹس لیں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ یہی وجہ تھی کہ اقوام متحدہ کو دنیا کے مختلف ممالک میں صحافیوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں مسلسل اضافوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی حفاظت کے لیے خصوصی مہم چلانے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس ضمن میں یونیسکو کی جانب سے کولیشن آن میڈیا سیفٹی نام کی تنظیم قائم کی گئی ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک میں صحافتی تنظیموں کے اشتراک کار سے میڈیا سے وابستہ افراد سیکیورٹی اور تحفظ کے پروگرام مرتب کرتی ہے۔ حال ہی میں کولیشن آن میڈیا سیفٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے مشترکہ اجلاس میں تمام میڈیا ہاوسز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے حکومتی اداروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے اپنے سیکیورٹی پروٹوکول خود مرتب کریں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صحافت کا پیشہ انتہائی خطرناک صورتحال کا شکار ہو چکا ہے جہاں گزشتہ دس سال کے دوران ایک سو کے قریب صحافی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ ان کے قاتل بھی پکڑے نہیں جاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار اب دنیا بھر میں میڈیا کے لیے پانچ خطرناک ترین ممالک میں کیا جاتا ہے، ملک میں ریاستی اداروں کے بجائے صحافیوں کو کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور مذہبی انتہا پسند عناصر سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں جو ان کی مرضی کے مطابق خبریں شایع نہ کرنے پر صٖحافیوں اور میڈیا ہاوسز پر حملے کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔ ریاستی اداروں اور با اثر افراد کی کرپشن، لاقانونیت اور ان کے دیگر جرائم بے نقاب کرنے کی پاداش میں بھی صحافیوں کو انتقامی کارروایوں کا نشانہ بنانا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح 2013ء کا سال بھی پاکستانی صحافیوں کے لیے ایک اچھا سال ثابت نہ ہوا۔ اس سال تقریباً چھ صحافی ملک محمد ممتاز (جنگ و جیو کا نمایندہ)، شیخ علی محسن ( روزنامہ ایوننگ اسپیشل کراچی)، محمو د خان آفریدی (روزنامہ انتخاب)، عبدالرزاق سربازی (بلوچی جریدہ طوار)، احمد علی جویا (روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون) اور ایوب خٹک ( روزنامہ کرک ٹائمز) نامعلوم دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنانے کی بنا پر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے جب کہ پانچ صحافی سیف الرحمان (سما ٹی وی)، عمران شیخ، محمد (سماء ٹی وی) اقبال، محمد (این این آئی نیوز ایجنسی)، محمد حسن ( آئی این پی نیوز ایجنسی) اور طارق اسلم (روز نامہ پاکستان) بم دھماکوں کے واقعات کی کوریج کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔
اس طرح2013 ء کے سال کے دوران بھی پاکستان میں میڈیا کے گیارہ افراد ملک میں ایک طویل عرصہ سے جاری دہشت گردی کا شکار ہوئے جن میں 6 صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی اور پانچ صحافی بم دھماکوں کی نذر ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس قبل 2012 ء میں 15 صحافی دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے۔ پاکستان میں بلوچستان کا صوبہ میڈیا کے لیے سب سے زیادہ خطرناک علاقہ ہے جہا ں گزشتہ دس برس کے دوران 30 سے زائد صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ورلڈ فریڈم انڈیکس2013 ء کی رپورٹ میں پاکستان کو صحافتی آزادی کے لحاظ سے 20 واں بدترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ ایمینسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صحافیوں کو سرکاری سیکیورٹی فورسز، سیاسی جماعتوں اور کالعدم مذہبی تنظیموں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کے لوگوں کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نیویارک نے وزیر اعظم پاکستان کو خط لکھا کہ وہ 23 صحافیوں کے قتل کے مقدمات کھولیں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
رواں سال میں کالعدم تنظیموں اور شدت پسند عناصر کی جانب سے اپنی مرضی کے خبروں کی اشاعت کے لیے دباؤ اور دھمکیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جاری کیے جانے والے فتوے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ حالت جہاد میں ہیں اس لیے ان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے صحافی واجب القتل ہیں۔ بلوچستان میں ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی عائد کر دینے کی بنا پر ان تنظیموں کی جانب سے خبریں شایع نہ کرنے پر جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملنے لگیں، ان حالات میں بلوچستان کے صحافی دہری اذیت کا شکار ہو گئے اور انھیں بادل نخواستہ یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اپنی جان بچانے کے لیے توہین عدالت کی سزا کاٹنا زیادہ بہتر ہے۔ دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ججز کی جانب سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ دھمکیوں سے ڈرنے والے صحافت چھوڑ دیں۔
میڈیا کے لوگوں کو دہشت گردی کے جن دیگر واقعات کا سامنا کرنا پڑا ان میں لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی اخبار کے نامہ نگار حافظ محمد حسینی کو ایک مقامی جاگیردار کے جرائم کا پردہ چاک کرنے کے نتیجے میں قاتلانہ حملوں کی بنا پر اس کا بیٹا، پوتا اور دو بھتیجے قتل کر دیے گئے۔ سندھ کے شہر دھابیجی کے صحافی سیف الملوک کو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے اغواء کے واقعے پر صحافیوں کے شدید احتجاج پر ایک ہفتہ بعد ان کی گرفتای ظاہر کی گئی۔ حیدر آباد کے صحافی احمد شیخ کے بیٹے اور بہو کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اے پی پی کے سینئر رپورٹر خوشنود علی خان جن کو کراچی میں ان کے گھر کے قریب ایک کار سوار نے کچل کر قتل کر دیا تھا ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے گزشتہ ایک سال سے بھتہ خور عناصر ان سے نئے مکان کی خریداری پر پچاس ہزار روپے بھتہ طلب کر رہے تھے اور بھتہ نہ دینے پر ان کو ٹریفک حادثے کے نام پر مار دیا گیا۔ حیدر آباد میں منشیات فروشوں نے اے آر وائی نیوز چینل کی ٹیم پر حملہ کر کے چار صحافیوں کو زخمی کر دیا۔ بلوچی زبان کے جریدے طوار کے کراچی آفس پر نامعلوم مسلح افرد نے حملہ کیا اور دفتر کے کمپیوٹرز اور دیگر قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے۔ بلوچستان نیشنل فرنٹ کی دھمکی پر صوبے کے مختلف شہروں میں اردو اور بلوچی زبانوں کی نشریات 44 یوم بند رکھنے کے بعد بحال کی گئیں۔
(جاری ہے)