وہ عظیم فنکار جو امر ہوگئے
ماضی میں فن کی دنیا پر راج کرنے والے فنکاروں کی جدوجہد کا احوال
کسی بھی ملک و قوم کی پہچان اس کی ثقافت ، لباس اور روایات سے ہوتی ہے، لیکن کچھ اعزازات اور خطابات ایسے بھی ہوتے ہیں جو انہیں اپنی دھرتی کے انمول رتن تو بناتے ہی ہیں لیکن وہ دنیا بھر میں بھی اس کی بدولت پہچانے جاتے ہیں۔
اگر ہم فنون لطیفہ کی بات کریں تو گلوکارہ نور جہاں کو ملکہ ترنم ، غزل کے شعبے میں مہدی حسن کو شہنشاہ غزل، فن قوالی میں استاد نصرت فتح علی خاں شہنشاہ قوالی ، ریشماں کو بلبل صحرا اور کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے فتح علی خاں کو جو مقام ملا وہ کم ہی فنکاروں کے حصے میں آیا، اس کے علاوہ فن اداکاری کی بات کریں تواس شعبے سے وابستہ عظیم فنکاروں نے اپنے فن کی بدولت ایسے نقوش چھوڑ ے ہیںجس کی مثال نہیں ملتی۔
کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنا ویسے ہی کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ان کا کام ایسا تھا جس کوصدیوں بھلایا نہیں جاسکتا، بلکہ ان کا فن نوجوانوں کیلئے ایسی مشل راہ ہے جس سے سیکھ کروہ مستقبل میں بڑے فنکار بن سکتے ہیں۔ انہی فنکاروں نے جہاں اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کمایا وہیں ان کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں اعلی سول ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔
دیکھا جائے تو یہ فنکار ان اعزازات اور ایوارڈز کے حقدار بھی تھے کیونکہ ان کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف پاکستان ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں کیا گیا۔ وہ جہاں بھی پرفارم کرنے کے لئے گئے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کرتے رہے۔ اسی لئے ان فنکاروں کی زندگی کا جائزہ لیں تو زیرو سے ہیرو بننے کی مثال ان پر فٹ بیٹھتی ہے انہوں نے ابتدائی دور میں جس طرح محنت اور لگن سے کام کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج ان کو دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود پسند کیا جاتا ہے بلکہ نوجوان نسل بھی ان کے فن کی قدردان ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلم ، ٹی وی، تھیٹر، میوزک، فیشن اوردیگرشعبوں میں کام توہورہا ہے لیکن کام کرنے والوںکو اکثرتنقید کا سامنا رہتا ہے ، جہاں فنکار اورگلوکار ایک دوسرے پرتنقید کرتے ہیں، وہیں سوشل میڈیا پربھی کھری کھری سننی پڑتی ہیں، جبکہ ماضی میں جوفنکارمیوزک اورایکٹنگ کے شعبوںمیں کام کرتے تھے، ان کے کام مستند قراردیا جاتا تھا، بلکہ یہ کہا جائے کہ انہیں آج بھی مستند مانا جاتا ہے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کی دھرتی نے ایسے ہونہارسپوتوں کوجنم دیا، جن کے فن نے دنیا بھر میں بسنے والوںکو اپنا گرویدہ بنایا۔
دیارغیرکی بات کریں تواپنے ملک سے جونہی ان عظیم فنکاروںاورگلوکاروںکا فن بیرون ممالک میں بسنے والوں تک پہنچا توپھرپاکستان کانام روشن ہونے لگا۔ جس طرح کھیل کے شعبوں میں پاکستان نے تاریخ رقم کی، اسی طرح فنون لطیفہ کے شعبے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
اب ہم بات کرتے ہیں موجودہ دور کی جہاں پر عمران خان جیسے عظیم کھلاڑی نے بطور وزیراعظم پاکستان میں حکومت سنبھال رکھی ہے۔ عمران خان کا ماضی نوجوانوں کے لیے ایک شاندار مثال ہے انہوں نے جس طرح کرکٹ کے میدان میں فتوحات حاصل کیں اور اپنی ثابت قدمی سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یہ بتایا کہ اگر سچی لگن کے ساتھ کوئی بھی کام کیا جائے تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔
پاکستان کی قو می کرکٹ ٹیم کو 92 کے ورلڈ کپ میں فتح یاب کروانے میں عمران خان نے اہم کردار ادا کیا اس کے بعد جب انہوں نے پاکستان میں پہلا کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تو اس پروجیکٹ کے لیے دن رات محنت کرنا پڑی لیکن انہوں نے اس کو مکمل کیا اور آج شوکت خانم کینسر ہسپتال غریب اور نادار لوگوں کا مفت علاج کر رہا ہے۔
عمران خان نے عملی طور پر سیاسی سفر شروع کیا تو بہت کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آج پوری قوم ان کے ساتھ ہے ایسے شخص کے دور حکومت میں نوجوانوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں ہر کوئی ماضی کے کرپشن کی داستان سناتا ہے لیکن اب نوجوان امید رکھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں ملک کے حالات بہتر ہونگے اور کرپشن کا خاتمہ ہو گا، بیروزگاری ختم ہو گی اور پاکستان ترقی کی راہ پر آگے بڑھے گا ۔
اس صورتحال میں پاکستان شوبز انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ہمارا ملک اس وقت بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ دہشت گردی، کرپشن بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ سمیت بہت سے اہم مسائل عوام کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایک فنون لطیفہ کا شعبہ عوام کی تفریح کا واحد زریعہ ہے۔ اس شعبے سے وابستہ فنکار، گلوکار اورتکنیکار شب وروز محنت کے ساتھ جب کوئی پراجیکٹ تیار کرتے ہیں تواس کے پیچھے ایک ہی مقصد سب سے اہم ہوتا ہے کہ عوام کوبہترین تفریح فراہم کی جائے۔ باقی پیسہ کمانا یا کاروبار کرنا بعد کی بات ہوتی ہے۔ اس کے باوجود تنقید برائے تنقید درست نہیں ہے۔
ان حالات میں ہمیں اپنے فنکاروں کی سپورٹ کرنی چاہیے اگر ہم پڑوسی ملک بھارت کی بات کریں تو وہاں پر جس طرح سے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی حالانکہ وہاں پر بھی فنکاروں کے آپسی اختلافات بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ ان کو منظر عام پرلانے کی بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہیں اور سکرین پر ایک دوسرے کو سرحد دکھائی دیتے ہیں جس سے ایک بہت ہی مثبت تاثر سامنے آتا ہے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر جو کچھ لکھا جاتا ہے اس رائے کا احترام بھی کرنا چاہئے لیکن جس طرح سے فنکار برادری کونشانہ بنایا جاتا ہے اورتمام ترعیب فنکاروںمیں تلاش کئے جاتے ہیں، اس سلسلے کوروکنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کا فنکارخوش حال ہوگا تووہ اپنے فن سے بہترکام پیش کرے گا، جس سے ہم خوب لطف اٹھا سکیں گے ۔
اگر ہم فنون لطیفہ کی بات کریں تو گلوکارہ نور جہاں کو ملکہ ترنم ، غزل کے شعبے میں مہدی حسن کو شہنشاہ غزل، فن قوالی میں استاد نصرت فتح علی خاں شہنشاہ قوالی ، ریشماں کو بلبل صحرا اور کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے فتح علی خاں کو جو مقام ملا وہ کم ہی فنکاروں کے حصے میں آیا، اس کے علاوہ فن اداکاری کی بات کریں تواس شعبے سے وابستہ عظیم فنکاروں نے اپنے فن کی بدولت ایسے نقوش چھوڑ ے ہیںجس کی مثال نہیں ملتی۔
کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنا ویسے ہی کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ان کا کام ایسا تھا جس کوصدیوں بھلایا نہیں جاسکتا، بلکہ ان کا فن نوجوانوں کیلئے ایسی مشل راہ ہے جس سے سیکھ کروہ مستقبل میں بڑے فنکار بن سکتے ہیں۔ انہی فنکاروں نے جہاں اپنے اپنے شعبوں میں خوب نام کمایا وہیں ان کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں اعلی سول ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔
دیکھا جائے تو یہ فنکار ان اعزازات اور ایوارڈز کے حقدار بھی تھے کیونکہ ان کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف پاکستان ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں کیا گیا۔ وہ جہاں بھی پرفارم کرنے کے لئے گئے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کرتے رہے۔ اسی لئے ان فنکاروں کی زندگی کا جائزہ لیں تو زیرو سے ہیرو بننے کی مثال ان پر فٹ بیٹھتی ہے انہوں نے ابتدائی دور میں جس طرح محنت اور لگن سے کام کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج ان کو دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود پسند کیا جاتا ہے بلکہ نوجوان نسل بھی ان کے فن کی قدردان ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلم ، ٹی وی، تھیٹر، میوزک، فیشن اوردیگرشعبوں میں کام توہورہا ہے لیکن کام کرنے والوںکو اکثرتنقید کا سامنا رہتا ہے ، جہاں فنکار اورگلوکار ایک دوسرے پرتنقید کرتے ہیں، وہیں سوشل میڈیا پربھی کھری کھری سننی پڑتی ہیں، جبکہ ماضی میں جوفنکارمیوزک اورایکٹنگ کے شعبوںمیں کام کرتے تھے، ان کے کام مستند قراردیا جاتا تھا، بلکہ یہ کہا جائے کہ انہیں آج بھی مستند مانا جاتا ہے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کی دھرتی نے ایسے ہونہارسپوتوں کوجنم دیا، جن کے فن نے دنیا بھر میں بسنے والوںکو اپنا گرویدہ بنایا۔
دیارغیرکی بات کریں تواپنے ملک سے جونہی ان عظیم فنکاروںاورگلوکاروںکا فن بیرون ممالک میں بسنے والوں تک پہنچا توپھرپاکستان کانام روشن ہونے لگا۔ جس طرح کھیل کے شعبوں میں پاکستان نے تاریخ رقم کی، اسی طرح فنون لطیفہ کے شعبے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
اب ہم بات کرتے ہیں موجودہ دور کی جہاں پر عمران خان جیسے عظیم کھلاڑی نے بطور وزیراعظم پاکستان میں حکومت سنبھال رکھی ہے۔ عمران خان کا ماضی نوجوانوں کے لیے ایک شاندار مثال ہے انہوں نے جس طرح کرکٹ کے میدان میں فتوحات حاصل کیں اور اپنی ثابت قدمی سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یہ بتایا کہ اگر سچی لگن کے ساتھ کوئی بھی کام کیا جائے تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔
پاکستان کی قو می کرکٹ ٹیم کو 92 کے ورلڈ کپ میں فتح یاب کروانے میں عمران خان نے اہم کردار ادا کیا اس کے بعد جب انہوں نے پاکستان میں پہلا کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تو اس پروجیکٹ کے لیے دن رات محنت کرنا پڑی لیکن انہوں نے اس کو مکمل کیا اور آج شوکت خانم کینسر ہسپتال غریب اور نادار لوگوں کا مفت علاج کر رہا ہے۔
عمران خان نے عملی طور پر سیاسی سفر شروع کیا تو بہت کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آج پوری قوم ان کے ساتھ ہے ایسے شخص کے دور حکومت میں نوجوانوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں ہر کوئی ماضی کے کرپشن کی داستان سناتا ہے لیکن اب نوجوان امید رکھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں ملک کے حالات بہتر ہونگے اور کرپشن کا خاتمہ ہو گا، بیروزگاری ختم ہو گی اور پاکستان ترقی کی راہ پر آگے بڑھے گا ۔
اس صورتحال میں پاکستان شوبز انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ہمارا ملک اس وقت بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ دہشت گردی، کرپشن بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ سمیت بہت سے اہم مسائل عوام کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایک فنون لطیفہ کا شعبہ عوام کی تفریح کا واحد زریعہ ہے۔ اس شعبے سے وابستہ فنکار، گلوکار اورتکنیکار شب وروز محنت کے ساتھ جب کوئی پراجیکٹ تیار کرتے ہیں تواس کے پیچھے ایک ہی مقصد سب سے اہم ہوتا ہے کہ عوام کوبہترین تفریح فراہم کی جائے۔ باقی پیسہ کمانا یا کاروبار کرنا بعد کی بات ہوتی ہے۔ اس کے باوجود تنقید برائے تنقید درست نہیں ہے۔
ان حالات میں ہمیں اپنے فنکاروں کی سپورٹ کرنی چاہیے اگر ہم پڑوسی ملک بھارت کی بات کریں تو وہاں پر جس طرح سے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی حالانکہ وہاں پر بھی فنکاروں کے آپسی اختلافات بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ ان کو منظر عام پرلانے کی بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہیں اور سکرین پر ایک دوسرے کو سرحد دکھائی دیتے ہیں جس سے ایک بہت ہی مثبت تاثر سامنے آتا ہے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر جو کچھ لکھا جاتا ہے اس رائے کا احترام بھی کرنا چاہئے لیکن جس طرح سے فنکار برادری کونشانہ بنایا جاتا ہے اورتمام ترعیب فنکاروںمیں تلاش کئے جاتے ہیں، اس سلسلے کوروکنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کا فنکارخوش حال ہوگا تووہ اپنے فن سے بہترکام پیش کرے گا، جس سے ہم خوب لطف اٹھا سکیں گے ۔