بائیڈن سے وابستہ امیدیں اورہماری خارجہ پالیسی
کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی اولین ترجیح ہو گی، کیونکہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرلیا ہے۔
لاہور:
دنیا بھر کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں، جوبائیڈن کی تقریب حلف برادری پر ، ذہنوں میں سوال یہ تھا کہ کیا تقریب پرامن طریقے سے منعقد ہوپائے گی ،امریکا میں پہلی بار اقتدار کی پرامن منتقلی سوالیہ نشان بنی نظر آئی۔
امریکی تاریخ کے یہ پہلے ہنگامہ خیز انتخابات تھے جس کے نتائج پر بھاری رقوم کی شرطیں بھی لگائی گئی تھیں یعنی وسیع پیمانے پر سٹہ کھیلا گیا۔الیکشن ہوئے تو روس اور چین کی لابیوں کاالزامات ایک دوسرے پر لگائے گئے،یوں سمجھ لیجیے کہ منظرنامہ تقریبا پاکستانی انتخابات جیسا ابھر کر سامنے آیا۔
اسی پر بات ختم نہیں ہوئی بلکہ چشم فلک نے ایک اور نظارہ چھ جنوری کو دیکھا کہ ٹرمپ صاحب نے اپنے ووٹرز کو اشتعال دلا کرنو منتخب امریکی انتظامیہ کی توثیق کے لیے بلائے گئے کانگریس کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپنے حامیوں سے حملہ کرادیا جس میں پولیس اہلکار اور خاتون سمیت پانچ افراد جان سے گئے۔ اقوام عالم میڈیا پر یہ مناظر دیکھ کر حیران وپریشان ہوگئے۔
اس واقعے کے بعد تنائو اور کشیدگی کی جو فضاپیدا ہوئی اس کے نتیجے میں امریکن آرمی کے لیے اقتدار پر قبضے کی اسپیس پیدا ہوئی لیکن اس موقع پر امریکی فوج کے جنرلز نے تحمل ، برداشت اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واضح طور پر قوم کوتحریری یقین دہانی کروائی کہ ملک میں مارشل لاء نہیں لگایا جائے گا۔ اس طرز عمل کو دیکھیں تو پاکستان کے لیے بھی بہت کچھ سیکھنے کا ماحول بن چکا ہے، کیونکہ جمہوریت ہی ملکوں کی ترقی وخوشحالی کا واحد راستہ ہے ، جس پر سب کو چلنا ہے۔
اس واقعے کے بعد ٹرمپ کے خلاف شدید ردعمل آیا۔ ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا اعلان ہوا۔ غداری کے مقدمات کے مطالبات ہونے لگے تو ٹرمپ کے رویے میں واضح تبدیلی نظر آئی۔ انھوں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے جوبائیڈن کے لیے راستہ چھوڑ دیا لیکن ٹرمپ نے جوبائیڈن کی حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔ یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ وائٹ ہائوس سے جانے والے صدر نے اپنے جان نشین کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کی ہو۔
یہ منظر بھی دنیا نے دیکھا کہ ٹرمپ اپنے اہلیہ کے ہمراہ وائٹ ہائوس سے جاتے نظر آئے ، سچی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ کے رویے نے امریکی نظام اور روایات کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انھوں نے امریکا میں نسل پرستی کوجس طرح ہوا دی ہے ، اور امریکی معاشرے کو تقسیم کرنے کی عملی کوشش کی ہے اس کے آفٹرشاکس بہت دیر تک محسوس کیے جائیں گے۔امریکی عوام نے ٹرمپ کو وائٹ ہائوس سے نکالنے کا فیصلہ کرکے اپنے ملک کی لاج رکھ لی ہے۔
ٹرمپ تو پاکستان کے ساتھ بھی ہاتھ کر گئے ، انھوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کی امید دلائی، پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کی،مودی نے ثالثی کی پیش کش کو مسترد کردیاتو اس پر ٹرمپ نے چپ سادھ لی، اور پھردنیا نے دیکھا کہ ٹرمپ اور مودی دوست بن گئے ، ٹرمپ نے بھارت پر نوازشات کی بارش کردی پہلی بار خطے میں ایسی غیرمتوازن امریکی پالیسی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ پاکستان تو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا تھا دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ لیکن بدقسمتی سے خود بھی بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا۔
امریکانے پاکستان سے دوریاں اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو بدترین بے اعتمادی اور کشیدگی پر منتج ہوا۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں بھارت کو جدید اسلحہ کی فراہمی کے معاہدے کیے۔ اُدھر امریکا میں صدارتی الیکشن ہو رہے تھے اِدھر امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رہے تھے۔
اب امریکی عوام کے منتخب کردہ پسندیدہ ڈیموکریٹک صدر جوبائیڈن کو اپنے فرائض کی انجام دہی اور بہتر حکمرانی کے وعدوں کو پورا کرکے دکھانے کا وقت آیا ہے جو بائیڈن کی کامیابی میں امریکا کے ان 70% مسلم ووٹرز کا بھی اہم رول ہے جنھوں نے جوبائیڈن کو ووٹ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسی خلوص کے جواب میں جوبائیڈن نے اپنی پہلی تقریر کے دوران ہی مسلم ممالک کے باشندوں کے خلاف ناروا پابندیوں کے خاتمے اور فری ویزہ کے اجرا کا اعلان کیا ، امید ہوچلی ہے کہ مسلمانوں کے لیے جوبائیڈن ایک اچھے صدر ثابت ہوں تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔
یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما دور کا ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کریں اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ خطے کے لیے ایک بڑا بریک تھرو ہوگا۔ سابق امریکی صدراوباما کی خارجہ پالیسی متوازن تھی وہ ایران اور سعودی عرب کو ساتھ لے کر چل رہے تھے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن کیا ان کی پالیسی کو اپناتے ہیں یا نہیں۔
اب جب کہ ری پبلکن حکومت ختم اور ڈیموکریٹک حکومت اپنی چار سالہ مدت اقتدار شروع کرچکی ہے، یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان، امریکا تعلقات کی صورتحال کیا رہے گی؟یہ امر اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔امریکا کے لیے بھی بہ امر مجبوری ہی سہی پاکستان کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں خاص طور پر افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے پاکستان کی مددوتعاون امریکا کی بنیادی ضرورت ہے۔
پاک امریکا تعلقات اتنے ہی پرانے ہیں جتنا کہ خود پاکستان۔ اس امر کو مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ جوبائیڈن کی تجربہ کار ٹیم پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات اور خطے میں اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے اور پاکستان، امریکا کے ساتھ دوطرفہ علاقائی تعلقات پر مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام پاکستان اور امریکا کا مشترکہ مقصد ہے جس میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے چونکہ امریکا اور پاکستان دونوں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات مستحکم رہیں گے۔
کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی اولین ترجیح ہو گی، کیونکہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرلیا ہے،اس تناظر میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت پاکستان پر ناکامی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔اب دوبارہ امریکی صدر بائیڈن کے ذریعے مسئلہ کشمیر کروانے کا پاکستان کو سنہری موقع ملا ہے ،جس سے حکومت وقت کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان طویل ترین دہشت گردی کے فیز سے نکل آیا ہے، ایف اے ٹی ایف کی عائد کردہ شرائط پر پورا اترنے کی مکمل کوشش کررہا ہے ، پاکستان کے لیے یہ پلس پوائنٹ ہوگا کہ افغانستان سے داعش کا مکمل خاتمہ کرنیوالے کے لیے جوبائیڈن کو راضی کریں کیونکہ ہیلری کلنٹن نے داعش کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کالم کے آخر میں بات کرلیتے ہیں،چین کے ساتھ امریکا کی سرد جنگ کی۔ امریکا کا موقف یہ ہے کہ سی پیک امریکی مفادات کے خلاف ہے اور اپنی اس ناپسندیدگی کا اظہار امریکی ترجمان مختلف مواقعوں پر ظاہر کر چکے ہیں۔ امریکا کا خیال ہے کہ سی پیک ان کی ایشیا اور چین کے بارے میں منصوبوں میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے، جب کہ دوسری جانب پاکستان ہے جوچین سے قرضوں اور امداد میںاربوں ڈالر وصول کر چکا ہے۔
ماضی کے جھرکوں میں جھانکیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پچھلی چار امریکی انتظامیہ جن میں دونوں رپبلکن اور ڈیموکریٹ شامل ہیں، بھارت کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں کہ بھارت چین کے بحر ہند اور جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے آگے ایک فصیل بن کر کھڑا رہے۔ یہ واضح نظر آرہا ہے کہ امریکا براہ راست تصادم کی راہ تو نہیں کرے گا لیکن بائیڈن کی جانب سے معاشی اور سفارتی میدان میں چین پر دباؤ بڑھائے جانے کے امکانات ہیں۔
یہاں پر ہماری سفارت کاری کا بڑا امتحان شروع ہونے والا کہ دوبڑی عالمی طاقتوں کے درمیان پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کس حد تک اور کس طرح کر پائے گا۔ بلاشبہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے جارہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نومنتخب امریکی صدر سی پیک کے جاری منصوبوں کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں ، کیا ہمیں امریکا کی خوشنودی کے لیے سی پیک کو رول بیک کرنا پڑے گا ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔