بے بس روہنگی اور نئے امریکی صدر
روہنگی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس قتلِ عام کے بعد بنگلہ دیش میں قدم رکھنے پر مجبور ہوگئی۔
میانمارکی سرزمین پر2017 میں جنم لینے والے المیے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سات لاکھ روہنگی مرد، عورتیں اور بچے در بدر ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس وقت گنتی مرنے والوں کی نہیں، جو مرگئے وہ تو شاید اس بے رحم اور سفاک دنیا سے امان پاگئے، رونا تو ان کا ہے جو بچ کر نہ زندوں میں شمارکیے جارہے ہیں اور نہ مردہ سمجھے جارہے ہیں۔
یہ سات لاکھ انسان نہیں بے بسی کی بولتی تصویریں ہیں، جن کے اپنے ان کے سامنے تڑپا تڑپا کر مارے گئے، گھر جلا کر راکھ کیے گئے، سامان ِ زیست برباد ہوا ، عمروں کی کمائی منٹوں میں خاکسترکی گئی۔ اب ان کے پاس خراب ذہنی حالت اور بے کار وجود کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہ وہ ہیں جن میں سے اکثر کو اب خواب دیکھنے کی بھی خواہش نہیں رہی۔ ان جیتے جاگتے انسانوں کا کٹھ پتلی تماشا ہے جو دنیا دیکھ رہی ہے۔
اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ روہنگی بنگلہ دیش میں ابتر حال میں پڑے ہیں۔ یہ مہاجرین اس بوجھ کی مانند ہیں جسے بنگلہ حکومت ہر قیمت پر اتارکر پھینکنا چاہتی ہے۔ دو ہفتے قبل مہاجرین کے کیمپوں میں لگنے والی آگ اور اس پر شدید ٹھنڈ نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس کا کوئی جواز پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سن رہے ہیں کہ میانمارکی حکومت روہنگی مہاجرین کو واپس لینے کے کسی منصوبے پر غورکر رہی ہے۔ جانے کتنی روہنگی نسلیں اتنے بڑے ''احسان'' کا قرض چکائیں گی! یہ تو بعد کی بات ہے اس وقت تو اہم بات یہ ہے کہ میانمارکی حکومت جو سوچ رہی ہے اور دنیا کے سامنے گا رہی ہے اس پر عمل درآمد کرے گی بھی یا صرف طفل تسلیوں سے ہی کام چلائے گی۔
یہ مہاجرین جس صدمے سے گزرے ہیں، اس کے بعد اب یہ اپنے وطن بھی چلے گئے توکبھی اس ٹراما سے باہر نہ آسکیں گے جس میں یہ بری طرح جکڑ چکے ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج انسان بھلا کس کام کا رہتا ہے ۔ ذہنی صحت کی اہمیت روز بہ روز بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن جانے کیوں عالمی ادارے روہنگیوں کے اس مسئلے سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھونڈا مذاق کرتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی جس میں لکھا گیا کہ ان روہنگی مہاجرین میں پندرہ سے بیس فی صد بالغ افراد ٹراما کا شکار ہیں۔
اس رپورٹ نے انسانی حقوق کے دیگر اداروں میں کھلبلی مچائی، جس کے نتیجے کے طور پر Fortif Rights نے The Torture In My Mind کے عنوان سے ایک نئی رپورٹ جاری کی جس میں واضح طور پر ڈبلیو ایچ اوکی رپورٹ کو مسترد کیا گیا اور بتایا گیا کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 89 فی صد روہنگی خراب ذہنی حالت کا شکار ہیں اور شدید ڈپریشن کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، جب کہ 84 فی صد جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ اعدادوشمار بتانے کے لیے کافی ہیں، ان بے بس روہنگیوں کے لیے اب معمول کی زندگی کی طرف لوٹنا کس قدر مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
اس پورے معاملے پر عالمی خاموشی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیوں کہ ظلم کی بقا ہی ظالم کی زندگی کا مقصد ہے۔ امریکا میں سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے۔ وہ جو پچھلے نظام پر انگلیاں اٹھاتے تھے اب برسراقتدار آچکے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ کی داخلہ اور خارجہ تمام پالیسیاں ہدفِ تنقید بنائی گئیں، میانمارکے مسئلے پر ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے بے حسی کا ثبوت دیا تھا کہ جولائی 2019 میں ٹرمپ نے مذہب کے نام پر ہونے والے ظلم و ستم کے شکار افراد سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ترکی، چین، شمالی کوریا، ایران اور میانمار سے تعلق رکھنے والے عوامی نمایندے موجود تھے۔
اس دوران روہنگی مسلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا کہ وہ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو ٹرمپ نے حیرت سے سوال کیا، میانمار؟ یہ کہاں ہے؟ لیکن منظر یہاں بدلا نہیں بلکہ ایک اور مضحکہ خیز حرکت ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ایک صاحب نے انھیں یہ حیران کن اطلاع دی کہ میانمار برما کے ساتھ واقع ہے۔
یہ دنیا کے وہ لیڈر ہیں جنھیں یہی نہیں معلوم تھا کہ میانمار نام کا کوئی خطۂ زمین بھی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ انھیں یہاں بسنے والوں پر ہونے والے ظلم کی بابت کچھ آگاہی ہوگی، لیکن اب معاملہ الگ ہے۔ ٹرمپ پر کڑی تنقید کرنے والے اب ٹرمپ کو امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سر سے اتارکر زمین پر لاچکے ہیں۔ اب باری ہے جو بائیڈن کی۔ نئی امریکی حکومت کی جانب سے روہنگی مسلمانوں کے حوالے سے پہلی خبر تو یہ سامنے آئی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سب سے پہلے اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا میانمار کا اپنی اقلیت پر ظلم نسل کشی ہے بھی یا نہیں، اگر اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ نسل کشی ہی ہے تو پھر نئی امریکی حکومت اس پورے معاملے کی نگرانی کرے گی ۔
اس اعلان کے بعد سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ چالیس سالہ سیاسی تجربے کے حامل جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ میں شامل گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے زیرک سیاست داں اس سنگین صورت حال کو اقتدار سے پَرے کیوں نہ جانچ سکے؟ کیا وہ اس بات کا بھی ادراک نہ کر پائے کہ روہنگی مسلمانوں پر بیتنے والے اس ستم کے پسِ پردہ مقاصد کیا ہیں؟
چلیے مان لیتے ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں بھی تو نسل کشی کے عمل کی تصدیق کس طرح کریں گے اور اس کے لیے کن ذرایع پر انحصار کریں گے؟ اور اس پورے عمل کے لیے ان کو زیادہ سے زیادہ کتنا وقت درکار ہوگا؟ کیوں کہ روہنگی مسلمانوں کا مسئلہ دنیا کے دیگرکئی مسائل کی طرح فوری حل کا متقاضی ہے۔ دل میں یہ خدشہ بھی پھن پھیلا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ بائیڈن کے وعدے بھی اپنے سابقین کی طرح وفا نہ ہوں گے اور دعوؤں ہی دعوؤں میں اقتدار اپنی مدت پوری کر ڈالے گا۔
یہ بات کب ایک راز ہے کہ دنیا کا پورا نظام بے رحمی کی بنیادوں پرکھڑا ہے۔ جو اس نظام سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ بے رحمی کی ان جڑوں کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ یوں تو نئے امریکی صدرکے آدرش قابل ستائش ہیں لیکن ان آنکھوں نے کئی دہائیوں میں جتنے منظر نامے تبدیل ہوتے دیکھے ہیں ان سب کا انجام ایک سا دیکھا، یعنی بد سے بدتر اور پھر بدترین۔
یہ سات لاکھ انسان نہیں بے بسی کی بولتی تصویریں ہیں، جن کے اپنے ان کے سامنے تڑپا تڑپا کر مارے گئے، گھر جلا کر راکھ کیے گئے، سامان ِ زیست برباد ہوا ، عمروں کی کمائی منٹوں میں خاکسترکی گئی۔ اب ان کے پاس خراب ذہنی حالت اور بے کار وجود کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہ وہ ہیں جن میں سے اکثر کو اب خواب دیکھنے کی بھی خواہش نہیں رہی۔ ان جیتے جاگتے انسانوں کا کٹھ پتلی تماشا ہے جو دنیا دیکھ رہی ہے۔
اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ روہنگی بنگلہ دیش میں ابتر حال میں پڑے ہیں۔ یہ مہاجرین اس بوجھ کی مانند ہیں جسے بنگلہ حکومت ہر قیمت پر اتارکر پھینکنا چاہتی ہے۔ دو ہفتے قبل مہاجرین کے کیمپوں میں لگنے والی آگ اور اس پر شدید ٹھنڈ نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس کا کوئی جواز پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سن رہے ہیں کہ میانمارکی حکومت روہنگی مہاجرین کو واپس لینے کے کسی منصوبے پر غورکر رہی ہے۔ جانے کتنی روہنگی نسلیں اتنے بڑے ''احسان'' کا قرض چکائیں گی! یہ تو بعد کی بات ہے اس وقت تو اہم بات یہ ہے کہ میانمارکی حکومت جو سوچ رہی ہے اور دنیا کے سامنے گا رہی ہے اس پر عمل درآمد کرے گی بھی یا صرف طفل تسلیوں سے ہی کام چلائے گی۔
یہ مہاجرین جس صدمے سے گزرے ہیں، اس کے بعد اب یہ اپنے وطن بھی چلے گئے توکبھی اس ٹراما سے باہر نہ آسکیں گے جس میں یہ بری طرح جکڑ چکے ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج انسان بھلا کس کام کا رہتا ہے ۔ ذہنی صحت کی اہمیت روز بہ روز بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن جانے کیوں عالمی ادارے روہنگیوں کے اس مسئلے سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھونڈا مذاق کرتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی جس میں لکھا گیا کہ ان روہنگی مہاجرین میں پندرہ سے بیس فی صد بالغ افراد ٹراما کا شکار ہیں۔
اس رپورٹ نے انسانی حقوق کے دیگر اداروں میں کھلبلی مچائی، جس کے نتیجے کے طور پر Fortif Rights نے The Torture In My Mind کے عنوان سے ایک نئی رپورٹ جاری کی جس میں واضح طور پر ڈبلیو ایچ اوکی رپورٹ کو مسترد کیا گیا اور بتایا گیا کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 89 فی صد روہنگی خراب ذہنی حالت کا شکار ہیں اور شدید ڈپریشن کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، جب کہ 84 فی صد جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ اعدادوشمار بتانے کے لیے کافی ہیں، ان بے بس روہنگیوں کے لیے اب معمول کی زندگی کی طرف لوٹنا کس قدر مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
اس پورے معاملے پر عالمی خاموشی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیوں کہ ظلم کی بقا ہی ظالم کی زندگی کا مقصد ہے۔ امریکا میں سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے۔ وہ جو پچھلے نظام پر انگلیاں اٹھاتے تھے اب برسراقتدار آچکے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ کی داخلہ اور خارجہ تمام پالیسیاں ہدفِ تنقید بنائی گئیں، میانمارکے مسئلے پر ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے بے حسی کا ثبوت دیا تھا کہ جولائی 2019 میں ٹرمپ نے مذہب کے نام پر ہونے والے ظلم و ستم کے شکار افراد سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ترکی، چین، شمالی کوریا، ایران اور میانمار سے تعلق رکھنے والے عوامی نمایندے موجود تھے۔
اس دوران روہنگی مسلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا کہ وہ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو ٹرمپ نے حیرت سے سوال کیا، میانمار؟ یہ کہاں ہے؟ لیکن منظر یہاں بدلا نہیں بلکہ ایک اور مضحکہ خیز حرکت ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ایک صاحب نے انھیں یہ حیران کن اطلاع دی کہ میانمار برما کے ساتھ واقع ہے۔
یہ دنیا کے وہ لیڈر ہیں جنھیں یہی نہیں معلوم تھا کہ میانمار نام کا کوئی خطۂ زمین بھی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ انھیں یہاں بسنے والوں پر ہونے والے ظلم کی بابت کچھ آگاہی ہوگی، لیکن اب معاملہ الگ ہے۔ ٹرمپ پر کڑی تنقید کرنے والے اب ٹرمپ کو امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سر سے اتارکر زمین پر لاچکے ہیں۔ اب باری ہے جو بائیڈن کی۔ نئی امریکی حکومت کی جانب سے روہنگی مسلمانوں کے حوالے سے پہلی خبر تو یہ سامنے آئی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سب سے پہلے اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا میانمار کا اپنی اقلیت پر ظلم نسل کشی ہے بھی یا نہیں، اگر اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ نسل کشی ہی ہے تو پھر نئی امریکی حکومت اس پورے معاملے کی نگرانی کرے گی ۔
اس اعلان کے بعد سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ چالیس سالہ سیاسی تجربے کے حامل جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ میں شامل گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے زیرک سیاست داں اس سنگین صورت حال کو اقتدار سے پَرے کیوں نہ جانچ سکے؟ کیا وہ اس بات کا بھی ادراک نہ کر پائے کہ روہنگی مسلمانوں پر بیتنے والے اس ستم کے پسِ پردہ مقاصد کیا ہیں؟
چلیے مان لیتے ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں بھی تو نسل کشی کے عمل کی تصدیق کس طرح کریں گے اور اس کے لیے کن ذرایع پر انحصار کریں گے؟ اور اس پورے عمل کے لیے ان کو زیادہ سے زیادہ کتنا وقت درکار ہوگا؟ کیوں کہ روہنگی مسلمانوں کا مسئلہ دنیا کے دیگرکئی مسائل کی طرح فوری حل کا متقاضی ہے۔ دل میں یہ خدشہ بھی پھن پھیلا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ بائیڈن کے وعدے بھی اپنے سابقین کی طرح وفا نہ ہوں گے اور دعوؤں ہی دعوؤں میں اقتدار اپنی مدت پوری کر ڈالے گا۔
یہ بات کب ایک راز ہے کہ دنیا کا پورا نظام بے رحمی کی بنیادوں پرکھڑا ہے۔ جو اس نظام سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ بے رحمی کی ان جڑوں کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ یوں تو نئے امریکی صدرکے آدرش قابل ستائش ہیں لیکن ان آنکھوں نے کئی دہائیوں میں جتنے منظر نامے تبدیل ہوتے دیکھے ہیں ان سب کا انجام ایک سا دیکھا، یعنی بد سے بدتر اور پھر بدترین۔