استنبول اور ہمارے شمالی علاقے
بیرون ِ ملک رہنے والی کوئی فیملی اپنے ملک پاکستان کا وزٹ کرتی ہے تو اس کی خواتین کپڑوں کی مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں۔
PESHAWAR:
میرے ایک محترم دوست کا کہنا ہے کہ جن کی اولاد نیک ، لائق اور فرمانبردار ہو وہ والدین بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔یہ خوش نصیبی اﷲ کے فضل سے ہمارے حصے میں بھی آئی ہے اور جب سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو ہمیں خوش اور مصروف رکھنے کے لیے تینوں بچوں نے جو پاکستان سے ہجرت کر گئے تھے ، ہمیں کچھ عرصہ کے لیے اپنے پاس بلانا شروع کر دیا تاکہ ہم تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔ اسی حوالے سے ہمارا ترکی کے شہر استنبول چار مرتبہ جانا ہوا۔
پاکستان کی تاریخ چونکہ بہت پُرانی نہیں ہے اس لیے اس کے سیاحتی مقامات کا ذکر بعد میں آئے گا، فی الحال پہلے استنبول کا ذکر ہو جائے۔ وہاں ہمارا مولانا رومی کے شہر کونیا بھی جانا ہوا اور اتا ترک مصطفیٰ کمال پاشا کے یادگار شہر انقرہ بھی۔ لیکن تین بار حضور اکرمؐ کے قریبی ساتھی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی جائے مدفن ایوب سلطان(یورپین سائیڈ) استنبول جانے کا موقع ملا۔ حضرت ابو ایوبؓ نے اسلام دشمنوں کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیا اور استنبول تک پہنچنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن اس وقت ان کی عمر بہت ہو چکی تھی اور ان کی وفات بھی اسی وجہ سے ہوئی۔
جب حضور صلعمؐ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی تو ہر کسی کی خواہش تھی کہ حضور ؐ کی مہمان نوازی کا موقع اسی کو نصیب ہو اور ان کی اونٹنی مدینہ میں داخل ہوئی تو ہر کوئی گھر سے نکل کر ان کا استقبال کرنے اورمہمان نوازی کا شرف حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔ ان کی اونٹنی ابو ایوبؓ کے مکان کے سامنے رکی لیکن پھر چل پڑی لیکن کچھ ہی دور جا کر مڑی اور دوبارہ حضرت ابوایوبؓ کے مکان کے آگے رکی اور بیٹھ گئی یعنی طے ہو گیا کہ حضور ؐ کا قیام ابو ایوبؓ کے مکان پر ہو گا۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ گھر کے افراد نچلی منزل پر آ گئے تاکہ رسول اللہ ؐ اوپر والی منزل پر رہیں لیکن حضور ؐ نے نچلی منزل پر ٹھہرنا پسند کیا۔
جب مسلمان استنبول کے تاریخی مقامات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں تو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار دیکھنے ، اس کے برابر عالیشان مسجد میں عبادت کرنے، قریب بازار میں لذیز کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جاتے۔ اس کے بعد وہ استنبول کے قدیم اور تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ بلیو مسجد (Blue Mosque) جس کا سرکاری نام سلطان احمد مسجد ہے ، عموماً سیاحوں کا پہلا انتخاب ہوتی ہے ۔ اس کی تعمیر میں بیس ہزار ٹائیلیں استعمال ہوئی ہیں۔ یہ عثمانیہ فن ِ تعمیر کی سترہویں صدی کی اعلیٰ نشانی ہے۔ سولہویں صدی میں چرچ جس کا نام حاجیہ صوفیا ہے، شہنشاہ Justinian نے تعمیر کیا لیکن 1453 میں اس گرجے کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا، پھر اس کا نام بھی حاجیہ میوزیم رکھ دیا گیا، اس کا تاریخی نام اور فن ِ تعمیر اسے استنبول کی یادگاروں میں ممتاز کرتا ہے۔
حاجیہ صوفیہ سے تین منٹ کے فاصلے پر Topkapi Palace Museum ہے جو کئی صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں کی رہائش گاہ رہا۔ آج یہ عمارت جو ایک محل ہے ، یہاں سے بحر ِمرمرہ باسفورس اور گولڈن ہارن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس محل میں عہد ِ عثمانیہ کی منفرد یادگاری اشیاء بھی موجود ہیں۔ یہاں سلاطین کے حرم میں موجود شہزادیوں اور ملکائوں کے زیر ِ استعمال قیمتی اشیاء بھی رکھی ہیں۔
توپ کاپی محل کے سامنے ایک اور میوزیم ہے جس میں اسلامی عہد کے ہزاروں نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ تاریخی فاتحی ضلعے میں گرینڈ بازار ہے جو دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ اس Covered Bazar میں 61 گلیاں ہیں۔ 500 سال پرانی اس مارکیٹ میں روزانہ چار لاکھ کے قریب گاہک آتے ہیں جس میں سونے کے زیورات سے لے کر گھروں میں رکھنے ، استعمال کرنے، کھانے اور سجانے کی ان گنت اشیاء کی فروخت ہوتی ہے۔ اس گرینڈ بازار میں گھومتے ، خریداری کرتے ہوئے ساتھیوں اور فیملی سے ذرا سی دیر میں گم ہو جانے کا سو فیصد چانس ہوتا ہے جسے تلاش کرنے میں موبائل فون مددگار ہوتا ہے۔
عہد ِ عثمانیہ کے سلطان عثمان کے لیے آرکٹیکٹ میمار سنان نے سلیمانیہ مسجد ڈیزائن کی جس کی شاندار عمارت اس میں داخل ہونے والے کی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ ڈولما باچھی محل1856 میںSultan Abdul Mecid نے توپ کاپی پیلس کو پہلی جگہ سے شفٹ کرنے کے لیے تعمیر کرایا۔ اس میں لگایا جانے والا r Crystal Chandelieجس کا وزن 4ٹن ہے ، ملکہ وکٹوریہ نے تحفے میں سلطان کے لیے بھجوایا تھا۔ جزیرے کا نظارہ کرنے کے لیے Galata Tower تعمیر ہوا تھا۔ اسی طرح باسفورس سمندر سے جانب ایشیا ایک Kadikoy Market ہے جہاں کھانے پینے ، پہننے کی ان گنت اشیاء خریداروں کو کھینچ لاتی ہیں۔
جب بھی بیرون ِ ملک رہنے والی کوئی فیملی اپنے ملک پاکستان کا وزٹ کرتی ہے تو اس کی خواتین کپڑوں کی مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں۔ کپڑوں کی رنگائی ، کڑھائی، سلائی کے علاوہ رشتہ داروں کی طرف سے کھانے کی دعوتیں ہوتی ہیں۔ مرد حضرات اپنے اسکول کالج اور محلے کے پرانے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور پھر واپسی کے دن قریب آ جاتے ہیں۔ انھیں اپنے شہروں میںEnjoy کرنے والی کوئی جگہیں نہیں ملتیں۔ انھیں کوئی نہیں بتاتا کہ تمہارے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایسی جگہیں بھی ہیں جو سیر و تفریح کے لیے قدرت نے عطا کر رکھی ہیں اور وہ منفرد اور دلکش اور عجوبہ ہیں جو دنیا کی بہترین بستیوں میں شمار ہوتی ہیں۔
گلگت ، بلتستان ، کوہ ِہندوکش اور قراقرم کے درمیان جس کے دو اطراف ہمالیہ ہے ، وہیں سکردو اور چلاس بھی قدرت کے بہترین علاقے ہیں۔ سکردو ، شگرگانچے، گلتاری ہنزہ استور میں دنیا کی خوبصورت ترین Lakesبھی ہیں۔ شمالی علاقوں کی ایک اور خوبصورت قراقرم ہائی وے کا شمار Nine wonders of the World میں ہوتا ہے۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں دنیاکے چھ بڑے برف زار (Glaciers) بھی ہیں اور بارہ Mountain Roads ہیں۔ اسی طرح بارہ Mountain Peaks ہیں۔ یہ دنیا کے وہ چند عجوبے ہیں جن سے دنیا کو تو چھوڑیئے ہم بھی ابھی تک نا واقف ہیں۔
میرے ایک محترم دوست کا کہنا ہے کہ جن کی اولاد نیک ، لائق اور فرمانبردار ہو وہ والدین بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔یہ خوش نصیبی اﷲ کے فضل سے ہمارے حصے میں بھی آئی ہے اور جب سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو ہمیں خوش اور مصروف رکھنے کے لیے تینوں بچوں نے جو پاکستان سے ہجرت کر گئے تھے ، ہمیں کچھ عرصہ کے لیے اپنے پاس بلانا شروع کر دیا تاکہ ہم تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔ اسی حوالے سے ہمارا ترکی کے شہر استنبول چار مرتبہ جانا ہوا۔
پاکستان کی تاریخ چونکہ بہت پُرانی نہیں ہے اس لیے اس کے سیاحتی مقامات کا ذکر بعد میں آئے گا، فی الحال پہلے استنبول کا ذکر ہو جائے۔ وہاں ہمارا مولانا رومی کے شہر کونیا بھی جانا ہوا اور اتا ترک مصطفیٰ کمال پاشا کے یادگار شہر انقرہ بھی۔ لیکن تین بار حضور اکرمؐ کے قریبی ساتھی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی جائے مدفن ایوب سلطان(یورپین سائیڈ) استنبول جانے کا موقع ملا۔ حضرت ابو ایوبؓ نے اسلام دشمنوں کے خلاف تمام جنگوں میں حصہ لیا اور استنبول تک پہنچنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن اس وقت ان کی عمر بہت ہو چکی تھی اور ان کی وفات بھی اسی وجہ سے ہوئی۔
جب حضور صلعمؐ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی تو ہر کسی کی خواہش تھی کہ حضور ؐ کی مہمان نوازی کا موقع اسی کو نصیب ہو اور ان کی اونٹنی مدینہ میں داخل ہوئی تو ہر کوئی گھر سے نکل کر ان کا استقبال کرنے اورمہمان نوازی کا شرف حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔ ان کی اونٹنی ابو ایوبؓ کے مکان کے سامنے رکی لیکن پھر چل پڑی لیکن کچھ ہی دور جا کر مڑی اور دوبارہ حضرت ابوایوبؓ کے مکان کے آگے رکی اور بیٹھ گئی یعنی طے ہو گیا کہ حضور ؐ کا قیام ابو ایوبؓ کے مکان پر ہو گا۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ گھر کے افراد نچلی منزل پر آ گئے تاکہ رسول اللہ ؐ اوپر والی منزل پر رہیں لیکن حضور ؐ نے نچلی منزل پر ٹھہرنا پسند کیا۔
جب مسلمان استنبول کے تاریخی مقامات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں تو حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار دیکھنے ، اس کے برابر عالیشان مسجد میں عبادت کرنے، قریب بازار میں لذیز کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جاتے۔ اس کے بعد وہ استنبول کے قدیم اور تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ بلیو مسجد (Blue Mosque) جس کا سرکاری نام سلطان احمد مسجد ہے ، عموماً سیاحوں کا پہلا انتخاب ہوتی ہے ۔ اس کی تعمیر میں بیس ہزار ٹائیلیں استعمال ہوئی ہیں۔ یہ عثمانیہ فن ِ تعمیر کی سترہویں صدی کی اعلیٰ نشانی ہے۔ سولہویں صدی میں چرچ جس کا نام حاجیہ صوفیا ہے، شہنشاہ Justinian نے تعمیر کیا لیکن 1453 میں اس گرجے کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا، پھر اس کا نام بھی حاجیہ میوزیم رکھ دیا گیا، اس کا تاریخی نام اور فن ِ تعمیر اسے استنبول کی یادگاروں میں ممتاز کرتا ہے۔
حاجیہ صوفیہ سے تین منٹ کے فاصلے پر Topkapi Palace Museum ہے جو کئی صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں کی رہائش گاہ رہا۔ آج یہ عمارت جو ایک محل ہے ، یہاں سے بحر ِمرمرہ باسفورس اور گولڈن ہارن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس محل میں عہد ِ عثمانیہ کی منفرد یادگاری اشیاء بھی موجود ہیں۔ یہاں سلاطین کے حرم میں موجود شہزادیوں اور ملکائوں کے زیر ِ استعمال قیمتی اشیاء بھی رکھی ہیں۔
توپ کاپی محل کے سامنے ایک اور میوزیم ہے جس میں اسلامی عہد کے ہزاروں نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ تاریخی فاتحی ضلعے میں گرینڈ بازار ہے جو دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ اس Covered Bazar میں 61 گلیاں ہیں۔ 500 سال پرانی اس مارکیٹ میں روزانہ چار لاکھ کے قریب گاہک آتے ہیں جس میں سونے کے زیورات سے لے کر گھروں میں رکھنے ، استعمال کرنے، کھانے اور سجانے کی ان گنت اشیاء کی فروخت ہوتی ہے۔ اس گرینڈ بازار میں گھومتے ، خریداری کرتے ہوئے ساتھیوں اور فیملی سے ذرا سی دیر میں گم ہو جانے کا سو فیصد چانس ہوتا ہے جسے تلاش کرنے میں موبائل فون مددگار ہوتا ہے۔
عہد ِ عثمانیہ کے سلطان عثمان کے لیے آرکٹیکٹ میمار سنان نے سلیمانیہ مسجد ڈیزائن کی جس کی شاندار عمارت اس میں داخل ہونے والے کی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ ڈولما باچھی محل1856 میںSultan Abdul Mecid نے توپ کاپی پیلس کو پہلی جگہ سے شفٹ کرنے کے لیے تعمیر کرایا۔ اس میں لگایا جانے والا r Crystal Chandelieجس کا وزن 4ٹن ہے ، ملکہ وکٹوریہ نے تحفے میں سلطان کے لیے بھجوایا تھا۔ جزیرے کا نظارہ کرنے کے لیے Galata Tower تعمیر ہوا تھا۔ اسی طرح باسفورس سمندر سے جانب ایشیا ایک Kadikoy Market ہے جہاں کھانے پینے ، پہننے کی ان گنت اشیاء خریداروں کو کھینچ لاتی ہیں۔
جب بھی بیرون ِ ملک رہنے والی کوئی فیملی اپنے ملک پاکستان کا وزٹ کرتی ہے تو اس کی خواتین کپڑوں کی مارکیٹ کا رخ کرتی ہیں۔ کپڑوں کی رنگائی ، کڑھائی، سلائی کے علاوہ رشتہ داروں کی طرف سے کھانے کی دعوتیں ہوتی ہیں۔ مرد حضرات اپنے اسکول کالج اور محلے کے پرانے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور پھر واپسی کے دن قریب آ جاتے ہیں۔ انھیں اپنے شہروں میںEnjoy کرنے والی کوئی جگہیں نہیں ملتیں۔ انھیں کوئی نہیں بتاتا کہ تمہارے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایسی جگہیں بھی ہیں جو سیر و تفریح کے لیے قدرت نے عطا کر رکھی ہیں اور وہ منفرد اور دلکش اور عجوبہ ہیں جو دنیا کی بہترین بستیوں میں شمار ہوتی ہیں۔
گلگت ، بلتستان ، کوہ ِہندوکش اور قراقرم کے درمیان جس کے دو اطراف ہمالیہ ہے ، وہیں سکردو اور چلاس بھی قدرت کے بہترین علاقے ہیں۔ سکردو ، شگرگانچے، گلتاری ہنزہ استور میں دنیا کی خوبصورت ترین Lakesبھی ہیں۔ شمالی علاقوں کی ایک اور خوبصورت قراقرم ہائی وے کا شمار Nine wonders of the World میں ہوتا ہے۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں دنیاکے چھ بڑے برف زار (Glaciers) بھی ہیں اور بارہ Mountain Roads ہیں۔ اسی طرح بارہ Mountain Peaks ہیں۔ یہ دنیا کے وہ چند عجوبے ہیں جن سے دنیا کو تو چھوڑیئے ہم بھی ابھی تک نا واقف ہیں۔