دوحہ امن معاہدے پرنظرثانی خطہ پراثرات
امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ طے پانے والے دوحہ امن معاہدے پرنظرثانی کا اعلان کردیا ہے
ISLAMABAD:
امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ طے پانے والے دوحہ امن معاہدے پر نظرثانی کا اعلان کردیا ہے۔ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ امریکا مئی 2021تک اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا اور اس سے پہلے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہو گا،جب کہ امریکی قومی سلامتی کے نئے مشیر جیک سولیوان کا کہنا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن معاہدے کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے اوراس معاہدے کے بعد حملوں میں کتنی کمی آئی ہے۔
معاہدے کے تحت طالبان نے انتہا پسند گروپوں سے روابط کس حد تک ختم کیے؟ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ نئے امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان اور افغانستان میں اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوچکے ہیں ، وہ ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں ، امریکی اور عالمی سیاست کا ، لہٰذا وہ امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپنی مرضی کے ٹرمرز آف گیم طے کرنا چاہتے ہیں۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔
کابل انتظامیہ کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ وہ اپنے وعدے کا احترام کرتے ہیں اور معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، ہم توقع کرتے ہیں دوسرے فریق بھی معاہدے پر برقرار رہیں گے۔
بلاشبہ اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا کہ جب تک افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوگا، خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔امریکا کا تمام دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے اور اثر و رسوخ قائم کرنے کا جنون اب تک کہیں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سبب بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں عسکریت کا رنگ غالب آنے لگا تھا۔ اسی وجہ سے امریکا کو دنیا میں سبکی وناراضی اور اپنے گھر میں کئی طرح کی شکایات کا سامنا کرنا پڑاہے۔
پاکستان مسئلہ افغانستان کا اہم ترین فریق ہے، کیونکہ یہ جو معاہدہ امن ،دوحہ میں پچھلے برس طے پایا تھا ، اس میں پاکستان کی مخلصانہ کوششوں نے بنیادی اور اہم کردار ادا کیا تھا ۔معاہدے پر نظرثانی کے اعلان نے خطے میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ، اوباما ایران سے معاہدہ طے کرگئے تھے، ٹرمپ آئے تو انھوں نے یہ معاہدہ ختم کردیا اور مشرق وسطی کے ممالک ،ان کے چارسالہ دوراقتدار میں غیر یقینی کیفیت کا شکار بنے رہے ، جب کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے بھی نکل گئے تھے۔ اب نئی امریکی انتظامیہ کو دنیا کے ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کی راہیں نئے سرے سے ہموار کرنا ہوں گی۔
بائیڈن نے ابھی سے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ میں واپسی، عالمی ادارہ صحت میں شمولیت اور ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ اب اگر بائیڈن دوحہ امن معاہدہ تبدیل کرنے چلے ہیں تو ہماراخطہ ایک بار پھر بدامنی کا شکار ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ جنم لیتا ہے کہ '' کیا افغانستان میںجاری تشدد میں کمی ممکن ہے؟'' ایک جنگ زدہ ملک میں امن کی بحالی کے امکانات افغان امن مذاکرات کے باوجود ابھی تک روشن نہیں ہوسکے ہیں اور حالیہ دنوں میں ملک کے طول و عرض پر نہ صرف طالبان نے حملے کیے بلکہ داعش نے بھی تواتر کے ساتھ افغان شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان تو افغانستان میں امن کے لیے مخلص ہے لیکن جنگ زدہ ممالک میں مسائل ہمیشہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ایک ہندوستانی نژاد کے نائب صدر منتخب ہونے کے باعث امریکا بھارت تعلقات کو مزید تقویت ملنے کے امکان ہیں۔ اسی طرح بھارت کی خارجہ پالیسی خطے میں بھارت کو امریکا کا قریبی اتحادی ہونے کا اشارہ کرتی ہے،چونکہ بھارت پاکستان کا سب سے قدیم حریف ہے، اس لیے امریکا اور بھارت کے مابین قریبی تعلقات پاکستان کے لیے اچھی پیشرفت نہیں ہے۔
افغان امن معاہدے میں بھارت کے بڑھتے اثرو رسوخ کو پاکستان پہلے ہی ناگوار سمجھتا ہے، اگر بائیڈن نے بھارت سے افغانستان میں کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو یہ پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دے گا۔ پاکستان افغانستان میں امریکا کے مسائل حل کرنے میں اہم کھلاڑی کے طور پر پیش پیش رہے گا۔ بائیڈن پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں محدود شکل میں فوجی موجودگی کی کوشش کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جوبائیڈن اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے ٹرمپ دیکھ رہے تھے البتہ جو بائیڈن کی طرف سے ڈو مور کی صدا بلند نہیں ہو گی۔
جو بائیڈن چوتھے امریکی صدر ہیں جنھوں نے 19 سالہ طویل افغان جنگی بحران کا سامنا کیا ہے، اگرچہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کی موجودگی میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور اس وقت چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں باقی رہ گئے ہیں۔
گزشتہ سال فروری میں امریکا اور طالبان کے امن معاہدے نے امریکی فوجیوں کی مکمل وطن واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔ انٹرا افغان مذاکرات میں امریکا پہلے ہی پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف کر چکا ہے۔ پاکستان کو اوباما کے دور میں افغانستان کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم فریق کہا گیا تھا، ٹرمپ انتظامیہ بھی اس بات کا اظہار کر چکی تھی جب کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ سب کچھ آنیوالے دنوں کھل کر سامنے آجائے گا۔
اس سارے منظرنامے کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ جو بائیڈن کی موجودگی میں مظلوم کشمیریوں کے موقف کو عالمی دنیا میں پذیرائی ملنے کے قوی امکانات ہیں۔ بائیڈن نے ہمیشہ کشمیریوں کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت سے مظلوم کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے اور خود مختاری کا مطالبہ کیا ہے۔
اس بات کی بھی توقع کی جا رہی ہے کہ جو بائیڈن مودی سرکار کی جانب سے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وفاق کے تحت دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ امریکا کی جانب سے چین کے تناظر میں بھارت کو اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت برقرار رہے گی لیکن ساتھ ہی بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر بھی سوال اٹھائے جائینگے، یوں امریکی صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی شمالی سرحد پر واقع چین کے ساتھ امریکا کی سرد جنگ پچھلے کچھ سالوں سے عالمی سیاست کا مرکز بن چکی ہے۔ پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت چین سے قرضوں اور امداد میں اربوں ڈالر وصول کر چکا ہے۔
چین کے لیے سخت پالیسی پاکستان پر بھی اثر انداز ہو گی۔البتہ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب امریکا کی جانب سے چین سے متعلق سخت پالیسی میں تبدیلی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ امریکا جو سی پیک کا پہلے ہی مخالف ہے، پاکستان کو سی پیک میں سست روی لانے کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اُمید ہے کہ بائیڈن بھارت کے ساتھ ملکر چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں پاکستان کو چین کا ساتھی ہونے کے سبب نہیں رگیدے گا۔ اس رعایت کا ممکنہ مقصد پاکستان کی ہمدردیاں مکمل طورپرچین کے حق میں گنوانے سے محفوظ رکھنا ہو سکتا ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان بداعتمادی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ صدرٹرمپ کی طرف سے یک طرفہ طور پر جوہری معاہدے سے علیحدگی اور گزشتہ برس ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سامنے آئی تھی، نو منتخب امریکی صدرجوبائیڈن ایران کے ساتھ جاری امریکی کشیدگی کو کم کرنے کے خواہاں ہیں۔
ماضی میں بھی ڈیموکریٹک امریکی صدر اوباما کے دور میں امریکا ایران تعلقات مثبت سمت کی جانب گامزن تھے جس کو ٹرمپ اقتدار میں آتے ساتھ ہی خاتمے کی جانب لے گئے تھے۔ سیاسی مبصرین یہ توقع قائم کررہے ہیں کہ امریکا اپنے عالمی کردار کو ایک بار پھر بڑھانے کی کوشش اور ایران کے ساتھ دوبارہ نیو کلیئر معاہدے کی کوشش کرے گا۔
جو بائیڈن اپنی نائب صدارت کے دور میں پاکستان کے دوست کے طور پر سامنے آئے تھے اور انھیں سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہلال پاکستان بھی مل چکا ہے۔اس کے علاوہ جو بائیڈن کیری لوگر بل کے خالقوں میں سے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو 7.5 ارب ڈالرزکی غیرفوجی امداد دی گئی تھی، اوریہ امداد ڈیموکریٹک پارٹی کی جمہوری سوچ کے مطابق پاکستان میں سویلین اداروں کی مضبوطی اور سماجی شعبوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مختص کی گئی۔
پاکستان امریکا کے ساتھ صحت مند، خوشگوار تعلقات رکھنے کی توقع رکھ سکتا ہے۔ ان تعلقات کی بنیاد تعلیم، آئی ٹی اور توانائی کے متبادل ذرایع کے شعبوں میں تعاون پرمبنی ہو سکتی ہے۔ رواں سال پاکستان کو بھی ان دوطرفہ تعلقات کی بحالی کا موقع ملے گا جو پچھلی ایک دہائی سے دائیں بازو کی سیاست اور شدید قومیت پرستی کے سامنے مانند پڑچکے تھے۔ حرف آخر پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک چین، ایران، افغانستان اور بالخصوص بھارت کے ساتھ امریکی صدرجوبائیڈن کا رویہ مشترکہ طورپرپاکستان اورامریکا تعلقات کی نوعیت کا تعین کرے گا۔امریکا کو طالبان اور افغان حکومت کے مابین وسیع خلیج کو دور کرنے کے لیے پائیدار حل نکالنے کی بھی ضرورت ہے۔
امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ طے پانے والے دوحہ امن معاہدے پر نظرثانی کا اعلان کردیا ہے۔ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ امریکا مئی 2021تک اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا اور اس سے پہلے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہو گا،جب کہ امریکی قومی سلامتی کے نئے مشیر جیک سولیوان کا کہنا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن معاہدے کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے اوراس معاہدے کے بعد حملوں میں کتنی کمی آئی ہے۔
معاہدے کے تحت طالبان نے انتہا پسند گروپوں سے روابط کس حد تک ختم کیے؟ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ نئے امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان اور افغانستان میں اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوچکے ہیں ، وہ ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں ، امریکی اور عالمی سیاست کا ، لہٰذا وہ امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپنی مرضی کے ٹرمرز آف گیم طے کرنا چاہتے ہیں۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔
کابل انتظامیہ کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ وہ اپنے وعدے کا احترام کرتے ہیں اور معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، ہم توقع کرتے ہیں دوسرے فریق بھی معاہدے پر برقرار رہیں گے۔
بلاشبہ اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا کہ جب تک افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوگا، خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔امریکا کا تمام دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے اور اثر و رسوخ قائم کرنے کا جنون اب تک کہیں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سبب بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں عسکریت کا رنگ غالب آنے لگا تھا۔ اسی وجہ سے امریکا کو دنیا میں سبکی وناراضی اور اپنے گھر میں کئی طرح کی شکایات کا سامنا کرنا پڑاہے۔
پاکستان مسئلہ افغانستان کا اہم ترین فریق ہے، کیونکہ یہ جو معاہدہ امن ،دوحہ میں پچھلے برس طے پایا تھا ، اس میں پاکستان کی مخلصانہ کوششوں نے بنیادی اور اہم کردار ادا کیا تھا ۔معاہدے پر نظرثانی کے اعلان نے خطے میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ، اوباما ایران سے معاہدہ طے کرگئے تھے، ٹرمپ آئے تو انھوں نے یہ معاہدہ ختم کردیا اور مشرق وسطی کے ممالک ،ان کے چارسالہ دوراقتدار میں غیر یقینی کیفیت کا شکار بنے رہے ، جب کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے بھی نکل گئے تھے۔ اب نئی امریکی انتظامیہ کو دنیا کے ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کی راہیں نئے سرے سے ہموار کرنا ہوں گی۔
بائیڈن نے ابھی سے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ میں واپسی، عالمی ادارہ صحت میں شمولیت اور ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ اب اگر بائیڈن دوحہ امن معاہدہ تبدیل کرنے چلے ہیں تو ہماراخطہ ایک بار پھر بدامنی کا شکار ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ جنم لیتا ہے کہ '' کیا افغانستان میںجاری تشدد میں کمی ممکن ہے؟'' ایک جنگ زدہ ملک میں امن کی بحالی کے امکانات افغان امن مذاکرات کے باوجود ابھی تک روشن نہیں ہوسکے ہیں اور حالیہ دنوں میں ملک کے طول و عرض پر نہ صرف طالبان نے حملے کیے بلکہ داعش نے بھی تواتر کے ساتھ افغان شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان تو افغانستان میں امن کے لیے مخلص ہے لیکن جنگ زدہ ممالک میں مسائل ہمیشہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ایک ہندوستانی نژاد کے نائب صدر منتخب ہونے کے باعث امریکا بھارت تعلقات کو مزید تقویت ملنے کے امکان ہیں۔ اسی طرح بھارت کی خارجہ پالیسی خطے میں بھارت کو امریکا کا قریبی اتحادی ہونے کا اشارہ کرتی ہے،چونکہ بھارت پاکستان کا سب سے قدیم حریف ہے، اس لیے امریکا اور بھارت کے مابین قریبی تعلقات پاکستان کے لیے اچھی پیشرفت نہیں ہے۔
افغان امن معاہدے میں بھارت کے بڑھتے اثرو رسوخ کو پاکستان پہلے ہی ناگوار سمجھتا ہے، اگر بائیڈن نے بھارت سے افغانستان میں کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو یہ پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دے گا۔ پاکستان افغانستان میں امریکا کے مسائل حل کرنے میں اہم کھلاڑی کے طور پر پیش پیش رہے گا۔ بائیڈن پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں محدود شکل میں فوجی موجودگی کی کوشش کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جوبائیڈن اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے ٹرمپ دیکھ رہے تھے البتہ جو بائیڈن کی طرف سے ڈو مور کی صدا بلند نہیں ہو گی۔
جو بائیڈن چوتھے امریکی صدر ہیں جنھوں نے 19 سالہ طویل افغان جنگی بحران کا سامنا کیا ہے، اگرچہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کی موجودگی میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور اس وقت چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں باقی رہ گئے ہیں۔
گزشتہ سال فروری میں امریکا اور طالبان کے امن معاہدے نے امریکی فوجیوں کی مکمل وطن واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔ انٹرا افغان مذاکرات میں امریکا پہلے ہی پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف کر چکا ہے۔ پاکستان کو اوباما کے دور میں افغانستان کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم فریق کہا گیا تھا، ٹرمپ انتظامیہ بھی اس بات کا اظہار کر چکی تھی جب کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ سب کچھ آنیوالے دنوں کھل کر سامنے آجائے گا۔
اس سارے منظرنامے کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ جو بائیڈن کی موجودگی میں مظلوم کشمیریوں کے موقف کو عالمی دنیا میں پذیرائی ملنے کے قوی امکانات ہیں۔ بائیڈن نے ہمیشہ کشمیریوں کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت سے مظلوم کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے اور خود مختاری کا مطالبہ کیا ہے۔
اس بات کی بھی توقع کی جا رہی ہے کہ جو بائیڈن مودی سرکار کی جانب سے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وفاق کے تحت دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ امریکا کی جانب سے چین کے تناظر میں بھارت کو اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت برقرار رہے گی لیکن ساتھ ہی بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر بھی سوال اٹھائے جائینگے، یوں امریکی صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی شمالی سرحد پر واقع چین کے ساتھ امریکا کی سرد جنگ پچھلے کچھ سالوں سے عالمی سیاست کا مرکز بن چکی ہے۔ پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت چین سے قرضوں اور امداد میں اربوں ڈالر وصول کر چکا ہے۔
چین کے لیے سخت پالیسی پاکستان پر بھی اثر انداز ہو گی۔البتہ جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب امریکا کی جانب سے چین سے متعلق سخت پالیسی میں تبدیلی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ امریکا جو سی پیک کا پہلے ہی مخالف ہے، پاکستان کو سی پیک میں سست روی لانے کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اُمید ہے کہ بائیڈن بھارت کے ساتھ ملکر چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں پاکستان کو چین کا ساتھی ہونے کے سبب نہیں رگیدے گا۔ اس رعایت کا ممکنہ مقصد پاکستان کی ہمدردیاں مکمل طورپرچین کے حق میں گنوانے سے محفوظ رکھنا ہو سکتا ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان بداعتمادی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ صدرٹرمپ کی طرف سے یک طرفہ طور پر جوہری معاہدے سے علیحدگی اور گزشتہ برس ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سامنے آئی تھی، نو منتخب امریکی صدرجوبائیڈن ایران کے ساتھ جاری امریکی کشیدگی کو کم کرنے کے خواہاں ہیں۔
ماضی میں بھی ڈیموکریٹک امریکی صدر اوباما کے دور میں امریکا ایران تعلقات مثبت سمت کی جانب گامزن تھے جس کو ٹرمپ اقتدار میں آتے ساتھ ہی خاتمے کی جانب لے گئے تھے۔ سیاسی مبصرین یہ توقع قائم کررہے ہیں کہ امریکا اپنے عالمی کردار کو ایک بار پھر بڑھانے کی کوشش اور ایران کے ساتھ دوبارہ نیو کلیئر معاہدے کی کوشش کرے گا۔
جو بائیڈن اپنی نائب صدارت کے دور میں پاکستان کے دوست کے طور پر سامنے آئے تھے اور انھیں سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہلال پاکستان بھی مل چکا ہے۔اس کے علاوہ جو بائیڈن کیری لوگر بل کے خالقوں میں سے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو 7.5 ارب ڈالرزکی غیرفوجی امداد دی گئی تھی، اوریہ امداد ڈیموکریٹک پارٹی کی جمہوری سوچ کے مطابق پاکستان میں سویلین اداروں کی مضبوطی اور سماجی شعبوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مختص کی گئی۔
پاکستان امریکا کے ساتھ صحت مند، خوشگوار تعلقات رکھنے کی توقع رکھ سکتا ہے۔ ان تعلقات کی بنیاد تعلیم، آئی ٹی اور توانائی کے متبادل ذرایع کے شعبوں میں تعاون پرمبنی ہو سکتی ہے۔ رواں سال پاکستان کو بھی ان دوطرفہ تعلقات کی بحالی کا موقع ملے گا جو پچھلی ایک دہائی سے دائیں بازو کی سیاست اور شدید قومیت پرستی کے سامنے مانند پڑچکے تھے۔ حرف آخر پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک چین، ایران، افغانستان اور بالخصوص بھارت کے ساتھ امریکی صدرجوبائیڈن کا رویہ مشترکہ طورپرپاکستان اورامریکا تعلقات کی نوعیت کا تعین کرے گا۔امریکا کو طالبان اور افغان حکومت کے مابین وسیع خلیج کو دور کرنے کے لیے پائیدار حل نکالنے کی بھی ضرورت ہے۔