مسیحا کی خودکشی خطرے کا الارم

بڑھتے سماجی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خودکشی کی شرح میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے


پاکستان میں روزانہ خودکشی کے اوسطاً پانچ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں تو آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ ماہر نفسیات سے مل لیجئے تاکہ وہ آپ کو دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹا دے۔ لیکن اگر ماہر نفسیات ہی پریشان ہو، وہی نفسیاتی مریض بن جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ پانی سر سے بلند ہونے جارہا ہے؟

جی ہاں ایسی صورت خطرناک ہوتی ہے یا پھر آپ یہ سمجھ لیجئے کہ میرے مسائل کا حل اس دنیا میں نہیں ہے، یا آپ کو مالی مسائل کی وجہ سے ماہر نفسیات تک رسائی حاصل نہ ہو، آپ بدترین مایوسی کا شکار ہوجائیں تو یہ صورتحال انسان کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام کی جانب راغب کرتی ہے۔ شائد ایسا ہی کچھ ہوا ملتان کے علاقے جسٹس حمید کالونی میں مقیم معروف ماہر نفیسات ڈاکٹر اظہر کے ساتھ، جنہوں نے گھریلو تنازع پر اکلوتی ڈاکٹر بیٹی کو قتل کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

اہل خانہ کے مطابق ڈاکٹر صاحب کا گزشتہ چار ماہ سے علاج چل رہا تھا، لیکن شائد وہ علاج سے مایوس ہوگئے ہوں اور انہوں نے غموں سے نجات پانے کےلیے اس راہ کا انتخاب کیا ہو۔ حالانکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خودکشی مسائل کا حل نہیں ہے۔ خودکشی سے دنیاوی مسائل سے تو چھٹکارا مل جاتا ہے لیکن اس کے بعد جو مسائل شروع ہوتے ہیں ان سے نجات ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ لیکن انسان ہمیشہ سے نہیں تھا، البتہ یہ منتقل ہوتا رہے گا، دنیا سے قبر میں، قبر سے حشر میں اور حشر سے اپنی دائمی منزل جنت یا جہنم میں۔

اسی لیے جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں ابن فلاں کا انتقال ہوگیا ہے، یعنی فلاں صاحب اب اس دنیا سے قبر کی دنیا میں منتقل ہوگئے ہیں، جہاں پر ایک نئی زندگی شروع ہوگی۔ قبر کی زندگی میں نارمل انداز میں دنیا سے رخصت ہونے والا تو شائد نجات حاصل کرلے لیکن خودکشی کرنے والے کےلیے ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ نارمل انداز میں دنیا سے منتقل ہونے والے کو آخرت کی پریشانیوں سے اگر قبر میں نجات نہ ملی تو عین ممکن ہے حشر میں ہادی برحق، شافعی محشر حضرت محمدؐ کی شفاعت کی بدولت آخرت کے مسائل سے نجات مل جائے۔ لیکن خودکشی کرنے والا یہاں پر بھی محروم ہوگا اور دائمی مشکلات کا شکار رہے گا۔ یاد رکھیے! دنیا کی خوشیاں بھی عارضی ہیں اور غم بھی عارضی ہیں، لیکن آخرت کی خوشیاں بھی دائمی ہیں اور غم بھی دائمی ہیں۔

بڑھتے سماجی مسائل اور عقیدۂ آخرت پر کمزور ایمان کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خودکشی کی شرح میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 183 ممالک میں سے پاکستان 169 ویں نمبر پر ہے۔ مرد 2.7 اور خواتین 3 فیصد کے ساتھ ہر ایک لاکھ افراد میں سے 2.9 افراد خودکشی کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 2016 میں پاکستان میں خودکشی کے کُل 6،155 واقعات پیش آئے۔ 2018 میں 1700 اور 2019 کے پہلے چھ ماہ کے دوران تقریباً ایک ہزار افرد نے اپنی زندگیاں ختم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے مطابق روزانہ خودکشی کے اوسطاً پانچ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ دنیا کے مقابلے میں کم ہے، جہاں پر ہر ایک لاکھ افراد میں 10.5 افراد اور ہر 40 سیکنڈ میں ایک فرد اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کررہا ہے۔ لیکن اس شرح میں مزید کمی لائی جاسکتی ہے، اگر حکومت پاکستان اور علمائے اکرام اپنی ذمے داری کا احساس کریں۔ حکومت آتشیں اسلحے اور زہریلے کیمیائی مواد تک رسائی کو کم کرنے کے ساتھ قومی سطح پر حکمتِ عملی ترتیب دے۔ تمام اسپتالوں کےلیے ذہنی صحت کے کم از کم ایک ماہر کی موجودگی لازم قرار دی جائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مختلف ماہر نفسیات ایک سیشن کےلیے تقریباً 500 سے 3000 روپے وصول کرتے ہیں۔ ان میں مزید دواؤں کے اخراجات ملائے جائیں تو ایک عام فرد کےلیے مکمل علاج ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے ذہنی صحت کے علاج اور ادویہ تک عام آدمی کی رسائی کو ممکن بنائے۔

علمائے اکرام لوگوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت کریں۔ علمائے اکرام اپنے خطبوں میں غیر ضروری مسائل کے بجائے عقیدۂ آخرت کو مسلسل اور مدلل انداز میں بیان فرمائیں اور عوام کےلیے دین کو عام فہم بنادیں، تاکہ ہر شخص دین سے رہنمائی حاصل کرسکے۔ عوام کو خودکشی کے مضمرات کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ خودکشی کرنے کی صورت میں جن دائمی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، انہیں مستقل طور پر بیان کیا جائے۔ جس قدر زور وشور سے مسلکی مسائل کو بیان کیا جاتا ہے، اسی قدر گھن گرج سے اس بات کو بیان کیا جائے کہ ہم کیسے دین کی مدد سے اپنی دنیاوی زندگی کو خوبصورت بناسکتے ہیں۔

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بہت سے پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔ بصور ت دیگر کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمیں اس وقت ہوش آئے جب پانی سر سے گزر جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں