بار بار آئی ایم ایف کے نرغے میں آجاتے ہیں خدا کرے ہماری جان قرضوں سے چھوٹ جائے نواز شریف
توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدام کررہے ہیں،کراچی میں سرکلرریلوے جلدشروع ہو گی،کابینہ سے خطاب
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ہم غلط پالیسیوں کے باعث بار بار آئی ایم ایف کے نرغے میں آجاتے ہیں۔
خدا کرے ہماری جان قرضوں سے چھوٹ جائے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لیے حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے جس نے معیشت اور عوام کی سماجی زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے۔ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے لیے کوئلے، ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت لائن لاسز اور بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر بنانے کے لیے اقدام کررہی ہے۔ کراچی میں سرکلر ریلوے جلد بنے گی۔ ریلوے کی مکمل بحالی کے لیے جاپان سے آسان شرائط پر قرضہ لے رہے ہیں۔ نوازشریف نے کہا کہ بھارت نے آئی ایم ایف سے جان چھڑالی ہے، خدا کرے کہ ہماری بھی جان چھوٹ جائے۔ سابق دور کے گردشی قرضے60دنوں کی بجائے 45دنوں میں ادا کیے۔ غلط پالیسیوں اور غلط کاموں کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف کے نرغے میں آنا پڑا اور پھر آئی ایم ایف نے ہمیں قرضے میں جکڑلیا۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کی مثبت تنقید کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ جہاں ہماری کوتاہی ہو وہاں نشاندہی کی جائے۔ حکومتی اقدام کے باعث کراچی میں حالات بہتر ہورہے ہیں۔
دریں اثنا جاپان کے سفیر ہیروشی انوماتا کے ساتھ ملاقات کے دوران نواز شریف نے کہا کہ جاپان پاکستان کا گرانقدر ترقیاتی شراکت دار ہے اور سماجی تعلیمی اور صحت کے مختلف شعبوں میں جاپان کی جاری امداد بڑی قابل قدر ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان جاپانی وزیر اعظم کے دورے کا منتظر ہے جس سے دوطرفہ تعلقات میں مزید تنوع اور وسعت پیدا کرنے کے لیے دونوں ممالک کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ میں جاپان کی دلچسپی اور کراچی اور لاہور میں انڈر گراؤنڈ میٹرو سسٹمز کی تعریف کرتا ہے۔ وزیراعظم اور جاپانی سفیر نے طلباکے تعلیمی تبادلوں اور پاکستان میں توانائی کے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 1999 میں پاکستان کے ذمے 2ہزار946ارب روپے قرض تھا جو2013 میں 15ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے5نومبر2013 تک 206 ارب کے نوٹ چھاپے۔ بجلی کی طلب و رسد کے فرق میں کمی کے لیے بھی اقدام کیے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو بجٹ خسارہ 8.8فیصد تھا لیکن ہم اسے8فیصد تک لے آئے ہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے دوران معاشی صورتحال پر اپنی بریفنگ میں انھوں نے کہا کہ گزشتہ 5برس میں معیشت کی صورتحال انتہائی خراب ہوئی۔ نگراں حکومت نے بھی معیشت میں سیاست کا استعمال کرکے ملک کو نقصان پہنچایا۔
انھوں نے ٹیرف بڑھایا مگر اس پرعملدرآمد نہیں کیا۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جارہے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت ایک دن میں خراب یا بہتر نہیں ہوسکتی۔ 2007 کے عالمی معاشی بحران سے نکلنے کیلیے دنیا کو5سال لگ گئے۔ نگراں حکومت نے معیشت میں سیاست کا استعمال کرکے ملک کا نقصان کیا۔ انھوںنے ٹیرف بڑھایا مگر اس پرعملدرآمد نہیں کیا۔ اگر ماہانہ بنیادوں پر ٹیرف بڑھایا جاتا تو ملکی معیشت پرایک دم سے بوجھ نہ پڑتا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سنبھالی توملک کی مجموعی پیداوار3 فیصد تھی۔ گزشتہ سال پاکستان میں کم ترین12.6 فیصد سرمایہ کاری ہوئی۔ حکومت نے5نومبر2013 تک206 ارب کے نوٹ چھاپے۔ موجودہ لوڈشیڈنگ نہروں میں بھل صفائی کے باعث ہے۔ گردشی قرضوں کی مد میں ادا کی گئی تمام رقم کا پورا حساب وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس درجہ ملنے پر توقع ہے کہ ملکی برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے بڑھ کر 2ارب ڈالر ہوجائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اتصالات سے جلد ہی 800ملین ڈالر کی وصولی ہوگی۔ آئی این پی کے مطابق وزیر خزانہ نے بریفنگ میں کہا کہ گردشی قرضے ادا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے کا تاثر درست نہیں۔
نئے نوٹ چھاپ کر ترقی کرنے والے ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ پاکستان کی عزت بچانے کے لیے لیا گیا۔ مؤثر فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ گزشتہ سال مہنگائی کا تناسب 7.4فیصد تھا۔ ہماری حکومت بجٹ خسارہ 8.8فیصد سے کم کرکے8فیصد تک لے کر آئی۔ گزشتہ 5 ہفتوں سے مہنگائی میں کمی واقع ہورہی ہے۔گزشتہ سال صنعتی ترقی 0.4فیصد تھی جبکہ ہمارے ابتدائی چھ ماہ میں صنعتی ترقی 6.8فیصد تک جا پہنچی۔ گزشتہ حکومت کے قرضوں کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی سے سالانہ 54 ارب روپے کی بچت ہورہی ہے۔اگر گردشی قرضہ ادا نہ کیا جاتا تو آج پاکستان کا گردشی قرضہ 368ارب روپے مزید بڑھ چکا ہوتا۔ حکومتی پالیسیوں کے سبب اندرونی اور بیرونی سر مایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ایک ذمہ دار ملک کی طرح بروقت بیرونی قرضے ادا کریں گے جبکہ آئندہ سال جون تک آسان شرائط پر مزید ایک ارب ڈالر قرضہ لیں گے۔
جاری مالیاتی خسارے کا تخمینہ 250 ارب روپے لگایا ہے ۔ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں ایک ارب 50کروڑ ڈالر کی امدادی رقم بھی ملے گی ۔ سرکلر ریلوے کے لیے آسان شرائط پر قرضے کے حصول کی خاطر جاپان سے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ بجلی کے 200 یونٹ کے گھریلو صارفین کے لیے حکومت نے 220 ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے جس میں سے131ارب روپے کی سبسڈی جاری کی جاچکی ہے۔ گزشتہ حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے تخمینے کی تختی تو لگا دی لیکن منصوبے کیلیے فنڈز نہیں ہیں۔ حکومت نے سماجی تحفظ کے لیے مستحق افراد کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ نواز شریف لیپ ٹاپ اسکیم کا افتتاح مارچ میں کریں گے۔ ہماری حکومت نے اشیائے خورونوش پر 17 ارب 60 کروڑ روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری پرقیمت میں 500روپے کمی کی ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایات پر پاکستان میں اسلامی بنکاری کے فروغ کیلیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ دنیا بھر میں اسلامی بنکاری کا حجم 16 کھرب ڈالر ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے جاری منصوبوں سے آئندہ 5 سال میں بجلی کی پیداوار 22ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔
خدا کرے ہماری جان قرضوں سے چھوٹ جائے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لیے حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے جس نے معیشت اور عوام کی سماجی زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے۔ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے لیے کوئلے، ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت لائن لاسز اور بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر بنانے کے لیے اقدام کررہی ہے۔ کراچی میں سرکلر ریلوے جلد بنے گی۔ ریلوے کی مکمل بحالی کے لیے جاپان سے آسان شرائط پر قرضہ لے رہے ہیں۔ نوازشریف نے کہا کہ بھارت نے آئی ایم ایف سے جان چھڑالی ہے، خدا کرے کہ ہماری بھی جان چھوٹ جائے۔ سابق دور کے گردشی قرضے60دنوں کی بجائے 45دنوں میں ادا کیے۔ غلط پالیسیوں اور غلط کاموں کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف کے نرغے میں آنا پڑا اور پھر آئی ایم ایف نے ہمیں قرضے میں جکڑلیا۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا کی مثبت تنقید کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ جہاں ہماری کوتاہی ہو وہاں نشاندہی کی جائے۔ حکومتی اقدام کے باعث کراچی میں حالات بہتر ہورہے ہیں۔
دریں اثنا جاپان کے سفیر ہیروشی انوماتا کے ساتھ ملاقات کے دوران نواز شریف نے کہا کہ جاپان پاکستان کا گرانقدر ترقیاتی شراکت دار ہے اور سماجی تعلیمی اور صحت کے مختلف شعبوں میں جاپان کی جاری امداد بڑی قابل قدر ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان جاپانی وزیر اعظم کے دورے کا منتظر ہے جس سے دوطرفہ تعلقات میں مزید تنوع اور وسعت پیدا کرنے کے لیے دونوں ممالک کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ میں جاپان کی دلچسپی اور کراچی اور لاہور میں انڈر گراؤنڈ میٹرو سسٹمز کی تعریف کرتا ہے۔ وزیراعظم اور جاپانی سفیر نے طلباکے تعلیمی تبادلوں اور پاکستان میں توانائی کے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 1999 میں پاکستان کے ذمے 2ہزار946ارب روپے قرض تھا جو2013 میں 15ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے5نومبر2013 تک 206 ارب کے نوٹ چھاپے۔ بجلی کی طلب و رسد کے فرق میں کمی کے لیے بھی اقدام کیے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو بجٹ خسارہ 8.8فیصد تھا لیکن ہم اسے8فیصد تک لے آئے ہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس کے دوران معاشی صورتحال پر اپنی بریفنگ میں انھوں نے کہا کہ گزشتہ 5برس میں معیشت کی صورتحال انتہائی خراب ہوئی۔ نگراں حکومت نے بھی معیشت میں سیاست کا استعمال کرکے ملک کو نقصان پہنچایا۔
انھوں نے ٹیرف بڑھایا مگر اس پرعملدرآمد نہیں کیا۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جارہے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت ایک دن میں خراب یا بہتر نہیں ہوسکتی۔ 2007 کے عالمی معاشی بحران سے نکلنے کیلیے دنیا کو5سال لگ گئے۔ نگراں حکومت نے معیشت میں سیاست کا استعمال کرکے ملک کا نقصان کیا۔ انھوںنے ٹیرف بڑھایا مگر اس پرعملدرآمد نہیں کیا۔ اگر ماہانہ بنیادوں پر ٹیرف بڑھایا جاتا تو ملکی معیشت پرایک دم سے بوجھ نہ پڑتا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سنبھالی توملک کی مجموعی پیداوار3 فیصد تھی۔ گزشتہ سال پاکستان میں کم ترین12.6 فیصد سرمایہ کاری ہوئی۔ حکومت نے5نومبر2013 تک206 ارب کے نوٹ چھاپے۔ موجودہ لوڈشیڈنگ نہروں میں بھل صفائی کے باعث ہے۔ گردشی قرضوں کی مد میں ادا کی گئی تمام رقم کا پورا حساب وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس درجہ ملنے پر توقع ہے کہ ملکی برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے بڑھ کر 2ارب ڈالر ہوجائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اتصالات سے جلد ہی 800ملین ڈالر کی وصولی ہوگی۔ آئی این پی کے مطابق وزیر خزانہ نے بریفنگ میں کہا کہ گردشی قرضے ادا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے کا تاثر درست نہیں۔
نئے نوٹ چھاپ کر ترقی کرنے والے ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ پاکستان کی عزت بچانے کے لیے لیا گیا۔ مؤثر فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ گزشتہ سال مہنگائی کا تناسب 7.4فیصد تھا۔ ہماری حکومت بجٹ خسارہ 8.8فیصد سے کم کرکے8فیصد تک لے کر آئی۔ گزشتہ 5 ہفتوں سے مہنگائی میں کمی واقع ہورہی ہے۔گزشتہ سال صنعتی ترقی 0.4فیصد تھی جبکہ ہمارے ابتدائی چھ ماہ میں صنعتی ترقی 6.8فیصد تک جا پہنچی۔ گزشتہ حکومت کے قرضوں کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی سے سالانہ 54 ارب روپے کی بچت ہورہی ہے۔اگر گردشی قرضہ ادا نہ کیا جاتا تو آج پاکستان کا گردشی قرضہ 368ارب روپے مزید بڑھ چکا ہوتا۔ حکومتی پالیسیوں کے سبب اندرونی اور بیرونی سر مایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ایک ذمہ دار ملک کی طرح بروقت بیرونی قرضے ادا کریں گے جبکہ آئندہ سال جون تک آسان شرائط پر مزید ایک ارب ڈالر قرضہ لیں گے۔
جاری مالیاتی خسارے کا تخمینہ 250 ارب روپے لگایا ہے ۔ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں ایک ارب 50کروڑ ڈالر کی امدادی رقم بھی ملے گی ۔ سرکلر ریلوے کے لیے آسان شرائط پر قرضے کے حصول کی خاطر جاپان سے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ بجلی کے 200 یونٹ کے گھریلو صارفین کے لیے حکومت نے 220 ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے جس میں سے131ارب روپے کی سبسڈی جاری کی جاچکی ہے۔ گزشتہ حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے تخمینے کی تختی تو لگا دی لیکن منصوبے کیلیے فنڈز نہیں ہیں۔ حکومت نے سماجی تحفظ کے لیے مستحق افراد کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ نواز شریف لیپ ٹاپ اسکیم کا افتتاح مارچ میں کریں گے۔ ہماری حکومت نے اشیائے خورونوش پر 17 ارب 60 کروڑ روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری پرقیمت میں 500روپے کمی کی ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایات پر پاکستان میں اسلامی بنکاری کے فروغ کیلیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ دنیا بھر میں اسلامی بنکاری کا حجم 16 کھرب ڈالر ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے جاری منصوبوں سے آئندہ 5 سال میں بجلی کی پیداوار 22ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔