اسرائیل مردہ باد ریلی کا حقیقی مقصد کیا تھا

امت مسلمہ پر ہونے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کےلیے ہمیشہ اس قسم کی ریلیاں اور جلسے جلوس منعقد ہوتے رہے ہیں

21 جنوری کو کراچی میں اسرائیل مردہ باد ریلی کا انعقاد ہوا، جس کی کوریج نہیں کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

21 جنوری کو کراچی میں اسرائیل مردہ باد ریلی کا انعقاد ہوا، جس کی سرپرستی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں ریلی میں شرکت کی۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر مجھے دعوت دی جاتی تو میں بھی شرکت کرتا اور خطاب بھی کرتا۔ مگر ان ہی کی زیر سرپرستی میڈیا کو اتنا دبا دیا گیا کہ میڈیا پر اس ریلی کی کوریج تو کیا، کوئی خبر تک نہ آئی۔ اب بھی اگر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس ریلی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو ان کا حصول ناممکن ہے۔ یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ وہاں تک ہر ایک کی بلا روک ٹوک رسائی ہے، اور اس کے ذریعے تھوڑی بہت خبریں عوام تک پہنچ جاتی ہیں۔ ورنہ تو اس ریلی کی کسی کو کان و کان خبر تک نہ ہوتی۔

یہ ''اسرائیل مردہ باد'' ریلی تھی، جو امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، کوئی سیاسی مسئلہ نہیں تھا جس کو اتنا دبانے کی کوشش کی گئی۔ اس ریلی کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، صرف اس کا انعقاد سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیا گیا تھا، اس لیے مخالفین کی جانب سے اسے بھرپور سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور ایسا کرنے والے بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔

ہمارے ہاں یہ بہت بری روایت ہے کہ ہر ایک معاملے کو خواہ وہ کتنا ہی سنجیدگی کا حامل ہو، اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب کوئی معاملہ سیاست کی نذر ہوگیا تو پھر اس میں سنجیدگی کہاں رہتی ہے؟ پھر تو وہ سیاستدانوں کے درمیان فٹ بال بن جاتا ہے اور ہر ایک اپنی طاقت کے مطابق اسے لات مارنے کی کوشش کرتا ہے اور اس معاملے یا مسئلے کا کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے مسائل حل نہیں ہورہے۔ اسرائیل مردہ باد ریلی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اسے سیاسی جلسہ سمجھ کر کوریج نہ دی گئی، جس کی وجہ سے اسے پوری دنیا تو کیا پاکستان میں بھی پذیرائی نہ ملی۔


ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی اور ان کے قاتل اسرائیلیوں کی بھرپور مذمت کےلیے اس ریلی کو خوب کوریج دی جاتی تاکہ پوری دنیا اسے دیکھے اور مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں ہمارا بھی کچھ حصہ شامل ہوجائے۔ لیکن یہاں بالکل اس کے برعکس ہوا۔

کچھ نام نہاد مفکرین کا یہ کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے یہ ریلی بے موقع نکالی ہے۔ یعنی یہ کوئی موقع نہیں تھا کہ اس پر ریلی نکالی جائے۔ ان لوگوں سے میرا سوال ہے کہ کیا ظالموں کے خلاف احتجاج صرف خاص خاص مواقعوں کے ساتھ مخصوص کردینے چاہئیں؟ سال میں چند ایام مخصوص ہوں بس، جن پر رسمی سی ریلیاں نکال لی جائیں اور پورا سال چشم پوشی کرتے رہو یا پھر غاصب ریاستوں کی طرف سے کسی بڑے حملے یا ظلم و ستم کا انتظار کیا جائے، جب وہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کریں گے تب ہی ایسی ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا؟ وہ تو پورا سال ظلم و ستم ڈھاتے رہتے ہیں، لہٰذا جب بھی جسے فرصت ملے وہ ان ریلیوں کا انعقاد کرے اور دنیا کے سامنے امت مسلمہ کے ان مسائل کو اجاگر کرتا رہے۔

کچھ دیگر دانشوروں کا یہ اعتراض ہے کہ اس ریلی کا انعقاد صرف اپنی سیاست چمکانے کےلیے کیا گیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ چند سیاسی جماعتوں کے اس طرح ریلی نکالنے سے کون سا اسرائیل کو کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ یعنی ان کے مطابق اس ریلی سے اسرائیل نے تباہ تو نہیں ہوجانا پھر اس ریلی کا کیا فائدہ؟ یہ اعتراض پہلے اعتراض سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ اس لیے کہ امت مسلمہ پر ہونے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کےلیے ہمیشہ اس قسم کی ریلیاں اور جلسے جلوس منعقد ہوتے رہے ہیں، ان کا مقصد ظالم ریاستوں کو تباہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ مقصد صرف ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوتا ہے۔ دنیا میں مظلوم قوم کے حقوق کےلیے آواز اٹھانا اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

پانچ فروری کو پوری قوم یوم یکجہتی کشمیر منائے گی۔ اس دن بہت سے پروگرام، جلسے جلوس اور ریلیوں کا انعقاد ہوگا۔ تو کیا ان سب کا مقصد بھارت کو تباہ کرنا ہے؟ یعنی چھ فروری کو بھارت کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ ہم ہر سال یوم یکجہتی کشمیر مناتے آرہے ہیں اور بھارت بھی اسی طرح قائم ہے۔ اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر فرق پڑتا ہے تو کشمیریوں کے جوش و جذبے پر پڑتا ہے۔ کشمیریوں کے مسئلے پر پڑتا ہے کہ اس دن کو منانے کے بعد دنیا میں ان کا بلکہ ہمارا مسئلہ کشمیر مزید اجاگر ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی پر یہ اعتراض کرنا کہ اس ریلی کے انعقاد سے کون سا اسرائیل نے تباہ ہوجانا ہے، ان مفکرین اور دانشوروں کی عجیب سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story