تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیمی رہنماوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی
وزراء کی تو بات ہی نرالی ہے ہر کوئی اپنی اپنی’’محنت‘‘ میں مصروف عمل ہیں کہ نجانے مستقبل میں کیا ہوگا۔
پاکستان کی سیاست میں سیاسی پارٹیاں خود کو اس وقت زیادہ مضبوط اور وسیع کرنے کی کوشش کرتی ہیں جب وہ اقتدار میں ہوتی ہیں لیکن تحریک انصاف شاید واحد جماعت ہے جو اپنے اقتدار میں کمزور اور منتشر ہو رہی ہے ، تحریک انصاف کی تنظیم کی موجودہ صورتحال اور حکومت کے رویہ پر مشہور کہاوت''اباابا میں تھانیدار بنا تو۔۔''پوری اترتی ہے۔
الیکشن جیتنے کے بعد سے آج تک تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز اور اہم مقامی رہنما بے یارومددگار ہیں اور ان کی اشک جوئی کرنے کو وزیر اعظم یا ان کے وفاقی و صوبائی وزراء دستیاب نہیں۔
وزراء کی تو بات ہی نرالی ہے ہر کوئی اپنی اپنی''محنت'' میں مصروف عمل ہیں کہ نجانے مستقبل میں کیا ہوگا،دیکھا جائے تو اصل خرابی یا مسئلہ ہی یہی ہے کہ تحریک انصاف کی تنظیمیں اور پارلیمنٹرین ایک پیج پر نہیں ہیں ۔
دونوں کے درمیان ایک بڑی خلیج موجود ہے اب اگر کوئی تنظیمی عہدیدار یہ کہے کہ ایسا کچھ نہیں کیونکہ اس کے ذاتی تعلقات وزراء کے ساتھ اچھے ہیں تو اس عہدیدار کا یہ انفرادی موقف ہو گا کیونکہ ایسے چند عہدیدار موجود ہیں جن کے بارے میں پارٹی کے اندر یہ افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ مبینہ طور پر وہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے حکومتی حلقوں سے ایسے کام کروا رہے ہیں جن کو کروانے کیلئے ''نذرانہ'' وصول کیا جاتا ہے۔ممکن ہے کہ ان الزاما ت میں صداقت نہ ہو یا پھر کچھ لوگوں کے بارے یہ الزامات غلط ہوں لیکن ہمارے ہاں حقیقت سے زیادہ تاثر کی اہمیت اور طاقت ہوتی ہے لہذا جن کے بارے میں یہ تاثر بن چکا ہے انہیں اپنے قول وفعل سے اس کی نفی کرنا ہو گی۔
تنظیم سازی اور دھڑے بندی کے حوالے سے پارٹی چیئرمین عمران خان گزشتہ 9 برس سے مسائل کا شکار ہیں ، مینار پاکستان جلسہ کے بعد جیسے جیسے پارٹی میں لوگ شامل ہوتے گئے اسی رفتار سے اختلافات اور دھڑے بھی بڑھتے چلے گئے ۔ جب بھی عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی کوشش کی مسائل کا سونامی بے قابو ہو گیا۔
اس وقت جو تحریک انصاف کی تنظیمیں دکھائی دیتی ہیں وہ خود بھی متنازعہ ہیں کیونکہ ان میں بیشتر ایسے لوگوں کو عہدوں سے نوازا گیا ہے جن کی پارٹی کیلئے عملی طور پر کوئی خدمت یا محنت نہیں ہے لیکن جن کے وہ ''خوشامدی'' اور''سپانسر'' تھے انہوں نے انہیں تنظیمی عہدوں سے نوازنے میں کردار نبھایا ہے ۔ تحریک انصاف کی قیادت کا مزاج غیر مستحکم رہتا ہے اسی لئے پارٹی کا ڈھانچہ بھی کئی مرتبہ تبدیل ہوا ہے۔
پہلے صوبائی سطح پر تنظیم بنائی گئی پھر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا پھر تین ریجن بنائے گئے ، پھر چار ریجن کر دیئے گئے ،ایک مرحلہ پر ویسٹ ریجن کو ختم کر کے دوبارہ تین ریجن بنائے گئے لیکن کچھ عرصہ قبل چوتھا ریجن دوبارہ بحال کر کے فیض اللہ کموکا کو اس کا ریجنل صدر بنا دیا گیا ہیْ لاہور کی مثال لیں تو اس وقت لاہور کو ضلعی سطح پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر مزید تقسیم کرتے ہوئے ٹاون کی سطح پر تنظیم سازی کی گئی ہے۔
ضلع سطح پر بات کریں تو تحریک انصاف شمالی لاہور کا صدر دیوان محی الدین کو بنایا گیا ہے جو اس وقت آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن ہیں اور ان کی اسمبلی کی مدت آئندہ چند ماہ میں اختتام پذیر ہونے والی ہے اور وہ اس وقت لاہور میں کشمیر برداری کے ووٹ بنک کو بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ دوبارہ سے آزاد جموں وکشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہو سکیں۔
پارٹی کے اندر ایک مضبوط اکثریت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ لاہور کو تنظیمی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہی بنیادی غلطی ہے لیکن چونکہ اس وقت اینٹی عبدالعلیم خان لابی نے پریشر ڈال کر عران خان سے یہ تقسیم کروا لی لہذا سب مجبور ہو گئے لیکن جس انداز میں دیوان صاحب کو صدر بنایا گیا اس پر شدید نوعیت کے اعتراضات اور تحفظات موجود ہیں ،کہا جاتا ہے کہ دیوان محی الدین کی تحریک انصاف کیلئے کوئی نمایاں یا برسوں پر محیط خدمات نہیں ہیں لیکن ایک اہم پارٹی رہنما کے ساتھ''قربت'' کے نتیجہ میں انہیں یہ عہدہ ملا ہے حالانکہ شمالی لاہور کی صدارت کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک متعدد ایسے رہنما موجود ہیں جن کی پارٹی کیلئے قربانیوں اور محنت کی طویل تاریخ ہے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کا کارکن اور ٹکٹ ہولڈر دونوں ہی مایوس ہیں، عام کارکن تو کیا کئی رہنما بھی 7 یا8 کلب میں جانے کی اجازت حاصل نہیں کر پاتے، وزراء ویسے ہی جان چھڑواتے ہیں ۔ مختلف اداروں یا اتھارٹیز میں جن کو تعینات کیا گیا ہے ان کی فہرست سامنے رکھ لیں اور پھر ہر ایک نام کی پارٹی کیلئے خدمات کا چارٹ بناتے جائیں تو واضح ہوجائے گا کہ شیخ امتیاز،زبیر نیازی، یاسر گیلانی جیسے چند ایک کو چھوڑ کر بہت سوں کا میرٹ مبینہ'' خوشامد'' اور'' سرمایہ کاری'' ہے ۔
جن لوگوں نے برسہا برس پارٹی کیلئے دن رات محنت کی، 126 دن تک ڈی چوک میں دھرنا دیا، لانگ مارچ کیا، لالک چوک میں کئی دن بیٹھے رہے، پارٹی کے جلسوں کو کامیاب بنانے کیلئے اپنے علاقوں میں ہردر پر دستک دی، ن لیگ کی مخالفت سہی، اپنے کاروبار اور نوکریاں داو پر لگائیں آج ان میں سے کتنے لوگ عہدوں پر ہیں اور کتنے دلبرداشتہ ہو کر خاموش ہو بیٹھے ہیں ، یہی معلوم کر کے تحریک انصاف کی تنظیم کی طاقت اور یکجہتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ٹکٹ ہولڈر کسی بھی پارٹی کا مرکزی سرمایہ ہوتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر شاید اپنی حکومت کی نگاہوں میں سب سے بڑے ''گنہگار''' ہیں جس وجہ سے گزشتہ پونے تین برس میں ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رکھی گئی ہے۔
لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ سمیت چند شہروں میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ یہاں سے پی ٹی آئی کم نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے ، ٹکٹ ہولڈرز کو فنڈ دینے کی یقین دہانی کروائی گئی ، کئی متنازعہ فارمولے بھی بنائے گئے لیکن ابھی تک فنڈ نہیں دیئے گئے۔ اب ان حلقوں میںٹوٹی سڑکیں، بہتا ہوا سیوریج پانی، صفائی کے ناقص انتظامات، سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی جیسے عوامی مسائل کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہو جاتی ہے جس سے حکومت اور وزیر اعظم کا امیج خراب ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اب بھی ہوش کے ناخن لیکر صورتحال سنبھال سکتی ہے ،حلقوں کی سطح پر کمیٹیاں بنا کر صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جب تک حلقہ کی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہوگا تب تک تحصیل، ٹاون یا یونین کونسل پر تنظیم سازی کے کامیاب نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میںٹکٹ ہولڈرز کو عزت اور اہمیت دینا ہو گی کیونکہ آج ان کے ساتھ منفی برتاو آنے والے الیکشن میں عمران خان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
ٹکٹ ہولڈرز کو حکومتی اور تنظیمی امور میں شامل کیا جائے ان کے حلقوں میں عوامی مسائل حل کیئے جائیں تا کہ وہ بھی کسی ووٹر کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں۔ پنجاب کی سیاست کا گڑھ لاہور ہے اور لاہور کے ٹکٹ ہولڈرز کا رونا سب سنتے ہیں ماسوائے پارٹی چیئرمین کے۔ ملک عاصم جاوید، ملک زمان نصیب، طارق سعادت، آجاسم شریف، خالد گھرکی، منصب اعوان، ملک جاوید اعوان، عبدالکریم کلہواڑ، چوہدری یوسف ،اصغر گجر سمیت دیگر ٹکٹ ہولڈرز متعدد مرتبہ پارٹی قیادت اور حکومت کو اپنے حلقوں کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کر چکے ہیں لیکن ان کی سنوائی نہیں ہو رہی۔
تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ظہیر عباس کھوکھر اور ان کے جنرل سیکرٹری اعجاز ڈیال سمیت چند با اثر رہنما تو ذاتی تعلقات کی بنیاد پر اپنے حلقے کے عوام کے کام کروانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جن کی رسائی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں ہے وہ بیچارے تو حلقہ میں نمودار ہونے کی ہمت ہی نہیں کرتے۔ حکومت کے پانچ سالہ دور میں سے تقریبا پونے تین برس گذر چکے ہیں اور جوں ہی 2022 شروع ہوگا ملکی سیاست الیکشن کے موڈ میں چلی جائے گی، اس وقت اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی رہنماوں کو متحرک کرنا ہی حکومت کیلئے سود مند ہے بصورت دیگر یہی رویہ برقرار رکھا تو بلدیاتی الیکشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا ۔
الیکشن جیتنے کے بعد سے آج تک تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز اور اہم مقامی رہنما بے یارومددگار ہیں اور ان کی اشک جوئی کرنے کو وزیر اعظم یا ان کے وفاقی و صوبائی وزراء دستیاب نہیں۔
وزراء کی تو بات ہی نرالی ہے ہر کوئی اپنی اپنی''محنت'' میں مصروف عمل ہیں کہ نجانے مستقبل میں کیا ہوگا،دیکھا جائے تو اصل خرابی یا مسئلہ ہی یہی ہے کہ تحریک انصاف کی تنظیمیں اور پارلیمنٹرین ایک پیج پر نہیں ہیں ۔
دونوں کے درمیان ایک بڑی خلیج موجود ہے اب اگر کوئی تنظیمی عہدیدار یہ کہے کہ ایسا کچھ نہیں کیونکہ اس کے ذاتی تعلقات وزراء کے ساتھ اچھے ہیں تو اس عہدیدار کا یہ انفرادی موقف ہو گا کیونکہ ایسے چند عہدیدار موجود ہیں جن کے بارے میں پارٹی کے اندر یہ افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ مبینہ طور پر وہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے حکومتی حلقوں سے ایسے کام کروا رہے ہیں جن کو کروانے کیلئے ''نذرانہ'' وصول کیا جاتا ہے۔ممکن ہے کہ ان الزاما ت میں صداقت نہ ہو یا پھر کچھ لوگوں کے بارے یہ الزامات غلط ہوں لیکن ہمارے ہاں حقیقت سے زیادہ تاثر کی اہمیت اور طاقت ہوتی ہے لہذا جن کے بارے میں یہ تاثر بن چکا ہے انہیں اپنے قول وفعل سے اس کی نفی کرنا ہو گی۔
تنظیم سازی اور دھڑے بندی کے حوالے سے پارٹی چیئرمین عمران خان گزشتہ 9 برس سے مسائل کا شکار ہیں ، مینار پاکستان جلسہ کے بعد جیسے جیسے پارٹی میں لوگ شامل ہوتے گئے اسی رفتار سے اختلافات اور دھڑے بھی بڑھتے چلے گئے ۔ جب بھی عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی کوشش کی مسائل کا سونامی بے قابو ہو گیا۔
اس وقت جو تحریک انصاف کی تنظیمیں دکھائی دیتی ہیں وہ خود بھی متنازعہ ہیں کیونکہ ان میں بیشتر ایسے لوگوں کو عہدوں سے نوازا گیا ہے جن کی پارٹی کیلئے عملی طور پر کوئی خدمت یا محنت نہیں ہے لیکن جن کے وہ ''خوشامدی'' اور''سپانسر'' تھے انہوں نے انہیں تنظیمی عہدوں سے نوازنے میں کردار نبھایا ہے ۔ تحریک انصاف کی قیادت کا مزاج غیر مستحکم رہتا ہے اسی لئے پارٹی کا ڈھانچہ بھی کئی مرتبہ تبدیل ہوا ہے۔
پہلے صوبائی سطح پر تنظیم بنائی گئی پھر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا پھر تین ریجن بنائے گئے ، پھر چار ریجن کر دیئے گئے ،ایک مرحلہ پر ویسٹ ریجن کو ختم کر کے دوبارہ تین ریجن بنائے گئے لیکن کچھ عرصہ قبل چوتھا ریجن دوبارہ بحال کر کے فیض اللہ کموکا کو اس کا ریجنل صدر بنا دیا گیا ہیْ لاہور کی مثال لیں تو اس وقت لاہور کو ضلعی سطح پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر مزید تقسیم کرتے ہوئے ٹاون کی سطح پر تنظیم سازی کی گئی ہے۔
ضلع سطح پر بات کریں تو تحریک انصاف شمالی لاہور کا صدر دیوان محی الدین کو بنایا گیا ہے جو اس وقت آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن ہیں اور ان کی اسمبلی کی مدت آئندہ چند ماہ میں اختتام پذیر ہونے والی ہے اور وہ اس وقت لاہور میں کشمیر برداری کے ووٹ بنک کو بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ دوبارہ سے آزاد جموں وکشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہو سکیں۔
پارٹی کے اندر ایک مضبوط اکثریت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ لاہور کو تنظیمی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہی بنیادی غلطی ہے لیکن چونکہ اس وقت اینٹی عبدالعلیم خان لابی نے پریشر ڈال کر عران خان سے یہ تقسیم کروا لی لہذا سب مجبور ہو گئے لیکن جس انداز میں دیوان صاحب کو صدر بنایا گیا اس پر شدید نوعیت کے اعتراضات اور تحفظات موجود ہیں ،کہا جاتا ہے کہ دیوان محی الدین کی تحریک انصاف کیلئے کوئی نمایاں یا برسوں پر محیط خدمات نہیں ہیں لیکن ایک اہم پارٹی رہنما کے ساتھ''قربت'' کے نتیجہ میں انہیں یہ عہدہ ملا ہے حالانکہ شمالی لاہور کی صدارت کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک متعدد ایسے رہنما موجود ہیں جن کی پارٹی کیلئے قربانیوں اور محنت کی طویل تاریخ ہے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کا کارکن اور ٹکٹ ہولڈر دونوں ہی مایوس ہیں، عام کارکن تو کیا کئی رہنما بھی 7 یا8 کلب میں جانے کی اجازت حاصل نہیں کر پاتے، وزراء ویسے ہی جان چھڑواتے ہیں ۔ مختلف اداروں یا اتھارٹیز میں جن کو تعینات کیا گیا ہے ان کی فہرست سامنے رکھ لیں اور پھر ہر ایک نام کی پارٹی کیلئے خدمات کا چارٹ بناتے جائیں تو واضح ہوجائے گا کہ شیخ امتیاز،زبیر نیازی، یاسر گیلانی جیسے چند ایک کو چھوڑ کر بہت سوں کا میرٹ مبینہ'' خوشامد'' اور'' سرمایہ کاری'' ہے ۔
جن لوگوں نے برسہا برس پارٹی کیلئے دن رات محنت کی، 126 دن تک ڈی چوک میں دھرنا دیا، لانگ مارچ کیا، لالک چوک میں کئی دن بیٹھے رہے، پارٹی کے جلسوں کو کامیاب بنانے کیلئے اپنے علاقوں میں ہردر پر دستک دی، ن لیگ کی مخالفت سہی، اپنے کاروبار اور نوکریاں داو پر لگائیں آج ان میں سے کتنے لوگ عہدوں پر ہیں اور کتنے دلبرداشتہ ہو کر خاموش ہو بیٹھے ہیں ، یہی معلوم کر کے تحریک انصاف کی تنظیم کی طاقت اور یکجہتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ٹکٹ ہولڈر کسی بھی پارٹی کا مرکزی سرمایہ ہوتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر شاید اپنی حکومت کی نگاہوں میں سب سے بڑے ''گنہگار''' ہیں جس وجہ سے گزشتہ پونے تین برس میں ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رکھی گئی ہے۔
لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ سمیت چند شہروں میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ یہاں سے پی ٹی آئی کم نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے ، ٹکٹ ہولڈرز کو فنڈ دینے کی یقین دہانی کروائی گئی ، کئی متنازعہ فارمولے بھی بنائے گئے لیکن ابھی تک فنڈ نہیں دیئے گئے۔ اب ان حلقوں میںٹوٹی سڑکیں، بہتا ہوا سیوریج پانی، صفائی کے ناقص انتظامات، سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی جیسے عوامی مسائل کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہو جاتی ہے جس سے حکومت اور وزیر اعظم کا امیج خراب ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اب بھی ہوش کے ناخن لیکر صورتحال سنبھال سکتی ہے ،حلقوں کی سطح پر کمیٹیاں بنا کر صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جب تک حلقہ کی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہوگا تب تک تحصیل، ٹاون یا یونین کونسل پر تنظیم سازی کے کامیاب نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میںٹکٹ ہولڈرز کو عزت اور اہمیت دینا ہو گی کیونکہ آج ان کے ساتھ منفی برتاو آنے والے الیکشن میں عمران خان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
ٹکٹ ہولڈرز کو حکومتی اور تنظیمی امور میں شامل کیا جائے ان کے حلقوں میں عوامی مسائل حل کیئے جائیں تا کہ وہ بھی کسی ووٹر کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں۔ پنجاب کی سیاست کا گڑھ لاہور ہے اور لاہور کے ٹکٹ ہولڈرز کا رونا سب سنتے ہیں ماسوائے پارٹی چیئرمین کے۔ ملک عاصم جاوید، ملک زمان نصیب، طارق سعادت، آجاسم شریف، خالد گھرکی، منصب اعوان، ملک جاوید اعوان، عبدالکریم کلہواڑ، چوہدری یوسف ،اصغر گجر سمیت دیگر ٹکٹ ہولڈرز متعدد مرتبہ پارٹی قیادت اور حکومت کو اپنے حلقوں کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کر چکے ہیں لیکن ان کی سنوائی نہیں ہو رہی۔
تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ظہیر عباس کھوکھر اور ان کے جنرل سیکرٹری اعجاز ڈیال سمیت چند با اثر رہنما تو ذاتی تعلقات کی بنیاد پر اپنے حلقے کے عوام کے کام کروانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جن کی رسائی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں ہے وہ بیچارے تو حلقہ میں نمودار ہونے کی ہمت ہی نہیں کرتے۔ حکومت کے پانچ سالہ دور میں سے تقریبا پونے تین برس گذر چکے ہیں اور جوں ہی 2022 شروع ہوگا ملکی سیاست الیکشن کے موڈ میں چلی جائے گی، اس وقت اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی رہنماوں کو متحرک کرنا ہی حکومت کیلئے سود مند ہے بصورت دیگر یہی رویہ برقرار رکھا تو بلدیاتی الیکشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا ۔