ملک و قوم کی ترقی کے لئے سیاسی افہام و تفہیم کی راہ اپنانا ضروری
سندھ حکومت کی جانب سے اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جانا خوش آئند ہے۔
کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کی جانب سے سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کا معاملہ اب میڈیا میں زیر بحث ہے۔
اس حوالے سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کے نام ایک خط سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج کمیٹی کے اجلاس میں مجھ سے سخت لہجے میں بات کی، جس پر آپکو خط لکھ کر اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ وزیراعلی نے خط میں کہا کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے اجلاس میں پارلیمانی زبان اور اچھے رویے کا برتاؤ نہیں کیا، اجلاس کے تمام شرکا کے سامنے نامناسب رویہ اختیارکیا وزیراعلی نے خط میں مزید کہا کہ اہم ترین اجلاس میں یہ رویہ روایات کے بر خلاف ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے خط کے بعد وفاقی وزیر علی زیدی بھی یہ معاملہ بھی وزیراعظم کے سامنے لے گئے۔ ان کا اپنے خط میں کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ 6 ماہ سے ان اداروں کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، کراچی کے نالے کیسے صاف کرنے ہیں، کچرا کس طرح اٹھانا ہے اس پرکمیٹی نے اجلاس کئے انہوں نے خط میں بنیادی شہری سہولیات کی عدم فراہمی کو وزیراعلی سندھ کے شرمناک روئیے اور نکمے پن سے تشبیہہ دی ہے۔
اس ضمن میں ترجمان حکومت سندھ کا کہنا تھا کہ ایک وفاقی وزیر کو ایسی بچکانہ حرکت زیب نہیں دیتی انہیں اپنے روئیے کو درست کرنا ہوگا۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج پر رابطہ کمیٹی کا اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا تھا اجلاس کے بعد وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اسد عمر پریس نے کانفرنس کی مگر اس میں کسی بدمزگی کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
وزیراعلی سندھ چاہتے تو وفاقی وزیر کے ہتک آمیز روئیے کا جواب دے سکتے تھے اور اسکا اظہار بھی کر سکتے تھے وزیراعلی سندھ نے اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا حالانکہ علی زیدی کی جانب سے بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ کراچی کی ترقی کے حوالے سے قائم اتنی اہم کمیٹی کے اجلاس میں ایک وفاقی وزیر کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا اور دوسرا یہ کہ پیپلزپارٹی کے وزراء اس بات کا بھی گلہ کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کو لکھا گیا خط باقاعدہ لیک کیا گیا ہے۔
اس سے وفاقی حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہوتاہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن عہدوں کا اپنا تقدس ہوتا ہے۔ ایک وفاقی وزیر کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ ایک ایسے اجلاس میں جس کی صدارت وزیراعلیٰ سندھ کر رہے ہیں ان کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اختیار کریں۔ سیاسی اختلافات کو اس حد تک لے جانا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے وزراء کو پابند کریں کہ وہ ان اجلاسوں میں ڈیکورم کا خیال رکھیں۔
سندھ میں ایک طویل عرصے کے بعد وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد ہوا ہے، جس میں کورکمانڈر کراچی ، ڈی جی رینجرز ،آئی جی سندھ سمیت صوبائی وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور نیشنل ایکشن پلان پر حکمت عملی پر بات چیت کی گئی۔ شرکاء نے اسٹریٹ کرائم کی صورت حال پر بھی غور کیا۔ حکام کی جانب سے اجلاس کے شرکا کو جیل اصلاحات، سیف سٹی پراجیکٹ پر بریفنگ بھی دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ کچھ گروپس پڑوسی ملک کی حمایت سے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مانیٹرنگ اور آپس میں کوآرڈینیشن سے حالات کنٹرول میں ہیں۔ ایپکس کمیٹی اجلاس میں آگاہی دی گئی کہ کچھ قوم پرست گروپس بھی استعمال ہونے کیلئے ہمیشہ سے تیار ہیں، عسکریت پسند گروہوں کے خلاف ٹارگٹیڈ آپریشن جاری ہے۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک میں دہشت گردی کے تدارک کے لیے اپیکس کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کے اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی تھی تاہم نئی حکومت آنے کے بعد یہ کمیٹیاں اپنی افادیت کھوتی جا رہی تھیں اور ان کے اجلاس بھی تسلسل کے ساتھ نہیں ہو رہے تھے۔
سندھ حکومت کی جانب سے اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جانا خوش آئند ہے۔ اس کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی وجہ سے ایک متفقہ لائحہ عمل سامنے آتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مستقبل بنیادوں پر تدارک کے لیے اپیکس کمیٹی کو فعال بنانا انتہائی ضروری ہے۔ صوبہ سندھ کی طرح دیگر صوبوں میں بھی ان کمیٹیوں کے اجلاس تسلسل کے ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ دہشت گردی صرف سندھ نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے ایک مرتبہ پھر کراچی میں ایک بھرپور عوامی اجتماع کیا ہے۔ جے یو آئی کی ''اسرائیل نامنظور ریلی'' میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ریلی سے مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنماؤںنے بھی خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمن کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کا خاتمہ ہمارے منشور اور ایمان کا حصہ ہے، پاکستان کا وفادار کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا، پاکستان کا بچہ بچہ فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مذمت ہر پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے۔ ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے مفاد میں قرار دینے کا بیانیہ قائم کیا جا رہا ہے پاکستان مسلم لیگ ن اس بیانیہ کو رد کرتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جے یو آئی بطور جماعت اپنے آپ کو ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ جماعت کے اہم رہنماؤں کی علیحدگی کے بعد یہ اس کا پہلا بڑا شو تھا اور تعداد کے لحاظ سے اسے انتہائی کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔
کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل کے لیئے وفاق اورسندھ حکومت کی کوآرڈینیشن کمیٹی پر صوبائی کوآرڈینیشن اینڈ ایمپلیمنٹیشن کے نام سے ایک اورکمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف سرکاری اداروں کے ساتھ معاملات فوری حل کرنے کی راہ ہموار کرنا اور عملی اقدامات کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک نوٹیفکیشن میں ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد کو 8 رکنی صوبائی کوآرڈینیشن اینڈ ایمپلیمنٹیشن کمیٹی کا سربراہ مقررکیا گیا ہے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے شہری اس مرتبہ پر امید ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ ٹرانسفارمیشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا تاہم اتنی زیادہ کمیٹیوں کا قیام معاملات کو الجھا سکتا ہے۔
کراچی میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کی آمد کے بعد شہریوں کو ٹریفک جام کی بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں اور شاہراہوں کی ابتر صورتحال بھی ٹریفک جام کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کا انعقاد خوش آئند ہے لیکن انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے انتظامات کرے جس سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کا مناسب حل یہ ہے کہ شہر سے باہر ایک بین الاقوامی معیاری اسٹیڈیم تعمیر کرایا جائے اور وہاں پر میچز کا انعقاد کیا جائے تاکہ شہری ٹریفک جام سمیت دیگر مسائل کا شکار نہ ہو سکیں۔
بھٹو خاندان میں ایک طویل عرصے کے بعد خوشی کی تقریب کا انعقاد ہورہا ہے۔شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی شادی کی تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے۔اس حوالے سے پورا خاندان انتہائی پرجوش نظرآتا ہے۔کورونا صورتحال کے باعث شادی کی تمام تقاریب میں محدود تعداد میں مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ تقاریب میں بھٹو ، زرداری اور چودھری یونس کے خاندان کے افراد، قریبی دوست، سابق صدر آصف علی زرداری کے دوست احباب اور پارٹی کے بعض مرکزی رہنما شریک ہوں گے۔
اس حوالے سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کے نام ایک خط سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج کمیٹی کے اجلاس میں مجھ سے سخت لہجے میں بات کی، جس پر آپکو خط لکھ کر اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ وزیراعلی نے خط میں کہا کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے اجلاس میں پارلیمانی زبان اور اچھے رویے کا برتاؤ نہیں کیا، اجلاس کے تمام شرکا کے سامنے نامناسب رویہ اختیارکیا وزیراعلی نے خط میں مزید کہا کہ اہم ترین اجلاس میں یہ رویہ روایات کے بر خلاف ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے خط کے بعد وفاقی وزیر علی زیدی بھی یہ معاملہ بھی وزیراعظم کے سامنے لے گئے۔ ان کا اپنے خط میں کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ 6 ماہ سے ان اداروں کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، کراچی کے نالے کیسے صاف کرنے ہیں، کچرا کس طرح اٹھانا ہے اس پرکمیٹی نے اجلاس کئے انہوں نے خط میں بنیادی شہری سہولیات کی عدم فراہمی کو وزیراعلی سندھ کے شرمناک روئیے اور نکمے پن سے تشبیہہ دی ہے۔
اس ضمن میں ترجمان حکومت سندھ کا کہنا تھا کہ ایک وفاقی وزیر کو ایسی بچکانہ حرکت زیب نہیں دیتی انہیں اپنے روئیے کو درست کرنا ہوگا۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پیکج پر رابطہ کمیٹی کا اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا تھا اجلاس کے بعد وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر اسد عمر پریس نے کانفرنس کی مگر اس میں کسی بدمزگی کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
وزیراعلی سندھ چاہتے تو وفاقی وزیر کے ہتک آمیز روئیے کا جواب دے سکتے تھے اور اسکا اظہار بھی کر سکتے تھے وزیراعلی سندھ نے اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا حالانکہ علی زیدی کی جانب سے بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ کراچی کی ترقی کے حوالے سے قائم اتنی اہم کمیٹی کے اجلاس میں ایک وفاقی وزیر کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا اور دوسرا یہ کہ پیپلزپارٹی کے وزراء اس بات کا بھی گلہ کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کو لکھا گیا خط باقاعدہ لیک کیا گیا ہے۔
اس سے وفاقی حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہوتاہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن عہدوں کا اپنا تقدس ہوتا ہے۔ ایک وفاقی وزیر کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ ایک ایسے اجلاس میں جس کی صدارت وزیراعلیٰ سندھ کر رہے ہیں ان کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اختیار کریں۔ سیاسی اختلافات کو اس حد تک لے جانا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے وزراء کو پابند کریں کہ وہ ان اجلاسوں میں ڈیکورم کا خیال رکھیں۔
سندھ میں ایک طویل عرصے کے بعد وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد ہوا ہے، جس میں کورکمانڈر کراچی ، ڈی جی رینجرز ،آئی جی سندھ سمیت صوبائی وزراء اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور نیشنل ایکشن پلان پر حکمت عملی پر بات چیت کی گئی۔ شرکاء نے اسٹریٹ کرائم کی صورت حال پر بھی غور کیا۔ حکام کی جانب سے اجلاس کے شرکا کو جیل اصلاحات، سیف سٹی پراجیکٹ پر بریفنگ بھی دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ کچھ گروپس پڑوسی ملک کی حمایت سے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مانیٹرنگ اور آپس میں کوآرڈینیشن سے حالات کنٹرول میں ہیں۔ ایپکس کمیٹی اجلاس میں آگاہی دی گئی کہ کچھ قوم پرست گروپس بھی استعمال ہونے کیلئے ہمیشہ سے تیار ہیں، عسکریت پسند گروہوں کے خلاف ٹارگٹیڈ آپریشن جاری ہے۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک میں دہشت گردی کے تدارک کے لیے اپیکس کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کے اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی تھی تاہم نئی حکومت آنے کے بعد یہ کمیٹیاں اپنی افادیت کھوتی جا رہی تھیں اور ان کے اجلاس بھی تسلسل کے ساتھ نہیں ہو رہے تھے۔
سندھ حکومت کی جانب سے اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جانا خوش آئند ہے۔ اس کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی وجہ سے ایک متفقہ لائحہ عمل سامنے آتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مستقبل بنیادوں پر تدارک کے لیے اپیکس کمیٹی کو فعال بنانا انتہائی ضروری ہے۔ صوبہ سندھ کی طرح دیگر صوبوں میں بھی ان کمیٹیوں کے اجلاس تسلسل کے ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ دہشت گردی صرف سندھ نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے ایک مرتبہ پھر کراچی میں ایک بھرپور عوامی اجتماع کیا ہے۔ جے یو آئی کی ''اسرائیل نامنظور ریلی'' میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ریلی سے مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنماؤںنے بھی خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمن کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کا خاتمہ ہمارے منشور اور ایمان کا حصہ ہے، پاکستان کا وفادار کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا، پاکستان کا بچہ بچہ فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مذمت ہر پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے۔ ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے مفاد میں قرار دینے کا بیانیہ قائم کیا جا رہا ہے پاکستان مسلم لیگ ن اس بیانیہ کو رد کرتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جے یو آئی بطور جماعت اپنے آپ کو ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ جماعت کے اہم رہنماؤں کی علیحدگی کے بعد یہ اس کا پہلا بڑا شو تھا اور تعداد کے لحاظ سے اسے انتہائی کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔
کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل کے لیئے وفاق اورسندھ حکومت کی کوآرڈینیشن کمیٹی پر صوبائی کوآرڈینیشن اینڈ ایمپلیمنٹیشن کے نام سے ایک اورکمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف سرکاری اداروں کے ساتھ معاملات فوری حل کرنے کی راہ ہموار کرنا اور عملی اقدامات کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک نوٹیفکیشن میں ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد کو 8 رکنی صوبائی کوآرڈینیشن اینڈ ایمپلیمنٹیشن کمیٹی کا سربراہ مقررکیا گیا ہے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے شہری اس مرتبہ پر امید ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ ٹرانسفارمیشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا تاہم اتنی زیادہ کمیٹیوں کا قیام معاملات کو الجھا سکتا ہے۔
کراچی میں جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کی آمد کے بعد شہریوں کو ٹریفک جام کی بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں اور شاہراہوں کی ابتر صورتحال بھی ٹریفک جام کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کا انعقاد خوش آئند ہے لیکن انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے انتظامات کرے جس سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کا مناسب حل یہ ہے کہ شہر سے باہر ایک بین الاقوامی معیاری اسٹیڈیم تعمیر کرایا جائے اور وہاں پر میچز کا انعقاد کیا جائے تاکہ شہری ٹریفک جام سمیت دیگر مسائل کا شکار نہ ہو سکیں۔
بھٹو خاندان میں ایک طویل عرصے کے بعد خوشی کی تقریب کا انعقاد ہورہا ہے۔شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی شادی کی تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے۔اس حوالے سے پورا خاندان انتہائی پرجوش نظرآتا ہے۔کورونا صورتحال کے باعث شادی کی تمام تقاریب میں محدود تعداد میں مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ تقاریب میں بھٹو ، زرداری اور چودھری یونس کے خاندان کے افراد، قریبی دوست، سابق صدر آصف علی زرداری کے دوست احباب اور پارٹی کے بعض مرکزی رہنما شریک ہوں گے۔