امن و امان کی خراب صورتحال اپوزیشن کی حکومت پر شدید تنقید
صوبائی حکومت کب تک عوامی مسائل اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر بات کرنے سے راہ فرار اختیار کریگی، اپوزیشن لیڈر
بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن جام حکومت کی کارکردگی کو صفر قرار دے رہی ہے۔ اور صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی ریکوزٹ کرانے کی درخواست دی، جس پر یہ خصوصی اجلاس منعقد ہوا تاہم یہ اجلاس کورم ٹوٹنے کے باعث ملتوی کر دیا گیا جس پر اپوزیشن جماعتوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ اور دیگر ارکان اسمبلی نے ایک میڈیا ٹاک کے دوران کہا کہ صوبائی حکومت کب تک عوامی مسائل اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر بات کرنے سے راہ فرار اختیار کریگی، ہم دوبارہ اجلاس بلانے کے لئے درخواست دیں گے ۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اہم مسائل پر بات کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی حکومتی وزراء اور ارکان نے کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ملتوی کرادیا۔جبکہ اپوزیشن ارکان مغرب کی نماز پڑھنے گئے اجلاس جاری تھا کہ بعض حکومتی ارکان اجلاس سے چلے گئے۔
اس سے قبل اپوزیشن کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں وزیر اعلیٰ اور ان کے بعض وزراء گوادر میں باڑ لگانے کے مسئلے پر کوئی فیصلہ کئے بغیر ایوان سے چلے گئے۔ حکومت کے اسی رویئے سے عوام کا استحصال ہو رہا ہے، ہم یہ استحصال نہیں ہونے دیں گے جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس ریکوزٹ کرایا ہے تو کورم پورا کرنے کی ذمہ داری بھی اپوزیشن کی ہے۔
حکومت عوامی مسائل کے حل سے کوئی آنکھیں نہیں چرا رہی ہے بلکہ حکومت بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے اور وزیراعلیٰ جام کمال کی سربراہی میں صوبے کی ترقی و خوشحالی کا عمل جاری و ساری ہے جوکہ اپوزیشن جماعتوں سے ہضم نہیں ہو رہا اور وہ اس ترقی و خوشحالی کے عمل پر بلا جواز تنقید برائے تنقید کرکے روایتی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔
بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کیلئے حکومتی اقدامات کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے بلوچستان میں یکساں ترقی کا عمل شروع کر رکھا ہے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لئے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے جس سے صوبے کے عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے ہمیں دیگر پیداواری شعبوں کے ساتھ ساتھ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھانے ہونگے، بلوچستان کی معیشت کو معدنیات کے شعبے کو ترقی دیکر مستحکم کیا جا سکتا ہے، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت نے دارالحکومت کوئٹہ میں گرین بس سروس شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں شہر میں دو گرین بسیں خواتین کے لئے چلائی جا رہی ہیں۔
جبکہ حکومت کوئٹہ شہر میں 8گرین بسیں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گرین بسوں کا یہ منصوبہ صوبے کے دیگر اہم شہروں میں بھی شروع کیا جائیگا۔ اسی طرح حکومت نے کراچی کوئٹہ شاہراہ پر حادثات کی روک تھام کے لئے کوچز میں جدید ٹریکنگ سسٹم کی تنصیب کا بھی اصولی فیصلہ کیا ہے جس سے کوچز و بسز کی سیفٹی سیکورٹی اور ان کو لوکیشن کے ساتھ ساتھ کوچز و بسز کی سپیڈ کو کنٹرول کرنے کی تمام معلومات حاصل ہوں گی۔
اس سسٹم کی تنصیب کا فائدہ کوچز و بسوں کے مالکان کو بھی ہوگا اور وہ براہ راست اپنی کوچز کے ڈرائیوروں اور منتظمین کی نگرانی کر سکیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنے دور حکومت میں ترقی و خوشحالی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور بعض اہم جاری ترقیاتی منصوبوں کے معائنے اور افتتاح کے لئے آج کل مختلف علاقوں کے دورے پر ہیں جن میں ان کا اپنا حلقہ انتخاب بھی شامل ہے ۔
وزیراعلیٰ جام کمال کے ہمراہ ان کے بعض وزراء اور ارکان اسمبلی بھی ہیں جبکہ دوسری جانب 26 جنوری سے بلوچستان اسمبلی کا روٹین اجلاس بھی ہوچکا ہے جس میں ایک مرتبہ پھر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومتی وزراء اور اپوزیشن ارکان رواں اجلاس میں ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لینے کی تیاریوں میں ہیں ۔ ان مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا رواں اجلاس ہنگامہ خیز ہوگا ۔
دوسری جانب حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جبکہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستوں کے لئے حکمران جماعت بی اے پی سے 70 کے قریب درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سابق وزراء اور ارکان اسمبلی کے علاوہ مارچ میں سینٹ سے ریٹائرڈ ہونے والے بی اے پی کے سینیٹرز بھی شامل ہیں جوکہ دوبارہ قسمت آزمائی کی خواہش رکھتے ہیں۔ درخواستیں دینے والوں میں بعض نئے چہرے بھی شامل ہیں تاہم حکمران جماعت بی اے پی کا ٹکٹ کس خوش قسمت کو ملتا ہے ۔
اس کا فیصلہ کرنا یقیناً پارٹی قیادت کے لئے ایک مشکل ترین اور کڑا امتحان ہوگا ۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بی اے پی کی قیادت کو آگے چل کر پارٹی کو متحد رکھنا بھی ایک مشکل کام ہوگا۔
کیونکہ پارٹی کے اندر ابھی سے سینٹ کے الیکشن کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں اور ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھی بعض سیاسی شخصیات پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کے فیصلے کی منتظر ہیں ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں جہاں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ہمراہ سینٹ کا الیکشن لڑے گی وہاں اپوزیشن جماعتیں بھی متحد ہوکر حصہ لے رہی ہیں ایسے میں امکان اس بات کا ہے کہ حکمران جماعت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اگر بہتر حکمت عملی اپنائی تو اسے بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستوں میں سے 7 نشستیں ملنے کی توقع ہے ۔
جبکہ 5 نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو مل پائیںگی ۔ حکمران جماعت بی اے پی اور اتحادیوں کو ملنے والی 7 نشستوں میں سے دو اسکی اتحادی جماعتوں اے این پی اور تحریک انصاف کے حصے میں آئیں گی اور باقی 5 نشستیں بی اے پی کے نامزد امیدواروں کے نام ہو سکتی ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں عددی اعتبار سے گو کہ مقابلہ سخت دکھائی دے رہا ہے اور حکمران جماعت بی اے پی سینٹ کے ان انتخابات میں بھرپور کامیابی کے دعوے بھی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی بلوچستان سے متحد ہوکر سینٹ کے ان انتخابات میں اچھی کارکردگی کی نوید سنا رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان سے سینٹ کی ان 12نشستوں پر عددی طور پر صوبائی حکومت کی برتری کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کی برابری کی بنیاد پر نشستیں آئیں گی۔
اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی ریکوزٹ کرانے کی درخواست دی، جس پر یہ خصوصی اجلاس منعقد ہوا تاہم یہ اجلاس کورم ٹوٹنے کے باعث ملتوی کر دیا گیا جس پر اپوزیشن جماعتوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ اور دیگر ارکان اسمبلی نے ایک میڈیا ٹاک کے دوران کہا کہ صوبائی حکومت کب تک عوامی مسائل اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر بات کرنے سے راہ فرار اختیار کریگی، ہم دوبارہ اجلاس بلانے کے لئے درخواست دیں گے ۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اہم مسائل پر بات کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی حکومتی وزراء اور ارکان نے کورم کی نشاندہی کرکے اجلاس ملتوی کرادیا۔جبکہ اپوزیشن ارکان مغرب کی نماز پڑھنے گئے اجلاس جاری تھا کہ بعض حکومتی ارکان اجلاس سے چلے گئے۔
اس سے قبل اپوزیشن کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں وزیر اعلیٰ اور ان کے بعض وزراء گوادر میں باڑ لگانے کے مسئلے پر کوئی فیصلہ کئے بغیر ایوان سے چلے گئے۔ حکومت کے اسی رویئے سے عوام کا استحصال ہو رہا ہے، ہم یہ استحصال نہیں ہونے دیں گے جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس ریکوزٹ کرایا ہے تو کورم پورا کرنے کی ذمہ داری بھی اپوزیشن کی ہے۔
حکومت عوامی مسائل کے حل سے کوئی آنکھیں نہیں چرا رہی ہے بلکہ حکومت بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے اور وزیراعلیٰ جام کمال کی سربراہی میں صوبے کی ترقی و خوشحالی کا عمل جاری و ساری ہے جوکہ اپوزیشن جماعتوں سے ہضم نہیں ہو رہا اور وہ اس ترقی و خوشحالی کے عمل پر بلا جواز تنقید برائے تنقید کرکے روایتی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔
بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کیلئے حکومتی اقدامات کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے بلوچستان میں یکساں ترقی کا عمل شروع کر رکھا ہے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لئے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے جس سے صوبے کے عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے ہمیں دیگر پیداواری شعبوں کے ساتھ ساتھ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھانے ہونگے، بلوچستان کی معیشت کو معدنیات کے شعبے کو ترقی دیکر مستحکم کیا جا سکتا ہے، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت نے دارالحکومت کوئٹہ میں گرین بس سروس شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں شہر میں دو گرین بسیں خواتین کے لئے چلائی جا رہی ہیں۔
جبکہ حکومت کوئٹہ شہر میں 8گرین بسیں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گرین بسوں کا یہ منصوبہ صوبے کے دیگر اہم شہروں میں بھی شروع کیا جائیگا۔ اسی طرح حکومت نے کراچی کوئٹہ شاہراہ پر حادثات کی روک تھام کے لئے کوچز میں جدید ٹریکنگ سسٹم کی تنصیب کا بھی اصولی فیصلہ کیا ہے جس سے کوچز و بسز کی سیفٹی سیکورٹی اور ان کو لوکیشن کے ساتھ ساتھ کوچز و بسز کی سپیڈ کو کنٹرول کرنے کی تمام معلومات حاصل ہوں گی۔
اس سسٹم کی تنصیب کا فائدہ کوچز و بسوں کے مالکان کو بھی ہوگا اور وہ براہ راست اپنی کوچز کے ڈرائیوروں اور منتظمین کی نگرانی کر سکیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنے دور حکومت میں ترقی و خوشحالی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور بعض اہم جاری ترقیاتی منصوبوں کے معائنے اور افتتاح کے لئے آج کل مختلف علاقوں کے دورے پر ہیں جن میں ان کا اپنا حلقہ انتخاب بھی شامل ہے ۔
وزیراعلیٰ جام کمال کے ہمراہ ان کے بعض وزراء اور ارکان اسمبلی بھی ہیں جبکہ دوسری جانب 26 جنوری سے بلوچستان اسمبلی کا روٹین اجلاس بھی ہوچکا ہے جس میں ایک مرتبہ پھر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومتی وزراء اور اپوزیشن ارکان رواں اجلاس میں ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لینے کی تیاریوں میں ہیں ۔ ان مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا رواں اجلاس ہنگامہ خیز ہوگا ۔
دوسری جانب حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن کے لئے پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جبکہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستوں کے لئے حکمران جماعت بی اے پی سے 70 کے قریب درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سابق وزراء اور ارکان اسمبلی کے علاوہ مارچ میں سینٹ سے ریٹائرڈ ہونے والے بی اے پی کے سینیٹرز بھی شامل ہیں جوکہ دوبارہ قسمت آزمائی کی خواہش رکھتے ہیں۔ درخواستیں دینے والوں میں بعض نئے چہرے بھی شامل ہیں تاہم حکمران جماعت بی اے پی کا ٹکٹ کس خوش قسمت کو ملتا ہے ۔
اس کا فیصلہ کرنا یقیناً پارٹی قیادت کے لئے ایک مشکل ترین اور کڑا امتحان ہوگا ۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بی اے پی کی قیادت کو آگے چل کر پارٹی کو متحد رکھنا بھی ایک مشکل کام ہوگا۔
کیونکہ پارٹی کے اندر ابھی سے سینٹ کے الیکشن کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں اور ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھی بعض سیاسی شخصیات پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کے فیصلے کی منتظر ہیں ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں جہاں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ہمراہ سینٹ کا الیکشن لڑے گی وہاں اپوزیشن جماعتیں بھی متحد ہوکر حصہ لے رہی ہیں ایسے میں امکان اس بات کا ہے کہ حکمران جماعت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اگر بہتر حکمت عملی اپنائی تو اسے بلوچستان سے سینٹ کی 12نشستوں میں سے 7 نشستیں ملنے کی توقع ہے ۔
جبکہ 5 نشستیں اپوزیشن جماعتوں کو مل پائیںگی ۔ حکمران جماعت بی اے پی اور اتحادیوں کو ملنے والی 7 نشستوں میں سے دو اسکی اتحادی جماعتوں اے این پی اور تحریک انصاف کے حصے میں آئیں گی اور باقی 5 نشستیں بی اے پی کے نامزد امیدواروں کے نام ہو سکتی ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں عددی اعتبار سے گو کہ مقابلہ سخت دکھائی دے رہا ہے اور حکمران جماعت بی اے پی سینٹ کے ان انتخابات میں بھرپور کامیابی کے دعوے بھی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی بلوچستان سے متحد ہوکر سینٹ کے ان انتخابات میں اچھی کارکردگی کی نوید سنا رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان سے سینٹ کی ان 12نشستوں پر عددی طور پر صوبائی حکومت کی برتری کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کی برابری کی بنیاد پر نشستیں آئیں گی۔