والدین کی سنگین غفلت اور عمر بھر کا پچھتاوا
انسان اپنے بچوں سے بے پناہ پیار کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان بچوں سے مجرمانہ لاپرواہی کیونکر برت لیتا ہے؟
گزشتہ چند ماہ سے ایک پاکستانی نژاد فارن نیشنل خاتون، جو میری بہت اچھی دوست بھی ہیں، ان کی سوانح حیات ''سراب نامہ'' پر کام ہورہا تھا۔ کل شام اس کی تکمیل پر میری دوست نے یہاں پاکستانی کھانوں اور تہذیب کےلیے مشہور ''ٹرک اڈا'' ریسٹورنٹ پر شاندار ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ ہم کھانا کھا ہی رہے تھے جب سامنے میز پر پڑے موبائل کی اسکرین پر واٹس ایپ میسیج کا نوٹیفکیشن آیا۔ میں شاید نظر انداز کردیتی لیکن نوٹیفکیشن میں لکھے ''امپورٹینٹ ویڈیو'' کے الفاظ نے مجھے کھانے کے دوران موبائل اٹھانے پر مجبور کردیا۔
واٹس ایپ میسیج میں میرے بھائی نے سی سی ٹی وی کیمرے سے لی گئی کوئی ویڈیو کلپ بھیجی تھی۔ ویڈیو میں کسی گھر کے گیراج میں پڑے ایک ڈرم کو تین یا چار سالہ بچہ دھکیل کر کبھی گیٹ کے پاس لے جاتا اور پھر وہاں سے دوبارہ واپس دوسری جانب لے آتا۔ چند لمحوں بعد اس نے ڈرم کو گیٹ کے ساتھ ٹِکا دیا اور اس کے اوپر چڑھ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے افسوس کے ساتھ سوچا ابھی بچہ گرے گا، لیکن بچے نے جو کیا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
بچے نے ڈرم پر چڑھ کر گیٹ کے اوپر لٹک رہی رسی، جو نہ جانے وہاں کس مقصد کےلیے باندھی گئی تھی، کو اپنی گردن کے گرد لپیٹنا شروع کردیا۔ بچہ رسی کو اپنی گردن کے گرد لپیٹ کر جھولا جھولنے کے سے انداز میں حرکت کرنے لگا۔ اس سے اگلا لمحہ نہایت خوفناک اور تکلیف دہ تھا۔ پلاسٹک کا بڑا ڈرم بچے کے پاؤں کے نیچے سے کھسک گیا اور فرش سے صرف آدھا پون فٹ اوپر بچہ گیٹ کے ساتھ گردن میں لپٹی رسی کی وجہ سے تڑپنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر نوالہ میرے حلق میں پھنس گیا۔ میرا جی چاہا کہ کاش میں کسی طرح چیخ کر کسی کو اس بچے کی مدد کےلیے پکاروں۔ بچہ تڑپنے کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار مار کر اپنی مدد کےلیے بڑوں کو بلانے کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے اسکرین سے نظریں ہٹالیں۔ ویڈیو میں کچھ منٹ بعد اس بچے سے ایک یا دو سال بڑی لڑکی (جو شاید اس کی بہن ہوگی) نظر آئی۔ تب تک بچے کی حرکت مدھم پڑچکی تھی۔
بچی نے تڑپتے ہوئے بھائی کو دیکھا تو ٹانگوں سے پکڑ کر اوپر کرنے کی کوشش کی، ساتھ ساتھ چیخ کر ماں باپ کو آواز دی۔ اگلے ایک دو منٹ میں ان کی ماں بھی دوڑتے ہوئے آ پہنچی۔ اس نے بچے کو پھندے سے آزاد کرایا۔ میرا دل بری طرح ڈوب گیا کہ شاید وہ بچہ اب تک... لیکن جس وقت اس کی ماں اسے بازوؤں میں اٹھا کر لے جارہی تھی، میں نے بچے کے ہاتھوں میں حرکت دیکھی تو خدا کا شکر ادا کیا کہ بچہ بچ گیا تھا۔ میرے سامنے رکھا کھانا تو کب کا بے ذائقہ ہوچکا تھا، اس کے بعد بھی رات بھر میری نظروں کے سامنے اس بچے کے پاؤں کے نیچے سے ڈرم کھسکنے کے بعد اس کا تڑپنا ہی گھومتا رہا، مجھے نیند نہیں آئی۔ میں نے مختلف سوچوں میں اپنے دل و دماغ کو لگانا چاہا، لیکن نہیں لگ سکا۔
یقیناً جتنا غصہ اس بچے کے لاپروا ماں باپ پر مجھے آرہا تھا، آپ کو بھی آرہا ہوگا۔ لیکن کیا یہ سب لاپرواہی ہم جانے انجانے میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں برتتے؟ ذرا سوچیے۔
کبھی پتہ چلتا ہے ماں موبائل میں مصروف تھی گرم دودھ کا پتیلا بچے پر الٹ گیا۔ کبھی سنتے ہیں بچہ باتھ روم میں گیا، دروازہ لاک ہوگیا وہ کھول نہیں سکا۔ کبھی گاڑی یا خاص کر موٹر سائیکل پر باپ، چاچو یا ماموں نے حفاظتی بند باندھے بغیر بٹھا لیا اور پھر کبھی بچہ گرگیا تو کبھی اس کا پاؤں موٹرسائیکل کے پہیے میں آگیا۔ خود نیل کٹر سے ناخن کاٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بچے نے اپنی انگلیاں زخمی کرلیں۔ کبھی صابن شیمپو نگل لیا تو کبھی پرفیوم آنکھوں میں چھڑک دیا۔ اوہ خدا!
یہ وہ تمام باتیں ہیں جو میں نے کئی مرتبہ اپنے اردگرد دیکھی اور سنی ہیں، جو اکثر گھروں میں ہوتی رہتی ہیں۔ کیا یہ ننھے پھول اتنے فالتو اور غیر ضروری ہیں کہ مائیں موبائل میں مصروف اور باپ ٹی وی میں ڈوبے ہوتے ہیں اور یہ بچے پتا نہیں کہاں کہاں گرتے پڑ رہے ہوتے ہیں۔ اکثر مائیں کچن میں کام کرتے ہوئے بچوں کا دھیان بٹانے کےلیے یوٹیوب کھولنے کے بعد کوئی کارٹون یا گانا لگا کر موبائل بچے کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں۔ بس پھر بعض اوقات بچہ ویڈیو دیکھتا دیکھتا پتہ نہیں کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔
میں نے اکثر سنا اور دیکھا بھی ہے کہ ماں باپ کمسن بچوں کے سامنے گالم گلوچ کرتے ہیں، بلند آواز میں بولتے ہیں، جھگڑا کرتے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ کمسن بچے کے سامنے ایک مرتبہ چِلا کر بولنے سے اس کے دماغ کے تخلیقی خلیے 90 دن کےلیے مردہ ہوجاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے وہی بولنے اور وہی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔
ہم ان بچوں کے کچے ذہنوں پر کیا پرنٹ کررہے ہیں؟ انہیں کیا سکھا رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا؟ ہمارے بچے کیبل ٹی وی، موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر کیا دیکھ رہے ہیں، ہم نے کبھی فکر کی؟
انسان دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ پیار اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہے، لیکن اتنے پیار کے باوجود ان بچوں سے مجرمانہ لاپرواہی کیونکر برت لیتا ہے؟ بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بچے جل جاتے ہیں، ڈوب جاتے ہیں، زخمی ہوجاتے ہیں اور تب ہمیں احساس ہوتا ہے۔
خدارا! اگر آپ کو قدرت نے ان پھولوں سے نوازا ہے تو ان کی اچھی طرح حفاظت کرنا سیکھیے۔ اپنے رویے اور لاپرواہیوں کا جائزہ لیجئے اور خود کو اس معاملے میں سدھاریے۔ ورنہ پھر ''جسٹس فار زینب'' جیسے ٹرینڈز بنتے ہیں اور ہم سوائے رونے کے کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ اللہ ہم سب کے بچوں کی حفاظت فرمائے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
واٹس ایپ میسیج میں میرے بھائی نے سی سی ٹی وی کیمرے سے لی گئی کوئی ویڈیو کلپ بھیجی تھی۔ ویڈیو میں کسی گھر کے گیراج میں پڑے ایک ڈرم کو تین یا چار سالہ بچہ دھکیل کر کبھی گیٹ کے پاس لے جاتا اور پھر وہاں سے دوبارہ واپس دوسری جانب لے آتا۔ چند لمحوں بعد اس نے ڈرم کو گیٹ کے ساتھ ٹِکا دیا اور اس کے اوپر چڑھ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے افسوس کے ساتھ سوچا ابھی بچہ گرے گا، لیکن بچے نے جو کیا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
بچے نے ڈرم پر چڑھ کر گیٹ کے اوپر لٹک رہی رسی، جو نہ جانے وہاں کس مقصد کےلیے باندھی گئی تھی، کو اپنی گردن کے گرد لپیٹنا شروع کردیا۔ بچہ رسی کو اپنی گردن کے گرد لپیٹ کر جھولا جھولنے کے سے انداز میں حرکت کرنے لگا۔ اس سے اگلا لمحہ نہایت خوفناک اور تکلیف دہ تھا۔ پلاسٹک کا بڑا ڈرم بچے کے پاؤں کے نیچے سے کھسک گیا اور فرش سے صرف آدھا پون فٹ اوپر بچہ گیٹ کے ساتھ گردن میں لپٹی رسی کی وجہ سے تڑپنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر نوالہ میرے حلق میں پھنس گیا۔ میرا جی چاہا کہ کاش میں کسی طرح چیخ کر کسی کو اس بچے کی مدد کےلیے پکاروں۔ بچہ تڑپنے کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار مار کر اپنی مدد کےلیے بڑوں کو بلانے کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے اسکرین سے نظریں ہٹالیں۔ ویڈیو میں کچھ منٹ بعد اس بچے سے ایک یا دو سال بڑی لڑکی (جو شاید اس کی بہن ہوگی) نظر آئی۔ تب تک بچے کی حرکت مدھم پڑچکی تھی۔
بچی نے تڑپتے ہوئے بھائی کو دیکھا تو ٹانگوں سے پکڑ کر اوپر کرنے کی کوشش کی، ساتھ ساتھ چیخ کر ماں باپ کو آواز دی۔ اگلے ایک دو منٹ میں ان کی ماں بھی دوڑتے ہوئے آ پہنچی۔ اس نے بچے کو پھندے سے آزاد کرایا۔ میرا دل بری طرح ڈوب گیا کہ شاید وہ بچہ اب تک... لیکن جس وقت اس کی ماں اسے بازوؤں میں اٹھا کر لے جارہی تھی، میں نے بچے کے ہاتھوں میں حرکت دیکھی تو خدا کا شکر ادا کیا کہ بچہ بچ گیا تھا۔ میرے سامنے رکھا کھانا تو کب کا بے ذائقہ ہوچکا تھا، اس کے بعد بھی رات بھر میری نظروں کے سامنے اس بچے کے پاؤں کے نیچے سے ڈرم کھسکنے کے بعد اس کا تڑپنا ہی گھومتا رہا، مجھے نیند نہیں آئی۔ میں نے مختلف سوچوں میں اپنے دل و دماغ کو لگانا چاہا، لیکن نہیں لگ سکا۔
یقیناً جتنا غصہ اس بچے کے لاپروا ماں باپ پر مجھے آرہا تھا، آپ کو بھی آرہا ہوگا۔ لیکن کیا یہ سب لاپرواہی ہم جانے انجانے میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں برتتے؟ ذرا سوچیے۔
کبھی پتہ چلتا ہے ماں موبائل میں مصروف تھی گرم دودھ کا پتیلا بچے پر الٹ گیا۔ کبھی سنتے ہیں بچہ باتھ روم میں گیا، دروازہ لاک ہوگیا وہ کھول نہیں سکا۔ کبھی گاڑی یا خاص کر موٹر سائیکل پر باپ، چاچو یا ماموں نے حفاظتی بند باندھے بغیر بٹھا لیا اور پھر کبھی بچہ گرگیا تو کبھی اس کا پاؤں موٹرسائیکل کے پہیے میں آگیا۔ خود نیل کٹر سے ناخن کاٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بچے نے اپنی انگلیاں زخمی کرلیں۔ کبھی صابن شیمپو نگل لیا تو کبھی پرفیوم آنکھوں میں چھڑک دیا۔ اوہ خدا!
یہ وہ تمام باتیں ہیں جو میں نے کئی مرتبہ اپنے اردگرد دیکھی اور سنی ہیں، جو اکثر گھروں میں ہوتی رہتی ہیں۔ کیا یہ ننھے پھول اتنے فالتو اور غیر ضروری ہیں کہ مائیں موبائل میں مصروف اور باپ ٹی وی میں ڈوبے ہوتے ہیں اور یہ بچے پتا نہیں کہاں کہاں گرتے پڑ رہے ہوتے ہیں۔ اکثر مائیں کچن میں کام کرتے ہوئے بچوں کا دھیان بٹانے کےلیے یوٹیوب کھولنے کے بعد کوئی کارٹون یا گانا لگا کر موبائل بچے کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں۔ بس پھر بعض اوقات بچہ ویڈیو دیکھتا دیکھتا پتہ نہیں کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔
میں نے اکثر سنا اور دیکھا بھی ہے کہ ماں باپ کمسن بچوں کے سامنے گالم گلوچ کرتے ہیں، بلند آواز میں بولتے ہیں، جھگڑا کرتے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ کمسن بچے کے سامنے ایک مرتبہ چِلا کر بولنے سے اس کے دماغ کے تخلیقی خلیے 90 دن کےلیے مردہ ہوجاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے وہی بولنے اور وہی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔
ہم ان بچوں کے کچے ذہنوں پر کیا پرنٹ کررہے ہیں؟ انہیں کیا سکھا رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا؟ ہمارے بچے کیبل ٹی وی، موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر کیا دیکھ رہے ہیں، ہم نے کبھی فکر کی؟
انسان دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ پیار اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہے، لیکن اتنے پیار کے باوجود ان بچوں سے مجرمانہ لاپرواہی کیونکر برت لیتا ہے؟ بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بچے جل جاتے ہیں، ڈوب جاتے ہیں، زخمی ہوجاتے ہیں اور تب ہمیں احساس ہوتا ہے۔
خدارا! اگر آپ کو قدرت نے ان پھولوں سے نوازا ہے تو ان کی اچھی طرح حفاظت کرنا سیکھیے۔ اپنے رویے اور لاپرواہیوں کا جائزہ لیجئے اور خود کو اس معاملے میں سدھاریے۔ ورنہ پھر ''جسٹس فار زینب'' جیسے ٹرینڈز بنتے ہیں اور ہم سوائے رونے کے کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ اللہ ہم سب کے بچوں کی حفاظت فرمائے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔