مشرق وسطیٰ 2020 کے تناظر میں
مشرق وسطیٰ میں اب نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن کی کیا حکمت عملی ہوگی
مشرق وسطیٰ میں اب نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)
مشرق وسطیٰ میں ''عرب اسپرنگ'' کے نام سے آمرانہ نظام کے خلاف عوام کا ایک جم غفیر نکل آیا، جس نے جلد ہی انقلاف کی شکل اختیار کرلی۔ یہ تحریک نومبر 2010 میں تیونس سے شروع ہو کر یمن تک پھیل گئی۔ یہ انسانی حقوق کی ایسی جدوجہد تھی، جس میں عوام سڑکوں پر آئین و منتخب مقننہ کی بالادستی اور جمہوریت کی حکمرانی کے لیے نکل آئے۔ اب 2020 کا اختتام ہوچکا ہے اور دس سال بعد جب اس تحریک کی کامیابی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں مشرق وسطیٰ کا کوئی بھی معاشرہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ سوائے تیونس کے، جس نے جمہوری اصولوں پر اپنا نظام تشکیل دیا۔ باقی ممالک میں اسی طرح بدترین آمریت قائم ہے۔
مصر میں ابتدا میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ وہاں خلیج کے کچھ ممالک نے مصری فوج کی مدد سے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس خطے کے دوسرے ممالک ( یمن، شام اور لیبیا) میں ایک دہائی بعد بھی خانہ جنگی جاری ہے۔ شام میں تو حالات کچھ قابو میں آچکے ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہاں افراتفری ابھی بھی موجود ہے، انفرااسٹرکچر بری طرح سے متاثر ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی جاری ہیں۔ البتہ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے، تو اس کی شدت میں کمی ضرور آئی ہے۔
اسی طرح اگر یمن کو دیکھا جائے تو وہاں 2020 میں حالات بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے چلے گئے۔ کیونکہ وہاں پہلے سے متحرک فریقین میں مزید اور فریق شامل ہوگئے۔ مثال کے طور پر، شمال میں حوثیوں کا قبضہ ہے لیکن جنوب میں عرب امارات اور سعودی عرب کے حمایت شدہ گروہوں کے مابین شدید اختلاف پیدا ہوگئے۔ ان کے درمیان پہلے تصادم ہوا، پھر اتحادی حکومت بنی، جو زیادہ دیر نہ چل سکی۔ ابھی چند ہفتے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان سعودی دباؤ کی وجہ سے ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ جس کا مطلب ہے کہ خطہ غیر مستحکم ہوچکا ہے۔
اب باقی خلیجی ممالک کی طرف اگر آئیں تو بہت عرصے سے سعودی عرب اور امارات نے قطر کی ناکام ناکہ بندی کیے رکھی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیونکہ قطر نے ترکی سے تجارت کو بڑھایا اور ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کیے۔ اب خلیجی تعاون کی تنظیم کے پلیٹ فام پر بات کی جارہی ہے کہ سعودی عرب اور امارات اپنے اس ناجائز اقدام سے باز رہیں۔ 2020 میں صدر ٹرمپ نے ایک معاہدہ جو ''ابراہم امن معاہدہ'' کے نام سے جانا جاتا ہے، کروایا۔ جس میں اسرائیل، بحرین اور عرب امارات شامل ہوئے، لیکن بعد میں مراکش بھی اس کا حصہ ہوگیا۔
مشرق وسطیٰ کی سیاسی بساط کو سمجھنے کےلیے دو شہزادوں، محمد بن سلیمان (سعودیہ عرب) اور محمد بن زید (اماراتی) کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ دونوں خطے میں اپنی فوجی حیثیت سے بڑھ کر پرجوش نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے دوسرے ممالک کی جانب شدت پسند روش رکھتے ہیں۔ متحدہ امارات کی اگر آبادی کو ہی دیکھا جائے تو یہ8.5 ملین آبادی کا ملک ہے۔ جس میں سے صرف 1.5 ملین شہری ہیں، جبکہ باقی آبادی غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کی بھی اسی طرح کم آبادی ہے اور دونوں ممالک میں دفاعی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے وہ دوسرے ممالک خاص طور پر امریکا پر اپنے تحفظ کےلیے مکمل انحصار کرتے ہیں۔ اگر ان دونوں کی خطے میں، دوسرے ممالک کے اندرونی معملات میں مداخلت دیکھی جائے، تو اس قسم کی کاروائیاں کافی وسعت اختیار کرچکی ہیں۔ جیسا کہ ایران اور ترکی کے خلاف سعودی عرب و امارات کی جارحیت ختم ہونے کو نہیں آرہی۔
مشرق وسطیٰ میں اب نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن کی کیا حکمت عملی ہوگی۔ اگر صرف 2020 کو ہی دیکھا جائے تو امریکا، اسرائیل، سعودی عرب، امارات اور بحرین ہمیں ایک طرف نظر آتے ہیں، جبکہ دوسری طرف خطے کے بڑے غیر عربی ممالک، جیسے ترکی، ایران اور پاکستان دکھائی دے رہے ہیں۔ جن کے ساتھ چین بھی شامل ہوسکتا ہے۔ جیسے چین اور ایران کے مابین 25 سالہ معاہدہ۔
امریکا کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ شاید وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرے اور ٹرمپ کی شدت پسند روش سے اجتناب برتے۔ سعودی عرب اور امارات نے ابھی سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر جوہری معاہدہ بحال ہوتا ہے تو ہمیں بھی اس میں شامل کیا جائے، جس سے ان کے رویے میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اب لگ یہ رہا ہے کہ سعودی عرب اور امارات اپنے تحفظ کا راستہ خطے کے اندر سے تلاش کرنے لگیں گے۔ کیونکہ امریکا کی حکمت عملی بائیڈن کی سرپرستی میں ٹرمپ سے قدرے برعکس نظر آرہی ہے۔ اگر یہ سوچ پختہ ہوجاتی ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ2021 میں مشرق وسطیٰ استحکام کی طرف گامزن ہوگا۔
البتہ اسرائیل کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے جن بھی ممالک نے معاہدہ کیا ہے، وہاں آمریت کا راج ہے۔ عوام کی مرضی تو کسی بھی معاملے میں نہیں پوچھی گئی اور نہ شامل کی گئی ہے۔ ان معاہدوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس کو اپنے اقتدار کےلیے تحفظ کا باعث سمجھتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آپس میں معاہدات کے ذریعے ایک دوسرے کی حفاظت یقینی بنانی چاہیے۔ اس سے بھی حیران کن بات تو یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں فلسطین کا کہیں ذکر نہیں۔ جبکہ فلسطین کو نظر انداز کرکے خطے کا استحکام ممکن نہیں۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، تب تک اس قسم کے معاہدوں سے کوئی ٹھوس مقصد کسی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔