بھارتی سیاسی انشا پردازوں کا اصل علاج
بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد بھی بھارتی سیاسی ہتھکنڈوں سے اس قدر متنفر ہوئیں کہ انھوں نے چین کی طرف ہاتھ بڑھا دیا
بھارت میں جب سے مذہبی اور نسلی انتہا پسندوں کی حکومت عرفِ عام میں جسے گوڈسے کے انتہا پسندوں کی حکومت کہا جائے برقرار ہے۔ اس نے اپنے اردگرد کے تمام ہمسایہ ممالک کو تنگ کررکھا ہے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد بھی بھارتی سیاسی ہتھکنڈوں سے اس قدر متنفر ہوئیں کہ انھوں نے چین کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
لہٰذا بھارت کا یہ خواب کہ وہ ایشیائی ملکوں کا آقا بن جائے گا چکنا چورکردیا۔ میاں مودی یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک بڑی خلیج واقع ہے تو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کی حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے، مگر حسینہ واجد نے اپنے پرچم کا انگوٹھا ان کے منہ پر دے مارا۔ بھارت کے اردگرد کے ممالک بھوٹان، میانمار اور سری لنکا سب ہی بھارت کے پھیلاؤ کی پالیسی سے آشنا تھے۔ انھوں نے سیاسی طور پر چین اور بھارت کی سرحدی کشمکش میں بھارت کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
بھارت کی خارجہ پالیسی کا بنیادی عنصر اپنے چھوٹے پڑوسی ملکوں سے بالادستی کا ہے۔ اسی لیے ''سارک'' کی تنظیم نے وسعت نہ پکڑی بلکہ جیساکہ ابتدا میں طے ہوا تھا کہ ایشیا کے جنوبی حصے کے لوگ سارک تنظیم سے ناتا جوڑکر تجارتی اور ثقافتی روابط بڑھائیں گے، وہ ممکن نہ ہو سکا۔ جیساکہ کانگریس پارٹی من موہن سنگھ کی قیادت میں سارک کو مغربی ممالک کے طرز پر لے جانے کی کوشش کر رہی تھی اور انھی کی حکمت عملی نے بھارت کی معاشی حیثیت کو مضبوط ترکردیا، مگر مسٹر مودی نے مذہبی فسادات کو اپنی سیاسی ترقی کا نمونہ بنا کر بھارت پر حکومت کرنے کا فلسفہ تیارکیا اور بھارتی آزادی کے ہیرو مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کی پالیسی کو جو مسلمان دشمن تھی اسے فروغ دینا شروع کیا اور آخرکار اسی پالیسی کے فروغ دینے میں گجرات کے بعض بڑے سرمایہ داروں نے ایک چائے والے کو جو اسٹیشنوں پر ریڑھی لگاتا تھا اسے چن کر گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانے کی ٹھان لی اور اس مشن میں گجراتی سرمایہ داروں کا ایک گروہ مودی کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ مودی کا فلسفہ ترقی یہ تھا کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کی آمد بابر و اکبر اور جہانگیر تک کی تحقیر کریں گے اور ان نشانات کو اہداف بنائیں گے جو ہندو مسلم فساد کی جڑ بن سکتے ہوں۔
مسٹر مودی کو محض پاکستان سے دشمنی نہیں بلکہ تاریخ کے ان حکمرانوں سے بھی نفرت ہے جنھوں نے بھارت کو تاج محل جیسے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ ان کا بس چلے تو تاریخ کے صفحات سے ان مسلمان بادشاہوں کے نام و نشان مٹا دیں جنھوں نے بھارت پر حکومت کی ہے اور علاقوں کے نام رکھے ہیں۔ وہ الٰہ آباد کے نام تک کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ الٰہ آباد شہر میں علامہ اقبال نے ایک تاریخی خطبہ دیا تھا، جو تاریخ کے صفحات پر روشن نگینوں سے جڑا ہوا ہے اور یہی وہ خطبہ ہے جو مباحثوں کی گھڑی میں روشن اور پائیدار ہے۔ جس میں مسلمانوں کے تشخص کو نمایاں کیا گیا ہے، لیکن کسی بدنظمی کے طور پر نہیں اور نہ ہی ہندو مسلم فساد کی بنیاد بنا کر کیونکہ علامہ کا فلسفہ تو یہ ہے کہ مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔
تفریق وتنسیخ ان کی روایت میں نہیں ہے، لیکن جب تنگ نظر مذہبی لیڈر علامہ کو دیکھتے ہیں تو ان میں فساد کی بو پھیل جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے تقسیم ہند کے وقت یہ بدنما چہرے تاریخ کے صفحات پر موجود تھے ورنہ الٰہ آباد جیسے شہر میں جہاں ہندو اکثریت ہے، علامہ برملا نمایاں نہ ہو پاتے۔ ہندو مسلم رواداری کا دور تو محمد علی جوہر کے زمانے میں بھی نمایاں تھا یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے بھی خلافت تحریک کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہی وہ ہندو مسلم رواداری کا سیاسی آئینہ تھا جس میں دونوں مذاہب کے لیڈر اپنی شکلیں باآسانی دیکھ سکتے تھے۔
یہاں تک کہ جب تقسیم ہند کا دور آیا اور نقشہ ہند پر تقسیم کے قلم چلے تب بھی گاندھی نہرو محمد علی جناح کے اوپر کوئی زبانی کلامی حملہ نہ کرسکے بلکہ رواداری کا دور چلتا رہا۔ گوکہ یہ الگ بات ہے کہ تقسیم کے وقت شر پسندوں نے لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، مگرکسی لیڈر نے قتل و غارت گری کی تائید نہ کی۔ افسوس کہ سو سال بعد ایسے لوگ بھارت میں برسر اقتدار آگئے جو یہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے تمام مسلمان پاکستان ہجرت کر جائیں۔ ظاہر ہے ایسی حماقت پر جس کا اثر تیس کروڑ مسلمانوں پر پڑتا ہو ہند کا ایک اور انگ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن مسٹر مودی یہ چاہتے ہیں کہ بھارت سے اتنی بڑی اقلیت کسی طرح کم ہو جائے تو انھوں نے ملک میں شہریت کا ایک نیا بل نافذ کردیا۔
تنسیخ بل کی تحریک ابھی زور و شور سے جاری تھی جس میں ہندو اور مسلم مرد و زن یکساں شریک تھے، بلکہ امرتسر سے دوپہر کے کھانے شاہین باغ کی ان خواتین کے لیے آنے لگے، جنھوں نے دلی میں اپنے گھروں سے باہر کبھی قدم نہ نکالا تھا، لیکن کورونا کی آڑ میں مودی نے اس تحریک کو گھر بٹھا دیا۔ ابھی سال بھر بھی نہ گزرا تھا کہ مسلم حقوق کی تحریک تو وقتی طور پر خاموش ہوگئی، مگر بھارت کی کسان تحریک نے ہندو انتہا پسندوں کو ایک زلزلہ پیما جھٹکا دیا۔ جس کی پیمائش 8 درجے سے کم نہ ہوگی اور مودی حکومت اس جھٹکے کے اثر سے کمزور ہونے لگی، لیکن اس دوران اس نے چین سے جھٹکا کھانے کے بعد تو مسٹر پیوٹن کی ثالثی میں معاہدہ کرلیا مگر پاکستان کی سرحدوں پر آئے دن مارٹر گولا باری اور چند دن چھوڑ کر ہلاکت آمیز گولا باری پاکستان کی سرحد پر کی جا رہی ہے، جس سے گاؤں کے لوگوں کی زندگی کو پرخطر حالات کا سامنا ہے۔
گوکہ پاکستان کی طرف سے اس کا جواب دیا جاتا رہا ہے اور معاملات وقتی طور پر درست ہو جاتے ہیں لیکن آئے دن کی یہ جھڑپ دراصل بھارت کی اس خواہش کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سے چھوٹی موٹی ہاتھا پائی کرلی جائے مگر اس کی یہ خواہش بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے گی، کیونکہ وہ خود کسان تحریک میں بری طرح پھنس چکا ہے۔
جس کے نتیجے میں اس کی شرح نمو جو چھ اور سات فیصد پر تھی وہ تین اور چار اعشاریہ پر پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ دلی کی سرحدوں کا گھیراؤ ہو چکا ہے۔ سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کسان اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ اب لہٰذا اس تحریک کو جانا تو نہیں ہے، دوم کورونا کی ویکسین بھی آگئی ہے۔ لہٰذا چند ماہ میں شروع ہو جائے گی اور موسم بھی بدل جائے گا۔ مسلم نواز ہندوؤں کی تحریک جس میں شہریت کا بل ہدف ہے، نئے گل کھلانے کو ہے۔
اس مرتبہ بھارت کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہوگا۔ ایک طرف کسان بل دوسری طرف شہریت کا بل۔ اس میں مودی حکومت پس کے رہ جائے گی، لیکن یہ پاکستان کی طرف سے جوابی گولا باری اور بین الاقوامی طور پر بھارت کو رسوا کرنے کا کوئی کارنامہ نہ ہوگا۔
بھارت کی نسل پرست اور مسلم دشمن تحریک کو دنیا میں نمایاں کرنے کے لیے ایک نئی تجویز زیر غور ہے، اگر پاکستانی وزارت خارجہ اس پر غور وخوض کرے اور عملدرآمد کرنے کی ٹھان لے تو بھارت ان دو دباؤں کے تحت وقتی طور پر تو آجائے گا لیکن اس کی صحیح گوشمالی نہ ہوگی۔ بات تو یہ ہے کہ بھارت گھٹنے ٹیکے بغیرکسی جنگ و جدل کے تو یہی پاکستان کی کامیابی ہے کہ بھارت پوری دنیا میں ایک ایسے ملک کے طور پر مشہور ہو جائے جو کٹرپنتھی مذہبی کہلائے۔ اگر آپ خبروں کو سرسری طور پر بھی دیکھتے ہوں تو آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ بھارت اور کینیڈا کے تعلقات نارمل نہیں ہیں۔ بظاہر تو نارمل ہیں لیکن سفارتی طور پر اس میں کھنچاؤ موجود ہے۔ کینیڈا کی طرف سے بھارت کی پالیسیوں پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جس کا مسٹر مودی نے منفی جواب دیا ہے۔
دراصل بھارت کی متعصبانہ پالیسی کا پردہ چاک کرنے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ اس کا اصل منبع کینیڈا کی ایک سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن ہے جو کینڈا کے عوام میں کافی مقبول اور اپنے ملک میں جگہ جگہ عوامی پروگرام کرتی ہے۔ اس آرگنائزیشن کا نام ''ہمالین سینیئرز آف کیوبک'' ہے جس میں پچاس سال سے زائد عمرکے دانشور، عہدیدار اور پالیسی ساز ہیں۔ مسٹر نظام الدین اس کے روح رواں ہیں، جو مرحوم ڈاکٹر شیر افضل ملک اور معراج محمد خان کے ساتھیوں میں سے ہیں۔
یہ تنظیم بھارت اور پاکستان کے قومی دن کی تقریبات بھی مناتی ہے اور تنظیم میں نئے آنے والوں کی سیاسی اور سماجی طور پر مکمل طور سے درس و تربیت بھی کرتے ہیں۔ یہ تنظیم ہمالیہ کے دامن میں رہنے والے تمام باشندوں کو میل جول کی دعوت دیتی ہے، لیکن کینیڈا چونکہ سیاسی طور پر ایکٹیو نہیں ہے اس لیے اس کے منفی پروگرام کو دنیا میں اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے۔
اگر ایسا پروگرام امریکا یا برطانیہ میں ہوتا تو پھر اس کی پبلسٹی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا حکومت پاکستان سے میری التجا ہے کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ایسی تنظیم کی داغ بیل ڈالے جن میں بھارت پاکستان اور دیگر چھوٹے ممالک کے باشندے مل جل کر ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدوجہد کریں۔ امریکا میں ڈاکٹروں کی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جن میں ہندوستان اور پاکستان کے ڈاکٹر حضرات یکجا ہو کر عوام کی بھلائی کے کام کرتے ہیں۔ اس طرح جب امریکا سے بھارت کی گوڈسے پرستی اور مذہبی جنون نمایاں کیا جائے گا تو بھارت کو اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔