کمیون تحریک اور صحافت کے دولاہوری
رؤف ملک کے بڑے بھائی عبداللہ ملک ہمیشہ پارٹی نظریات کی دانش کے امین رہے
مرے دیس پاکستان کے عوام کی سیاسی وجمہوری آزادی کے ساتھ اظہارکی آزادی قائم رکھنے میں ایسے ایسے تاریخی کردار ہیں، جنھوں نے کمیونسٹ نظریے کے عوامی بھلائی والے فلسفے کو عملی شکل دینے میں اپنی زندگیاں تلف کر دیں، قید ہوئے جیلیں کاٹیں روپوشی کا عذاب سہا مگرکمیونسٹ عوامی نظریے کے غیرطبقاتی کردارکے شعور کو پھیلانے میں بھوک و پیاس سے بے پرواہ اپنی توانائی کا آخری قطرہ بھی دینے سے گریز نہ کیا، یہ وہ مہان افراد تھے جنھوں نے اس سماج کو آمرانہ جبر کے شکنجے سے بچانے میں اپنی سماجی زندگی پس و پشت ڈال کر کمیونسٹ نظریئے کی بقا و سلامتی کے لیے عوامی جمہوری رائے اور انقلاب کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
یوں تو برٹش ایمپائرکے منٹگمری لائلپور اور بعد کے فیصل آباد کی زرخیز نظریاتی مٹی میں کمیونسٹ نظریے کی بقا میں عاصم جمال، عزیز احمد اور قمر مسعود ایسے سچار موجود ہیں اور رہے کہ جن کی جدوجہد اور کام پر الگ دبستان کھولے جا سکتے ہیں، مگر مجھے فیصل آباد کا ذکر کرنے کی اس لیے ضرورت پڑی کہ معروف کمیونسٹ اور صحافی عبد اللہ ملک کے فرزند اور ایف سی کالج میں درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر کوثر نے اپنے بابا کی جدوجہد کا ایک حصہ فیصل آباد سے جوڑا۔ ہمارے محبی صحافی اور نشریاتی ادارے سے وابستہ عامر ریاض کے بقول لاہور کے محلے چابک رسیاں سے تعلق رکھنے والے یہ دو بہادر بھائی خود کو لاہور کے کمیونسٹ نظریاتی تحریک اور سیاست و صحافت سے آج تک جدا نہ کرسکے،بلکہ لاہورکی سماجی حیثیت میں خود کو رچا بسا لیا۔
آج میرا موضوع لاہورکے چابک رسیاں کی مٹی سے نمو پانے والے ان دو بھائیوں عبداللہ ملک اور عبد الرؤف ملک کے متعلق ہے جنھوں نے اپنی جوانی اور زندگی کمیونسٹ فکر اور عوام کے اظہار رائے پر تج کردی۔
کالم کی ابتدا میں، میری توانائی کو جلا بخشنے میں صبح تڑکے عبدالرؤف ملک کی وہ کال تھی جس میں عزم،حوصلہ اور مجھے طاقت فراہم کرنے کے تمام جوہر موجود تھے، فون کال اٹھانے میں ذرا سا تامل نہ کرنے والے عبد الرؤف ملک کی آواز کا اعتماد مجھے کمیونسٹ اساتذہ کی تربیت کا نشان لگا ، ملنساری ، خوش اخلاقی اورکسر نفسی سے مزین صحافت اور رسائل کے درخشاں ادارے پیپلز پبلشنگ لمیٹڈ سے رؤف کی ابتدائی وابستگی دراصل ڈیلی پاکستان ٹائمز،روزنامہ امروز اور لیل و نہار اور دیگر نظریاتی اشاعت کی وہ داستان ہے جس کے بغیر کتاب صحافت اور نظریئے کی تاریخ بے معنی ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ نئے ملک کی آزادی کے خواب دیکھنے والے نئے دیس میں فکر سوچ اور اظہار کی آزادی کے خواہاں تھے،خودکو نئی روشنی اورکھلی فضا میں دیکھنا چاہتے تھے، اسی خیال کے تحت کمیونسٹ پارٹی مختلف جہتوں میں سر گرم تھی، وہ دیس میں تحریروتقریرکی آزادانہ خیال آرائی چاہتی تھی،اسی واسطے اور عوام کو باخبر رکھنے کی بنیاد کے طور پرکمیونسٹوں نے میاں افتخار الدین کی عوامی خدمات لیں اور عوام کو حالات سے باخبر رکھنے کے لیے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ PPL کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے اشاعتی ادارے کے انتظامات سنبھالنے کی غرض سے عبداللہ ملک کے چھوٹے بھائی عبد الرؤف کمیونسٹ پارٹی کی نگاہ انتخاب ٹہرے۔
اس سارے واقعے کی کتھا سناتے ہوئے عبدالرؤف ملک لکھتے ہیں کہ ''14اگست 1947 کو قیام پاکستان غیر مسلموں کے انخلا کی وجہ سے ان کے تمام ادارے اور مشہور زمانہ اخبار ''ٹریبون'' بند ہوگیا،کچھ عرصے بعد ٹریبون کا پریس PPL نے خرید لیا جب کہ اسی ادارے نے پاکستان کے معروف اخبارات پاکستان ٹائمز روزنامہ امروز اور لیل ونہار رسالے کا اجرا کرکے عوام کو خبر سے آگاہ کرنے کی ٹھانی ، مگرجب کمیونسٹ پارٹی نے پیپلز پبلشنگ ہاؤس کا اشاعتی ادارہ بنایا تو عبدالرؤف ملک کو پارٹی ممبرکی حیثیت سے ذمے دار بنایا،جس کی ذمے داری ترقی پسند مارکسی و لینن نظریات کی ترویج و اشاعت تھی،جو آمرانہ اور جمہوری مخالف حکومت کو نا پسند تھی ، جس کی پاداش میں عبدالرؤف ملک پانچ مرتبہ زندان کے حوالے کیے گئے،آج بھی عبدالرؤف ضعیفی میں مکمل عزم کے ساتھ اس ادارے اور نظریات کو سنبھالے اس اثاثے کو نئی نسل کے سپرد کرنے کے منتظر ہیں۔
رؤف ملک کے بڑے بھائی عبداللہ ملک ہمیشہ پارٹی نظریات کی دانش کے امین رہے،انھوں نے کمیونسٹ نظریئے کے مارکسی خیالات کی سلیس تحاریر عام فرد تک پہنچانے کا مشکل کام کیا اور میدان صحافت میں مارکسی نظریات کی ترویج کرتے رہے، بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت عبداللہ ملک کا ہر پاکستانی کو دینے کا ایک خواب تھا،جس کے تحت عبداللہ ملک کا قلم صحافت سے لے کر کتابوں کی تاریخی سچائیوں کو منظر عام پر لاتا رہا، بلند آہنگ کے خوبصورت قد کاٹھ کے عبداللہ ملک سے گفتگوکرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی، وہ اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو سماج میں مارکسی نظریات کے روشن در وا کرنے کی جستجو میں جتے رہتے تھے، اسی بنا مارکسی دانش میں وہ خطے اور افراد میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
لاہورکے دائیں بازو کی سوچ کے مقابل ان دونوں بھائیوں نے بڑی ہمت سے لیننی و مارکسی نظریات کا پرچارک کیا اور اپنی زندگی تج کی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ دونوں لاہوری ترقی پسند سوچ و تحریک کے وہ نڈروبہادر نشان ہیں جن کی تحاریر اور نظریاتی اشاعت سے مسلسل نئی نسل کو استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی پسند سوچ کا وہ سماج وجود میں آسکے جس میں بلا تفریق فرد کا احترام،اظہار رائے کی آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کا وجود ممکن ہوسکے۔
یوں تو برٹش ایمپائرکے منٹگمری لائلپور اور بعد کے فیصل آباد کی زرخیز نظریاتی مٹی میں کمیونسٹ نظریے کی بقا میں عاصم جمال، عزیز احمد اور قمر مسعود ایسے سچار موجود ہیں اور رہے کہ جن کی جدوجہد اور کام پر الگ دبستان کھولے جا سکتے ہیں، مگر مجھے فیصل آباد کا ذکر کرنے کی اس لیے ضرورت پڑی کہ معروف کمیونسٹ اور صحافی عبد اللہ ملک کے فرزند اور ایف سی کالج میں درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر کوثر نے اپنے بابا کی جدوجہد کا ایک حصہ فیصل آباد سے جوڑا۔ ہمارے محبی صحافی اور نشریاتی ادارے سے وابستہ عامر ریاض کے بقول لاہور کے محلے چابک رسیاں سے تعلق رکھنے والے یہ دو بہادر بھائی خود کو لاہور کے کمیونسٹ نظریاتی تحریک اور سیاست و صحافت سے آج تک جدا نہ کرسکے،بلکہ لاہورکی سماجی حیثیت میں خود کو رچا بسا لیا۔
آج میرا موضوع لاہورکے چابک رسیاں کی مٹی سے نمو پانے والے ان دو بھائیوں عبداللہ ملک اور عبد الرؤف ملک کے متعلق ہے جنھوں نے اپنی جوانی اور زندگی کمیونسٹ فکر اور عوام کے اظہار رائے پر تج کردی۔
کالم کی ابتدا میں، میری توانائی کو جلا بخشنے میں صبح تڑکے عبدالرؤف ملک کی وہ کال تھی جس میں عزم،حوصلہ اور مجھے طاقت فراہم کرنے کے تمام جوہر موجود تھے، فون کال اٹھانے میں ذرا سا تامل نہ کرنے والے عبد الرؤف ملک کی آواز کا اعتماد مجھے کمیونسٹ اساتذہ کی تربیت کا نشان لگا ، ملنساری ، خوش اخلاقی اورکسر نفسی سے مزین صحافت اور رسائل کے درخشاں ادارے پیپلز پبلشنگ لمیٹڈ سے رؤف کی ابتدائی وابستگی دراصل ڈیلی پاکستان ٹائمز،روزنامہ امروز اور لیل و نہار اور دیگر نظریاتی اشاعت کی وہ داستان ہے جس کے بغیر کتاب صحافت اور نظریئے کی تاریخ بے معنی ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ نئے ملک کی آزادی کے خواب دیکھنے والے نئے دیس میں فکر سوچ اور اظہار کی آزادی کے خواہاں تھے،خودکو نئی روشنی اورکھلی فضا میں دیکھنا چاہتے تھے، اسی خیال کے تحت کمیونسٹ پارٹی مختلف جہتوں میں سر گرم تھی، وہ دیس میں تحریروتقریرکی آزادانہ خیال آرائی چاہتی تھی،اسی واسطے اور عوام کو باخبر رکھنے کی بنیاد کے طور پرکمیونسٹوں نے میاں افتخار الدین کی عوامی خدمات لیں اور عوام کو حالات سے باخبر رکھنے کے لیے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ PPL کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے اشاعتی ادارے کے انتظامات سنبھالنے کی غرض سے عبداللہ ملک کے چھوٹے بھائی عبد الرؤف کمیونسٹ پارٹی کی نگاہ انتخاب ٹہرے۔
اس سارے واقعے کی کتھا سناتے ہوئے عبدالرؤف ملک لکھتے ہیں کہ ''14اگست 1947 کو قیام پاکستان غیر مسلموں کے انخلا کی وجہ سے ان کے تمام ادارے اور مشہور زمانہ اخبار ''ٹریبون'' بند ہوگیا،کچھ عرصے بعد ٹریبون کا پریس PPL نے خرید لیا جب کہ اسی ادارے نے پاکستان کے معروف اخبارات پاکستان ٹائمز روزنامہ امروز اور لیل ونہار رسالے کا اجرا کرکے عوام کو خبر سے آگاہ کرنے کی ٹھانی ، مگرجب کمیونسٹ پارٹی نے پیپلز پبلشنگ ہاؤس کا اشاعتی ادارہ بنایا تو عبدالرؤف ملک کو پارٹی ممبرکی حیثیت سے ذمے دار بنایا،جس کی ذمے داری ترقی پسند مارکسی و لینن نظریات کی ترویج و اشاعت تھی،جو آمرانہ اور جمہوری مخالف حکومت کو نا پسند تھی ، جس کی پاداش میں عبدالرؤف ملک پانچ مرتبہ زندان کے حوالے کیے گئے،آج بھی عبدالرؤف ضعیفی میں مکمل عزم کے ساتھ اس ادارے اور نظریات کو سنبھالے اس اثاثے کو نئی نسل کے سپرد کرنے کے منتظر ہیں۔
رؤف ملک کے بڑے بھائی عبداللہ ملک ہمیشہ پارٹی نظریات کی دانش کے امین رہے،انھوں نے کمیونسٹ نظریئے کے مارکسی خیالات کی سلیس تحاریر عام فرد تک پہنچانے کا مشکل کام کیا اور میدان صحافت میں مارکسی نظریات کی ترویج کرتے رہے، بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت عبداللہ ملک کا ہر پاکستانی کو دینے کا ایک خواب تھا،جس کے تحت عبداللہ ملک کا قلم صحافت سے لے کر کتابوں کی تاریخی سچائیوں کو منظر عام پر لاتا رہا، بلند آہنگ کے خوبصورت قد کاٹھ کے عبداللہ ملک سے گفتگوکرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی، وہ اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو سماج میں مارکسی نظریات کے روشن در وا کرنے کی جستجو میں جتے رہتے تھے، اسی بنا مارکسی دانش میں وہ خطے اور افراد میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
لاہورکے دائیں بازو کی سوچ کے مقابل ان دونوں بھائیوں نے بڑی ہمت سے لیننی و مارکسی نظریات کا پرچارک کیا اور اپنی زندگی تج کی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ دونوں لاہوری ترقی پسند سوچ و تحریک کے وہ نڈروبہادر نشان ہیں جن کی تحاریر اور نظریاتی اشاعت سے مسلسل نئی نسل کو استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی پسند سوچ کا وہ سماج وجود میں آسکے جس میں بلا تفریق فرد کا احترام،اظہار رائے کی آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کا وجود ممکن ہوسکے۔