قانون سازی یا لطیفہ بازی
پارلیمان میں قانون سازی کے نام پر لطیفہ بازی ہورہی ہے،عوام کے حقوق غصب کرنے کیلئے آئینی ترامیم کی کوشش کی جا رہی ہے
پارلیمان میں قانون سازی کے نام پر لطیفہ بازی ہورہی ہے۔ منتخب عوامی نمایندے اور عوام کے حقوق غصب کرنے کے لیے کس طرح کی آئینی ترامیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کا معیار کس حد تک گر چکا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل مسودہ قانون سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
روشن خیال اور جمہوریت پسند پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ سے رکن قومی اسمبلی محمد ایاز سومرو نے ضابطہ فوجداری مجریہ 1898ء میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا ہے۔ جس میں 80 کے قریب ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن کا زیادہ تر تعلق زبان و بیان اور قانونی موشگافیوں سے ہے۔ لیکن اس ترمیمی بل2013 ء کو پیش کرنے کے اغراض و مقاصد (Objects and Causes) 6 نکات میں بیان کیے گئے ہیں جن کو دیکھ کر یہ کالم نگار اپنا سر پکڑنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اگر ہمارے آئین ساز پارلیمانی ماہرین کی عقل و دانش کا معیار اس درجہ ''بلند'' ہو چکا تو پیارے پاکستان میں پارلیمانی نظام اور جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
"امر واقعہ یہ ہے کہ سیشن جج صاحبان بربنائے عہدہ جسٹس آف پیس کی حیثیت سے عوام الناس بالخصوص پولیس افسران کے خلاف جعلی اور بے بنیاد ایف آئی آرز درج کرنے کے احکامات جاری کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں معزز شہریوں میں خوف ہراس پھیل رہا ہے جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس افسران میں بے دلی اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔"
ضلعی سیشن کورٹس اور سیشن جج صاحبان فراہمی انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنگین فوجداری مقدمات کی سماعت ان ہی عدالتوں میں ہوتی ہے۔ مقدمہ ہائے قتل کی سماعت اور سزائے موت کے اجراء کا اختیار بھی ان معزز سیشن جج صاحبان کے پاس ہے۔ جناب ایاز سومرو نے ضابطہ فوجداری 1898ء میں ترمیمی بل 2013ء میں سیشن جج صاحبان پر بے بنیاد اور جعلی ایف آئی آرز، نام نہاد معززین علاقہ اور پولیس افسروں کے خلاف درج کرانے کے سنگین تحریری الزامات کو قومی اسمبلی کی قانون سازی کا حصہ بنا دیا ہے۔ مر ے کو مارے شاہ مدار کے مترادف بلوچستان اسمبلی میں کس طرح کی قانون سازی ہو رہی ہے اس کا ایک نمونہ بھی ملا حظہ فرمائیے۔
بلوچستان اسمبلی نے پولیس کے اخیتارات اور دائرہ کار کے بارے میں بلوچستان پولیس ایکٹ 2011ء منظور کیا تھا۔ جس میں صوبائی پارلیمان نے بے شمار مضحکہ خیز لطائف شامل کر دیے تھے۔ جنھیں ارکان اسمبلی نے بلا سوچے سمجھے اور پڑھے منظور کر لیا جو اب بلوچستان گزٹ میں شایع ہونے کے بعد قانون بن چکا ہے۔
اس کے سیکشن 21 میں پولیس افسر کے فرائض، ذمے داریوں اور اخیتارات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی پولیس افسر بلا وارنٹ کسی بھی شراب خا نے کی تلاشی لے سکے گا دیگر جگہوں پر نظم و نسق قائم کر کے اور شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کر سکے گا۔
بلوچستان کے ارکان صوبائی اسمبلی کو شاید یہ بھی علم نہیں تھا کہ امتناع شراب آرڈیننس کے تحت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے شراب پر بندش کی کرم فرمائی کی تھی جس کے بعد نجانے ہماری کتنی نسلیں ہیروئن کی نذر ہو چکی ہیں۔ اپنے اقتدار کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو بچانے کی یہ کوشش ان کے پسندیدہ جرنیل ضیاء الحق نے ناکام بنا دی تھی۔
شراب پر پابندی کے اس قانون کے تحت پاکستان میں شراب خانے کھولنے کی اجازت نہیں ہے لیکن عقل کے بجائے نقل سے کام چلانے والے ہمارے بلوچ سیاسی قائدین نے (cut and paste) کی جدید ٹیکنالوجی کی برکات سے تیار کیے ہوئے مسودہ قانون کی منظوری دے دی اس کی خواندگی کی زحمت بھی نہ کی ویسے یک رکنی حزب اختلاف کے ہوتے ہوئے قانون سازی کے بارے میں مغز ماری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ وہی صوبائی اسمبلی تھی جس میں یک رکنی حزب اختلاف سردار یار محمد رند پر مشتمل تھی جو کسی اصولی بنیاد کے بجائے قبائلی تنازعات کی وجہ سے حکومت میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔اسی بلوچستان اسمبلی کے قائد ایوان سردار اسلم رئیسائی نے ڈگر ی کے بار ے میں شہرہ آفاق تبصرہ "ڈگری، ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی اس سے فرق نہیں پڑتا" کر کے شہرت دوام حاصل کر چکے ہیں ۔
اس مسودہ قانون کے صفحہ 10 سیکشن 31 میں ضلعی مجسٹریٹ کے انتظامی اختیارات، گلیوں اور گزرگاہوں کے استعمال کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جس کے ذیلی سیکشن (سی)میں بتایا گیا ہے کہ ضلعی مجسڑیٹ ہاتھیوں اور دیگر خطرناک جنگلی جانوروں کے قافلے منظم انداز میں گلیوں اور گزر گاہوں سے گزارنے کا ذمے دار ہو گا۔ محکمہ جنگلی حیات بلوچستان سے دریافت کیا گیا کہ بلوچستان میں ہاتھیوں کی کل تعداد کتنی ہے تو انکشاف ہوا کہ رقبے کے اعتبار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک بھی ہاتھی نہیں پایا جاتا شاید وہاں تو چڑیا گھر (Zoo) بھی موجود نہیں ہیں اور ہمارے سیاسی رہنما، پارلیمان اور جمہوریت کی برکات کے صدقے بلوچستان کے گلی کوچوں سے ہاتھیوں کے قافلے گزارنے کے لیے ضلعی افسران کو خصوصی اختیارات مرحمت فرمائے جا رہے ہیں۔
بلوچستان کے تو سارے رنگ ہی نیارے ہیں وہاں کی ساری صوبائی اسمبلی کابینہ بن سکتی ہے یک رکنی حزب اختلاف سردار یار محمد رند قانون سازی سے زیادہ اپنی قبائلی اور عائلی تنازعات نبٹانے میں مصرف رہے ہو نگے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پولیس ایکٹ اور ضابطہ فوجداری کے سامراجی غلامانہ قوانین کو عوام کا مددگار بنانے کے لیے دانیال عزیز کی سربراہی میں قائم قومی ادارہ برائے تعمیر نو (National Reconstrution Bureau) نے جو ترامیم کی تھیں اس کی سے وجہ سے بے بس بے کس اور مظلوم عوام کو نام نہاد معززین علاقہ اور پولیس کے ظالمانہ گٹھ جوڑ سے کئی دہائیوں بعد چھٹکارا ملا تھا، ان ترامیم کو غیر موثر بنانے کے لیے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے پارلیمان کے ارکان ان ہی عوام کے خلاف آئینی ترامیم لانے پر تلے ہوئے ہیں۔
روشن خیال اور جمہوریت پسند پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ سے رکن قومی اسمبلی محمد ایاز سومرو نے ضابطہ فوجداری مجریہ 1898ء میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا ہے۔ جس میں 80 کے قریب ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن کا زیادہ تر تعلق زبان و بیان اور قانونی موشگافیوں سے ہے۔ لیکن اس ترمیمی بل2013 ء کو پیش کرنے کے اغراض و مقاصد (Objects and Causes) 6 نکات میں بیان کیے گئے ہیں جن کو دیکھ کر یہ کالم نگار اپنا سر پکڑنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اگر ہمارے آئین ساز پارلیمانی ماہرین کی عقل و دانش کا معیار اس درجہ ''بلند'' ہو چکا تو پیارے پاکستان میں پارلیمانی نظام اور جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
"امر واقعہ یہ ہے کہ سیشن جج صاحبان بربنائے عہدہ جسٹس آف پیس کی حیثیت سے عوام الناس بالخصوص پولیس افسران کے خلاف جعلی اور بے بنیاد ایف آئی آرز درج کرنے کے احکامات جاری کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں معزز شہریوں میں خوف ہراس پھیل رہا ہے جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس افسران میں بے دلی اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔"
ضلعی سیشن کورٹس اور سیشن جج صاحبان فراہمی انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنگین فوجداری مقدمات کی سماعت ان ہی عدالتوں میں ہوتی ہے۔ مقدمہ ہائے قتل کی سماعت اور سزائے موت کے اجراء کا اختیار بھی ان معزز سیشن جج صاحبان کے پاس ہے۔ جناب ایاز سومرو نے ضابطہ فوجداری 1898ء میں ترمیمی بل 2013ء میں سیشن جج صاحبان پر بے بنیاد اور جعلی ایف آئی آرز، نام نہاد معززین علاقہ اور پولیس افسروں کے خلاف درج کرانے کے سنگین تحریری الزامات کو قومی اسمبلی کی قانون سازی کا حصہ بنا دیا ہے۔ مر ے کو مارے شاہ مدار کے مترادف بلوچستان اسمبلی میں کس طرح کی قانون سازی ہو رہی ہے اس کا ایک نمونہ بھی ملا حظہ فرمائیے۔
بلوچستان اسمبلی نے پولیس کے اخیتارات اور دائرہ کار کے بارے میں بلوچستان پولیس ایکٹ 2011ء منظور کیا تھا۔ جس میں صوبائی پارلیمان نے بے شمار مضحکہ خیز لطائف شامل کر دیے تھے۔ جنھیں ارکان اسمبلی نے بلا سوچے سمجھے اور پڑھے منظور کر لیا جو اب بلوچستان گزٹ میں شایع ہونے کے بعد قانون بن چکا ہے۔
اس کے سیکشن 21 میں پولیس افسر کے فرائض، ذمے داریوں اور اخیتارات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی پولیس افسر بلا وارنٹ کسی بھی شراب خا نے کی تلاشی لے سکے گا دیگر جگہوں پر نظم و نسق قائم کر کے اور شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کر سکے گا۔
بلوچستان کے ارکان صوبائی اسمبلی کو شاید یہ بھی علم نہیں تھا کہ امتناع شراب آرڈیننس کے تحت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے شراب پر بندش کی کرم فرمائی کی تھی جس کے بعد نجانے ہماری کتنی نسلیں ہیروئن کی نذر ہو چکی ہیں۔ اپنے اقتدار کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو بچانے کی یہ کوشش ان کے پسندیدہ جرنیل ضیاء الحق نے ناکام بنا دی تھی۔
شراب پر پابندی کے اس قانون کے تحت پاکستان میں شراب خانے کھولنے کی اجازت نہیں ہے لیکن عقل کے بجائے نقل سے کام چلانے والے ہمارے بلوچ سیاسی قائدین نے (cut and paste) کی جدید ٹیکنالوجی کی برکات سے تیار کیے ہوئے مسودہ قانون کی منظوری دے دی اس کی خواندگی کی زحمت بھی نہ کی ویسے یک رکنی حزب اختلاف کے ہوتے ہوئے قانون سازی کے بارے میں مغز ماری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ وہی صوبائی اسمبلی تھی جس میں یک رکنی حزب اختلاف سردار یار محمد رند پر مشتمل تھی جو کسی اصولی بنیاد کے بجائے قبائلی تنازعات کی وجہ سے حکومت میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔اسی بلوچستان اسمبلی کے قائد ایوان سردار اسلم رئیسائی نے ڈگر ی کے بار ے میں شہرہ آفاق تبصرہ "ڈگری، ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی اس سے فرق نہیں پڑتا" کر کے شہرت دوام حاصل کر چکے ہیں ۔
اس مسودہ قانون کے صفحہ 10 سیکشن 31 میں ضلعی مجسٹریٹ کے انتظامی اختیارات، گلیوں اور گزرگاہوں کے استعمال کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جس کے ذیلی سیکشن (سی)میں بتایا گیا ہے کہ ضلعی مجسڑیٹ ہاتھیوں اور دیگر خطرناک جنگلی جانوروں کے قافلے منظم انداز میں گلیوں اور گزر گاہوں سے گزارنے کا ذمے دار ہو گا۔ محکمہ جنگلی حیات بلوچستان سے دریافت کیا گیا کہ بلوچستان میں ہاتھیوں کی کل تعداد کتنی ہے تو انکشاف ہوا کہ رقبے کے اعتبار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک بھی ہاتھی نہیں پایا جاتا شاید وہاں تو چڑیا گھر (Zoo) بھی موجود نہیں ہیں اور ہمارے سیاسی رہنما، پارلیمان اور جمہوریت کی برکات کے صدقے بلوچستان کے گلی کوچوں سے ہاتھیوں کے قافلے گزارنے کے لیے ضلعی افسران کو خصوصی اختیارات مرحمت فرمائے جا رہے ہیں۔
بلوچستان کے تو سارے رنگ ہی نیارے ہیں وہاں کی ساری صوبائی اسمبلی کابینہ بن سکتی ہے یک رکنی حزب اختلاف سردار یار محمد رند قانون سازی سے زیادہ اپنی قبائلی اور عائلی تنازعات نبٹانے میں مصرف رہے ہو نگے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پولیس ایکٹ اور ضابطہ فوجداری کے سامراجی غلامانہ قوانین کو عوام کا مددگار بنانے کے لیے دانیال عزیز کی سربراہی میں قائم قومی ادارہ برائے تعمیر نو (National Reconstrution Bureau) نے جو ترامیم کی تھیں اس کی سے وجہ سے بے بس بے کس اور مظلوم عوام کو نام نہاد معززین علاقہ اور پولیس کے ظالمانہ گٹھ جوڑ سے کئی دہائیوں بعد چھٹکارا ملا تھا، ان ترامیم کو غیر موثر بنانے کے لیے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے پارلیمان کے ارکان ان ہی عوام کے خلاف آئینی ترامیم لانے پر تلے ہوئے ہیں۔