قانون سازوں کی موج مستیاں
حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی دورے کا خبط بھارت میں بھی اتنا ہی ہے جتنا پاکستان اور بنگلہ دیش میں
KARACHI:
عام آدمی پارٹی ( اے اے پی) کی تحریک نے سیاست میں اخلاقی اقدار کو راہ دینے کی کوشش کی ہے مگر اس کے باوجود ریاست کرناٹک کے قانون سازوں کی ایک 16 رکنی ٹیم نے سرکاری خرچے پر جنوبی امریکا کے بعض ملکوں کا دورہ کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ واضح رہے کرناٹک پر کانگریس کی حکومت ہے تاہم کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کی مداخلت پر جو کہ گرم جوش نوجوان ہیں اور جو راجستھان اور دہلی میں پارٹی کی شرمناک شکست پر خاصے دباو ٔ میں ہیں لہذا انھوں نے قانون سازوں کے مجوزہ ٹرپ کو منسوخ کرا دیا ہے جو کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے پر موج مستیاں کرنا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے دھچکا پہنچانے والی بات یہ ہے کہ سیر سپاٹے پر جانے والے اراکین اسمبلی اس اسٹیٹ ایسٹیمیٹ کمیٹی کے رکن تھے جس کے قیام کا مقصد فضول اخراجات کو روکنا تھا۔
مجوزہ دورے کے لیے عزم سفر باندھنے والوں میں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دونوں کے نمایندے شامل تھے مگر جب میڈیا نے جب اس سرکاری پک نک پر تنقید کی تو بی جے پی کے اراکین ناسازی طبع کے بہانے پیچھے ہٹ گئے۔ اور کانگریس کے اراکین نے اس وقت منہ چھپا لیا جب راہول گاندھی نے کہا کہ 16 کروڑ روپے کی رقم اس مقصد کے لیے ضایع کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ ریاست کے 60 مختلف اضلاع شدید خشک سالی کا شکار ہیں اور 200 سے زیادہ کاشتکار مایوس ہو کر خود کشی کر چکے ہیں۔ جہاں تک اراکین اسمبلی کا تعلق ہے تو ایک لحاظ سے وہ بھی حق بجانب تھے کیونکہ ریاستی اسمبلی نے یہ طے کیا تھا کہ تمام قانون ساز اپنی پانچ سالہ مدت کے دوران بیرونی ممالک کا دو مرتبہ دورہ کر سکتے ہیں۔ غالباً یہی سہولت دیگر ریاستوں کے اراکین کو بھی حاصل ہے۔ ایک طرف آندھرا پردیش کے قانون ساز مبینہ طور پر غیر ملکی دورے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جب کہ اکالی دل حکومت نے پہلے ہی اپنے قانون سازوں کو اسکاٹ لینڈ کے دورے پر بھیج دیا ہے تا کہ وہ دیکھیں کہ اسکاچ وھسکی کا خمیر کس طریقے سے اٹھایا جاتا ہے۔ ایسے تمام دوروں کو مطالعاتی دورے کا نام دیا جاتا ہے۔ چونکہ ان دوروں کے بارے میں رپورٹیں شایع نہیں ہوتیں لہٰذا کوئی بھی اپنی طرف سے تصور کر سکتا ہے کہ آیا قانون ساز تحریری طور پر کچھ داخل دفتر بھی کراتے ہیں یا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دورے ایک طرح سے ایسی تعطیلات ہوتی ہیں جن کا مکمل خرچہ بھی حکومت بردشت کرتی ہے۔ گویا اس کا اصل مقصد قانون سازوں کو تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے۔ حکومتیں اپنے اراکین کو مراعات کے طور پر ایسے مواقع مہیا کرتی ہیں، نیز اپوزیشن والوں کو لُبھانے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور واضح رہے کہ یہ رعایت صرف اراکین اسمبلی تک ہی محدود نہیں ہے۔ کرناٹک میں نچلی ذاتوں اور اقلیتوں کے اراکین کی ایک کمیٹی حال ہی میں 16 روزہ غیر ملکی دورے سے واپس لوٹی ہے۔ ان کی روئیداد سفر پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ مختلف ساحلی علاقوں میں گئے۔ بہت مہنگے ریستورانوں میں کھایا پیا اور تفریحی مقامات کا حسب توفیق لطف اٹھایا۔ مجھے اپنے مرکزی اراکین اسمبلی میں بھی بیرونی ممالک کے دوروں کا یہی خبط دکھائی دیتا ہے۔ میں چونکہ راجیہ سبھا (ایوان بالا) کا نامزد رکن تھا تو مجھے اس قسم کے کسی دورے میں شامل نہیں کیا گیا۔ کیونکہ میڈیا ہی کے طفیل ایک ''اخلاقیات'' کی کمیٹی بنائی گئی ہے تا کہ اس قسم کی فضول خرچی والے کاموں کو روکا جائے۔ سیاسی جماعتیں معمول کے طور پر مطالعاتی دورے اپنے خرچے پر کرواتی ہیں۔ یہ بات باعث تعجب ہے کہ لسانی کمیٹی کے اراکین جن میں اراکین اسمبلی کے علاوہ دیگر لوگ بھی شامل ہوتے ہیں وہ ہر سال انگلینڈ اور امریکا جا کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندی زبان وہاں کتنی رفتار سے پھیل یا سکڑ رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی دورے کا خبط بھارت میں بھی اتنا ہی ہے جتنا پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ وہاں کے اراکین اسمبلی بھی بہانے بہانے سے بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ آیا یہ ڈیڑھ سو سالہ برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی کا نفسیاتی ردعمل ہے یا یہ بورژوا مڈل کلاس کی بلا سوچے سمجھے کی فضول خرچی ہے۔ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے یہ دونوں باتیں ہی درست ہوں۔ بہر حال اس بات کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ غیر ملکی دورے سب سے بہترین رشوت ہیں جو کوئی بھی حکومت کسی کو دے سکتی ہے۔ مغربی ممالک کو بھی اس کا پتہ چل گیا ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے سفارت خانے اپنے ملک کے لیے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنے کی خاطر ان دوروں کا بڑی کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ چوٹی کے بیوروکریٹس بیرون ملک سے آنیوالی دعوت پر منہ سے رال ٹپکاتے ہوئے لپکتے ہیں۔ اگر اس بات کا انکشاف کیا جائے کہ حکومت کے سیکریٹریوں کے کتنے بچے تعلیمی وظائف پر بیرون ملک گئے ہیں جہاں انھیں پڑھائی اور رہایش وغیرہ کا پورا خرچہ دیا جاتا ہے تو لوگ ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جائیں۔ غیر ملکی سفارتخانے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اعلی مناصب پر فائز افراد کے بچوں کو سفر کی تیاری کے خرچ کے علاوہ بیرون ملک اسکولوں' کالجوں یا دیگر تعلیمی اداروں میں فیسوں کے علاوہ رہنے سہنے اور کھانے پینے کے مکمل اخراجات بھی دیے جائیں۔
بدقسمتی سے بیوروکریٹس بڑی آسانی سے غیر ملکی سفارتخانوں کی فراغدلانہ مہمان نوازی کا شکار بن رہے ہیں اور یہ لالچ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ سلسلہ آزادی کے چند سال بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو غیر ملکی سفارتخانوں کے تھرڈ سیکریٹریوں کی طرف سے دی جانے والی پارٹیوں میں حکومت ہند کے سیکریٹریوں کو شرکت کرتے دیکھ کر اتنے ناراض ہوئے کہ انھیں ایک گشتی مراسلہ جاری کرنا پڑا جس میں تنبیہہ کی گئی تھی کہ چوٹی کے افسران صرف اپنے ہم مرتبہ افسروں کی دعوت میں شرکت کیا کریں۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا نہرو کے گشتی مراسلے کی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی گئیں اور آج تو جیسے سب کچھ چلتا ہے۔ اب تو اراکین پارلیمنٹ بھی دعوت ناموں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو انھی خطوط پر ایک مراسلہ جاری کرنا چاہیے جن پر نہرو نے کیا تھا۔ لیکن اب مجھے کوئی امید نہیں رہی جب میں نے دیکھا ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خارجہ) کی طرف سے بھارتی حکومت کی کس قدر تذلیل ہوئی ہے۔ دیویانی کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کیا اور جیل میں اخلاقی مجرموں والے کمرے میں ٹھونس دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس معاملے میں معذرت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اب یہ معلوم ہوا ہے کہ جب دیویانی کی گرفتاری عمل میں آئی تو اس کو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل تھا۔ مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ امریکا اپنی زیادہ طاقت کی وجہ سے بے حد متکبر ہو گیا ہے۔ صدر اوباما جو ابتدا میں قدرے مختلف لگے تھے مگر اب وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہی کَل پرزہ بن چکے ہیں۔ اب ان پر نہ کوئی اعتماد ہے اور نہ ہی ان سے کوئی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔ اصولاً خود انھیں اپنے طور پر وزیر اعظم منموہن کو ٹیلی فون کر کے اظہار افسوس کرنا چاہیے تھا۔ لیکن نقصان امریکا کا ہی ہے۔ بھارتی باشندوں نے بھی محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ امریکا دیگر مغربی ممالک سے مختلف ہے اور اس کا اچھا تاثر اب ضایع ہو گیا ہے۔ واشنگٹن ممکن ہے کہ تزویراتی تعلقات کی بات کرے اور نئی دہلی حکومت بھی اس کا مثبت جواب دے تا کہ سب سے بڑی طاقت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی قائم رہے لیکن یہ تعلقات اب صرف سرکاری سطح پر ہی برقرار رہیں گے۔ بھارت کے عوام امریکا سے دور ہو جائیں گے۔ ان کے نزدیک دیویانی کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سفارتی اخلاق کے منافی تھا۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ واشنگٹن کی ہٹ دھرمی کا ایک مظاہرہ تھا۔ دیویانی کو سزا دینے پر اصرار سے ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ سارا قصہ اس وقت شروع ہوا جب یہ دیکھا گیا کہ دیویانی اپنی گھریلو خادمہ کو امریکی قوانین کے مطابق تنخواہ نہیں دے رہیں۔ مجھے یاد آتا ہے جب میں دہلی میں یو ایس آئی ایس کا ملازم تھا تو مجھے بھی وہ تنخواہ نہیں ملتی تھی جو میرے ہم منصب امریکنوں کو دی جاتی تھی۔ یہ غالباً قابل فہم بات ہے۔ لیکن جو چیز مجھے سمجھ نہیں آتی تھی وہ یہ تھی کہ جب امریکی کارندے بھارت کے اندر کوئی سفر کرتے تھے تو ان کو جو اضافی الاؤنس ملتا تھا وہ ان کے ہمرکاب جانے والے بھارتی افسروں کو نہیں ملتا تھا۔ یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
عام آدمی پارٹی ( اے اے پی) کی تحریک نے سیاست میں اخلاقی اقدار کو راہ دینے کی کوشش کی ہے مگر اس کے باوجود ریاست کرناٹک کے قانون سازوں کی ایک 16 رکنی ٹیم نے سرکاری خرچے پر جنوبی امریکا کے بعض ملکوں کا دورہ کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ واضح رہے کرناٹک پر کانگریس کی حکومت ہے تاہم کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کی مداخلت پر جو کہ گرم جوش نوجوان ہیں اور جو راجستھان اور دہلی میں پارٹی کی شرمناک شکست پر خاصے دباو ٔ میں ہیں لہذا انھوں نے قانون سازوں کے مجوزہ ٹرپ کو منسوخ کرا دیا ہے جو کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے پر موج مستیاں کرنا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے دھچکا پہنچانے والی بات یہ ہے کہ سیر سپاٹے پر جانے والے اراکین اسمبلی اس اسٹیٹ ایسٹیمیٹ کمیٹی کے رکن تھے جس کے قیام کا مقصد فضول اخراجات کو روکنا تھا۔
مجوزہ دورے کے لیے عزم سفر باندھنے والوں میں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دونوں کے نمایندے شامل تھے مگر جب میڈیا نے جب اس سرکاری پک نک پر تنقید کی تو بی جے پی کے اراکین ناسازی طبع کے بہانے پیچھے ہٹ گئے۔ اور کانگریس کے اراکین نے اس وقت منہ چھپا لیا جب راہول گاندھی نے کہا کہ 16 کروڑ روپے کی رقم اس مقصد کے لیے ضایع کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ ریاست کے 60 مختلف اضلاع شدید خشک سالی کا شکار ہیں اور 200 سے زیادہ کاشتکار مایوس ہو کر خود کشی کر چکے ہیں۔ جہاں تک اراکین اسمبلی کا تعلق ہے تو ایک لحاظ سے وہ بھی حق بجانب تھے کیونکہ ریاستی اسمبلی نے یہ طے کیا تھا کہ تمام قانون ساز اپنی پانچ سالہ مدت کے دوران بیرونی ممالک کا دو مرتبہ دورہ کر سکتے ہیں۔ غالباً یہی سہولت دیگر ریاستوں کے اراکین کو بھی حاصل ہے۔ ایک طرف آندھرا پردیش کے قانون ساز مبینہ طور پر غیر ملکی دورے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جب کہ اکالی دل حکومت نے پہلے ہی اپنے قانون سازوں کو اسکاٹ لینڈ کے دورے پر بھیج دیا ہے تا کہ وہ دیکھیں کہ اسکاچ وھسکی کا خمیر کس طریقے سے اٹھایا جاتا ہے۔ ایسے تمام دوروں کو مطالعاتی دورے کا نام دیا جاتا ہے۔ چونکہ ان دوروں کے بارے میں رپورٹیں شایع نہیں ہوتیں لہٰذا کوئی بھی اپنی طرف سے تصور کر سکتا ہے کہ آیا قانون ساز تحریری طور پر کچھ داخل دفتر بھی کراتے ہیں یا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دورے ایک طرح سے ایسی تعطیلات ہوتی ہیں جن کا مکمل خرچہ بھی حکومت بردشت کرتی ہے۔ گویا اس کا اصل مقصد قانون سازوں کو تفریح فراہم کرنا ہوتا ہے۔ حکومتیں اپنے اراکین کو مراعات کے طور پر ایسے مواقع مہیا کرتی ہیں، نیز اپوزیشن والوں کو لُبھانے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور واضح رہے کہ یہ رعایت صرف اراکین اسمبلی تک ہی محدود نہیں ہے۔ کرناٹک میں نچلی ذاتوں اور اقلیتوں کے اراکین کی ایک کمیٹی حال ہی میں 16 روزہ غیر ملکی دورے سے واپس لوٹی ہے۔ ان کی روئیداد سفر پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ مختلف ساحلی علاقوں میں گئے۔ بہت مہنگے ریستورانوں میں کھایا پیا اور تفریحی مقامات کا حسب توفیق لطف اٹھایا۔ مجھے اپنے مرکزی اراکین اسمبلی میں بھی بیرونی ممالک کے دوروں کا یہی خبط دکھائی دیتا ہے۔ میں چونکہ راجیہ سبھا (ایوان بالا) کا نامزد رکن تھا تو مجھے اس قسم کے کسی دورے میں شامل نہیں کیا گیا۔ کیونکہ میڈیا ہی کے طفیل ایک ''اخلاقیات'' کی کمیٹی بنائی گئی ہے تا کہ اس قسم کی فضول خرچی والے کاموں کو روکا جائے۔ سیاسی جماعتیں معمول کے طور پر مطالعاتی دورے اپنے خرچے پر کرواتی ہیں۔ یہ بات باعث تعجب ہے کہ لسانی کمیٹی کے اراکین جن میں اراکین اسمبلی کے علاوہ دیگر لوگ بھی شامل ہوتے ہیں وہ ہر سال انگلینڈ اور امریکا جا کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندی زبان وہاں کتنی رفتار سے پھیل یا سکڑ رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی دورے کا خبط بھارت میں بھی اتنا ہی ہے جتنا پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ وہاں کے اراکین اسمبلی بھی بہانے بہانے سے بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ آیا یہ ڈیڑھ سو سالہ برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی کا نفسیاتی ردعمل ہے یا یہ بورژوا مڈل کلاس کی بلا سوچے سمجھے کی فضول خرچی ہے۔ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے یہ دونوں باتیں ہی درست ہوں۔ بہر حال اس بات کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ غیر ملکی دورے سب سے بہترین رشوت ہیں جو کوئی بھی حکومت کسی کو دے سکتی ہے۔ مغربی ممالک کو بھی اس کا پتہ چل گیا ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے سفارت خانے اپنے ملک کے لیے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنے کی خاطر ان دوروں کا بڑی کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ چوٹی کے بیوروکریٹس بیرون ملک سے آنیوالی دعوت پر منہ سے رال ٹپکاتے ہوئے لپکتے ہیں۔ اگر اس بات کا انکشاف کیا جائے کہ حکومت کے سیکریٹریوں کے کتنے بچے تعلیمی وظائف پر بیرون ملک گئے ہیں جہاں انھیں پڑھائی اور رہایش وغیرہ کا پورا خرچہ دیا جاتا ہے تو لوگ ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جائیں۔ غیر ملکی سفارتخانے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اعلی مناصب پر فائز افراد کے بچوں کو سفر کی تیاری کے خرچ کے علاوہ بیرون ملک اسکولوں' کالجوں یا دیگر تعلیمی اداروں میں فیسوں کے علاوہ رہنے سہنے اور کھانے پینے کے مکمل اخراجات بھی دیے جائیں۔
بدقسمتی سے بیوروکریٹس بڑی آسانی سے غیر ملکی سفارتخانوں کی فراغدلانہ مہمان نوازی کا شکار بن رہے ہیں اور یہ لالچ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ سلسلہ آزادی کے چند سال بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو غیر ملکی سفارتخانوں کے تھرڈ سیکریٹریوں کی طرف سے دی جانے والی پارٹیوں میں حکومت ہند کے سیکریٹریوں کو شرکت کرتے دیکھ کر اتنے ناراض ہوئے کہ انھیں ایک گشتی مراسلہ جاری کرنا پڑا جس میں تنبیہہ کی گئی تھی کہ چوٹی کے افسران صرف اپنے ہم مرتبہ افسروں کی دعوت میں شرکت کیا کریں۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا نہرو کے گشتی مراسلے کی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی گئیں اور آج تو جیسے سب کچھ چلتا ہے۔ اب تو اراکین پارلیمنٹ بھی دعوت ناموں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو انھی خطوط پر ایک مراسلہ جاری کرنا چاہیے جن پر نہرو نے کیا تھا۔ لیکن اب مجھے کوئی امید نہیں رہی جب میں نے دیکھا ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ خارجہ) کی طرف سے بھارتی حکومت کی کس قدر تذلیل ہوئی ہے۔ دیویانی کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کیا اور جیل میں اخلاقی مجرموں والے کمرے میں ٹھونس دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس معاملے میں معذرت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اب یہ معلوم ہوا ہے کہ جب دیویانی کی گرفتاری عمل میں آئی تو اس کو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل تھا۔ مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ امریکا اپنی زیادہ طاقت کی وجہ سے بے حد متکبر ہو گیا ہے۔ صدر اوباما جو ابتدا میں قدرے مختلف لگے تھے مگر اب وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہی کَل پرزہ بن چکے ہیں۔ اب ان پر نہ کوئی اعتماد ہے اور نہ ہی ان سے کوئی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔ اصولاً خود انھیں اپنے طور پر وزیر اعظم منموہن کو ٹیلی فون کر کے اظہار افسوس کرنا چاہیے تھا۔ لیکن نقصان امریکا کا ہی ہے۔ بھارتی باشندوں نے بھی محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ امریکا دیگر مغربی ممالک سے مختلف ہے اور اس کا اچھا تاثر اب ضایع ہو گیا ہے۔ واشنگٹن ممکن ہے کہ تزویراتی تعلقات کی بات کرے اور نئی دہلی حکومت بھی اس کا مثبت جواب دے تا کہ سب سے بڑی طاقت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی قائم رہے لیکن یہ تعلقات اب صرف سرکاری سطح پر ہی برقرار رہیں گے۔ بھارت کے عوام امریکا سے دور ہو جائیں گے۔ ان کے نزدیک دیویانی کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سفارتی اخلاق کے منافی تھا۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ واشنگٹن کی ہٹ دھرمی کا ایک مظاہرہ تھا۔ دیویانی کو سزا دینے پر اصرار سے ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ سارا قصہ اس وقت شروع ہوا جب یہ دیکھا گیا کہ دیویانی اپنی گھریلو خادمہ کو امریکی قوانین کے مطابق تنخواہ نہیں دے رہیں۔ مجھے یاد آتا ہے جب میں دہلی میں یو ایس آئی ایس کا ملازم تھا تو مجھے بھی وہ تنخواہ نہیں ملتی تھی جو میرے ہم منصب امریکنوں کو دی جاتی تھی۔ یہ غالباً قابل فہم بات ہے۔ لیکن جو چیز مجھے سمجھ نہیں آتی تھی وہ یہ تھی کہ جب امریکی کارندے بھارت کے اندر کوئی سفر کرتے تھے تو ان کو جو اضافی الاؤنس ملتا تھا وہ ان کے ہمرکاب جانے والے بھارتی افسروں کو نہیں ملتا تھا۔ یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)