نیو ایئر نائٹ پر حکمران طبقے ہی آزاد کیوں
ذاتی طور پر میرے لیے نیو ایئر نائٹ وغیرہ کے ہنگامے کوئی خاص کشش نہیں رکھتے ہاں گوروں کے لیے اس رات کی بڑی اہمیت ہے
میں لاہور کی گلیوں سے اُٹھا ایک پکا ''دیسی'' ہوں جو ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوا جہاں ماؤں کو اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش کے تصور سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ میری ماں کو بھی صرف اتنا یاد تھا کہ میں ایک اسلامی مہینے رجب میں پیدا ہوا تھا اور یہ ان کی نظر میں میری خوش بختی کی ضمانت تھی۔ انگریزی سال اور مہینہ کون سا تھا؟ ہم پورا خاندان ملکر اور کافی بزرگوں کو کرید کرید کر پوچھنے کے باوجود کبھی طے نہ کر سکے۔ اتفاق سے میرے ایک تایا زاد کو میری پیدائش کے سال ایک بینک میں نوکری ملی تھی۔ انھیں کبھی کبھار ڈائری لکھنے اور ہمارے خاندان کا شجرہ مرتب کرنے کا خیال بھی آ جاتا تھا۔ ان کی مدد سے طے ہوا تو بس اتنا کہ میں کون سے عیسوی سال میں پیدا ہوا تھا۔
کالج پہنچ جانے کے 3 سال بعد بھی مجھے اندازہ نہ ہوا کہ کسی شخص کی سالگرہ کی تقریب فلموں کے علاوہ حقیقی زندگی میں بھی منائی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ بھی دریافت ہوا کہ جھوٹی سچی محبتیں استوار کرنے کے لیے آپ کا ایک Star بھی ہونا چاہیے جو دوسرے فریق کے Star سے قربت اور دوستی کے لیے مناسب جانا جائے۔ نوجوانی میں ویسے بھی سوشلسٹ انقلاب لانے کی خواہش دل میں بہت مچلا کرتی تھی۔ Stars اور برتھ ڈے وغیرہ کو ''پیٹی بورژوا'' ضعیف الاعتقادی یا ڈھکوسلے شمار کرتا رہا۔
اس لمبی تمہید کا مقصد آپ کو یہ اعتبار دلانا ہے کہ ذاتی طور پر میرے لیے نیو ایئر نائٹ وغیرہ کے ہنگامے کوئی خاص کشش نہیں رکھتے۔ ہاں اسلام آباد منتقل ہو جانے کے بعد انگریزی اخبارات کے لیے سفارتی تقریبات کے بارے میں کالم لکھنا شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ گوروں کے لیے اس رات کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ اس رات کی دعوتوں میں بلاتے تو بڑے شوق سے وہاں پہنچ جاتا۔ انگریزی موسیقی سے میری کوئی خاص واقفیت نہ تھی۔ گوروں کی دعوتوں میں جو گانے بجا کرتے تھے مجھے کوئی زیادہ بھاتے بھی نہیں تھے۔ اس لیے ڈانس فلور سے پرے کھڑا ناچتے لوگوں کو بس دیکھتا رہتا۔ بتدریج میں نے یہ دریافت کر لیا کہ پاپ میوزک پر تھرکنے کے لیے کوئی خاص مہارت درکار نہیں۔ ناچنے کے لیے تھوڑی ہمت اور ڈھیٹ ہونا ہی کافی ہے۔
میری نسل مگر اب تیزی سے بہت گزشتہ کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ اب تو انھیں گلیوں اور محلوں میں جہاں میں بڑا ہوا تھا نسبتاََ لوئر مڈل کلاس ماؤں کو بھی اپنے بچوں کی عیسوی کیلنڈر کے حساب سے تاریخ پیدائش پوری طرح یاد ہوتی ہے اور وہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی برتھ ڈے کے فنکشنز بھی منعقد کیا کرتی ہیں۔ زمانہ بدلا ہے تو کمیونی کیشن کی بہتات کے باعث Global Village میں سکڑتی دُنیا میں نیا سال بھی ایک Event بن گیا ہے جسے اشیائے صرف کی مارکیٹنگ کرنے والوں نے کافی ہلے گلے والا واقعہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کے شہروں میں گزشتہ دو یا تین دہائیوں میں پیدا ہو کر نوجوان ہونے والوں کا اس موقع پر ہلہ گلہ کرنے کی خواہش رکھنا ایک بہت ہی فطری عمل ہے۔
ہماری خوش بختی یا بدبختی نئے سال کے موقع پر موج میلہ کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو روکنے کے لیے 1980ء کی دہائی سے ڈنڈا بردار پارساؤں کے لشکر بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ ہماری ریاست نے ان لشکروں کو قابو میں رکھنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ وہ خود ہی ذرا تھک سے گئے ہیں۔ مگر گزشتہ دو تین برس سے پتہ نہیں کیوں نئے سال کے پہلے دن سے قبل والی رات ہمارے تمام بڑے شہروں میں ریاستی حکام اچانک چوکس ہو جاتے ہیں۔
اس چوکسی کا بدترین مظاہرہ 2012ء سے خود کو ''لبرل'' کہنے والی تین جماعتوں پر مشتمل صوبائی حکومت نے کراچی میں دکھانا شروع کیا۔ بڑے بڑے کنٹینر لگا کر ساحل سمندر کو جانے والے راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ دکانوں اور ریستورانوں کو سر شام اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور نئے سال کی رات اس شہر کو خوف و وحشت کا پیغام دے کر چلی جاتی ہے۔ کراچی کا ضرورت سے زیادہ واقف ہوتے ہوئے میں بلاخوف تردید یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ کبھی روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والے اس میگا سٹی پر نئے سال کی رات خوف و دہشت کا ماحول مسلط کرنے والے سیاسی اور سرکاری افراد کی ایک کثیر تعداد اپنے محل نما گھروں میں اسی رات خوب ہلہ گلہ مچاتی ہے۔ ان کے تمام سیکیورٹی انتظامات کا مقصد بس نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ''چھچھورے پن'' سے محروم رکھنا ہوتا ہے۔ اس شہر کو امن، بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں سے تقریباََ محروم رکھنے والی نام نہاد انتظامیہ کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ نئے سال کے بہانے سے Posh علاقوں میں رہنے کی استطاعت نہ رکھنے والوں کو تھوڑی چاہے جعلی ہی سہی خوشی منانے سے اس سختی کے ساتھ روک دے۔
میں نے عرصہ ہوا اسلام آباد کی ایسی دعوتوں میں جانا چھوڑ رکھا ہے جہاں نئے سال کی تقریبات ہو رہی ہوتی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ پارسائی تو نہیں بڑھی البتہ تھکن اور اُکتاہٹ زیادہ ہو گئی ہے۔ چوہدری نثار علی خان مگر ''پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی'' ہیں۔ وہ یقیناً نئے سال کی تقریبات کو ہماری اسلامی اور مشرقی اقدار کے خلاف سمجھتے ہوں گے۔ مجھے ان کی اس سوچ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر ان دنوں وہ پاکستان کے بڑے ہی طاقتور وزیر داخلہ بھی ہیں۔ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ 30 دسمبر کے صبح سے اسلام آباد کی انتظامیہ کے ذریعے یہ واضح اعلانات کروانا شروع کر دیتے کہ 31 دسمبر کی رات تمام بازار اور تفریحی مقامات بند کر دیے جائیں گے۔ پنج ستاری ہوٹلوں کے ہالوں میں بھی اس حوالے سے کوئی پارٹی شارٹی کا اہتمام نہ کیا جائے۔
بدقسمتی سے ان کی جانب سے یہ فیصلہ 31 دسمبر کی شام سات بجے کے قریب صادر ہوا۔ اس وقت تک کئی غیر ملکی سفراء دو تین ہوٹلوں کی تقریبات میں اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے بھاری رقوم ادا کرنے کے بعد ٹیبل وغیرہ بک کروا چکے تھے۔ ہمارے کافی مہذب اور خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی کچھ ایسا ہی انتظام کر رکھا تھا۔ رات گئے تک میں ان کے احتجاجی ٹیلی فون وصول کرتا رہا۔ سوائے افسوس کے جواباََ کچھ نہ کہہ سکا۔ اگرچہ دل اس وقت بہت مچل رہا ہے کہ لکھ ڈالوں کہ اسلام آباد ہی کے پنجاب ہاؤس میں اس نئے سال کی رات کون کون نامور شخص کس کے ساتھ موجود تھا۔ لکھنے کی ہمت اس لیے نہیں کر رہا کہ میں بزدل ہوں۔ بس تھوڑا سا قدامت پرست صحافی ہوتے ہوئے اب بھی اس بات پر بضد ہوں کہ کوئی فرد خواہ سیاست دان ہی کیوں نہ ہو اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کا حق رکھتا ہے۔
کالج پہنچ جانے کے 3 سال بعد بھی مجھے اندازہ نہ ہوا کہ کسی شخص کی سالگرہ کی تقریب فلموں کے علاوہ حقیقی زندگی میں بھی منائی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ بھی دریافت ہوا کہ جھوٹی سچی محبتیں استوار کرنے کے لیے آپ کا ایک Star بھی ہونا چاہیے جو دوسرے فریق کے Star سے قربت اور دوستی کے لیے مناسب جانا جائے۔ نوجوانی میں ویسے بھی سوشلسٹ انقلاب لانے کی خواہش دل میں بہت مچلا کرتی تھی۔ Stars اور برتھ ڈے وغیرہ کو ''پیٹی بورژوا'' ضعیف الاعتقادی یا ڈھکوسلے شمار کرتا رہا۔
اس لمبی تمہید کا مقصد آپ کو یہ اعتبار دلانا ہے کہ ذاتی طور پر میرے لیے نیو ایئر نائٹ وغیرہ کے ہنگامے کوئی خاص کشش نہیں رکھتے۔ ہاں اسلام آباد منتقل ہو جانے کے بعد انگریزی اخبارات کے لیے سفارتی تقریبات کے بارے میں کالم لکھنا شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ گوروں کے لیے اس رات کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ اس رات کی دعوتوں میں بلاتے تو بڑے شوق سے وہاں پہنچ جاتا۔ انگریزی موسیقی سے میری کوئی خاص واقفیت نہ تھی۔ گوروں کی دعوتوں میں جو گانے بجا کرتے تھے مجھے کوئی زیادہ بھاتے بھی نہیں تھے۔ اس لیے ڈانس فلور سے پرے کھڑا ناچتے لوگوں کو بس دیکھتا رہتا۔ بتدریج میں نے یہ دریافت کر لیا کہ پاپ میوزک پر تھرکنے کے لیے کوئی خاص مہارت درکار نہیں۔ ناچنے کے لیے تھوڑی ہمت اور ڈھیٹ ہونا ہی کافی ہے۔
میری نسل مگر اب تیزی سے بہت گزشتہ کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ اب تو انھیں گلیوں اور محلوں میں جہاں میں بڑا ہوا تھا نسبتاََ لوئر مڈل کلاس ماؤں کو بھی اپنے بچوں کی عیسوی کیلنڈر کے حساب سے تاریخ پیدائش پوری طرح یاد ہوتی ہے اور وہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی برتھ ڈے کے فنکشنز بھی منعقد کیا کرتی ہیں۔ زمانہ بدلا ہے تو کمیونی کیشن کی بہتات کے باعث Global Village میں سکڑتی دُنیا میں نیا سال بھی ایک Event بن گیا ہے جسے اشیائے صرف کی مارکیٹنگ کرنے والوں نے کافی ہلے گلے والا واقعہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کے شہروں میں گزشتہ دو یا تین دہائیوں میں پیدا ہو کر نوجوان ہونے والوں کا اس موقع پر ہلہ گلہ کرنے کی خواہش رکھنا ایک بہت ہی فطری عمل ہے۔
ہماری خوش بختی یا بدبختی نئے سال کے موقع پر موج میلہ کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو روکنے کے لیے 1980ء کی دہائی سے ڈنڈا بردار پارساؤں کے لشکر بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ ہماری ریاست نے ان لشکروں کو قابو میں رکھنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ وہ خود ہی ذرا تھک سے گئے ہیں۔ مگر گزشتہ دو تین برس سے پتہ نہیں کیوں نئے سال کے پہلے دن سے قبل والی رات ہمارے تمام بڑے شہروں میں ریاستی حکام اچانک چوکس ہو جاتے ہیں۔
اس چوکسی کا بدترین مظاہرہ 2012ء سے خود کو ''لبرل'' کہنے والی تین جماعتوں پر مشتمل صوبائی حکومت نے کراچی میں دکھانا شروع کیا۔ بڑے بڑے کنٹینر لگا کر ساحل سمندر کو جانے والے راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ دکانوں اور ریستورانوں کو سر شام اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور نئے سال کی رات اس شہر کو خوف و وحشت کا پیغام دے کر چلی جاتی ہے۔ کراچی کا ضرورت سے زیادہ واقف ہوتے ہوئے میں بلاخوف تردید یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ کبھی روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والے اس میگا سٹی پر نئے سال کی رات خوف و دہشت کا ماحول مسلط کرنے والے سیاسی اور سرکاری افراد کی ایک کثیر تعداد اپنے محل نما گھروں میں اسی رات خوب ہلہ گلہ مچاتی ہے۔ ان کے تمام سیکیورٹی انتظامات کا مقصد بس نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ''چھچھورے پن'' سے محروم رکھنا ہوتا ہے۔ اس شہر کو امن، بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں سے تقریباََ محروم رکھنے والی نام نہاد انتظامیہ کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ نئے سال کے بہانے سے Posh علاقوں میں رہنے کی استطاعت نہ رکھنے والوں کو تھوڑی چاہے جعلی ہی سہی خوشی منانے سے اس سختی کے ساتھ روک دے۔
میں نے عرصہ ہوا اسلام آباد کی ایسی دعوتوں میں جانا چھوڑ رکھا ہے جہاں نئے سال کی تقریبات ہو رہی ہوتی ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ پارسائی تو نہیں بڑھی البتہ تھکن اور اُکتاہٹ زیادہ ہو گئی ہے۔ چوہدری نثار علی خان مگر ''پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی'' ہیں۔ وہ یقیناً نئے سال کی تقریبات کو ہماری اسلامی اور مشرقی اقدار کے خلاف سمجھتے ہوں گے۔ مجھے ان کی اس سوچ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر ان دنوں وہ پاکستان کے بڑے ہی طاقتور وزیر داخلہ بھی ہیں۔ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ 30 دسمبر کے صبح سے اسلام آباد کی انتظامیہ کے ذریعے یہ واضح اعلانات کروانا شروع کر دیتے کہ 31 دسمبر کی رات تمام بازار اور تفریحی مقامات بند کر دیے جائیں گے۔ پنج ستاری ہوٹلوں کے ہالوں میں بھی اس حوالے سے کوئی پارٹی شارٹی کا اہتمام نہ کیا جائے۔
بدقسمتی سے ان کی جانب سے یہ فیصلہ 31 دسمبر کی شام سات بجے کے قریب صادر ہوا۔ اس وقت تک کئی غیر ملکی سفراء دو تین ہوٹلوں کی تقریبات میں اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے بھاری رقوم ادا کرنے کے بعد ٹیبل وغیرہ بک کروا چکے تھے۔ ہمارے کافی مہذب اور خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی کچھ ایسا ہی انتظام کر رکھا تھا۔ رات گئے تک میں ان کے احتجاجی ٹیلی فون وصول کرتا رہا۔ سوائے افسوس کے جواباََ کچھ نہ کہہ سکا۔ اگرچہ دل اس وقت بہت مچل رہا ہے کہ لکھ ڈالوں کہ اسلام آباد ہی کے پنجاب ہاؤس میں اس نئے سال کی رات کون کون نامور شخص کس کے ساتھ موجود تھا۔ لکھنے کی ہمت اس لیے نہیں کر رہا کہ میں بزدل ہوں۔ بس تھوڑا سا قدامت پرست صحافی ہوتے ہوئے اب بھی اس بات پر بضد ہوں کہ کوئی فرد خواہ سیاست دان ہی کیوں نہ ہو اپنی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کا حق رکھتا ہے۔