نئے طرز کی دہشت گردی

افغانستان پرحملہ کرنا بلاشبہ امریکا اوراس کے اتحادیوں کی حماقت تھی اس حماقت کے صلے میں اسے وہاں سے نکلنا بھی پڑ رہا ہے


Zaheer Akhter Bedari January 02, 2014
[email protected]

بعض دور ایسے ہوتے ہیں جن میں سچ بولنا انتہائی کٹھن اور رسکی کام ہوتا ہے۔ لیکن ایسے کٹھن دور ہی میں سچ بولنے اور بلند آواز سے بولنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ جس دور سے گزر رہا ہے وہ ایسا ہی کٹھن دور ہے اور یہاں سچ بولنے کی ضرورت فرض بن گئی ہے۔ جو معاشرے صدیوں سے جھوٹ سننے، جھوٹ بولنے کے عادی ہو جاتے ہیں ان کے لیے سچ ناقابل قبول ہوتا ہے۔ آج کا سچ یہ ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان دنیا میں بے انتہا ذلیل و رسوا ہو گئے ہیں، دنیا ہمیں اب انسان ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کیوں کہ ہم حیوانوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں غیر مسلموں کی غیر محفوظ زندگی کے حوالے سے ایک معروف مذہبی رہنما مولانا طاہر اشرفی کا تازہ بیان اس حوالے سے دنیا میں ہمارے امیج کا بیڑہ مزید غرق کرنے کے لیے کافی ہے۔ مولانا نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ ''جس ملک میں مسلمان ہی محفوظ نہیں اس ملک میں غیر مسلموں کی زندگیوں کے محفوظ ہونے کی بات کس طرح کی جا سکتی ہے؟''

پشاور میں ایک گرجا گھر پر خون آشام حملے کے بعد پاکستان کی اقلیت شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔ پاکستان کے بعد عراق کے دو شہروں بغداد اور ضورا میں گرجا گھروں پر ہونے والے حملوں میں 40 مسیحی ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ گرجا گھروں پر ہونے والے ان حملوں کے پیچھے بھی وہی ذہنیت کارفرما نظر آتی ہے جس کی نظر میں گرجا گھروں پر حملے شریعت کے عین مطابق ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا یہ سلسلہ پاکستان، افغانستان اور عراق تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ افریقی ملکوں تک دراز ہو گیا ہے۔ نائیجیریا میں انتہا پسندوں کے حملوں میں اسی ہفتے 70 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔ مصر میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر تازہ حملے میں 13 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ سوڈان میں ''باغی گروہوں'' اور سوڈانی فوج میں جاری لڑائی میں درجنوں سوڈانی ہلاک ہوچکے ہیں۔ جنوبی سوڈان میں 75 سوڈانی سپاہیوں کی ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں فوجوں پر دہشت گردانہ حملوں میں اب تک ہزاروں سپاہی اور افسر شہید ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے دہشت گردوں کی بربریت کا اندازہ پاکستانی سپاہیوں کی گردنیں کاٹنے سے لگایا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی جو اب ایک عالمی مسئلہ بن گئی ہے اس کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ کی منفرد تحریک ''شریعت کے نفاذ'' کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ دنیا کی مذہبی تاریخ میں مذاہب کی تبلیغ کی بے شمار تحریکیں نظر آتی ہیں لیکن یہ تحریکیں عموماً پر امن رہیں۔ کیوں کہ تبلیغ کا بنیادی مقصد اپنے مذہب کی خوبیاں اجاگر کر کے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی طرف آنے کے لیے ترغیب فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن جو لوگ دنیا بھر میں خاص طور پر مسلم ملکوں میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں انھوں نے دہشت گردی کا وہ خطرناک راستہ اختیار کیا ہے جس کی مذاہب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ خود مسلمان بن رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ مسلمان اور پاکستانی اس بے لگام دہشت گردی میں انتہائی وحشیانہ موت کا شکار ہو چکے ہیں جن میں بچے، بوڑھے، عورتیں اور مرد سب شامل ہیں۔ اس سفاکانہ دہشت گردی سے جب خود مسلمان نفرت کر رہے ہیں تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خیالات اس منفرد ''تبلیغی دہشت گردی'' کے بارے میں کیا ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اس قسم کی وحشیانہ تبلیغ یا ساری دنیا پر غالب آنے کی اس سفاکانہ تحریک سے کیا کسی دوسری قوم کو اپنے مذہب کے قریب لایا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی ہی میں آئے گا اور اس تحریک کے سرپرستوں کو یقیناً یہ احساس ہو گا کہ ان کے طریقہ تبلیغ سے دوسرے ہی نہیں اپنے بھی سخت نفرت کر رہے ہیں۔ کیا ان حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ یہ تبلیغی دہشت گردی مسلمانوں اور ان کے مذہب کو دنیا میں بدنام کرنے کی منظم سازش ہے۔ یہ محض قیاس یا خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کیا اس مقدس تحریک کے سرپرست ان حقائق سے آگاہ نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر اپنی قوم اور مذہب کی دنیا بھر رسوائی اور ذلت کا سبب اور مقصد کیا ہے؟

اس دہشت گردانہ تبلیغ سے نہ مسلم ملکوں میں شریعت کا نفاذ ممکن ہے نہ عالمی سطح پر اس دہشت گردی سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے قریب لایا جا سکتا ہے۔ مسلم ملکوں میں بھی اب سماجی اور تہذیبی زندگی جس منزل پر کھڑی ہے مسلم ملکوں کی ثقافت کن خطوط پر استوار ہو رہی ہے۔ کیا اس پس منظر میں یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی سماجی زندگی، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت کو ہزاروں سال پیچھے لے جائیں گے؟ پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے، پاکستانی معاشرہ اپنی تمام تر خرابیوں، کمزوریوں اور پسماندگی کے باوجود سماجی، تہذیبی اور ثقافتی حیثیت سے ترقی کے جس مقام پر کھڑا ہے کیا اسے چودہ سو سال پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے؟ افغانستان جیسے قبائلی معاشرے میں بھی جو تہذیبی اور ثقافتی پیش رفت ہو رہی ہے کیا اسے ریورس گیئر میں ڈالنا ممکن ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران شریعت کے نام پر جو کچھ کیا گیا، کیا افغان عوام اس سے خوش تھے؟

خیبر پختونخوا میں بلاشبہ اب بھی قبائلی نظام موجود ہے لیکن سماجی ارتقاء کے عمل سے یہ صوبہ بھی محروم نہیں، اس صوبے کے شہروں میں جدید زندگی کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے بچے اور نوجوان نہ صرف اپنے صوبے میں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں کالج اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور لڑکیوں میں حصول علم کی خواہش بڑھ رہی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کا واقعہ آج ساری دنیا میں روشن پختونخوا کی علامت بن گیا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی تخریبی طاقت پر انحصار کرنے والے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ عالمی سطح تک پہنچانا چاہتے ہیں اور دنیا پر غالب آنے کے لیے ان کے پاس جو طاقت ہے، وہ ہے خودکش حملوں کی طاقت، بارودی گاڑیوں اور ٹائم بموں کی طاقت۔ کیا دنیا کی جدید ترین فوجی طاقت ایٹمی میزائل، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس مغربی ملکوں اور بھرپور اقتصادی طاقت رکھنے والے امریکا اور مغربی ملکوں کو خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں سے فتح کیا جا سکتا ہے؟ کسی مغربی ملک کے کسی شہر میں دہشت گردی کی کوئی واردات کرنا الگ بات ہے اور دہشت گردی کے ذریعے ان ملکوں پر قبضہ کرنا بالکل الگ بات ہے۔ ایک معمولی ہتھیار ڈرون سے خوفزدہ مجاہدین کیا مغرب کے خطرناک ایٹمی ہتھیاروں، بحری اور فضائی طاقت کا مقابلہ کر لیں گے؟

افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی واپسی کو اس کی پسپائی کا نام دے کر مغرب کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے غالباً اس حقیقت کو بھلا رہے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ایک ایسے پہاڑی ملک میں جنگ لڑ رہے تھے جہاں کی نہ انھیں تاریخ کا پتہ تھا نہ جغرافیہ کا، ایسا پہاڑی ملک جہاں چھاپہ مار جنگ بڑی بڑی فوجی طاقتوں پر غالب آ سکتی ہے، جہاں روس جیسے طاقتور ملک کو پسپا ہونا پڑا، اس ملک پر حملہ کرنا بلاشبہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حماقت تھی اور اس حماقت کے صلے میں اسے وہاں سے نکلنا بھی پڑ رہا ہے۔ جہاں ان کی نفسیاتی کیفیت میں ایک جارحانہ جنگ کا جرم بھی موجود تھا۔ لیکن اگر کوئی ان کے ملکوں کو فتح کرنے وہ بھی خودکش حملوں اور دہشت گردی کے ہتھیار سے تو وہ احمقوں کی جنت میں ہی رہتا ہے۔ دہشت گردی میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ وبا بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے عالمی برادری اس تیزی سے اس کے خلاف متحد ہو رہی ہے۔ کیوں کہ اب یہ مسئلہ نہ امریکا کا رہا نہ نیٹو کا، یہ دنیا کی سلامتی، دنیا کے مستقبل اور جدید تہذیب کی بقاء کا مسئلہ بن گیا ہے اور چند دہشت گرد گروہوں کے بس کی یہ بات نہیں کہ وہ عالمی طاقتوں سے جنگ کریں اور ان پر غالب آئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں