آرٹس کونسل کراچی کے انتخابات

آرٹس کونسل کا ایوان ایک ایسی اسمبلی ہے جس سے ادبی، نئی جہتوں کا بتدریج ارتقا ہوا


Anis Baqar January 02, 2014
[email protected]

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی آرٹس کونسل کراچی کے انتخابات ہوئے۔ اتوار 29 دسمبر کو یہ میلہ سجایا گیا مگر اس سال ان انتخابات میں گہما گہمی نسبتاً زیادہ تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقابلے پر خلیل نینی تال والا بھی صدارتی امیدوار بن گئے۔ اب کیا تھا، طبل جنگ بج گیا، دونوں جانب سے جلسے، خطابات، کارنر میٹنگ، آخرکار ووٹنگ کا دن آ ہی گیا، جنرل باڈی کا اجلاس ہوا اور پھر پولنگ جو رات دس بجے تک جاری رہی۔ شہر قائد پینل گزشتہ کئی برسوں سے شکست سے دوچار ہے لہٰذا اس پینل میں موجود چند لوگوں نے جو کبھی احمد شاہ کے ساتھیوں میں سے تھے شہر قائد پینل کی داغ بیل ڈالی۔ سیاست کا یہ طریقہ کار ادبی تنظیموں میں بھی موجود ہے۔ فکر کا تصادم، ادارے کو سنوارنے کا طریقہ کار ہی نمو کا خالق ہے اور یہی جمہوری حسن ہے۔ اس اعتبار سے آرٹس کونسل کو جمہوری آبیاری میں مدد ملی ہے اور خصوصیت کے ساتھ صبر، استقامت، یہاں کے دونوں پینلوں کا شیوہ رہا ہے، جو تہذیب کے ارتقا کا ضامن ہے۔

آرٹس کونسل کا ایوان ایک ایسی اسمبلی ہے جس سے ادبی، نئی جہتوں کا بتدریج ارتقا ہوا۔ خصوصاً چند برسوں میں آرٹس کونسل فنکاروں، شاعروں، ادیبوں کے لیے ایک ایسا چمن سنبل بن گیا جس سے آرٹسٹ اور آرٹ کے محبان سربستہ ہو گئے، یہاں تک کہ آٹھ سال قبل عام آدمی کو یہ معلوم نہ تھا کہ آرٹس کونسل کہاں ہے اور کیا کرتی ہے، مگر اب ہر خاص و عام کو معلوم ہوگیا کہ یہ فنون لطیفہ کا مخرج ہے۔ اردو کانفرنس نے اس بزم کو چار چاند لگا دیے گو اردو کانفرنس اردو کی ترویج کے لیے معاون رہی ہے مگر نفاذ اردو کی تحریک اب تک بننے سے تشنہ رہی ہے، اردو زبان جو ترقی پسند تحریک کا ہر اول دستہ رہی ہے، اب تک ادب برائے زندگی کے تصورات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہی ہے، کیونکہ مقررین اور مقالہ نویس اردو کو قومی زبان کا درجہ دلانے کی تحریک تو دور کی بات اس زبان کے تذکرے کو حکومت تک پہنچانے سے کتراتے رہے اور قائد اعظم کے قول کو آج تک فراموش کیے بیٹھے ہیں، گویا کہ اردو زبان بھارت کی بالی وڈ انڈسٹری اور پاکستان کے لاکھوں لوگوں کے رزق کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نئی جہتوں نے بے شمار ملازمت کے دروازے کھول رکھے ہیں مگر بعض قلم کار رومن رسم الخط کا خوف عوام پر طاری کرتے رہتے ہیں۔

حالانکہ رومن زبان ایس ایم ایس کی محدود فیلڈ سے آگے نہ بڑھ سکے گی کیونکہ ژ، ڈ، د، ڑ اور دیگر آہنگ کو نکالنے میں رومن زبان قاصر ہے۔ اردو کے قلم کاروں نے موجودہ دہائی میں بچوں کے ادب پر کوئی خاص کام نہ کیا اور انشائیہ اردو ادب سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں کی جا رہی ہے یا یوں سمجھیے کہ پروگرام یکسانیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، البتہ غیر ممالک سے اردو دان طبقہ کی شرکت ایک اچھی روایت ہے۔ اسی طرح گائیکی کا پروگرام بھی روایت پرستی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے، نئے گلوکاروں کو بھی ایک مخصوص پروگرام میں توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ ان کی بھی پذیرائی ہو سکے اور سندھ کے موسیقاروں، گلوکاروں کو بھی مواقع ملنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک پروگرام فائن آرٹس پر بھی کیا جانا چاہیے اور ان کے فن پاروں پر نقد و نظر اور حوصلہ افزائی کے لیے معاوضہ بہت نہ سہی، کم ہی سہی ہونا باقی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں بعض کام بہت اچھے ہوئے ہیں، یعنی رفتگاں کی شاعری کو چھپوانا خصوصاً عزیز حامد مدنی، ایک صاحب طرز شاعر جن کی کوئی اولاد نہ تھی کیونکہ انھوں نے شادی نہ کی تھی اور احمد شاہ نے ان کا کلام چھاپ کر سچ تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیا۔ ہر سال انتخابات سے قبل ہر بار آرٹس کونسل کے بے گھر ممبران جو چھوٹے سے کرایے کے گھر میں رہتے ہیں ان کے اپنے آشیاں کا خواب اگر ان کی زندگی میں پورا ہو جائے تو کیا اچھا ہوتا۔

کیونکہ صاحب حیثیت ارکان کم ہیں خصوصاً، جو قلم کی نوک اور برش کی نوک سے کام کرتے ہیں ان کی اکثریت زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ مسئلہ چند ہفتوں کے لیے اٹھتا ہے، اسی وجہ سے لوگ اب دھیمے لہجے میں یہ بات کرتے سنے گئے ہیں کہ بے مکان لوگوں کو متحد ہو کر آواز اٹھانی ہو گی تا کہ اگلے انتخاب سے قبل یہ مسئلہ حل ہو جائے، لہٰذا زمین کا مسئلہ موجودہ برسر اقتدار کونسل کو حل کرنا ہو گا تا کہ ناامیدی کے شکار لوگ سکون کا سانس لے سکیں، کیونکہ صاحب ثروت لوگوں اور چیمبر آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری سے منسلک افراد نے زمین لینے سے انکار کر دیا ہے۔

لہٰذا اگلا انتخاب ایک زبردست امتحان ہو گا۔ گو جب نتائج آنے شروع ہوئے تو ایک گھنٹے تک جو گنتی چل رہی تھی تو دونوں جانب کے سیکریٹری، نائب صدور اور صدور کے درمیان مقابلہ سخت نظر آ رہا تھا اور اختتام تک صورت حال یہ ہوئی کہ صدارت کے امیدوار جو احمد شاہ کے پینل پر تھے اعجاز فاروقی نے 1447 ووٹ لیے اور ان کے مدمقابل خلیل احمد نینی تال والا کو 919، یہاں پر فرق 528 ووٹوں کا ہے جب کہ سیکریٹری کی پوسٹ پر شہر قائد کے نجم الدین شیخ کے سب سے زیادہ ووٹ ہیں 1057 اور احمد شاہ کے 1326 ووٹ ہیں، 269 یعنی احمد شاہ کے پینل میں احمد شاہ کے صدر اور نائب صدر کے مقابلے میں کم ووٹ ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ احمد شاہ کے خلاف مزاحمت زیادہ رہی، اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ پروفیسر سحر انصاری جو احمد شاہ پینل پر گورننگ باڈی کے ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ان کا ٹوٹل 1700 کے قریب ہے جنھوں نے اپنی ادبی طاقت اور احمد شاہ کے پینل کی قوت سے ملا کر ووٹ لیے مگر وہ غیر سیاسی تھے اور فیصلہ کن قوت نہ تھے، اس لیے ایک حلقے نے ان کو زیادہ ووٹ دیے ۔

لہٰذا احمد شاہ کو اپنے حلقے کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے علاوہ اپنی گورننگ باڈی میں ایک دو لوگوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنا ہو گا جو پہلی بار نائب صدر کی پوزیشن پر کھڑے ہو سکیں۔ رہ گیا احمد شاہ کی جیت میں ایک فیصلہ کن مرحلہ اس خط کا ہے جو انھوں نے الیکشن کے دن لکھا اور اپنی عاجزی اور انتہائی انکساری سے خطاب کیا۔جب کہ اسی روز خلیل نینی تال والا صاحب نے اپنا تذکرہ یوں کر ڈالا کہ وہ رات گیارہ کے بعد کوئی پروگرام اٹینڈ نہیں کر سکتے جب کہ آرٹس کونسل میں صدارت کی کرسی رت جگے کی کرسی ہے۔ اس راست گوئی نے اپنی پوری ٹیم پر ضرب لگا دی کہ یہ پینل رت جگے کا متحمل نہیں ہو سکتا، وہ افواہ جو ان کے خلاف فرداً فرداً چل رہی تھی کہ نینی تال والا اپنی انڈسٹری کے بعد کیسے ٹائم نکال سکیں گے۔ وقت کے چہرے پر مہر ثبت کر دی۔ اس طرح احمد شاہ کی پوزیشن مضبوط ہو گئی۔

کراچی شہر میں آرٹس کونسل کا امیج اچھا ہے، اس کو مزید اچھا اور خوش رنگ بنانے کی ضرورت ادیبوں شاعروں کی کتابوں کی اشاعت میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ شہر قائد کی جانب سے جو منصوبے پیش کیے گئے ہیں ان میں سے جو قابل عمل، اراکین آرٹس کونسل کی بہتری کے لیے جو بھی ممکن اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں، اٹھائے جانے چاہئیں۔ آرٹس کونسل کراچی کی تہذیبی علامت ہے، ادبی ثقافتی مرکز کے علاوہ ایک تہذیبی مرکز ہے، کیونکہ یہاں کے انتخابات ہر قسم کی بدنظمی سے دور ہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کو جمہوری اقدار اور جمہوری روایات یہاں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تصادم اور عدم برداشت والے شہر کو پھر سے کراچی کی رونقیں بحال کرنے میں آرٹس کونسل کے پروگرام مسلسل ایک دوسرے کی آرا اور عقائد کا احترام کرنے کی ایک بیٹھک ہے، یہاں ہر روز بادِ صبا آتی ہے اور ہر قسم اور ہر رنگ کی بلبلیں یہاں نغمہ سرا ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں