تبدیلی اندر سے آتی ہے
مسائل بڑھتے جارہے ہیں لیکن کہیں کوئی حل نظر نہیں آتا،تمام تر مسائل ہماری ذات کے اندر سے پھوٹتے ہیں
جب 31 دسمبر کی گہری سرد تاریک رات، سپیدۂ سحر میں جذب ہوکر سال نو کی دستک بنتی ہے تو جہاں امید کی کئی قندیلیں خودبخود روشن ہوتی ہیں، وہیں سال گزشتہ کی تمام تر نامکمل دعائیں، خواہشیں اور عہد بھی نئے سانچوں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ دراصل ہوتا کچھ یوں ہے، ہر نئے برس کے لیے سوچا تو بہت کچھ جاتا ہے، لیکن جب ہر طرف سے فکروں کی یلغار اپنے گھیرے میں لے لے تو پھر بہت کچھ محض سوچا ہوا ہی رہ جاتا ہے، عمل نہیں بن پاتا۔ رواں برس (سالِ نو) بھی ہماری زندگی میں صرف ہندسے بدلے گا یا ہماری قسمت بھی؟ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہر سال کے اختتام و آغاز کے درمیانی لمحوں میں ہم اک بار اپنا محاسبہ ضرور کرتے ہیں اور خود سے اختتامی ملاقات کے لمحوں میں کچھ دعائیں، خواہشیں اور عہد بھی کیے جاتے ہیں۔ سال گزشتہ کو آغاز میں ہی تبدیلیوں کا سال قرار دے دیا گیا تھا مگر شومئی قسمت کہ یہ تبدیلی صرف اور صرف چہروں کی تبدیلی تک ہی محدود رہی۔ عوام کی پریشان حال زندگی میں تبدیلی نام کی کسی چیز کا شائبہ تک نہ آیا۔
پرپیچ خون آلود سالِ گزشتہ کے بارہ ماہ کے سفر میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا؟ صرف اس ایک سوال کا جواب دینے کے لیے سیکڑوں نہیں ہزاروں صفحات کی ضرورت پیش آئے گی، جواب پھر بھی نہیں مل سکے گا۔ اگر وقت گزشتہ کے خسارے والے گوشوارے میں حاصلات کے حوالے سے کچھ تلاش کیا جائے تو ہمیں اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ مختصر سفر میں انسانی ذات کی سب سے بڑی حاصلات ''قانون'' ہے۔ یہ قانون ہی تو ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے ہاتھوں ہر روز زخم کھانے والا شہر (کراچی) ابھی تک قائم ہے، انسان نے اس شہر کو قیامت سے پہلے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر پھر بھی فطرت کے قوانین اس کو اپنی مضبوط گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت دریا کے تیز دھارے کی مانند ہے، ایک پل میں آگے بڑھ جاتا ہے، انسان ٹھیک سے دیکھ ہی نہیں پاتا کہ پردے پر منظر بدل جاتا ہے، اور پھر گزرتے وقت کی کہانی ڈائریوں اور سینوں میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ہماری زندگی ایسی دیواروں میں مقید ہے کہ وہ آج بھی لمحے لمحے کا حساب رکھتے ہوئے امید و ناامیدی کے دوراہے پر خاموش کھڑی ہے۔ اداس اور دکھ بھری خاموشی، لٹیروں اور فسادیوں کی درندگی پر رو رہی ہے۔
لیکن جب خاموشی ان سے سوال پر سوال کرتی ہے کہ کیا یہی قائد کا خواب تھا؟ کیا یہی ان گنت قربانیوں کی تعبیر ہے؟ کیا درندے اس ملک کے وارث ہیں؟ معصوم عوام کیا بے حس ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں سب کے چہرے خود بھی سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ سوال کی آنکھوں میں خواہش کے آنسو، امید کے دیے، نم آنکھیں، اداس چہرے اپنی کہانیاں خود بیان کرتے ہیں۔ پھر بھی کچھ کہی ان کہی باتیں رہ جاتی ہیں، کچھ باتیں کہنے اور کرنے کی وقت اجازت نہیں دیتا، مگر چند خوب صورت دنوں کا فریب دے کر یہ باور کرانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے کہ دکھ کے دنوں میں زندگی کے خوب صورت لمحوں کو بھی یاد رکھیں اور خود کو دلاسے دیتے رہیں کہ اچھے دن ضرور آئیں گے۔ لیکن 2013 کے کون سے خوش کن لمحے یاد کریں؟ ماسوائے اس لمحے کے جب ڈھول کی تھاپ پر اس سال کا استقبال کیا تھا، سال نو کا سورج امیدوں کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں کی مانند طلوع ہوا تھا، لیکن 365 دن بعد جب لہریں تھک کر گہرے سمندر کی آغوش میں ہچکولے لیتی ڈوبیں تو ہر آنکھ سے امید کے ٹمٹماتے دیے، آنسوؤں کے سیلِ رواں میں بہتے رہے۔ ان ایام کو فراموش کرنا آسان نہیں ہے، کتنے دھرنے، جلسے، جلوس طوفان بن کر ابھرے، کتنے وعدے وعید سماعتوں سے ٹکرائے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ چمکتی آنکھوں سے خواب چھینتے رہے، خوشی سے بھرپور زندگی گزارنے کے لیے نہ جانے کتنے لوگوں نے غم سہے۔ ایک دکھ کا حساب لینے کو ان گنت گھروں میں غم بانٹے گئے۔
روٹی کے ایک ٹکڑے کو ترستے لوگ خوشیوں کو بھی ترستے رہے۔ لیکن کتنا ہی گھپ اندھیرا ہو، امید کی ایک کرن، اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے، ہر سال کی آخری سانسوں کے ساتھ جب امیدیں تھک ہار کر دم توڑتی ہیں تو نئے سال کے جشن میں پرامید رہنے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، اگرچہ 2013 کے آغاز تا اختتام تک کے بیش تر دن کرچیاں بن کر آنکھوں میں چبھ رہے ہیں، وہ دن نہ عام تھے اور نہ خاص، بس وہ ایسے دن تھے جنھیں سوچ کر ہی کپکپی طاری ہوجاتی ہے، رگوں میں خوف سرائیت کرجاتا ہے، لیکن بات وہی ہے کہ ''پہچانتے نہیں ہیں راہبر کو ہم۔'' جیسے ہی خوش کن وعدوں کے ساتھ کوئی سامنے آیا، یہ قوم پھر ناامیدی میں امید کے چراغ جلانے لگتی ہے۔سال گزشتہ کا منظر نامہ ایک تجربہ گاہ سے زیادہ بازیچہ اطفال کا منظر پیش کرتا ہے۔ تمدن سے لے کر سیاست تک، تعلیم سے لے کر افکار تک، کون سی چیز ہے جسے ہم نے دور غلامی کی مقدس میراث کی طرح سنبھال کر نہیں رکھا۔ انگریز نے جلیانوالہ باغ میں قتل عام کیا تو آج کراچی میں بہنے والا خون اپنی کہانی خود بیان کررہا ہے۔ انگریز نے کالا پانی کی سزائیں دیں تو بلند ایوانوں کے باہر لاپتہ افراد کے ورثاء کی قطاریں آج بھی روز کا منظر ہیں۔ تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع نہ ہمارے آقاؤں کے دور میں میسر تھے نہ ہی آج معیاری منصفانہ بنیادوں پر دستیاب ہیں۔ عمل سے خالی، روح سے عاری، کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان، کیا خواتین، سب کے سب مسائل میں گھرے آنکھیں بند کیے گم صم بیٹھے ہیں۔ بدعنوانی اور ناانصافی نے ہر سرکاری، نیم سرکاری، کاروباری، محکمے میں اس طرح پنجے گاڑ دیے ہیں کہ لیے دیے بغیر نہ اب پیدائش کا سرٹیفکیٹ بن پاتا ہے اور نہ موت کا۔
کہا یہ جارہا ہے کہ 2013 میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی اور بیروزگاری سرفہرست رہا۔ لیکن یہ دونوں مسائل تو شاخوں پر لگے پتوں کی طرح ہیں، جڑیں، تنے اور ٹہنیاں تو ہماری لالچ، بدعنوانی، بے ایمانی، ناانصافی اور اقرباء پروری ہیں جن کی افزائش سے ہی ہمیں آج دہشتگردی، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے عفریتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہی رونا رویا جارہا ہے کہ مسائل بڑھتے جارہے ہیں لیکن کہیں کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ہمارے تمام تر مسائل ہماری ذات کے اندر سے پھوٹتے ہیں اور ان کا حل بھی ہمارے اپنے اندر ہی ہے۔ امید کے دیے جلاتے ہوئے یہ بھی سوچ لیں کہ نئے سال میں خود کو تبدیل کریں گے تو شاید کچھ اچھا ہوجائے، کیوں کہ تبدیلی اندر سے ہی پیدا ہوتی ہے، یہی تبدیلی دوسروں پر اثر ڈال سکتی ہے۔ زور اور زبردستی سے ہم کچھ وقت کے لیے حالات میں تبدیلی لاسکتے ہیں لیکن اسے برقرار رکھنے کے لیے قلب کی سچائی اور فکر کی گہرائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل کے حل بھی ہمارے اندر پوشیدہ ہیں، ہم چاہیں تو راستے میں حائل مشکلات کو سچائی، ہمت اورجرأت سے دور کرسکتے ہیں۔
خواہش کے بعد نئی خواہش، خیال کے بعد نئے خیال اور خواب کے بعد نئے خواب کے ساتھ گزر بسر کرنا ہی زندگی ہے۔ اب تو پہلے سے زیادہ اچھا موسم ہے، اب تو پہلے سے زیادہ اچھے دن ہیں، ہم نے تو بہت برے دن گزارے ہیں، ہم نے تو ان برے دنوں میں بھی اپنی امیدیں نہیں ہاریں، وہ ساری امیدیں ہمارے وجود میں مہک رہی ہیں، ہماری نمود میں دمک رہی ہیں، اب ہمیں نئی امیدوں اور نئی تمناؤں کے ساتھ نئے جذبے گنگنانا چاہئیں تاکہ جمہوریت زندہ رہے، پاکستان تابندہ رہے۔
اے کاش! نیا سال انسانوں اور مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو، ظلم و بربریت، دہشتگردی کا خاتمہ ہو، ملک کے تمام ناسور رفع ہوجائیں، علم و شعور کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے۔ اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے اور ہم وہ دن جلد دیکھیں، جب اقوام عالم کے درمیان پاکستان سربلندی اور سرفرازی سے کھڑا ہو۔