مشرقی پاکستان سے بنگلادیش تک

ہم نے دیکھا ہے بہارو ں میں چمن کو جلتے۔

سقوط ِ ڈھاکا کے نتیجے میں جنوب مشرقی ایشیا یا مشرق بعید میں پاکستان کا سیاسی وجغرافیائی وجود ختم ہوگیا۔ فوٹو: فائل

کیا سقوط ڈھاکا کا سانحہ ناگزیر تھا؟ کیا ملک کے مشرقی ومغربی بازو یکجا نہیں رہ سکتے تھے؟ قوم کے اذہان میں یہ سوالات ہر سال جنم لیتے ہیں لیکن اس کا جواب پوری سچائی کے ساتھ کبھی سامنے نہ آسکا۔ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں پیش آنے والے تین جان کاہ سانحات میں 16 کی تاریخ اور ہندسہ مشترک نظر آتا ہے۔

اکتوبر1951 میں لیاقت علی خان کا قتل، دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کا بنگلادیش کی جانب سفر اور دسمبر2015ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں معصوم نونہالوں کا بہیمانہ قتلِ عام۔ بنگلادیش کے قیام نیز پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوؤں کے مابین تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے مذکورہ سوالات کے پس منظر پر غور کرنا ہوگا۔

1940ء کی قرارداد لاہور اور1946ء کی قراردادِدہلی جن کے ذریعے مسلمانوں کے علیحدہ ریاستوں اور آخر میں پاکستان کی صورت میں ایک قومی ریاست قائم ہوئی، کی تجاویز دونوں ہی، غیر منقسم بنگال کے وزراء اعلیٰ مولوی ابوالقاسم فضل الحق اور حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد جغرافیائی طور پر مغربی پاکستان میں مرکزی دارالحکومت کے قیام کی مشرقی پاکستان کی جانب سے منظوری، نیز جداگانہ طریقہ انتخاب کے نتیجے میں 1945-46 کے انتخابات میں مشرقی بنگال کے منتخب ہونے والے ہندو اراکین اسمبلی کے توازن کو قائم کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کی جانب سے لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی مرکزی اسمبلی میں نام زدگی، ایسے واقعات ہیں جو اس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی قیادت اور عوام پاکستان کو یکجا رکھنے کے لیے ہر کاوش کو بروئے کار لانا چاہتے تھے۔

بنگلا دیش کے صدرمملکت کی سرکاری ویب سائیٹ ''بنگا بھین'' پر 1947ء سے بنگلادیش کے قیام تک صوبے کے گورنروں کا ایک مختصر تعارف موجود ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آج بھی بنگلادیش کی مقبول قیادت مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی فاصلوں اور دوریوں کے لیے اسکندرمرزا کو ذمہ دار تصور کرتی ہے جب کہ اسی فہرست میں بحیثیت صوبائی گورنر چوہدری خلیق الزماں کی توصیف کی گئی ہے۔

چوہدری خلیق الزماں نے 1954ء کے انتخابات میں کام یاب سیاسی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار اور گورنرراج نافذ کرکے مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حکومتی مطالبہ مسترد کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی تھی جس کا ادراک مشرقی پاکستان کی قیادت کو تھا، جب کہ مشرقی پاکستان سے نام زد وزیراعظم لیاقت علی خان کا بے رحمانہ قتل اور بعدازاں وزیراعظم کے منصب سے خواجہ ناظم الدین کی غیرآئینی برطرفی پر بھی مشرقی پاکستان کی متحرک قیادت اور باشعور عوام نے خاموش ردِعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔

1954میں آئین ساز اسمبلی کی غیرقانونی تحلیل کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات اور 1956 کے دستور میں مساوی نمائندگی کو قبول کرکے مشرقی پاکستان نے ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی، جب کہ مشرقی پاکستان میں آبادی کی عددی اکثریت تھی۔

اسی طرح رائے عامہ کی منظوری کے بغیر کراچی کے متفقہ دارالحکومت کی منتقلی کو ان اسباب میں گردانا جاسکتا ہے جو ملک کے دونوں بازوؤں کے مابین فاصلوں میں اضافے کا سبب بنتے رہے، تاآنکہ 1969میں اقتدار مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کرنے کے بجائے فیلڈمارشل ایوب خان نے ایک اور آمر یحییٰ خان کے سپرد کردیا تھا، جنہوں نے پاکستان کی دونوں وفاقی اکائیوں میں متفقہ ''پیریٹی'' کے اُصول کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو بحال کردیا تھا اور مغربی پاکستان کی انتظامی وحدت کو ختم کرکے نئے صوبے تشکیل دے دیے تھے۔

کراچی اور بہالپور کی صوبائی حیثیت کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔ مزید برآں پاکستان کے نئے آئین کو مرتب کرنے کے لیے 1970 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والی دستورساز اسمبلی کو ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے سادہ اکثریت سے آئین کو منظور کرنے کے غیرمعمولی اختیارات تفویض کردیے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو غیرمعمولی اکثریت حاصل ہوگئی تھی جس کی بنیاد پر ان کی پارٹی تنہا آئین سازی اور اس کی منظوری دے سکتی تھی۔


یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سادہ اکثریت سے دستورسازی کے اختیار پر جن شخصیات نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان میں ایئرمارشل نور خان نمایاں تھے۔ یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک کی رُو سے آئین ساز اسمبلی کو دستورسازی کے لیے 120دن کی میعاد کا تعین کیا گیا تھا جو ایک غیریقینی صورت حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس میعاد کے تعین پر جن سیاست دانوں نے اپنے اعتراضات اُٹھائے تھے ان میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس میعاد پر نظرثانی کی جائے لیکن حکم رانوں نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ میرا تاثر یہ ہے اس دوران مشرقی اور مغربی پاکستان کی قیادت میں نہ صرف باہمی اعتماد کی کمی تھی بلکہ معاملہ اعتماد کے بحران تک جاپہنچا تھا، جس کے لیے اعتمادسازی کی ضرورت تھی، جو ملک کے حکم راں انجام دے سکتے تھے۔

مثال کے طور پر اگر پاک بحریہ کے ہیڈکوارٹر کو کراچی سے چٹاگانگ منتقل کردیا جاتا تو کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑتی۔ بعد میں بھی نہ صرف ہیڈکوارٹر کراچی سے منتقل کیا گیا بلکہ بحریہ کا وار کالج اس شہر میں منتقل کیا گیا جو ساحل سمندر سے کوسوں دور ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اگر بحریہ کے ہیڈکوارٹر کی مشرقی پاکستان منتقلی عمل میں آجاتی تو شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کی قیادت اپنے چھے نکات پر آئین سازی میں رعایت دے سکتی تھی اور 6 نکات پر آئین کی ترتیب کے مطالبے میں لچک آسکتی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ 2دسمبر1971ء کو عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے سنیئر ترین وزیر کی سربراہی میں ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور کراچی کے ایک عشائیے میں بھی شرکت کی تھی جس کا اہتمام پاک چین دوستی کی انجمن کے صدر حاتم علوی نے کیا تھا۔ غالباً چینی قیادت کے اس دورے کا مقصد حکومت پاکستان کو معاملات کی سنگینی سے آگاہ کرنا تھا۔ مذکورہ عشائیہ جو کراچی کے کانٹی نینٹل ہوٹل میں منعقد ہوا تھا۔ ڈائس پر مہمان خصوصی اور میزبان کے علاوہ گورنر سندھ جنرل رحمان گل اور بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی موجود تھیں۔ میں بینکوئیٹ ہال کے کوریڈور میں داخل ہوا تو اس وقت عشائیے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوریڈور میں ایک صوفے پر معروف شاعر اور دانش ور فیض احمد فیض تنہا تشریف فرما تھے، جنہوں نے مجھ سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں سوویت یونین کے رویے کی وجہ سے وہ کسی غیض وغضب کا شکار نہ ہوجائیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس دور میں سوویت یونین کے پہلے آخری سربراہ حکومت الیکس کو سیجن تھے جنہوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ اُنہوں نے امریکی وزیرخارجہ ہنری کیسنجر کی چینی قیادت سے ملاقات میں حکومت پاکستان کی سہولت کاری کے بارے میں ناراضی کا اظہار کیا ہوگا۔ بعدازاں جس کا اظہار مشرقی پاکستان میں بھارتی جارحیت کی سوویت آشیرباد کے ذریعے ہوا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا کے صدر نکسن مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام کے عمل کو خوں ریزی کے بجائے پُرامن طور فتح مند دیکھنا چاہتے تھے۔

مذکورہ بالا سوالات کی روشنی میں بھی اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کون سی تجاویز تھیں جن کو عملی جامہ پہنانے سے پاکستان نئے آئین سے متعلق یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک کے ہوتے ہوئے بھی اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھ سکتا تھا۔ 1969ء میں یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب ''پیریٹی'' کے خاتمے اور مغربی پاکستان کی ووٹ کی تحلیل کی باتیں منظرِعام پرآرہی تھیں تو تحریک پاکستان کی اہم شخصیت نے ملک کو تقسیم سے بچانے کے لیے مغربی پاکستان میں صوبوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی صوبوں کی تخلیق کا مطالبہ کیا تھا۔

اگر یہ تجویز روبہ عمل میں آجاتی تو مشرقی پاکستان کی ایک واحد اکائی کے طور پر اس کی عددی اکثریت کا خوف لاحق نہ ہوتا، اور اس طرح قابل ِعمل وفاق معروض وجود میں آجاتا، اس سلسلے میں چوہدری خلیق الزماں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس کی صدارت ڈاکٹر حبیب الہٰی علوی نے کی تھی اور جس میں پروفیسر اے بی اے حلیم کے علاوہ دیگر نام ور دانش ور وسیاست داں شریک ہوئے تھے۔

اس کانفرنس میں مشرقی پاکستان میں صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اسی طرح چوہدری خلیق الزماں چاہتے تھے کہ کنونشن اور کونسل مسلم لیگز ایک سیاسی جماعت کے طور پر متحد ہوجائیں تاکہ ملک کے دونوں بازوؤں میں بننے والی نئی قیادتوں خصوصاً شیخ مجیب الرحمن وغیرہ کے سامنے ایک موثر انتخابی خدمت کے طور پر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور اس مقصد کے لیے جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے گول میز کانفرنس میں صدارتی طرزحکومت کو خیرباد کہنے اور پارلیمانی نظام جمہوریت کو رائج کرنے کا اعلان کردیا تھا تو کنونشن اور کونسل مسلم لیگز میں نظام حکومت کے تناظر میں نظریاتی اختلاف ختم ہوگیا تھا اور دونوں جماعتیں مدغم ہوسکتی تھیں لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ حکم راں اس کے لیے تیار نہیں تو اُنہوں نے مسلم لیگ میں خان عبدالقیوم خان جیسی مقبول ومضبوط قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کی لیکن مسلم لیگ کے دھڑے پھر بھی متحد نہ ہوسکے جب کہ وہ جماعت اسلامی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹیPDP کو بھی قریب لانا چاہتے تھے، تاکہ عام انتخابات کے متوقع نتائج کے خطرات کے منفی رجحانات کا مقابلہ کیا جاسکے اور قائداعظم کا پاکستان ایک سیاسی وحدت کے طور پر دنیا کے نقشے پر برقرار رہے۔ توقع کی جاتی تھی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اجتماعی تدبر کا مظاہرہ کرے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور پاکستان دولخت ہوگیا اور اس تمام معاملے میں بھارتی جارحیت کا ایک بڑا کردار ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلادیش میں تبدیل ہوگیا اور اقوام متحدہ سمیت کسی بین الاقوامی ادارے نے مشرقی پاکستان کے عوام سے یہ دریافت کرنے کی زحمت نہ کی کہ وہ یہ علیحدگی چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ سقوط ِ ڈھاکا کے نتیجے میں جنوب مشرقی ایشیا یا مشرق بعید میں پاکستان کا سیاسی وجغرافیائی وجود ختم ہوگیا اور برصغیر پاک وہند کے بجائے جنوبی ایشیا کی نئی اصطلاح متعارف ہوگئی، جب کہ مشرقی پاکستان کی وہ سیاسی قیادت اور عوام جنہوں نے بھارتی جارحیت اور اندرونی پوزیشن کا محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے مقابلہ کیا تھا، کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً 3 لاکھ پاکستانی جنہوں نے ریڈکراس سے پاکستان میں منتقلی کا باضابطہ اظہار کیا تھا، تاحال بنگلادیش میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

قومی زندگی کے تناظر میں مشرقی پاکستان کے محب وطن پاکستانیوں کی قربانیوں سے روگردانی اور جوہری سیاست داں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان کے نام ور مسافر محمود علی کی تجویز کے مطابق پاکستان اور بنگلادیش ''ایک قوم دو ریاستیں'' کے نعرے پر قریب تر آسکتے ہیں لیکن ان تعلقات میں بھارت سے بڑی رکاوٹ ہے۔
Load Next Story