رکوڈک چیخ نہیں سکتا
لالچ اورہوس کے بطن سے جنم لینے والی داستانِ عبرت
''ایک لالچی چاہے دنیابھر کی دولت اکھٹی کر لے تب بھی اس کی ہوس پوری نہیں ہوتی۔''(افریقی کہاوت)
٭٭
پچھلے اٹھائیس برس میں اپنے پرائوں نے بلوچستان خصوصاً اس کے علائے رکوڈک کو جس بیدردی سے کچوکے لگائے ہیں،یہ اگر ذی حس ہوتا تو دردو کرب کی تاب نہ لاتے ہوئے یقیناً چیخ اٹھتا۔اس کی داستان ِالم سے آشکارا ہے کہ حکمران طبقے میں موجود لالچی شخصیات جب ہوس میں مبتلا ہو جائیں تو اپنے وطن کی مٹی کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
یہ افسوسناک واقعہ بتاتا ہے کہ حکومت میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے کرپٹ عناصر کو موقع ملتا ہے کہ وہ چند ٹکوں کی خاطر مادر وطن کو بیچ ڈالیں۔یہ کہانی نئی نسل کو خصوصاً آگاہ کرتی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مملکت خداداد کیوں ترقی نہ کر سکی اور نہ خوشحال ہوئی۔رکوڈک کی بظاہر سنگلاخ اور بنجر زمین میں اہل قوم کے لیے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔
دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی
کہانی کا آغاز 1969ء میں ہواجب جی سی پی(جیالوجیکل سروے آف پاکستان )کے ماہرین ارضیات نے رکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کیے۔یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایسی جگہ و اقع ہے جہاں افغانستان،ایران اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔علاقے میں کروڑوں سال پرانی چٹانوں کی کثرت ہے۔یہ یورپ سے انڈونیشیا تک پھیلی ایک ارضیاتی پلیٹ کا حصہ ہیں۔اس پٹی میں مختلف معدنیات مثلاً سونا،تانبا،کوبالٹ،لیتیھم وغیرہ ملتی ہیں۔اسی پلیٹ پر،رکو ڈک کے نزدیک سینڈک کان واقع ہے جہاں سے ایک چینی کمپنی سونا اور تانبا نکال رہی ہے۔
حکمران طبقے کی بے حسی اور نااہلی کے سبب رکوڈک میں کان کنی کی خاطر کوئی اقدام نہیں ہوا۔حالانکہ علاقے سے معدنیات نکال کر انھیں عالمی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تو پاکستان قیمتی زرمبادلہ پا لیتا۔ہمارے حکمران اپنے اخراجات بڑھاتے ہوئے پے درپے قرضے لیتے رہے مگر انھوں نے رکوڈک میں پوشیدہ قدرتی خزینے کو کھوجنے کی زحمت نہ کی۔ایک بڑی رکاوٹ عالم اسلام میں سائنس وٹکنالوجی کا زوال پذیر ہونا ہے۔پاکستانی حکومت بھی یہ ٹکنالوجی نہیں رکھتی تھی کہ جان سکے،رکوڈک میںمعدنیاتی ذخائر کس جگہ واقع ہیں۔انھیں چٹانوں کی کوکھ سے نکالنا تو دور کی بات تھی۔یہ معدنی خزانہ کسی غیر ملک میں دریافت ہوتا تو حکومت فوراً اس سے فائدہ اٹھانے کے اقدامات شروع کر دیتی۔
خدا خدا کر کے حکمران طبقے کے گروہوں کی مفاداتی لڑائیاں ختم ہوئیں اور حکومت میں کچھ ٹھہرائو آیا تو نو سال بعد جی سی پی کے کچھ ماہرین 1978ء میں دوبارہ رکوڈک پہنچے۔اس بار وہ چند جدید آلات سے لیس تھے۔لہذا انھوں نے وہاں کھدائی کی اور نقشے تیار کیے۔اس تحقیق سے بھی منکشف ہوا کہ علاقے کی مٹی میں سونے اور تانبے کے ذرات چھپے ہیں۔ان کی مالیت اربوں ڈالر بتائی گئی۔اس تحقیق کا علم آسٹریلیا کی ایک کمپنی،بی ایچ پی(برکن ہل پروپرائٹری کمپنی لمیٹیڈ)کو بھی ہو گیا۔اس کے ماہرین بھی سائٹ دیکھنے رکوڈک آئے۔
ڈھائی سو سال قبل برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے ہندوستان میں میر جعفر اور میر قاسم جیسے لالچی وجاہ طلب غداروں کو خرید کر اسلامی حکومتوں کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔اسی طرح اب آسٹریلوی کمپنی کو حکومت بلوچستان میں لالچی اور خواہشات کے مارے افسر مل گئے۔ان کومال کھلا کر بی ایچ بی بھی رکوڈک پہ ''قبضہ''کرنے میںکامیاب رہی اور اپنی دانست میں علاقے کی مالک بن بیٹھی۔یہ قبضہ کرانے کے لیے آسٹریلوی اور پاکستانی کرپٹ ٹولے کو جس مناسب وقت کا انتظار تھا ،وہ جولائی 1993میں آ پہنچا۔اس ماہ پاکستان کا حکمران طبقہ پھر شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اقتدار کی رسّہ کشی نے قوم کو انوکھے ڈرامے دکھلائے۔آخر 18جولائی کو وزیراعظم نوازشریف کے استعفی سے کھیل انجام کو پہنچا۔
اس دوران ملک وقوم بے چینی اور افراتفری میں مبتلا رہے۔موقع سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان کی بیوروکریسی نے 29جولائی کو ایک معاہدے کے ذریعے اپنا قومی علاقہ،رکوڈک آسٹریلوی کمپنی کی جھولی میں ڈال دیا۔پچھلے کئی برس سے انسداد کرپشن کا قومی ادارہ،نیب تحقیقات کر رہا ہے کہ رکوڈک غیرقانونی طریقے سے غیروں کو سونپ دینے میں کون کون غدار ملوث تھا۔نومبر 2020ء میں آخرکار ''پچیس ''ملزمان کی نشاندہی ہوئی جن پہ اب نیب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ملزمان میں بلوچستان کے سابق چیف سیکرٹری،محکمہ کان کنی کے سابق سیکرٹری،بی ڈی اے (بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی)کے سابق سربراہ اور متعلقہ محکلموں کے اعلی افسر شامل ہیں۔ان میں سے دو زیرحراست ہیں۔ایک سابق گورنر پر بھی غیرملکی کمپنی سے رشوت لینے کا الزام ہے مگر وہ ثابت نہیں ہو سکا۔
کھیل جو کھیلا گیا
ذرائع کے مطابق بی ایچ پی کئی برس سے کوشش کر رہی تھی کہ رکوڈک میںکان کنی کے حقوق اسے مل جائیں۔ کمپنی کے مقامی افسروں نے رفتہ رفتہ بذریعہ رشوت بی ڈی اے اور دیگر صوبائی محکموں کے افسروںکو اپنا ہمنوا بنا لیا۔تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ تب کے چیف سیکرٹری بی ایچ پی کو رکوڈک دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔وجہ یہ کہ یہ عمل بلوچستان کے کان کنی مراعاتی قوانین (مائننگ کنسیشن رولز 1970)سے متصادم تھا۔ایک اہم ترین قانون یہ تھا کہ صوبائی حکووت پاکستان سے باہر رجسٹرڈ کسی کمپنی کے ساتھ کان کنی کا معاہدہ نہیں کر سکتی۔دوسرا قانون یہ کہ بی ڈی اے کسی کمپنی کے ساتھ براہ راست کاروباری معاہدہ کرنے کی مجاز نہیں۔وہ انتظامی طور پہ خودمختار ہونے کے باوجود حکومت بلوچستان کے ماتحت تھا۔ادارے میں ماہرین ارضیات تک موجود نہ تھے جو بی ایچ پی سے معاہدے کی مختلف شقوں پہ ماہرانہ رائے دیتے اور اس کی خامیاں اجاگر کرتے۔
صوبے میں سرگرم کئی ماہرین قانون انکشاف کرتے ہیں کہ نومبر1990ء سے مئی1993ء تک تاج محمد جمالی وزیراعلی بلوچستان رہے۔وہ رکوڈک میں کان کنی کا ٹھیکہ کسی غیرملکی کمپنی کو دینے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔نومبر 1992ء میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے انھیں یہ سمری بھیجی کہ ٹھیکہ بی ایچ پی کو دے دینا چاہیے۔وزیراعلی نے اسے مستردکر دیا۔جولائی1993ء میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہوا تو اس زمانے میں بی ڈی اے کے سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچ گئے۔وہ اپنے ساتھ بی ایچ پی سے کیے گئے معاہدے کی فائل لائے تھے تاکہ حکومت اسے منظور کر سکے۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے انھیں بتایا کہ یہ معاہدہ اسی وقت منظور ہو گا جب منصوبہ بندی،خزانہ اور قانون کے صوبائی محکموں سے اس کی منظوری مل جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا ''حکومت بلوچستان کو علم ہی نہیں کہ اس معاہدے میں کیا ہے اور اس پہ دستخط کرنے سے کیا اثرات اور نتائج برآمد ہوں گے۔''حیرت انگیز بات یہ کہ لاعلمی اور شک وشبے کے باوجود انھوں نے سربراہ بی ڈی اے کو اس شرط پر معاہدہ کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ متعلقہ محکموں سے معاہدے کی منطوری لے لیں۔اس سلسلے میں انھیں چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔
بی ڈی اے کے سربراہ نے مگر متعلقہ محکموں سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور بی ایچ پی سے کان کنی کرنے کا معاہدہ کر لیا جو ''چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریکمنٹ ''کہلاتا ہے۔اسے انجام دینے کی غرض سے بے ڈی اے نے ایک کمپنی،چاغی ہلز ایکسپلوریشن کمپنی بھی تشکیل دی۔معاہدہ انہی دو کمپنیوں کے مابین ہوا۔حقائق سے آشکارا ہے،صوبائی بیوروکیسی کے بعض اعلی افسروں نے سیاسی قیادت کو لاعلم رکھتے ہوئے اپنے گٹھ جوڑ کی بدولت رکوڈک ایک بیرونی کمپنی کے سپرد کر دیا۔یہ معاہدہ کرتے ہوئے بلوچستان کان کنی مراعاتی قوانین1970ء کی درج ذیل شقیں پیروں تلے روند دی گیئں:
٭شق 6اور15:۔کان کن کمپنی پاکستان میں رجسٹر ہو اور اس میں مقامی افراد نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہو۔
٭شق 23,31,38,62,63:۔علاقے میں معدنیات دریافت ہونے کی صورت میں کمپنی صرف اسی وقت وہاں کان کنی کرے گی جب تک حکومت اس سے مطمئن رہے۔
٭شق32,70(f),86 اور 95:۔حکومت کمپنی کی علاقے میں سرگرمیوں پہ نظرثانی کرنے کا حق رکھتی ہے۔کمپنی پر لازم ہے کہ وہ متوقع سرگرمیوں کے متعلق دستاویز حکومت کو پیش کرے۔حکومت اس کی سرگرمیاں روکنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
٭شق 32(h),51,55,56,66,70(h):۔حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی پر کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دے۔اور اس پہ جرمانہ کر دے۔
٭شق 51:۔لائسنس یافتہ کمپنی حکومت کو ہر ماہ سرگرمیوں کی رپورٹ دے گی۔
٭شق 53:۔معدنیات نکالنے کے لیے کمپنی حکومت کی منظوری کے بعد ہی کام شروع کرے گی۔
٭شق 56,57,70(g),83:۔حکومت کمپنی کو دیا گیا کان کنی کا علاقہ کسی بھی وقت واپس لینے کا حق رکھتی ہے۔
٭شق65 :۔حکومت کومعدنیات کے سلسلے میں رائلٹی لینے کی شرح بڑھانے کا حق حاصل ہے۔
٭شق69 :۔ایک کمپنی کسی بھی علاقے میں بلاشرکت غیرے اس کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں کر سکتی۔
پاکستان دلدل میں کیسے پھنسا؟
صوبائی بیوروکریسی کے اقدامات سے آسٹریلوی کمپنی کو درج بالا تمام قوانین سے استثنی مل گیا۔ قوانین کی بے دھڑک خلاف ورزی کا نتیجہ تھا کہ معاہدے کی پہلی اینٹ ہی لالچ و ہوس سے تخلیق ہوئی۔اس بد چلن سے ایک غیر ملکی کمپنی کو ناجائز طور پہ کئی سہولتیں اور مراعات مل گئیں۔مثلاً اسے ایک ہزار مربع میل کلومیٹر رقبے کا مالک بنا دیا گیا۔اہم بات یہ کہ معدنیات ملنے پر ازروئے معاہدہ ''75فیصد''منافع آسٹریلوی کمپنی کو ملنا تھا۔جبکہ صرف ''25فیصد''بی ڈے اے کے حصے میں آتا۔رائلٹی کی شرح بھی محض ''دو فیصد''رکھی گئی۔
گویا ایک طرح سے صوبائی بیوروکریسی نے اربوں ڈالر مالیت کی معدنیات جو پاکستانی قوم کی ملکیت تھیں،اونے پونے داموں غیروں کو فروخت کر دیں۔البتہ یہ سودے بازی چند لالچی افراد کو ضرور امیر کبیر بنا گئی۔حد یہ ہے کہ رکوڈک میں معدنیات تلاش کرنے کے سلسلے میں ٹینڈر جاری نہیں کیے گئے اور من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا۔یہ آمریت اور من مانی کی بدترین مثال ہے۔
خشت اول ہی مبنی بر گناہ تھی لہذا عمارت بھی تعمیر نہ ہو سکی۔بی ایچ پی نے رکوڈک میں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا۔2000ء میں اس نے بیوروکریسی کی مدد سے مذید مراعات معاہدے میں داخل کرائیںجن سے فائدہ اٹھا کر بی ایچ پی نے اپنا حصہ دوسری آسٹریلوی کمنی،منکور کو بیچ دیا۔منکور نے نئی کمپنی،ٹیتھیان کاپر کمپنی کی بنیاد رکھی۔2006ء میںاس کمپنی کے حصص چلّی کی انٹیوفاگستا اور کینیڈین واسرائیلی کان کن کمپنی،بارک گولڈ نے خرید لیے۔یوں وہ بھی کمنی میں شراکت دار بن گئیں۔
اس دوران بلوچستان میں یہ خبر پھیل گئی کہ صوبائی بیورکریسی نے قانون سے تجاوز کرتے ہوئے غیرملکی کمپنیوں کو رکو ڈک کا ٹھیکہ دیا ہے۔جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی،مولانا عبدالحق بلوچ معاملہ بلوچستان ہائیکورٹ لے گئے مگر اس نے درخواست مسترد کر دی۔یہ مقدمہ پھر سپریم کورٹ پہنچا۔2013ء تک بیوروکریسی کی بھرپور سعی رہی کہ غیرملکی کمپنیوں کوآزادانہ رکوڈک میں کام کرنے دیا جائے۔تاہم 2013ء میں سپریم کورٹ نے معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔
بی ایچ پی اور بی ڈی اے کے معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ کسی تنازع کی صورت اسے عالمی بینک کا ٹربیونل برائے تنازاعات سرمایہ کاری (انٹرنیشل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپوٹیس)حل کرے گا۔ غیرملکی کمپنیوں نے پاکستانی عدالت کا فیصلہ قبول نہ کیا،وہ رکوڈک کا بلا شرکت غیرے قبضہ چاہتی تھیں۔وہ معاملہ ٹربیونل میں لے گئیں۔چونکہ بیوروکریسی کے 'کمالات''سے حکومت اپنے تمام حقوق کھو بیٹھی تھی، اس لیے جولائی 2019ء میں کیس ہار گئی۔ٹربیونل نے پاکستان پر 5ارب 97کروڑ ڈالر کا جرمانہ کر دیا۔
یہ حق پر کھڑے کمزور پہ ظالم طاقتور کی جیت کا معاملہ بھی ثابت ہوا۔ امریکا کی ممتاز کولمبیا یونورسٹی میںمعاشیات کے پروفیسر،جیفرے ساچس نے اپنے ایک مضمون''Illegal projects: How World Bank Arbitrators Mugged Pakistan'' میں انکشاف کیا ہے کہ طاقتور مغربی کان کن کمپنیاں ٹربیونل میں من پسند جج تعنیات کرانے میں کامیاب رہیںجنھوں نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا...حالانکہ یہ کیس ہی بدنیتی پہ مبنی تھا۔غیرملکی کمپنیاں خوب جانتی ہیں کہ انھوں نے صوبائی بیوروکریسی کے کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے غیرقانونی طور پہ رکوڈک کا ٹھیکہ پایا تھا۔
حکومت پاکستان ستمبر 2020ء میں ٹربیونل سے فیصلے کے خلاف حکم امتناع لینے میں کامیاب رہی مگر اس نے بطور ضمانت ڈیرھ ارب ڈالر دینے تھے۔حکومت اتنی بڑی رقم نہ دے سکی لہذا دسمبر2020ء سے غیر ملکی کان کن کمپنیوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ جرمانے کی نصف رقم پاکستان کے بیرون ملک موجود اثاثے ضبط کر کے پا لیں۔یہ کمپنیاں اس ضمن میں بیرونی عدالتوں سے رجوع کر رہی ہیں۔پاکستانی حکومت نے نئے مقدمات کے دفاع کا عندیہ ظاہر کیا ہے،مگر کیسے؟یہ واضح نہیں۔
حیران کن بات یہ کہ ماہرین کی رو سے غیرملکی کمپنیوں نے رکوڈک میں معدنیات تلاش کرتے ہوئے بمشکل دس لاکھ ڈالر خرچ کیے ہوں گے بگر بی ڈی اے سے ہوئے معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نہ صرف کیس جیتنے میں کامیاب رہیں بلکہ جرمانے کی بھاری رقم بھی حاصل کر لی۔یہ معاملہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف ثابت ہوا۔اورعیاں کرتا ہے کہ چند لالچی پاکستانیوں نے اپنے مفادات کے لیے ملک وقوم کو بہت بڑی مصبیت میں پھنسا دیا۔امید ہے،اس سنگین بحران سے ہمارا حکمران طبقہ سبق سیکھتے ہوئے کرپشن کی دلدل میں پھنسنے سے اجتناب کرے گا۔
٭٭
پچھلے اٹھائیس برس میں اپنے پرائوں نے بلوچستان خصوصاً اس کے علائے رکوڈک کو جس بیدردی سے کچوکے لگائے ہیں،یہ اگر ذی حس ہوتا تو دردو کرب کی تاب نہ لاتے ہوئے یقیناً چیخ اٹھتا۔اس کی داستان ِالم سے آشکارا ہے کہ حکمران طبقے میں موجود لالچی شخصیات جب ہوس میں مبتلا ہو جائیں تو اپنے وطن کی مٹی کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
یہ افسوسناک واقعہ بتاتا ہے کہ حکومت میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے کرپٹ عناصر کو موقع ملتا ہے کہ وہ چند ٹکوں کی خاطر مادر وطن کو بیچ ڈالیں۔یہ کہانی نئی نسل کو خصوصاً آگاہ کرتی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مملکت خداداد کیوں ترقی نہ کر سکی اور نہ خوشحال ہوئی۔رکوڈک کی بظاہر سنگلاخ اور بنجر زمین میں اہل قوم کے لیے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔
دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی
کہانی کا آغاز 1969ء میں ہواجب جی سی پی(جیالوجیکل سروے آف پاکستان )کے ماہرین ارضیات نے رکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کیے۔یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایسی جگہ و اقع ہے جہاں افغانستان،ایران اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔علاقے میں کروڑوں سال پرانی چٹانوں کی کثرت ہے۔یہ یورپ سے انڈونیشیا تک پھیلی ایک ارضیاتی پلیٹ کا حصہ ہیں۔اس پٹی میں مختلف معدنیات مثلاً سونا،تانبا،کوبالٹ،لیتیھم وغیرہ ملتی ہیں۔اسی پلیٹ پر،رکو ڈک کے نزدیک سینڈک کان واقع ہے جہاں سے ایک چینی کمپنی سونا اور تانبا نکال رہی ہے۔
حکمران طبقے کی بے حسی اور نااہلی کے سبب رکوڈک میں کان کنی کی خاطر کوئی اقدام نہیں ہوا۔حالانکہ علاقے سے معدنیات نکال کر انھیں عالمی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تو پاکستان قیمتی زرمبادلہ پا لیتا۔ہمارے حکمران اپنے اخراجات بڑھاتے ہوئے پے درپے قرضے لیتے رہے مگر انھوں نے رکوڈک میں پوشیدہ قدرتی خزینے کو کھوجنے کی زحمت نہ کی۔ایک بڑی رکاوٹ عالم اسلام میں سائنس وٹکنالوجی کا زوال پذیر ہونا ہے۔پاکستانی حکومت بھی یہ ٹکنالوجی نہیں رکھتی تھی کہ جان سکے،رکوڈک میںمعدنیاتی ذخائر کس جگہ واقع ہیں۔انھیں چٹانوں کی کوکھ سے نکالنا تو دور کی بات تھی۔یہ معدنی خزانہ کسی غیر ملک میں دریافت ہوتا تو حکومت فوراً اس سے فائدہ اٹھانے کے اقدامات شروع کر دیتی۔
خدا خدا کر کے حکمران طبقے کے گروہوں کی مفاداتی لڑائیاں ختم ہوئیں اور حکومت میں کچھ ٹھہرائو آیا تو نو سال بعد جی سی پی کے کچھ ماہرین 1978ء میں دوبارہ رکوڈک پہنچے۔اس بار وہ چند جدید آلات سے لیس تھے۔لہذا انھوں نے وہاں کھدائی کی اور نقشے تیار کیے۔اس تحقیق سے بھی منکشف ہوا کہ علاقے کی مٹی میں سونے اور تانبے کے ذرات چھپے ہیں۔ان کی مالیت اربوں ڈالر بتائی گئی۔اس تحقیق کا علم آسٹریلیا کی ایک کمپنی،بی ایچ پی(برکن ہل پروپرائٹری کمپنی لمیٹیڈ)کو بھی ہو گیا۔اس کے ماہرین بھی سائٹ دیکھنے رکوڈک آئے۔
ڈھائی سو سال قبل برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے ہندوستان میں میر جعفر اور میر قاسم جیسے لالچی وجاہ طلب غداروں کو خرید کر اسلامی حکومتوں کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔اسی طرح اب آسٹریلوی کمپنی کو حکومت بلوچستان میں لالچی اور خواہشات کے مارے افسر مل گئے۔ان کومال کھلا کر بی ایچ بی بھی رکوڈک پہ ''قبضہ''کرنے میںکامیاب رہی اور اپنی دانست میں علاقے کی مالک بن بیٹھی۔یہ قبضہ کرانے کے لیے آسٹریلوی اور پاکستانی کرپٹ ٹولے کو جس مناسب وقت کا انتظار تھا ،وہ جولائی 1993میں آ پہنچا۔اس ماہ پاکستان کا حکمران طبقہ پھر شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اقتدار کی رسّہ کشی نے قوم کو انوکھے ڈرامے دکھلائے۔آخر 18جولائی کو وزیراعظم نوازشریف کے استعفی سے کھیل انجام کو پہنچا۔
اس دوران ملک وقوم بے چینی اور افراتفری میں مبتلا رہے۔موقع سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان کی بیوروکریسی نے 29جولائی کو ایک معاہدے کے ذریعے اپنا قومی علاقہ،رکوڈک آسٹریلوی کمپنی کی جھولی میں ڈال دیا۔پچھلے کئی برس سے انسداد کرپشن کا قومی ادارہ،نیب تحقیقات کر رہا ہے کہ رکوڈک غیرقانونی طریقے سے غیروں کو سونپ دینے میں کون کون غدار ملوث تھا۔نومبر 2020ء میں آخرکار ''پچیس ''ملزمان کی نشاندہی ہوئی جن پہ اب نیب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ملزمان میں بلوچستان کے سابق چیف سیکرٹری،محکمہ کان کنی کے سابق سیکرٹری،بی ڈی اے (بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی)کے سابق سربراہ اور متعلقہ محکلموں کے اعلی افسر شامل ہیں۔ان میں سے دو زیرحراست ہیں۔ایک سابق گورنر پر بھی غیرملکی کمپنی سے رشوت لینے کا الزام ہے مگر وہ ثابت نہیں ہو سکا۔
کھیل جو کھیلا گیا
ذرائع کے مطابق بی ایچ پی کئی برس سے کوشش کر رہی تھی کہ رکوڈک میںکان کنی کے حقوق اسے مل جائیں۔ کمپنی کے مقامی افسروں نے رفتہ رفتہ بذریعہ رشوت بی ڈی اے اور دیگر صوبائی محکموں کے افسروںکو اپنا ہمنوا بنا لیا۔تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ تب کے چیف سیکرٹری بی ایچ پی کو رکوڈک دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔وجہ یہ کہ یہ عمل بلوچستان کے کان کنی مراعاتی قوانین (مائننگ کنسیشن رولز 1970)سے متصادم تھا۔ایک اہم ترین قانون یہ تھا کہ صوبائی حکووت پاکستان سے باہر رجسٹرڈ کسی کمپنی کے ساتھ کان کنی کا معاہدہ نہیں کر سکتی۔دوسرا قانون یہ کہ بی ڈی اے کسی کمپنی کے ساتھ براہ راست کاروباری معاہدہ کرنے کی مجاز نہیں۔وہ انتظامی طور پہ خودمختار ہونے کے باوجود حکومت بلوچستان کے ماتحت تھا۔ادارے میں ماہرین ارضیات تک موجود نہ تھے جو بی ایچ پی سے معاہدے کی مختلف شقوں پہ ماہرانہ رائے دیتے اور اس کی خامیاں اجاگر کرتے۔
صوبے میں سرگرم کئی ماہرین قانون انکشاف کرتے ہیں کہ نومبر1990ء سے مئی1993ء تک تاج محمد جمالی وزیراعلی بلوچستان رہے۔وہ رکوڈک میں کان کنی کا ٹھیکہ کسی غیرملکی کمپنی کو دینے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔نومبر 1992ء میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے انھیں یہ سمری بھیجی کہ ٹھیکہ بی ایچ پی کو دے دینا چاہیے۔وزیراعلی نے اسے مستردکر دیا۔جولائی1993ء میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہوا تو اس زمانے میں بی ڈی اے کے سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچ گئے۔وہ اپنے ساتھ بی ایچ پی سے کیے گئے معاہدے کی فائل لائے تھے تاکہ حکومت اسے منظور کر سکے۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے انھیں بتایا کہ یہ معاہدہ اسی وقت منظور ہو گا جب منصوبہ بندی،خزانہ اور قانون کے صوبائی محکموں سے اس کی منظوری مل جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا ''حکومت بلوچستان کو علم ہی نہیں کہ اس معاہدے میں کیا ہے اور اس پہ دستخط کرنے سے کیا اثرات اور نتائج برآمد ہوں گے۔''حیرت انگیز بات یہ کہ لاعلمی اور شک وشبے کے باوجود انھوں نے سربراہ بی ڈی اے کو اس شرط پر معاہدہ کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ متعلقہ محکموں سے معاہدے کی منطوری لے لیں۔اس سلسلے میں انھیں چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔
بی ڈی اے کے سربراہ نے مگر متعلقہ محکموں سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور بی ایچ پی سے کان کنی کرنے کا معاہدہ کر لیا جو ''چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریکمنٹ ''کہلاتا ہے۔اسے انجام دینے کی غرض سے بے ڈی اے نے ایک کمپنی،چاغی ہلز ایکسپلوریشن کمپنی بھی تشکیل دی۔معاہدہ انہی دو کمپنیوں کے مابین ہوا۔حقائق سے آشکارا ہے،صوبائی بیوروکیسی کے بعض اعلی افسروں نے سیاسی قیادت کو لاعلم رکھتے ہوئے اپنے گٹھ جوڑ کی بدولت رکوڈک ایک بیرونی کمپنی کے سپرد کر دیا۔یہ معاہدہ کرتے ہوئے بلوچستان کان کنی مراعاتی قوانین1970ء کی درج ذیل شقیں پیروں تلے روند دی گیئں:
٭شق 6اور15:۔کان کن کمپنی پاکستان میں رجسٹر ہو اور اس میں مقامی افراد نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہو۔
٭شق 23,31,38,62,63:۔علاقے میں معدنیات دریافت ہونے کی صورت میں کمپنی صرف اسی وقت وہاں کان کنی کرے گی جب تک حکومت اس سے مطمئن رہے۔
٭شق32,70(f),86 اور 95:۔حکومت کمپنی کی علاقے میں سرگرمیوں پہ نظرثانی کرنے کا حق رکھتی ہے۔کمپنی پر لازم ہے کہ وہ متوقع سرگرمیوں کے متعلق دستاویز حکومت کو پیش کرے۔حکومت اس کی سرگرمیاں روکنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
٭شق 32(h),51,55,56,66,70(h):۔حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی پر کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دے۔اور اس پہ جرمانہ کر دے۔
٭شق 51:۔لائسنس یافتہ کمپنی حکومت کو ہر ماہ سرگرمیوں کی رپورٹ دے گی۔
٭شق 53:۔معدنیات نکالنے کے لیے کمپنی حکومت کی منظوری کے بعد ہی کام شروع کرے گی۔
٭شق 56,57,70(g),83:۔حکومت کمپنی کو دیا گیا کان کنی کا علاقہ کسی بھی وقت واپس لینے کا حق رکھتی ہے۔
٭شق65 :۔حکومت کومعدنیات کے سلسلے میں رائلٹی لینے کی شرح بڑھانے کا حق حاصل ہے۔
٭شق69 :۔ایک کمپنی کسی بھی علاقے میں بلاشرکت غیرے اس کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں کر سکتی۔
پاکستان دلدل میں کیسے پھنسا؟
صوبائی بیوروکریسی کے اقدامات سے آسٹریلوی کمپنی کو درج بالا تمام قوانین سے استثنی مل گیا۔ قوانین کی بے دھڑک خلاف ورزی کا نتیجہ تھا کہ معاہدے کی پہلی اینٹ ہی لالچ و ہوس سے تخلیق ہوئی۔اس بد چلن سے ایک غیر ملکی کمپنی کو ناجائز طور پہ کئی سہولتیں اور مراعات مل گئیں۔مثلاً اسے ایک ہزار مربع میل کلومیٹر رقبے کا مالک بنا دیا گیا۔اہم بات یہ کہ معدنیات ملنے پر ازروئے معاہدہ ''75فیصد''منافع آسٹریلوی کمپنی کو ملنا تھا۔جبکہ صرف ''25فیصد''بی ڈے اے کے حصے میں آتا۔رائلٹی کی شرح بھی محض ''دو فیصد''رکھی گئی۔
گویا ایک طرح سے صوبائی بیوروکریسی نے اربوں ڈالر مالیت کی معدنیات جو پاکستانی قوم کی ملکیت تھیں،اونے پونے داموں غیروں کو فروخت کر دیں۔البتہ یہ سودے بازی چند لالچی افراد کو ضرور امیر کبیر بنا گئی۔حد یہ ہے کہ رکوڈک میں معدنیات تلاش کرنے کے سلسلے میں ٹینڈر جاری نہیں کیے گئے اور من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا۔یہ آمریت اور من مانی کی بدترین مثال ہے۔
خشت اول ہی مبنی بر گناہ تھی لہذا عمارت بھی تعمیر نہ ہو سکی۔بی ایچ پی نے رکوڈک میں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا۔2000ء میں اس نے بیوروکریسی کی مدد سے مذید مراعات معاہدے میں داخل کرائیںجن سے فائدہ اٹھا کر بی ایچ پی نے اپنا حصہ دوسری آسٹریلوی کمنی،منکور کو بیچ دیا۔منکور نے نئی کمپنی،ٹیتھیان کاپر کمپنی کی بنیاد رکھی۔2006ء میںاس کمپنی کے حصص چلّی کی انٹیوفاگستا اور کینیڈین واسرائیلی کان کن کمپنی،بارک گولڈ نے خرید لیے۔یوں وہ بھی کمنی میں شراکت دار بن گئیں۔
اس دوران بلوچستان میں یہ خبر پھیل گئی کہ صوبائی بیورکریسی نے قانون سے تجاوز کرتے ہوئے غیرملکی کمپنیوں کو رکو ڈک کا ٹھیکہ دیا ہے۔جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی،مولانا عبدالحق بلوچ معاملہ بلوچستان ہائیکورٹ لے گئے مگر اس نے درخواست مسترد کر دی۔یہ مقدمہ پھر سپریم کورٹ پہنچا۔2013ء تک بیوروکریسی کی بھرپور سعی رہی کہ غیرملکی کمپنیوں کوآزادانہ رکوڈک میں کام کرنے دیا جائے۔تاہم 2013ء میں سپریم کورٹ نے معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔
بی ایچ پی اور بی ڈی اے کے معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ کسی تنازع کی صورت اسے عالمی بینک کا ٹربیونل برائے تنازاعات سرمایہ کاری (انٹرنیشل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپوٹیس)حل کرے گا۔ غیرملکی کمپنیوں نے پاکستانی عدالت کا فیصلہ قبول نہ کیا،وہ رکوڈک کا بلا شرکت غیرے قبضہ چاہتی تھیں۔وہ معاملہ ٹربیونل میں لے گئیں۔چونکہ بیوروکریسی کے 'کمالات''سے حکومت اپنے تمام حقوق کھو بیٹھی تھی، اس لیے جولائی 2019ء میں کیس ہار گئی۔ٹربیونل نے پاکستان پر 5ارب 97کروڑ ڈالر کا جرمانہ کر دیا۔
یہ حق پر کھڑے کمزور پہ ظالم طاقتور کی جیت کا معاملہ بھی ثابت ہوا۔ امریکا کی ممتاز کولمبیا یونورسٹی میںمعاشیات کے پروفیسر،جیفرے ساچس نے اپنے ایک مضمون''Illegal projects: How World Bank Arbitrators Mugged Pakistan'' میں انکشاف کیا ہے کہ طاقتور مغربی کان کن کمپنیاں ٹربیونل میں من پسند جج تعنیات کرانے میں کامیاب رہیںجنھوں نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا...حالانکہ یہ کیس ہی بدنیتی پہ مبنی تھا۔غیرملکی کمپنیاں خوب جانتی ہیں کہ انھوں نے صوبائی بیوروکریسی کے کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے غیرقانونی طور پہ رکوڈک کا ٹھیکہ پایا تھا۔
حکومت پاکستان ستمبر 2020ء میں ٹربیونل سے فیصلے کے خلاف حکم امتناع لینے میں کامیاب رہی مگر اس نے بطور ضمانت ڈیرھ ارب ڈالر دینے تھے۔حکومت اتنی بڑی رقم نہ دے سکی لہذا دسمبر2020ء سے غیر ملکی کان کن کمپنیوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ جرمانے کی نصف رقم پاکستان کے بیرون ملک موجود اثاثے ضبط کر کے پا لیں۔یہ کمپنیاں اس ضمن میں بیرونی عدالتوں سے رجوع کر رہی ہیں۔پاکستانی حکومت نے نئے مقدمات کے دفاع کا عندیہ ظاہر کیا ہے،مگر کیسے؟یہ واضح نہیں۔
حیران کن بات یہ کہ ماہرین کی رو سے غیرملکی کمپنیوں نے رکوڈک میں معدنیات تلاش کرتے ہوئے بمشکل دس لاکھ ڈالر خرچ کیے ہوں گے بگر بی ڈی اے سے ہوئے معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نہ صرف کیس جیتنے میں کامیاب رہیں بلکہ جرمانے کی بھاری رقم بھی حاصل کر لی۔یہ معاملہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف ثابت ہوا۔اورعیاں کرتا ہے کہ چند لالچی پاکستانیوں نے اپنے مفادات کے لیے ملک وقوم کو بہت بڑی مصبیت میں پھنسا دیا۔امید ہے،اس سنگین بحران سے ہمارا حکمران طبقہ سبق سیکھتے ہوئے کرپشن کی دلدل میں پھنسنے سے اجتناب کرے گا۔