ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن رپورٹ
عمران خان اور نیب کے دعوؤں کے برعکس پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔
ISLAMABAD:
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق سی پی آئی انڈیکس رپورٹ2020جاری کردی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔180ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کی تنزلی 4 درجے رپورٹ کی گئی ہے۔ پاکستان31 پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے بارے میں عالمی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر آگیا۔
کرپشن کا عالمگیر جائزہ لینے والے ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پاکستان سمیت ہر اس ملک کے لیے ایک ویک اپ کال ہے جو ادارہ کے اقتصادی اور مالیاتی ریڈار پر آتی ہے، اس رپورٹ کی دوسری اثر انگیزی گلوبل معاشی قوتوں کے دعوؤں، عملی کارکردگی اور انتظامی عدم شفافیت کا جھلکتا ریکارڈ ہے جسے معاصر حکومتیں اکنامک سیناریوکے تناظر میں اپنی معاشی پالیسیوں، انتظامی میرٹ، احتساب، حکومتی اقدامات، سسٹم کی ورکنگ اور کثیر جہتی داخلی تعلقات کار میں مانیٹرنگ فیکٹرکے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹیں عالمی اقتصادی نظام کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں، یہ اس اعتبار سے بھی کسی ملک کے معاشی، انتظامی اورکلی اقتصادی ڈھانچہ کے میرٹ پر تشکیل دیے گئے سسٹم پر ایک موثر چیک اینڈ بیلنس کی نشاندہی کرتی ہے جو گلوبل اقتصادی اور انتظامی نظام میں کرپشن کی روک تھام میں حکومتوں کی معاونت میں ایک تقابلی واچ ڈاگ کی کمی کو پورا کرتی ہے۔
ادارہ کی رپورٹیں زیر بحث بھی آتی ہیں، اکثر ان کے جائزے ان حکومتوں کو پسند بھی نہیں آتے جو خود کسی سیاسی دباؤ اور معاشی عدم استحکام کی زمینی صورتحال سے دوچار ہونے کی وجہ سے دستِ تہِ سنگ ہوں اور بدعنوانی کے متفرق الزامات سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں، دوسری طرف جہاں اپوزیشن سیاسی جماعتیں بھی ایسی رپورٹوں پر دھمال ڈالتی ہیں، ان کے لیے حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کا کافی مواد بھی انھیں مل جاتا ہے۔
لہٰذا حکومت نفسیاتی طور پر دفاعی پوزیشن میں لائی جاتی ہے، مگر صائب طریقہ یہ ہے کہ معاشی، اقتصادی اور انتظامی سسٹم کو شفافیت سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے، ایک پیچیدہ حکومتی نظام، سیاسی جماعتوں کے وزرا، بیوروکریسی، سرکاری، تجارتی معاہدوں، ٹرانزیکشن، روزمرہ کے وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی کاموں میں عوام کو درپیش کرپشن کے ناسور کے انسداد میں ایک عالمی مانیٹرنگ نگاہ اور اس کے چیک اینڈ بیلنس کا خوف ضروری بھی ہے، یہ جمہوری سسٹم کو شفافیت سے رواں دواں رکھنے میں اپنے پلس پوائنٹس رکھتا ہے۔ جمہوری نظام میں احتساب کی کوشش کے ساتھ ساتھ ایک تیسری غیر جانبدار آنکھ کی احتسابی ضرورت جدید جمہوری ورکنگ سسٹم کا ناگزیر ہتھیار ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن گزشتہ برس کے مقابلے میں بڑھی ہے، 2019 میں پاکستان درجہ بندی میں 120ویں نمبر پر تھا۔2018 میں موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں117واں نمبر تھا۔ یوں موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی 7 درجے تنزلی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ اور ڈنمارک کرپشن کے خلاف 88اسکور کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے، صومالیہ اور جنوبی سوڈان نے فہرست میں آخری پوزیشن حاصل کی۔ کینیڈا اور برطانیہ77 پوائنٹس کے ساتھ11ویں، امریکا67 پوائنٹس کے ساتھ 25 ویں اور بھارت 40 پوائنٹس کے ساتھ86 ویں نمبر پر رہا۔ گزشتہ برس امریکا 23 ویں نمبر پر تھا اس کی دو درجے تنزلی ہوئی۔
اس عالمی تقابلی جائزے کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی انتظامیہ اور پارٹی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی نکتہ چینی اور مخالفانہ بیانات کا اپنے معاشی اور انتظامی زمینی حقائق کے تناظر میں جائزہ لے، اپنی پالیسیوں میں مثبت پیش رفت پر نظر ڈالے، عوام کو دیے گئے ریلیف، مہنگائی روکنے، سسٹم کی سموتھ سیلنگ پر اپنی ٹاسک فورسز کی اصل کارکردگی کو جانچے، وزرا اور مشیروں کی مجموعی پرفارمنس پر کابینہ اور پارلیمانی اجلاسوں میں ہونے والی بحث اور کارکنوں کی برہمی، تقاریر سے حقیقی صورتحال تک پہنچے، اسی باعث حکومتی گرفت اور سسٹم کی کرپشن فری یا خرابیوں کی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے۔
حقیقت میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے ہٹ کر بھی ملکی معیشت، داخلی انتظامی مسائل، ریلیف اور منصوبوں پر عملدرآمد، انتظامی شفافیت اورکرپشن کی روک تھام کا عمومی جائزہ لیا جائے تو عوام بلاشبہ شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بیروزگاری کے باعث جرائم، کرپشن اور بدانتظامی کا گراف بڑھا ہے، عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی رفتار سست ہے، عوام حکومت سے گزرے تین سالوں میں کارکردگی رپورٹ مانگتے ہیں تو انھیں حکومت سے ملنے والی ریلیف نظر نہیں آتی، ایک نہ ختم ہونے والے رونے دھونے سے عوام کی تسلی نہیں ہوگی۔
وہ وزیر اعظم سے بجا طور پر تبدیلی کی کوئی یقینی پیش رفت کی توقع رکھتے ہیں۔ ارباب اختیار قوم کو معذرت خواہی کے اپنے اقتصادی بیانیے کی تکرار سے مطمئن نہیں کرسکیں گے کہ پچھلی حکومتوں نے ملک لوٹا اور موجودہ حکومت کی ساری کمائی ان ہی قرضوں کے سود میں جا رہی ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خطے کی ہولناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے معاشی، سماجی اور خارجہ پالیسی کے تناظر میں پاکستان کی ٹھوس پیش قدمی پر قوم کو اعتماد میں لے۔ ملک کو داخلی امن چاہیے۔
سیاسی مخاصمت، چپقلش اور اپوزیشن سے تصادم اور معاشی مسائل میں بریک تھروکی یقینی کامیابی کی نوید قوم کو ملنی چاہیے،کوئی کرپشن فری منظرنامہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کے بعد سامنے آنا ناگزیر ہے، حکومت اپنے معاشی سفرکو تیز، نتیجہ خیز اور فیصلہ کن بنائے، ملک ایک غیر معمولی پیش رفت کرکے ہی عوام کو بہتر مستقبل کے خواب کی حسین تعبیر دکھلا سکتا ہے، عوام کی زندگیوں میں تبدیلی سب کو نظر آنی چاہیے۔ سیاسی بیانات اور محاذ آرائی سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔
دلوں کی الجھنیں بڑھنے لگیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر سندھ حکومت کے ترجمان اور پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ عوام نے جان لیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پی ٹی آئی کا اصل چہرہ ہے جس نے پی ٹی آئی کی شفافیت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا پیپلز پارٹی یہ کہتی آ رہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کرپٹ ترین حکومت ہے اور اس رپورٹ نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔ حکومتی ترجمان اسے بھی ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں یہ دراصل ان کی خام خیالی ہے عوام انھیں اچھی طرح جان چکے ہیں یہ عوام کے مسائل حل کرنے میں قطعی سنجیدہ نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے عمران خان حکومت کے جھوٹے دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔ عمران خان اور نیب کے دعوؤں کے برعکس پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ صادق اور امین ہونے کے دعویدار کی حکومت میں صرف کرپشن نے تیزی سے ترقی کی۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو عمران خان حکومت کی کرپشن کا عالمی ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر محاذ پر ناکام سلیکٹڈ حکومت نے صرف کرپشن، کمیشن اور چوری میں ترقی کی، انھوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ عمران خان صاحب کے جھوٹے بیانیہ اور الزامات کے منہ پر طمانچہ ہے، دوسروں کو چور چور کہنے والے فرشتوں کے دور میں ملک کرپٹ ترین ہو گیا۔
مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان صاحب کی400 ارب کی چینی،215 ارب کے آٹا چوری پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان صاحب کی500 ارب کی دوائی اور122 ارب کی ایل این جی چوری پر مہر تصدیق ثبت کی ہے یہ ہے وہ کرپشن جس کی سزا اڑھائی سال سے پاکستان کے عوام کاٹ رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ90 دن میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے آئینہ ہے،2019 کے مقابلے میں2020 میں پاکستان میں کرپشن چار درجے بڑھ چکی، نواز شریف کے دور میں کرپشن میں کمی کے لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بہترین سی پی آئی اسکور تھا، جب کہ نواز شریف کی قیادت میں ہر سال پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی, عمران خان صاحب کے دور میں پاکستان کرپشن میں120 سے124 ویں نمبر پر آگیا، ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کا مطلب ہے کہ پاکستان کرپشن کرنے والے ممالک میں چار درجے ترقی کر چکا۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور (ن) لیگ کی قیادت نے یو ٹرن نہیں لیا، عمران خان نظام ناکارہ قرار دیکر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، حکومت کی سمجھ نہیں کیسے چلتی ہے اور پچھلی حکومت پر الزام لگاتے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، مہنگائی کم کرونگا آج یہ وعدے کہاں ہیں ؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کی چشم کشائی کے پیش نظر حکومت کو معاشی، انتظامی اور سماجی منظرنامہ میں بنیادی تبدیلی کے لیے اس ٹائم لمٹ پر اپنے رفقا کو خبردار کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے کہ وقت کی ضرورت نتیجہ خیز کارکردگی دکھانے کی ہے، تین سال گزر گئے اب باقی وقت میں پانسہ پلٹ اقتصادی پیش رفت سامنے لانا بے حد ضروری ہے، حکومت کو چیلنجز درپیش ہیں، عوام سے وعدے پہاڑ جتنے کیے گئے ہیں، اب ان کے جلد وفا کرنے کا وقت ہے۔ وقت کی اس سیاسی نزاکت کے ادراک میں حکومت کے پاس تاخیر کی گنجائش نہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق سی پی آئی انڈیکس رپورٹ2020جاری کردی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔180ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کی تنزلی 4 درجے رپورٹ کی گئی ہے۔ پاکستان31 پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے بارے میں عالمی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر آگیا۔
کرپشن کا عالمگیر جائزہ لینے والے ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پاکستان سمیت ہر اس ملک کے لیے ایک ویک اپ کال ہے جو ادارہ کے اقتصادی اور مالیاتی ریڈار پر آتی ہے، اس رپورٹ کی دوسری اثر انگیزی گلوبل معاشی قوتوں کے دعوؤں، عملی کارکردگی اور انتظامی عدم شفافیت کا جھلکتا ریکارڈ ہے جسے معاصر حکومتیں اکنامک سیناریوکے تناظر میں اپنی معاشی پالیسیوں، انتظامی میرٹ، احتساب، حکومتی اقدامات، سسٹم کی ورکنگ اور کثیر جہتی داخلی تعلقات کار میں مانیٹرنگ فیکٹرکے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹیں عالمی اقتصادی نظام کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں، یہ اس اعتبار سے بھی کسی ملک کے معاشی، انتظامی اورکلی اقتصادی ڈھانچہ کے میرٹ پر تشکیل دیے گئے سسٹم پر ایک موثر چیک اینڈ بیلنس کی نشاندہی کرتی ہے جو گلوبل اقتصادی اور انتظامی نظام میں کرپشن کی روک تھام میں حکومتوں کی معاونت میں ایک تقابلی واچ ڈاگ کی کمی کو پورا کرتی ہے۔
ادارہ کی رپورٹیں زیر بحث بھی آتی ہیں، اکثر ان کے جائزے ان حکومتوں کو پسند بھی نہیں آتے جو خود کسی سیاسی دباؤ اور معاشی عدم استحکام کی زمینی صورتحال سے دوچار ہونے کی وجہ سے دستِ تہِ سنگ ہوں اور بدعنوانی کے متفرق الزامات سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں، دوسری طرف جہاں اپوزیشن سیاسی جماعتیں بھی ایسی رپورٹوں پر دھمال ڈالتی ہیں، ان کے لیے حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کا کافی مواد بھی انھیں مل جاتا ہے۔
لہٰذا حکومت نفسیاتی طور پر دفاعی پوزیشن میں لائی جاتی ہے، مگر صائب طریقہ یہ ہے کہ معاشی، اقتصادی اور انتظامی سسٹم کو شفافیت سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے، ایک پیچیدہ حکومتی نظام، سیاسی جماعتوں کے وزرا، بیوروکریسی، سرکاری، تجارتی معاہدوں، ٹرانزیکشن، روزمرہ کے وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی کاموں میں عوام کو درپیش کرپشن کے ناسور کے انسداد میں ایک عالمی مانیٹرنگ نگاہ اور اس کے چیک اینڈ بیلنس کا خوف ضروری بھی ہے، یہ جمہوری سسٹم کو شفافیت سے رواں دواں رکھنے میں اپنے پلس پوائنٹس رکھتا ہے۔ جمہوری نظام میں احتساب کی کوشش کے ساتھ ساتھ ایک تیسری غیر جانبدار آنکھ کی احتسابی ضرورت جدید جمہوری ورکنگ سسٹم کا ناگزیر ہتھیار ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن گزشتہ برس کے مقابلے میں بڑھی ہے، 2019 میں پاکستان درجہ بندی میں 120ویں نمبر پر تھا۔2018 میں موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں117واں نمبر تھا۔ یوں موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی 7 درجے تنزلی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ اور ڈنمارک کرپشن کے خلاف 88اسکور کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے، صومالیہ اور جنوبی سوڈان نے فہرست میں آخری پوزیشن حاصل کی۔ کینیڈا اور برطانیہ77 پوائنٹس کے ساتھ11ویں، امریکا67 پوائنٹس کے ساتھ 25 ویں اور بھارت 40 پوائنٹس کے ساتھ86 ویں نمبر پر رہا۔ گزشتہ برس امریکا 23 ویں نمبر پر تھا اس کی دو درجے تنزلی ہوئی۔
اس عالمی تقابلی جائزے کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی انتظامیہ اور پارٹی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی نکتہ چینی اور مخالفانہ بیانات کا اپنے معاشی اور انتظامی زمینی حقائق کے تناظر میں جائزہ لے، اپنی پالیسیوں میں مثبت پیش رفت پر نظر ڈالے، عوام کو دیے گئے ریلیف، مہنگائی روکنے، سسٹم کی سموتھ سیلنگ پر اپنی ٹاسک فورسز کی اصل کارکردگی کو جانچے، وزرا اور مشیروں کی مجموعی پرفارمنس پر کابینہ اور پارلیمانی اجلاسوں میں ہونے والی بحث اور کارکنوں کی برہمی، تقاریر سے حقیقی صورتحال تک پہنچے، اسی باعث حکومتی گرفت اور سسٹم کی کرپشن فری یا خرابیوں کی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے۔
حقیقت میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے ہٹ کر بھی ملکی معیشت، داخلی انتظامی مسائل، ریلیف اور منصوبوں پر عملدرآمد، انتظامی شفافیت اورکرپشن کی روک تھام کا عمومی جائزہ لیا جائے تو عوام بلاشبہ شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بیروزگاری کے باعث جرائم، کرپشن اور بدانتظامی کا گراف بڑھا ہے، عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی رفتار سست ہے، عوام حکومت سے گزرے تین سالوں میں کارکردگی رپورٹ مانگتے ہیں تو انھیں حکومت سے ملنے والی ریلیف نظر نہیں آتی، ایک نہ ختم ہونے والے رونے دھونے سے عوام کی تسلی نہیں ہوگی۔
وہ وزیر اعظم سے بجا طور پر تبدیلی کی کوئی یقینی پیش رفت کی توقع رکھتے ہیں۔ ارباب اختیار قوم کو معذرت خواہی کے اپنے اقتصادی بیانیے کی تکرار سے مطمئن نہیں کرسکیں گے کہ پچھلی حکومتوں نے ملک لوٹا اور موجودہ حکومت کی ساری کمائی ان ہی قرضوں کے سود میں جا رہی ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خطے کی ہولناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے معاشی، سماجی اور خارجہ پالیسی کے تناظر میں پاکستان کی ٹھوس پیش قدمی پر قوم کو اعتماد میں لے۔ ملک کو داخلی امن چاہیے۔
سیاسی مخاصمت، چپقلش اور اپوزیشن سے تصادم اور معاشی مسائل میں بریک تھروکی یقینی کامیابی کی نوید قوم کو ملنی چاہیے،کوئی کرپشن فری منظرنامہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کے بعد سامنے آنا ناگزیر ہے، حکومت اپنے معاشی سفرکو تیز، نتیجہ خیز اور فیصلہ کن بنائے، ملک ایک غیر معمولی پیش رفت کرکے ہی عوام کو بہتر مستقبل کے خواب کی حسین تعبیر دکھلا سکتا ہے، عوام کی زندگیوں میں تبدیلی سب کو نظر آنی چاہیے۔ سیاسی بیانات اور محاذ آرائی سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔
دلوں کی الجھنیں بڑھنے لگیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر سندھ حکومت کے ترجمان اور پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ عوام نے جان لیا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پی ٹی آئی کا اصل چہرہ ہے جس نے پی ٹی آئی کی شفافیت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا پیپلز پارٹی یہ کہتی آ رہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کرپٹ ترین حکومت ہے اور اس رپورٹ نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔ حکومتی ترجمان اسے بھی ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں یہ دراصل ان کی خام خیالی ہے عوام انھیں اچھی طرح جان چکے ہیں یہ عوام کے مسائل حل کرنے میں قطعی سنجیدہ نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے عمران خان حکومت کے جھوٹے دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔ عمران خان اور نیب کے دعوؤں کے برعکس پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ صادق اور امین ہونے کے دعویدار کی حکومت میں صرف کرپشن نے تیزی سے ترقی کی۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو عمران خان حکومت کی کرپشن کا عالمی ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر محاذ پر ناکام سلیکٹڈ حکومت نے صرف کرپشن، کمیشن اور چوری میں ترقی کی، انھوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ عمران خان صاحب کے جھوٹے بیانیہ اور الزامات کے منہ پر طمانچہ ہے، دوسروں کو چور چور کہنے والے فرشتوں کے دور میں ملک کرپٹ ترین ہو گیا۔
مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان صاحب کی400 ارب کی چینی،215 ارب کے آٹا چوری پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان صاحب کی500 ارب کی دوائی اور122 ارب کی ایل این جی چوری پر مہر تصدیق ثبت کی ہے یہ ہے وہ کرپشن جس کی سزا اڑھائی سال سے پاکستان کے عوام کاٹ رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ90 دن میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے آئینہ ہے،2019 کے مقابلے میں2020 میں پاکستان میں کرپشن چار درجے بڑھ چکی، نواز شریف کے دور میں کرپشن میں کمی کے لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بہترین سی پی آئی اسکور تھا، جب کہ نواز شریف کی قیادت میں ہر سال پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی, عمران خان صاحب کے دور میں پاکستان کرپشن میں120 سے124 ویں نمبر پر آگیا، ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کا مطلب ہے کہ پاکستان کرپشن کرنے والے ممالک میں چار درجے ترقی کر چکا۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور (ن) لیگ کی قیادت نے یو ٹرن نہیں لیا، عمران خان نظام ناکارہ قرار دیکر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، حکومت کی سمجھ نہیں کیسے چلتی ہے اور پچھلی حکومت پر الزام لگاتے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، مہنگائی کم کرونگا آج یہ وعدے کہاں ہیں ؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ کی چشم کشائی کے پیش نظر حکومت کو معاشی، انتظامی اور سماجی منظرنامہ میں بنیادی تبدیلی کے لیے اس ٹائم لمٹ پر اپنے رفقا کو خبردار کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے کہ وقت کی ضرورت نتیجہ خیز کارکردگی دکھانے کی ہے، تین سال گزر گئے اب باقی وقت میں پانسہ پلٹ اقتصادی پیش رفت سامنے لانا بے حد ضروری ہے، حکومت کو چیلنجز درپیش ہیں، عوام سے وعدے پہاڑ جتنے کیے گئے ہیں، اب ان کے جلد وفا کرنے کا وقت ہے۔ وقت کی اس سیاسی نزاکت کے ادراک میں حکومت کے پاس تاخیر کی گنجائش نہیں۔