امکانِ سحر

بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنا کر اختیارات عوام کی دہلیز تک منتقل کیے جائیں

30دسمبر 2013ء کی صبح عدالت عالیہ سندھ نے سندھ میں مقامی حکومتوں کے لیے بنائے جانے والے قانون اور اس میں کی جانے والی ترامیم اور ان کے تحت کی جانے والی حلقہ بندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر اپنے 78صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کے نظام میں کی جانے والی تیسری ترمیم کو کالعدم قرار دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے تحت کی جانے والی تمام حلقہ بندیوں کو بھی غیر قانونی قرار دے کر 18جنوری کو 2001ء کی حلقہ بندیوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم صادر فرمایا۔ اس حکم کو سندھ میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنی فتح قرار دیتے ہوئے اسے آزاد عدلیہ کا تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ اس سے قبل اگر ہم اس عمل کا جائزہ لیں جس کے تحت بلدیاتی نظام صوبہ سندھ میں وضع کیا گیا، وہ بھی ایک گورکھ دھندا نظر آیا۔ اس سلسلے میں پہلے پہل 1979 کا ایکٹ بحال کرکے سابقہ فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی روح کو تقویت پہنچائی گئی۔ اس کے بعد طویل مشاورت اور بحث و مباحثے کے بعد پیپلز ایکٹ کے نام سے ایک قانون متعارف کرایا گیا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کی مشاورت شامل تھی۔ اس متفقہ قانون کی منظوری کے بعد سیاسی نفرت کی بنیاد اور عددی اکثریت کی دھونس پر اس قانون کو غیرموثر قرار دیا گیا اور دوبارہ 1979ء کا ایکٹ بحال کردیا گیا۔ اس پر پھر سندھ میں محاذ آرائی کا ماحول بنا اور پھر پیپلز پارٹی نے عددی اکثریت کا تماشا بنا کر قانون پاس کیا اور پھر اپنے ہی بنائے ہوئے قانون میں ترامیم کر ڈالیں۔

ان ترامیم کے ذریعے یونین کونسل میں ووٹرز کی تعداد جو پہلے 40سے 50ہزار کے درمیان ہوتی تھی، اسے 10سے50ہزار کے درمیان کردیا گیا اور حلقہ بندیوں کا عمل یوں تو مردم شماری کے بعد کیاجاتا لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا عمل شروع ہوا تو اسے بھی قانون کے مطابق آزاد ادارے کے ذریعے ہونا تھا، لیکن قانون میں ترمیم کرکے یہ اختیار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے علاقے کے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو یہ اختیار سونپ دیا گیا کہ وہ حلقہ بندیوں پر از خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ دیہی علاقوں کو شہری علاقوں میں شامل کرنے کا اختیار بھی ان ترامیم کے ذریعے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کس کے ماتحت ہوتے ہیں اور اپنی تقرری اور اسے برقرار رکھنے کے لیے وہ کس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان معاملات کو دیکھ کر ایم کیو ایم اور سندھ کی دیگر سیاسی جماعتوں نے عدالت عالیہ میں حکومت کے ان فیصلوں کو چیلنج کیا اور اس پر فیصلہ بھی آیا جو کہ اپوزیشن کے حق میں دیا گیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ انتخابات 18جنوری کو کرائے جانے کا فیصلہ آیا ہے لیکن اب عملی طور پر یہ اس لیے ممکن نظر نہیں آتا کہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابی شیڈول کا اجراء ہوا۔ انھی کے تحت امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی طباعت ہوئی۔ ان پر ان کے انتخابی حلقوں کے نام نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے تحت آویزاں کیے گئے۔


اب اگر 18جنوری کو ہی انتخابات کرانا ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اب امیدواران کے حلقہ انتخاب تبدیل ہو گئے اور جو کاغذاتِ نامزدگی انھوں نے داخل کیے تھے، وہ کارگر نہیں رہے۔ اس تمام تر صورتحال میں محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکمران پیپلز پارٹی نے جان بوجھ کر ایسی صورتحال پیدا کی کہ جنوری میں یہ انتخابات نہ ہوسکیں اور ان کی خواہش کے مطابق یہ انتخابات مارچ میں یا اس سے آگے تک التوا کا شکار ہوجائیں۔ عدالتوں اور الیکشن کمیشن نے حکومت کی اس استدعا کو مسترد کردیا تھا کہ انتخابات مارچ میں منعقد کرائے جائیں۔ اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں آیندہ انتخابی تاریخ کا تعین اس وقت تک نہ کیاجائے تاوقتیکہ انتخابی قوانین حتمی شکل اختیار نہ کرلیں۔ حلقہ بندیوں سے متعلق معاملات اپنی انتہاکو نہ پہنچ جائیں کیونکہ اگر پھر عجلت میں کوئی فیصلہ کیا گیا تو وہ اسی قسم کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجائے گا۔ یوں التوا کی وہ کوشش جو حکومت چاہتی ہے، اس میں حکومت کامیاب ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کو بھی اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ قانو ن سازی جب نظام کے بارے میں ہوتی ہے تو وہ وسیع تر اتفاقِ رائے سے ہونی چاہیے۔ اس میں عددی اکثریت کی بنیاد پر ہٹ دھرمی کا تماشا نہیں ہونا چاہیے۔ اس عمل سے نہ صرف نظام کمزور ہوتا ہے بلکہ جمہوری اداروں کی جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔

18ویں ترمیم کی تیاری کی طرز پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں تمام پارلیمانی کمیٹیوں کے ماہرین اور اراکین شامل ہوں اور وہ اتفاقِ رائے سے بحث و مباحثے کے بعد ایسا بلدیاتی نظام وضع کریں جو نچلی سطح تک تمام اختیارات بشمول مالی اختیارات کو منتقل کرنے اور اس کے استعمال میں اس کی شفافیت اور احتساب کے لیے اس پر مؤثر نظر رکھنے کا طریقہ کار وضع کریں اور اس معاملے کو طول نہ دیاجائے بلکہ ایک مخصوص مدت میں مکمل کرکے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنا کر اختیارات عوام کی دہلیز تک منتقل کیے جائیں۔ یہی وہ صبح ہے جس کا سب کو انتظار ہے۔ امید ہے کہ یہ سحر طلوع ہوگی اور اس کے ثمرات سے عوام مستفید ہوں گے۔
Load Next Story