لامحدود خواہشات اور سچی خوشیوں کی تلاش
سکون قلب کیسے حاصل کیا جائے ، آیئے ذرا اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی جستجو ولگن اختیار کرتے ہیں۔
ماڈرن ایج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ بے اطمینانی اور بے چینی کا شکار ہوچکا ہے، زندگی کے بارے میں شکوہ کناں طرزعمل اختیار کرکے انسان نے اپنے لیے مشکلات میں بے پناہ اضافہ کرلیا ہے۔
خوشی اور غم زندگی کی دو حقیقتیں ہیں ،جن سے ہرانسان کو واسطہ پڑتا ہے، معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے ، اگر ہم اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کریں کہ ہرفرد کسی نہ کسی بیماری کا شکار کیوں ہورہا ہے ، جیسے ڈپریشن ،شوگر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک اور اس جیسی کئی مہلک بیماریاں ۔ جواب سادہ ہے اس کی بنیادی وجہ ذہنی دبائو اور پریشانیاں ہیں جو ہمیں لاحق ہوچکی ہیں۔
دراصل ہم لامحدود خواہشات کی تکمیل کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں ، ہمیں اپنے آس پاس کوئی ہوش نہیں ہے،بے شک آج کا یہ متمدن دور، زندگی کے ہر پہلو میں تعجب انگیز اور قابل ملاحظہ ترقی کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود معنوی پہلوؤں میں اس نے نہ صرف ترقی نہیں کی ہے بلکہ برعکس تنزل اور پستی کی راہ کو اختیار کرچکا ہے۔ آج کا ہر انسان بے چین اور مضطرب ہے، اسے اطمینان قلب اور سکون ہی نہیں ملتا۔ہمارا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمالیں تاکہ دنیا واہ واہ کر اٹھے، کیا سب لوگ دولت کمانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں؟
ہرگز نہیں ، جب اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتاہے، تو ہم شدید ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دنیا کا تو کام ہی آپ کی دھجیاں اڑانا ہے اور دنیا یہ کام بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ ہم انسان صبح سے رات تک یہی کام کر رہے ہیں جو کرتے ہیں جو سوچتے ایک قیدی کی طرح کہ دوسرا کیا کہے گا۔ دوسروں کے نظریے سے ہم زندگی گزارتے ہیں اسی وجہ سے بربادی ہے اور ہم انسان اپنے آپ سے ناواقف ہیں، اگر ہم ایک لمحے کو سوچیں کیا بہت پیسہ کمانے سے دنیا آپ سے خوش ہوجاتی ہے، کیا لوگ کیڑے نکالنا بند کردیتے ہیں؟
یہاں پر ایک تاریخ کے اوراق میں درج ایک واقعے سے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغل بادشاہ اکبر نے اپنے نورتن بیربل سے پوچھا مجھے کوئی ایسی چیز دو ، جو مجھے غم اورخوشی کی کیفیات سے ماورا کردے ، یعنی حالت غم کے وقت میں غم کی کیفیت مبتلا نہ ہوں اور خوشی کے وقت مجھے اس کے چھن جانے کا خوف نہ ہو۔ بیربل بادشاہ سلامت کو ایک انگوٹھی دیتا ہے ، وہ انگوٹھی لے کر پوچھتے ہیں ،اس کا کیاکروں، تو وہ کہتا ہے کہ اس انگوٹھی پردرج یا منقش عبارت پڑھیں۔
بادشاہ عبارت پڑھتا ہے'' یہ وقت بھی گزرے جائے گا'' دانشمند بیربل بادشاہ کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب آپ شدید عالم غم میں ہوں تو اس عبارت کو پڑھیں اور جب خوشی سے سرشار ہوں تب بھی اس عبارت کو پڑھ کر دہرائیں ۔ یعنی انسانی زندگی کا پورا فلسفہ حیات اس ایک جملے میں پوشیدہ ہے، اگر ہم غور کریں تو۔ہمارے سماج میں ایک عمومی تاثر یہ قائم ہوچکا ہے کہ خوشی کا انحصار مال واسباب کی فراوانی پر ہے۔
مثال کے طور پر جس فرد کے پاس ایک خوبصورت بنگلہ ہو، ایک بہترین گاڑی ہو، بینک بیلنس ہو،مزید یہ کہ وہ سیاحت یا فوٹوگرافی اوراس جیسے دیگر مہنگے شوق برداشت کر سکتا ہو، اس کے بارے میں عام گمان یہی کیا جاتا ہے کہ وہ یقیناً دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہے اور اسے کوئی غم لاحق نہیں ہو سکتا۔ گویاخوشی یا سکون قلب کا تعلق سراسر مال و دولت سے ہے، جب کہ اس گمان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہر شخص فطری طور پر کامیابی کا متمنی ہے۔ ناکامی تو ناکامی، شکست خوردہ انسان کو بھی کوئی گلے لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتالیکن جب جدوجہد اورعملی کوشش کی بات کی جائے توکامیابی کے عملی اقدامات بہت کم افراد کرتے ہیں۔اکثر بلاسعی وعمل ہی کامیابی کے آرزومند ہوتے ہیںاور اپنے قدم تودرکناراپنی پلکوں تک کو جنبش دیے بغیرعنقاء پرندے ہما کے منتظررہتے ہیں اورکامیابی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ خوشی کا اصل تعلق درحقیقت آپ کے اندر کی ذات سے ہے۔اپنی ذات کی تلاش کا عمل ہم نے چھوڑدیا ہے جو ہماری پریشانیوں کا اصل سبب بنا ہے۔دکھوں سے چھٹکارا موت سے قبل ممکن نہیں اس لیے غموں کوہر وقت خود پر حاوی رکھنا اور زندگی سے مسلسل شکوے شکایات رکھنا ایک انتہائی منفی طرز عمل ہے۔
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ خواہشات کے اس سیلاب کو عملی دھارے کارخ دیاجائے۔ جب کسی کام کی ابتداء مقصود ہوتوپہلے اچھی طرح اس کے عملی خاکہ،عواقب و نتائج پر غوروفکر کرلیا جائے اس طرح اس کام کو نہ کرنے کا خیال اس کے دل میں جاگزیں ہوجاتاہے۔جب ایک بارکام کے عواقب ونتائج سے بہرہ مند ہوگئے اور جان لیا کہ وہ ناممکن العمل نہیں یعنی آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف نہیں اورانسانی بساط میں ممکن ہے پھر خواہ چاند پر جانے ہی کاکام کیوں نہ ہو اور وہ اپنی قوت،طاقت، استطاعت، صلاحیت،قابلیت،لیاقت،دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کا ارادہ کرچکاہے توپھرکسی بھی طور پیچھے مڑکر نہ دیکھے۔
سکون قلب کیسے حاصل کیا جائے ، آیئے ذرا اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی جستجو ولگن اختیار کرتے ہیں۔ دعا اور مناجات خدا سے راز و نیاز اور قلبی اضطراب کو دور کرنے کے لیے ہے۔ تسکین روح اور اطمینان قلب کے لیے ایک بہترین اور مؤثر ترین راستہ ہے۔ راز ونیاز کرنے والا کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتا اور شگفتہ انگیز صبر واستقامت کے ذریعہ غم و اندوہ کو خود سے دور کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہرگز پریشان اور ناامید نہیں ہونے دیتا ہے۔ مذہب پہ ایمان اس قدر صبر اور استقامت عطا کرتا ہے تو اضطراب اور پریشانی کے وقت ہم کیوں خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے؟
راقم الحروف کے نزدیک خوشی کا حقیقی ذریعہ خود غرضی کے بجائے خود اختیاری ہے آخر میں اپنی ذات پر فتح،پوری دنیا پر فتح پانے کی نسبت کہیں بڑی بات ہے''۔علامہ اقبال نے کہاتھا: اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی۔ ایک تحقیق کے مطابق ہمارے نوے فیصد دکھ اور غم بے جاتوقعات اور غلط نظریات کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسے ہی کوئی توقع ٹوٹتی ہے یا کوئی نظریہ غلط ہوتا ہے ہم غمگین ہوجاتے ہیں۔
فرائض کی انجام دہی کے احساس نے خیال کومنجمد کردیا ہے۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اگر سچائی تلاش کرنا چاہے تو اسے تلاش کرسکتا ہے۔گورمون نے کہاتھا کہ ''سچائی کی تلاش کے حوالے سے خوفناک ترین بات یہ ہے کہ انسان اسے تلاش کرلیتا ہے'۔ جرمن شاعرگوئٹے کہتا ہے کہ''عمل کو جنم نہ دینے والے تمام خیالات بیماری ہیں'' ارنسٹ ایم ہاپکنز نے زندگی کے مفہوم کی عکاسی یوں کی ہے ''میری رائے میں زندگی مہیا کردہ مواقع میں پنہاں ہوتی ہیں''۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ روح اصل ہے، عشق حقیقی خدا سے لولگانا ہے، عشق مجازی خواہشات کی طلب ہے۔سادہ زندگی گزارنے میں ہمیں یہ فائدہ ہے کہ بڑے مشکلات اور چیلنجز سے بآسانی نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔
خوشی اور غم زندگی کی دو حقیقتیں ہیں ،جن سے ہرانسان کو واسطہ پڑتا ہے، معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے ، اگر ہم اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کریں کہ ہرفرد کسی نہ کسی بیماری کا شکار کیوں ہورہا ہے ، جیسے ڈپریشن ،شوگر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک اور اس جیسی کئی مہلک بیماریاں ۔ جواب سادہ ہے اس کی بنیادی وجہ ذہنی دبائو اور پریشانیاں ہیں جو ہمیں لاحق ہوچکی ہیں۔
دراصل ہم لامحدود خواہشات کی تکمیل کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں ، ہمیں اپنے آس پاس کوئی ہوش نہیں ہے،بے شک آج کا یہ متمدن دور، زندگی کے ہر پہلو میں تعجب انگیز اور قابل ملاحظہ ترقی کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود معنوی پہلوؤں میں اس نے نہ صرف ترقی نہیں کی ہے بلکہ برعکس تنزل اور پستی کی راہ کو اختیار کرچکا ہے۔ آج کا ہر انسان بے چین اور مضطرب ہے، اسے اطمینان قلب اور سکون ہی نہیں ملتا۔ہمارا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمالیں تاکہ دنیا واہ واہ کر اٹھے، کیا سب لوگ دولت کمانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں؟
ہرگز نہیں ، جب اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتاہے، تو ہم شدید ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دنیا کا تو کام ہی آپ کی دھجیاں اڑانا ہے اور دنیا یہ کام بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔ ہم انسان صبح سے رات تک یہی کام کر رہے ہیں جو کرتے ہیں جو سوچتے ایک قیدی کی طرح کہ دوسرا کیا کہے گا۔ دوسروں کے نظریے سے ہم زندگی گزارتے ہیں اسی وجہ سے بربادی ہے اور ہم انسان اپنے آپ سے ناواقف ہیں، اگر ہم ایک لمحے کو سوچیں کیا بہت پیسہ کمانے سے دنیا آپ سے خوش ہوجاتی ہے، کیا لوگ کیڑے نکالنا بند کردیتے ہیں؟
یہاں پر ایک تاریخ کے اوراق میں درج ایک واقعے سے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغل بادشاہ اکبر نے اپنے نورتن بیربل سے پوچھا مجھے کوئی ایسی چیز دو ، جو مجھے غم اورخوشی کی کیفیات سے ماورا کردے ، یعنی حالت غم کے وقت میں غم کی کیفیت مبتلا نہ ہوں اور خوشی کے وقت مجھے اس کے چھن جانے کا خوف نہ ہو۔ بیربل بادشاہ سلامت کو ایک انگوٹھی دیتا ہے ، وہ انگوٹھی لے کر پوچھتے ہیں ،اس کا کیاکروں، تو وہ کہتا ہے کہ اس انگوٹھی پردرج یا منقش عبارت پڑھیں۔
بادشاہ عبارت پڑھتا ہے'' یہ وقت بھی گزرے جائے گا'' دانشمند بیربل بادشاہ کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب آپ شدید عالم غم میں ہوں تو اس عبارت کو پڑھیں اور جب خوشی سے سرشار ہوں تب بھی اس عبارت کو پڑھ کر دہرائیں ۔ یعنی انسانی زندگی کا پورا فلسفہ حیات اس ایک جملے میں پوشیدہ ہے، اگر ہم غور کریں تو۔ہمارے سماج میں ایک عمومی تاثر یہ قائم ہوچکا ہے کہ خوشی کا انحصار مال واسباب کی فراوانی پر ہے۔
مثال کے طور پر جس فرد کے پاس ایک خوبصورت بنگلہ ہو، ایک بہترین گاڑی ہو، بینک بیلنس ہو،مزید یہ کہ وہ سیاحت یا فوٹوگرافی اوراس جیسے دیگر مہنگے شوق برداشت کر سکتا ہو، اس کے بارے میں عام گمان یہی کیا جاتا ہے کہ وہ یقیناً دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہے اور اسے کوئی غم لاحق نہیں ہو سکتا۔ گویاخوشی یا سکون قلب کا تعلق سراسر مال و دولت سے ہے، جب کہ اس گمان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہر شخص فطری طور پر کامیابی کا متمنی ہے۔ ناکامی تو ناکامی، شکست خوردہ انسان کو بھی کوئی گلے لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتالیکن جب جدوجہد اورعملی کوشش کی بات کی جائے توکامیابی کے عملی اقدامات بہت کم افراد کرتے ہیں۔اکثر بلاسعی وعمل ہی کامیابی کے آرزومند ہوتے ہیںاور اپنے قدم تودرکناراپنی پلکوں تک کو جنبش دیے بغیرعنقاء پرندے ہما کے منتظررہتے ہیں اورکامیابی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ خوشی کا اصل تعلق درحقیقت آپ کے اندر کی ذات سے ہے۔اپنی ذات کی تلاش کا عمل ہم نے چھوڑدیا ہے جو ہماری پریشانیوں کا اصل سبب بنا ہے۔دکھوں سے چھٹکارا موت سے قبل ممکن نہیں اس لیے غموں کوہر وقت خود پر حاوی رکھنا اور زندگی سے مسلسل شکوے شکایات رکھنا ایک انتہائی منفی طرز عمل ہے۔
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ خواہشات کے اس سیلاب کو عملی دھارے کارخ دیاجائے۔ جب کسی کام کی ابتداء مقصود ہوتوپہلے اچھی طرح اس کے عملی خاکہ،عواقب و نتائج پر غوروفکر کرلیا جائے اس طرح اس کام کو نہ کرنے کا خیال اس کے دل میں جاگزیں ہوجاتاہے۔جب ایک بارکام کے عواقب ونتائج سے بہرہ مند ہوگئے اور جان لیا کہ وہ ناممکن العمل نہیں یعنی آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف نہیں اورانسانی بساط میں ممکن ہے پھر خواہ چاند پر جانے ہی کاکام کیوں نہ ہو اور وہ اپنی قوت،طاقت، استطاعت، صلاحیت،قابلیت،لیاقت،دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کا ارادہ کرچکاہے توپھرکسی بھی طور پیچھے مڑکر نہ دیکھے۔
سکون قلب کیسے حاصل کیا جائے ، آیئے ذرا اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی جستجو ولگن اختیار کرتے ہیں۔ دعا اور مناجات خدا سے راز و نیاز اور قلبی اضطراب کو دور کرنے کے لیے ہے۔ تسکین روح اور اطمینان قلب کے لیے ایک بہترین اور مؤثر ترین راستہ ہے۔ راز ونیاز کرنے والا کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتا اور شگفتہ انگیز صبر واستقامت کے ذریعہ غم و اندوہ کو خود سے دور کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہرگز پریشان اور ناامید نہیں ہونے دیتا ہے۔ مذہب پہ ایمان اس قدر صبر اور استقامت عطا کرتا ہے تو اضطراب اور پریشانی کے وقت ہم کیوں خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے؟
راقم الحروف کے نزدیک خوشی کا حقیقی ذریعہ خود غرضی کے بجائے خود اختیاری ہے آخر میں اپنی ذات پر فتح،پوری دنیا پر فتح پانے کی نسبت کہیں بڑی بات ہے''۔علامہ اقبال نے کہاتھا: اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی۔ ایک تحقیق کے مطابق ہمارے نوے فیصد دکھ اور غم بے جاتوقعات اور غلط نظریات کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسے ہی کوئی توقع ٹوٹتی ہے یا کوئی نظریہ غلط ہوتا ہے ہم غمگین ہوجاتے ہیں۔
فرائض کی انجام دہی کے احساس نے خیال کومنجمد کردیا ہے۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اگر سچائی تلاش کرنا چاہے تو اسے تلاش کرسکتا ہے۔گورمون نے کہاتھا کہ ''سچائی کی تلاش کے حوالے سے خوفناک ترین بات یہ ہے کہ انسان اسے تلاش کرلیتا ہے'۔ جرمن شاعرگوئٹے کہتا ہے کہ''عمل کو جنم نہ دینے والے تمام خیالات بیماری ہیں'' ارنسٹ ایم ہاپکنز نے زندگی کے مفہوم کی عکاسی یوں کی ہے ''میری رائے میں زندگی مہیا کردہ مواقع میں پنہاں ہوتی ہیں''۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ روح اصل ہے، عشق حقیقی خدا سے لولگانا ہے، عشق مجازی خواہشات کی طلب ہے۔سادہ زندگی گزارنے میں ہمیں یہ فائدہ ہے کہ بڑے مشکلات اور چیلنجز سے بآسانی نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔