نظریہ متوازن معیشت اورکرنسی پہلا حصہ
غیر پیداواری اخراجات ، پیداواری اخراجات کے مقابلے میں جوں جوں بڑھتے ہیں توں توں معیشت غیر متوازن ہوتی ہے۔
غیر پیداواری اخراجات ، پیداواری اخراجات کے مقابلے میں جوں جوں بڑھتے ہیں توں توں معیشت غیر متوازن ہوتی ہے اور متوازن معیشت میں غیر پیداواری اخراجات اور پیداواری اخراجات کا متناسب رہنا ضروری ہوتا ہے۔
پاکستان کا بجٹ 1948-49 میں 43 لاکھ روپے سے سر پلس تھا۔ آمدنی 95 کروڑ 64 لاکھ روپے تھی اور اخراجات 95 کروڑ 21 لاکھ روپے تھا۔ مالی سال 1949-50 کا سرپلس بجٹ 23 لاکھ 27 ہزار روپے تھا۔ 1950-51 کا بجٹ 28 کروڑ 96 لاکھ روپے سرپلس تھا۔ 1951-52 کا بجٹ 66 لاکھ 25 ہزار روپے سرپلس تھا۔
مالی سال 1952-53 کا بجٹ 20 لاکھ 40 ہزار روپے سرپلس تھا۔ مالی سال 1953-54 میں 8 لاکھ43 ہزار روپے سرپلس تھا۔ مالی سال 1954-55 کا بجٹ 9 لاکھ 64 ہزار روپے سے سرپلس تھا۔ اس طرح حکومتی آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن متناسب تھا۔
یاد رہے ستمبر 1949 میں امریکا اور امریکی ادارے آئی ایم ایف نے دباؤ ڈالا کہ پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی کی جائے، لیکن پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایسا کرنے سے سختی سے انکارکردیا، لیکن جون 1955 میں جب سکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ حاصل کرلیا تو جولائی 1955 میں3.340 روپے کا ڈالر 4.762 روپے کا کردیا۔ یہ کرنسی ڈی ویلیو ایشن 43 فیصد تھی۔ ایکسپورٹرز کے وارے نیارے ہوگئے۔
انھوں نے عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں کم ریٹ ڈالروں میں اشیا فروخت کرکے زیادہ ڈالر اکٹھے کر لیے اور مالی سال اپریل 1955 سے مارچ 1956 کے دوران تجارت کو سرپلس کرلیا جو 45 کروڑ 86 لاکھ روپے تھی اور اس کے بدلے حاصل ہونے والے ڈالروں کو روپے میں بدل کر فی ڈالر نفع1.42روپے پاکستان میں کمالیا۔ لیکن اس کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا منفی دھچکا Economic Shock پورے ملکی معیشت پر نمایاں ہو کر سامنے آیا، کیونکہ دوسرے مالی سال امپورٹرز کو بیرونی ملکوں سے آئی اشیا پر فی ڈالر1.42 روپے زیادہ ادا کرنے پڑے۔
ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں 43 فیصد بڑھ گئیں۔ جو بجٹ پہلے مسلسل سرپلس چلے آ رہے تھے مالی سال 1956-57 کا بجٹ بہت بڑے خسارے میں چلا گیا جو 2 کروڑ 48 لاکھ 86 روپے تھا۔
مالی سال 1955-56 میں غیر ملکی اشیا مہنگی امپورٹ ہونے سے لاگتیں بڑھی تھیں جس کا منفی اثر مالی سال 1956-57 میں نمایاں ہو کر سامنے آیا، جو خسارے کی شکل میں 72 کروڑ 70 لاکھ روپے تھا۔ سامراجی برطانیہ غلام انڈیا کی سات سو ریاستوں کے والیان سے براہ راست اپنے مقررکردہ ٹیکس کلکٹروں کے ذریعے ٹیکس وصول کرتا تھا، جو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی فوجیوں کے اخراجات نکال کر باقی رقوم تاج برطانیہ میں بھیجتے تھے، لیکن جب پہلی عالمی جنگ 28 جولائی 1914 اور دوسری عالمی جنگ 1939 میں برطانیہ کمزور پڑگیا تو غلام ملکوں میں قومی آزادی کی تحریکوں کا سامنا نہ کرسکنے پر ان ملکوں کو آزاد کرنا شروع کردیا۔
امریکا مکمل عالمی سامراج بننے کی تیاری 1900 سے قبل کر چکا تھا۔ یورپی سامراجی ممالک 1894 سے 1907 تک گروپ بندیوں کے معاہدے کرتے رہے۔ امریکا نیوٹرل ملک بنا رہا۔ پہلی جنگ کے دوران یورپی جنگ زدہ ملکوں میں کرنسی ایکسچینج بحران اور معاشی بحران شدت اختیار کرگیا تو امریکا عالمی کرنسی تبادلوں کے سونے کے معیار 20۔67 ڈالر فی اونس جو امریکا میں 1837 میں مقررکیا گیا تھا اس کی بنیاد پر یورپی ملکوں سے سونے اور امریکی ڈالروں میں تجارت ایکسپورٹ شروع کردی۔
پورے یورپی ملک 1915 سے 1924 تک ڈالرائز ہوچکے تھے اور 15 دسمبر 1923 کو امریکا نے یورپی ملکوں کو قرضے دینے اور ڈالر کے مقابلے میں ان کی کرنسیوں کی قیمتیں مقررکرنے کے امریکی ادارہ EEF( Exchange Equalization Fund) قائم کرکے باقاعدہ مالیاتی آپریشن شروع کردیے تھے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے برطانیہ کو ساتھ ملا کر 1940 سے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اور 27 دسمبر 1945 کو باقاعدہ نیم آزاد ملکوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ذریعے امریکا کا معاشی غلام ملک بنانا شروع کردیا تھا۔ یاد رہے کہ لیاقت علی خان امریکی مالیاتی لوٹ مار کے ہتھکنڈے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ جنھوں نے پاکستانی روپے کی قیمت کم کرنے سے ستمبر 1949 کو انکار کردیا تھا۔
جنرل ایوب خان نے روپے کی قیمت میں کمی نہیں کی تھی، لیکن بعد کے تمام حکمرانوں نے امریکی معاشی غلامی کی مکمل تابعداری کی ہے، جنرل ایوب خان بھی امریکا کا تابعدار تھا۔ 1959 بڈابیرکا ہوائی اڈہ امریکا کے حوالے کرکے روس کی مخالفت مول لی تھی۔ اس طرح سیٹو سینٹو کے معاہدوں میں امریکا کی مکمل تابعداری کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی روپے میں ڈالرکے مقابلے میں دوسری بار کمی کی گئی۔ جب 1972 میں پیپلز پاٹی کی حکومت تھی۔ مئی 1972 میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ایک ڈالر کر دیا گیا۔
روپے کی قیمت میں کمی 132 فیصد ہونے کے نتیجے میں جو بجٹ مالی سال 1970-71 میں 45 کروڑ 87 لاکھ 8 ہزار روپے کا سرپلس تھا وہ بجٹ مالی سال 1971-72 میں ایک ارب 41 کروڑ 25 لاکھ 30 ہزار روپے سے خسارے میں چلا گیا۔-71 1970 میں تجارتی خسارہ ایک ارب 64 کروڑ روپے جو پرانی قیمت4.762روپے ڈالر کے حساب سے تھا مئی 1972 کے بعد جب روپے کی قیمت 11.031 روپے تھی اس پر 1970-71 کی قیمت 4.762 کا فرق منفی6.269روپے تھا اور ڈالر فروخت پر6.269کا ٹریڈ منافع تھا۔
ایکسپورٹرز نے مئی کے بعد جو تجارت اس میں ایکسپورٹرز نے عالمی مارکیٹ میں کم ڈالر ریٹ پر اشیا فروخت کرکے پہلے کی نسبت زیادہ ایکسپورٹ کیں اور ایکسپورٹ 3 ارب 37 کروڑ 10 لاکھ روپے کرلی اور امپورٹ 3 ارب 49 کروڑ 50 لاکھ روپے رہی۔ جس سے خسارہ کم ہو کر 12 کروڑ 40 لاکھ روپے تک آگیا۔ جو پہلے 1970-71 میں ایک ارب 64 کروڑ روپے تھا۔
دوسرے مالی سال 1972-73 میں ایکسپورٹرز نے زیادہ ایکسپورٹ کم ڈالر ریٹ پرکرکے ایکسپورٹ کو آگے سے زیادہ بڑھا لیا جو 8 ارب 55 کروڑ 10 لاکھ روپے تھی اور امپورٹ8 ارب 39 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی۔ (اس طرح اپریل 1955 مارچ 1956 کے بعد دوسری مرتبہ پاکستانی ایکسپورٹ مثبت سرپلس ہوئی تھی۔) 1972-73 میں ایکسپورٹ 15 کروڑ 30 لاکھ روپے تھی۔ (جاری ہے۔)
پاکستان کا بجٹ 1948-49 میں 43 لاکھ روپے سے سر پلس تھا۔ آمدنی 95 کروڑ 64 لاکھ روپے تھی اور اخراجات 95 کروڑ 21 لاکھ روپے تھا۔ مالی سال 1949-50 کا سرپلس بجٹ 23 لاکھ 27 ہزار روپے تھا۔ 1950-51 کا بجٹ 28 کروڑ 96 لاکھ روپے سرپلس تھا۔ 1951-52 کا بجٹ 66 لاکھ 25 ہزار روپے سرپلس تھا۔
مالی سال 1952-53 کا بجٹ 20 لاکھ 40 ہزار روپے سرپلس تھا۔ مالی سال 1953-54 میں 8 لاکھ43 ہزار روپے سرپلس تھا۔ مالی سال 1954-55 کا بجٹ 9 لاکھ 64 ہزار روپے سے سرپلس تھا۔ اس طرح حکومتی آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن متناسب تھا۔
یاد رہے ستمبر 1949 میں امریکا اور امریکی ادارے آئی ایم ایف نے دباؤ ڈالا کہ پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی کی جائے، لیکن پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایسا کرنے سے سختی سے انکارکردیا، لیکن جون 1955 میں جب سکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ حاصل کرلیا تو جولائی 1955 میں3.340 روپے کا ڈالر 4.762 روپے کا کردیا۔ یہ کرنسی ڈی ویلیو ایشن 43 فیصد تھی۔ ایکسپورٹرز کے وارے نیارے ہوگئے۔
انھوں نے عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں کم ریٹ ڈالروں میں اشیا فروخت کرکے زیادہ ڈالر اکٹھے کر لیے اور مالی سال اپریل 1955 سے مارچ 1956 کے دوران تجارت کو سرپلس کرلیا جو 45 کروڑ 86 لاکھ روپے تھی اور اس کے بدلے حاصل ہونے والے ڈالروں کو روپے میں بدل کر فی ڈالر نفع1.42روپے پاکستان میں کمالیا۔ لیکن اس کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا منفی دھچکا Economic Shock پورے ملکی معیشت پر نمایاں ہو کر سامنے آیا، کیونکہ دوسرے مالی سال امپورٹرز کو بیرونی ملکوں سے آئی اشیا پر فی ڈالر1.42 روپے زیادہ ادا کرنے پڑے۔
ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں 43 فیصد بڑھ گئیں۔ جو بجٹ پہلے مسلسل سرپلس چلے آ رہے تھے مالی سال 1956-57 کا بجٹ بہت بڑے خسارے میں چلا گیا جو 2 کروڑ 48 لاکھ 86 روپے تھا۔
مالی سال 1955-56 میں غیر ملکی اشیا مہنگی امپورٹ ہونے سے لاگتیں بڑھی تھیں جس کا منفی اثر مالی سال 1956-57 میں نمایاں ہو کر سامنے آیا، جو خسارے کی شکل میں 72 کروڑ 70 لاکھ روپے تھا۔ سامراجی برطانیہ غلام انڈیا کی سات سو ریاستوں کے والیان سے براہ راست اپنے مقررکردہ ٹیکس کلکٹروں کے ذریعے ٹیکس وصول کرتا تھا، جو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی فوجیوں کے اخراجات نکال کر باقی رقوم تاج برطانیہ میں بھیجتے تھے، لیکن جب پہلی عالمی جنگ 28 جولائی 1914 اور دوسری عالمی جنگ 1939 میں برطانیہ کمزور پڑگیا تو غلام ملکوں میں قومی آزادی کی تحریکوں کا سامنا نہ کرسکنے پر ان ملکوں کو آزاد کرنا شروع کردیا۔
امریکا مکمل عالمی سامراج بننے کی تیاری 1900 سے قبل کر چکا تھا۔ یورپی سامراجی ممالک 1894 سے 1907 تک گروپ بندیوں کے معاہدے کرتے رہے۔ امریکا نیوٹرل ملک بنا رہا۔ پہلی جنگ کے دوران یورپی جنگ زدہ ملکوں میں کرنسی ایکسچینج بحران اور معاشی بحران شدت اختیار کرگیا تو امریکا عالمی کرنسی تبادلوں کے سونے کے معیار 20۔67 ڈالر فی اونس جو امریکا میں 1837 میں مقررکیا گیا تھا اس کی بنیاد پر یورپی ملکوں سے سونے اور امریکی ڈالروں میں تجارت ایکسپورٹ شروع کردی۔
پورے یورپی ملک 1915 سے 1924 تک ڈالرائز ہوچکے تھے اور 15 دسمبر 1923 کو امریکا نے یورپی ملکوں کو قرضے دینے اور ڈالر کے مقابلے میں ان کی کرنسیوں کی قیمتیں مقررکرنے کے امریکی ادارہ EEF( Exchange Equalization Fund) قائم کرکے باقاعدہ مالیاتی آپریشن شروع کردیے تھے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے برطانیہ کو ساتھ ملا کر 1940 سے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اور 27 دسمبر 1945 کو باقاعدہ نیم آزاد ملکوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ذریعے امریکا کا معاشی غلام ملک بنانا شروع کردیا تھا۔ یاد رہے کہ لیاقت علی خان امریکی مالیاتی لوٹ مار کے ہتھکنڈے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ جنھوں نے پاکستانی روپے کی قیمت کم کرنے سے ستمبر 1949 کو انکار کردیا تھا۔
جنرل ایوب خان نے روپے کی قیمت میں کمی نہیں کی تھی، لیکن بعد کے تمام حکمرانوں نے امریکی معاشی غلامی کی مکمل تابعداری کی ہے، جنرل ایوب خان بھی امریکا کا تابعدار تھا۔ 1959 بڈابیرکا ہوائی اڈہ امریکا کے حوالے کرکے روس کی مخالفت مول لی تھی۔ اس طرح سیٹو سینٹو کے معاہدوں میں امریکا کی مکمل تابعداری کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی روپے میں ڈالرکے مقابلے میں دوسری بار کمی کی گئی۔ جب 1972 میں پیپلز پاٹی کی حکومت تھی۔ مئی 1972 میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ایک ڈالر کر دیا گیا۔
روپے کی قیمت میں کمی 132 فیصد ہونے کے نتیجے میں جو بجٹ مالی سال 1970-71 میں 45 کروڑ 87 لاکھ 8 ہزار روپے کا سرپلس تھا وہ بجٹ مالی سال 1971-72 میں ایک ارب 41 کروڑ 25 لاکھ 30 ہزار روپے سے خسارے میں چلا گیا۔-71 1970 میں تجارتی خسارہ ایک ارب 64 کروڑ روپے جو پرانی قیمت4.762روپے ڈالر کے حساب سے تھا مئی 1972 کے بعد جب روپے کی قیمت 11.031 روپے تھی اس پر 1970-71 کی قیمت 4.762 کا فرق منفی6.269روپے تھا اور ڈالر فروخت پر6.269کا ٹریڈ منافع تھا۔
ایکسپورٹرز نے مئی کے بعد جو تجارت اس میں ایکسپورٹرز نے عالمی مارکیٹ میں کم ڈالر ریٹ پر اشیا فروخت کرکے پہلے کی نسبت زیادہ ایکسپورٹ کیں اور ایکسپورٹ 3 ارب 37 کروڑ 10 لاکھ روپے کرلی اور امپورٹ 3 ارب 49 کروڑ 50 لاکھ روپے رہی۔ جس سے خسارہ کم ہو کر 12 کروڑ 40 لاکھ روپے تک آگیا۔ جو پہلے 1970-71 میں ایک ارب 64 کروڑ روپے تھا۔
دوسرے مالی سال 1972-73 میں ایکسپورٹرز نے زیادہ ایکسپورٹ کم ڈالر ریٹ پرکرکے ایکسپورٹ کو آگے سے زیادہ بڑھا لیا جو 8 ارب 55 کروڑ 10 لاکھ روپے تھی اور امپورٹ8 ارب 39 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی۔ (اس طرح اپریل 1955 مارچ 1956 کے بعد دوسری مرتبہ پاکستانی ایکسپورٹ مثبت سرپلس ہوئی تھی۔) 1972-73 میں ایکسپورٹ 15 کروڑ 30 لاکھ روپے تھی۔ (جاری ہے۔)