مجرم منصف اور انصاف

ملک میں اس وقت جرائم کی رفتار بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔

h.sethi@hotmail.com

DUBAI:
ہمیں میڈیا سے مختلف حادثات و جرائم کی خبریں ملتی رہتی ہیں جن میں بعض جرائم اس قدر خوفناک اور دل دکھانے والے ہوتے ہیں کہ جس بھی شخص کے علم میں ان کی تفصیل آتی ہے وہ خود بھی پریشان اور دکھی ہو جاتا ہے لیکن وقت گزرنے پر اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ظلم کرنیوالے کو اس کی سزا ملی ہے یا کہ وہ اب بھی نہ صرف دندناتا پھر رہا ہے بلکہ کئی اور کا شکار کر کے خوف اور درندگی کی علامت بن کر اتراتا دیکھا جاتا ہے۔

بعض اوقات سزا نہ ہونے پر ایسے لوگوں کا خوف اتر جانے پر وہ عادی مجرم بن جاتے ہیں۔ جزا اور سزا کا عمل رک جائے تو وہ معاشرہ ہی تباہی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ بد قسمتی سے اگرچہ ایک ایماندار اور فلاحی کاموں میں دلچسپی رکھنے والا شخص برسر ِ اقتدار ہے لیکن شاید اس کی نا تجربہ کاری اور خود سری آڑے آ رہی ہے جس کی وجہ سے ملک معاشی، سیاسی اور بدامنی کا شکار ہے۔

سب سے زیادہ اشیائے ضروری کی گرانی اور بیروزگاری نے اس کی نیک نیتی کو بلاشبہ مشکوک اور مخالفین کے ہاتھوں میں بطور ہتھیار تھما کر ملک کو بدامنی کی دلدل میں گرانے کا کام شروع کر رکھا ہے ۔ اگرچہ عمران خاں کا ماضی اور موجودہ کو ششیں گواہ ہیں کہ وہ خلوص نیت سے معاشی بدحالی اور کرپشن سے ملک کو نکالنے میں پرعزم ہے لیکن جب تک مثبت نتائج ظاہر نہیں ہوتے اس کے سر پر ناکامی اور نا اہلی کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

اکیلے وزیر اعظم کے خلاف تمام سیاسی پارٹیوں کا اکٹھے ہو کر پی ڈی ایم کے نام سے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جلسے جلوس اور مارچوں کا محاذ کھڑا کر لینا بھی ایک دلچسپ اکٹھ ہے ۔ ان درجن بھر پارٹیوں میں دو ایسی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں میںبرسراقتدار رہیں لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اتنی سکت نہیں تھی کہ تحریک انصاف (PTI) کو اکیلے چیلنج کر سکے لہٰذا انھوں نے مولانا فضل الرحمنٰ کو اپنا لیڈر بنایا اور دھکا دے کر آگے کر دیا ۔

دوسری انوکھی یا دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ دو میںسے ایک پارٹی کے سربراہ سزا یافتہ مفرور ہیں اور دوسری پارٹی کے سابق صدر صحت کے حوالے سے معذور ہیں لیکن چند روز قبل ان کی بڑھک بتاتی ہے کہ وہ مقدمات کی وجہ سے بیمار نظر آتے ہیں ورنہ وہ ''ایک زرداری سب پر بھاری'' ہیں۔ جہاں تک نواز شریف صاحب کا تعلق ہے جیسے ہی وہ ہوائی جہازسے اتر کر اپنے Second Home لندن کی سر زمین پر قدم رکھتے ہیں ان کے پلیٹلٹس نارمل ہو جاتے ہیں لیکن ان کا علاج ابھی مکمل نہیں ہوا۔


سیاست کے خارزارکے بعد اب ہو جائے ذکر فوجداری مقدمات کا۔ ہمارے ہاں ایک تو پولیس کے ساتھ ملی بھگت کر کے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے کا رواج عام ہے۔ مزید یہ کہ FIR میںبے قصور افراد کو بھی نامزد کر دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قصور وار بھی سزا سے بچ جاتے ہیں۔ مجھے 1970 میں اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 کا اغوا اور زنا بالجبر کا ایک مقدمہ یاد ہے جو ایک مشرقی پاکستانی کرنل عنایت، ایک میجر اور میرے پاس زیر سماعت رہا۔ اس مقدمے میں سات آٹھ ایک فیملی کے ملزمان تھے۔

ان میں نوّے سال کا ایک ملزم بھی تھا اور گواہان نے اس کے خلاف جی بھر کر زیادتی کا الزام لگایا لیکن جب متعلقہ خاتون کو شہادت قلمبند کرنے کے لیے بلایا گیا تو وہ روتی ہوئی ڈائس پر چڑھ گئی اور اس نے میری ٹھوڑی پکڑ کر کہا کہ یہ بوڑھا ملزم تو ہم سب کا بزرگ ہے اور میرے باپ کے برابر ہے۔ میں نے نوٹ کیا تھا کہ وہ بوڑھا چلنے پھرنے سے بھی معذور تھا ۔ فوجداری مقدمات میں اور بطور خاص جودشمنی اور مخالفت کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں، ان کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلتے۔ تفتیشی افسر کو چونکہ حقائق معلوم ہوتے ہیں ، اس لیے اُس کی لاٹری نکل آتی ہے جب کہ دونوں فریق خوار ہو جاتے ہیں۔ عدالت کا وقت ضایع ہوتا ہے اور مخالفیتںدشمنیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

ملک میں اس وقت جرائم کی رفتار بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں سزا یافتہ ملزم بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔ سزا یافتہ قاتل بھی پھانسی گھاٹ تک نہیں پہنچتا ، بوجہ تاخیر فریقین میں مزید رنجش جنم لیتی ہے اور مقتول کے عزیزوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جانے سے ایک اور واردات جنم لیتی ہے۔

مدعی ، گواہ، تفتیش ، سفارش، رشوت، تاخیر، وکیل ، عدالت، عدالتی عملہ، اپیل، اپیل در اپیل، انصاف کی آخری منزل، اخراجات، گواہوں کی جانوں کا تحفظ، یہ چند رکاوٹیں نہیں منزلیں ہیں یا پھر پہاڑ ہیں جنھیں سر کرتے کرتے مظلوم کا انصاف پر ایمان متزلزل ہو جاتا ہے۔ فوجداری جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد اور انصاف میں تاخیر جرائم میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ سچے گواہ خوفزدہ یا Win over ہو کر مقدمے کو طول دینے یا منطقی انجام تک پہنچانے میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ عدالتیں ان معاملات میں بری الذّمہ قرار نہیں دی جا سکتیں کیونکہ ان کو جانچنے پر کھنے یا ان کی سرزنش کرنے کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔

مظلوم کی داد رسی اور جرائم میں کمی لانے کے لیے قانون میں ضروری ترامیم کرنے اورSpeedy Trail کورٹ بنانے کے علاوہ گھنائونے جرائم کرنے والوں کو سر ِ عام کوڑے مارنے یا ٹکٹکی لگانے کی گنجائش نکالے بغیر روزمرہ ہونیوالے سنگین جرائم اور ان میں اضافے کے رجحان کو روکنے کی اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ اشد ضروری ہے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے والی پولیس کی تربیت پر توجہ دی جائے اور مزید ضروری ہے کہ اس محکمے سے کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے۔
Load Next Story