اخوت کا سفر
اخوت دنیا بھر میں ’’قرض حسنہ‘‘ کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔
یہ سفر اختیار کیا ہے ڈاکٹر امجد ثاقب نے جنھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1985 میں سول سروس میں شامل ہوئے بعدازاں امریکا سے پبلک ایڈمنسٹریشن اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ میں ماسٹر کیا۔ اہم سرکاری عہدے سے استعفیٰ دیا اور اخوت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب انسانیت کا اتنا بڑا کام کر رہے ہیں کہ الفاظ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اخوت کا راستہ اختیارکرنے کا حوصلہ ہی ایک معجزہ ہے۔ یہ حوصلہ، یہ طاقت انھیں اللہ نے عطا کی۔ ڈاکٹر صاحب بڑا سرکاری عہدہ، آرام و آسائش چھوڑ چھاڑ کے کانٹوں بھری راہوں اور پتھریلے راستوں پر چل نکلے۔ معاشرے کے پسے ہوئے لوگ، ذلت و رسوائی میں زندگی بسر کرنے والے غربت زدگان، اندھیروں میں گھرے اجالوں کو ترستے اللہ کے بندے، ڈاکٹر امجد ثاقب ان کا سہارا بن گئے۔
اخوت دنیا بھر میں ''قرض حسنہ'' کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ''قرض حسنہ'' کیا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں یہ ایک قرض ہے جسے بلا کسی اضافی رقم کے آسان قسطوں میں واپس کرنا ہوتا ہے۔ یعنی جتنا قرض لیا اتنا ہی واپس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اخوت کے تحت یہ قرض غریب لوگوں کو دیا جاتا ہے اور انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا جاتا ہے۔
پرچون کی دکان، سبزی اور پھلوں کا ٹھیلہ، سلائی کڑھائی کا کام اور ایسے ہی دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بلا کسی ضمانت کے مناسب رقم بطور قرض فراہم کی جاتی ہے۔ اس ''قرض حسنہ'' کی بدولت اب تک ہزاروں خاندان بحال ہوچکے ہیں اور اپنا قرض ادا کرکے اب اخوت کے لیے عطیات دینے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اعلیٰ سرکاری منصب اور دولت، حشمت کو چھوڑ کر مولو مصلی، دوست محمد موجی، محمد دین، اللہ دتا، خواجہ سرا، گوگی، نیلم، سپنا، بندیا، مٹھو، چاندنی، بوبی، مالا، شمع، طوائف سونو، شمیم، روزی، مشعل، نازو، یہ سب سماج نے جنھیں فاحشہ کہا رذیل کہا، کنجری کہا، ڈاکٹر صاحب نے ان ٹھکرائے ہوؤں سے تعلق جوڑ لیا۔ انھیں عزت دی، پیار دیا، ان کی مالی مدد کی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر امجد ثاقب یقینا اللہ کا منتخب بندہ ہے اللہ نے انھیں ہمت، طاقت، حوصلے کے خمیر سے گوندھا ہے یہ اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے محض دس ہزار روپے سے قرض حسنہ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں سیم زدہ دیواریں، پھر اللہ کے گھر (مسجد) کو اپنا دفتر بنا لیا۔ مجروح سلطان پوری کے شعر کے مصداق:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکاررواں بنتا گیا
آج پوری دنیا میں اخوت کے ہزاروں ساتھی کاررواں میں شامل ہو کر ساتھ چل رہے ہیں۔ قصور شہر میں یونیورسٹی بن چکی ہے، کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں لکھا ''اپنے حصے کی ایک اینٹ خرید لیں، دل والوں نے مل کر لاکھوں اینٹیں خرید لیں،کسی نے ایک کسی نے دس ،کسی نے پچاس کسی نے سو، کسی نے ہزار۔ اور پھر یونیورسٹی بن گئی جس میں غریب نادار بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔کھانا، رہائش سب سہولتیں مفت مہیا۔
ہارون الرشید لکھتے ہیں ''خزانہ ڈاکٹر صاحب کے پاس بھی بہت بڑا ہے جو اب تک پچاس لاکھ پاکستانیوں پہ لٹا چکے ہیں،کوئی ان سے پوچھے تو بتا دیتے ہیں کہ زر و جواہر کہاں سے انھوں نے پائے۔ یہ بھی کہ اس سیم و زر کو اللہ کے عام بندوں ہی میں کیوں وہ بانٹتے ہیں۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کو بتایا گیا کہ یہ وہ صاحب ہیں جو بلا سود قرض دیتے ہیں انھوں نے پوچھا پھر آپ کماتے کہاں سے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کا یہ مزاج نہیں لیکن اس روز کھنکتی آواز میں انھوں نے کہا ''قرض بلاسود ہی ہوتا ہے، سود والا توکاروبار ہوتا ہے۔''
ایسے ہوتے ہیں اللہ کے چنیدہ بندے، جنھیں اللہ زمین پر بھیجتا ہے، اپنے بندوں کی مدد کرنے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے عبدالستار ایدھی کو دیکھا ان سے ہاتھ ملایا، گلے ملا۔ ان سے باتیں کیں، میری خوش نصیبی کہ میں نے ڈاکٹر ادیب رضوی کو دیکھا، ان سے ہاتھ ملایا، گلے ملا، ان سے باتیں کیں۔ میری خوش نصیبی کہ میں نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو دیکھا، وہ خاتون جس نے کوڑھ زدہ لوگوں کے لیے خود کو وقف کردیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں فرانس سے کراچی آئی اسے کلکتہ مدر ٹریسا کے پاس جانا تھا مگر جب اس نے کراچی میں کوڑھ زدہ انسانوں کو اذیت ناک زندگی گزارتے دیکھا تو 20 سالہ نیلی آنکھوں والی خوبصورت لڑکی نے کلکتہ جانے کا ارادہ بدل دیا۔
رتھ فاؤ نے کوڑھیوں کے ہاتھ اپنے کومل ہاتھوں میں لیے اور ان پر مرہم رکھنا شروع کردیا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ کوڑھ کا مرض پورے پاکستان سے 99 فیصد ختم ہو کر رہ گیا۔ میں خوش نصیب کہ میں نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے، انھیں چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ اداکار معین اختر میرا لنگوٹیا یار تھا، معین کا بڑا پن کہ آخری سانس تک اس نے مجھے نہیں بھلایا۔ انتقال سے بیس روز پہلے آرٹس کونسل میں ملا۔ معین اختر خاموشی سے کئی نادار خاندانوں کی مالی مدد کرتا تھا۔ لفافے تیار ہوتے تھے اور مستحق لوگ ہر ماہ آتے اور لفافہ لے جاتے۔
اب دیکھیں میرے بھاگ کب جاگیں گے کہ جب میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ہاتھ چوموں گا کہ جن ہاتھوں نے پچاس لاکھ خواجہ سرا کے پاؤں دھوئے۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جو جنت کے سب سے اعلیٰ مقام پر قیام کریں گے۔ اخوت کے کاررواں میں، میں بھی شامل ہو گیا ہوں۔ میری بھی خواہش ہے کہ انسانیت کے لیے کچھ کر جاؤں۔ افسانے، کہانیاں، شاعری سے آگے کچھ ایسا کام جو تا دیر جاری و ساری رہے۔ خلقِ خدا جس سے مستفید ہوتی رہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب انسانیت کا اتنا بڑا کام کر رہے ہیں کہ الفاظ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اخوت کا راستہ اختیارکرنے کا حوصلہ ہی ایک معجزہ ہے۔ یہ حوصلہ، یہ طاقت انھیں اللہ نے عطا کی۔ ڈاکٹر صاحب بڑا سرکاری عہدہ، آرام و آسائش چھوڑ چھاڑ کے کانٹوں بھری راہوں اور پتھریلے راستوں پر چل نکلے۔ معاشرے کے پسے ہوئے لوگ، ذلت و رسوائی میں زندگی بسر کرنے والے غربت زدگان، اندھیروں میں گھرے اجالوں کو ترستے اللہ کے بندے، ڈاکٹر امجد ثاقب ان کا سہارا بن گئے۔
اخوت دنیا بھر میں ''قرض حسنہ'' کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ''قرض حسنہ'' کیا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں یہ ایک قرض ہے جسے بلا کسی اضافی رقم کے آسان قسطوں میں واپس کرنا ہوتا ہے۔ یعنی جتنا قرض لیا اتنا ہی واپس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اخوت کے تحت یہ قرض غریب لوگوں کو دیا جاتا ہے اور انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا جاتا ہے۔
پرچون کی دکان، سبزی اور پھلوں کا ٹھیلہ، سلائی کڑھائی کا کام اور ایسے ہی دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بلا کسی ضمانت کے مناسب رقم بطور قرض فراہم کی جاتی ہے۔ اس ''قرض حسنہ'' کی بدولت اب تک ہزاروں خاندان بحال ہوچکے ہیں اور اپنا قرض ادا کرکے اب اخوت کے لیے عطیات دینے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اعلیٰ سرکاری منصب اور دولت، حشمت کو چھوڑ کر مولو مصلی، دوست محمد موجی، محمد دین، اللہ دتا، خواجہ سرا، گوگی، نیلم، سپنا، بندیا، مٹھو، چاندنی، بوبی، مالا، شمع، طوائف سونو، شمیم، روزی، مشعل، نازو، یہ سب سماج نے جنھیں فاحشہ کہا رذیل کہا، کنجری کہا، ڈاکٹر صاحب نے ان ٹھکرائے ہوؤں سے تعلق جوڑ لیا۔ انھیں عزت دی، پیار دیا، ان کی مالی مدد کی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر امجد ثاقب یقینا اللہ کا منتخب بندہ ہے اللہ نے انھیں ہمت، طاقت، حوصلے کے خمیر سے گوندھا ہے یہ اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے محض دس ہزار روپے سے قرض حسنہ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں سیم زدہ دیواریں، پھر اللہ کے گھر (مسجد) کو اپنا دفتر بنا لیا۔ مجروح سلطان پوری کے شعر کے مصداق:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکاررواں بنتا گیا
آج پوری دنیا میں اخوت کے ہزاروں ساتھی کاررواں میں شامل ہو کر ساتھ چل رہے ہیں۔ قصور شہر میں یونیورسٹی بن چکی ہے، کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں لکھا ''اپنے حصے کی ایک اینٹ خرید لیں، دل والوں نے مل کر لاکھوں اینٹیں خرید لیں،کسی نے ایک کسی نے دس ،کسی نے پچاس کسی نے سو، کسی نے ہزار۔ اور پھر یونیورسٹی بن گئی جس میں غریب نادار بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔کھانا، رہائش سب سہولتیں مفت مہیا۔
ہارون الرشید لکھتے ہیں ''خزانہ ڈاکٹر صاحب کے پاس بھی بہت بڑا ہے جو اب تک پچاس لاکھ پاکستانیوں پہ لٹا چکے ہیں،کوئی ان سے پوچھے تو بتا دیتے ہیں کہ زر و جواہر کہاں سے انھوں نے پائے۔ یہ بھی کہ اس سیم و زر کو اللہ کے عام بندوں ہی میں کیوں وہ بانٹتے ہیں۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کو بتایا گیا کہ یہ وہ صاحب ہیں جو بلا سود قرض دیتے ہیں انھوں نے پوچھا پھر آپ کماتے کہاں سے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کا یہ مزاج نہیں لیکن اس روز کھنکتی آواز میں انھوں نے کہا ''قرض بلاسود ہی ہوتا ہے، سود والا توکاروبار ہوتا ہے۔''
ایسے ہوتے ہیں اللہ کے چنیدہ بندے، جنھیں اللہ زمین پر بھیجتا ہے، اپنے بندوں کی مدد کرنے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے عبدالستار ایدھی کو دیکھا ان سے ہاتھ ملایا، گلے ملا۔ ان سے باتیں کیں، میری خوش نصیبی کہ میں نے ڈاکٹر ادیب رضوی کو دیکھا، ان سے ہاتھ ملایا، گلے ملا، ان سے باتیں کیں۔ میری خوش نصیبی کہ میں نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو دیکھا، وہ خاتون جس نے کوڑھ زدہ لوگوں کے لیے خود کو وقف کردیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں فرانس سے کراچی آئی اسے کلکتہ مدر ٹریسا کے پاس جانا تھا مگر جب اس نے کراچی میں کوڑھ زدہ انسانوں کو اذیت ناک زندگی گزارتے دیکھا تو 20 سالہ نیلی آنکھوں والی خوبصورت لڑکی نے کلکتہ جانے کا ارادہ بدل دیا۔
رتھ فاؤ نے کوڑھیوں کے ہاتھ اپنے کومل ہاتھوں میں لیے اور ان پر مرہم رکھنا شروع کردیا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ کوڑھ کا مرض پورے پاکستان سے 99 فیصد ختم ہو کر رہ گیا۔ میں خوش نصیب کہ میں نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے، انھیں چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ اداکار معین اختر میرا لنگوٹیا یار تھا، معین کا بڑا پن کہ آخری سانس تک اس نے مجھے نہیں بھلایا۔ انتقال سے بیس روز پہلے آرٹس کونسل میں ملا۔ معین اختر خاموشی سے کئی نادار خاندانوں کی مالی مدد کرتا تھا۔ لفافے تیار ہوتے تھے اور مستحق لوگ ہر ماہ آتے اور لفافہ لے جاتے۔
اب دیکھیں میرے بھاگ کب جاگیں گے کہ جب میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ہاتھ چوموں گا کہ جن ہاتھوں نے پچاس لاکھ خواجہ سرا کے پاؤں دھوئے۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جو جنت کے سب سے اعلیٰ مقام پر قیام کریں گے۔ اخوت کے کاررواں میں، میں بھی شامل ہو گیا ہوں۔ میری بھی خواہش ہے کہ انسانیت کے لیے کچھ کر جاؤں۔ افسانے، کہانیاں، شاعری سے آگے کچھ ایسا کام جو تا دیر جاری و ساری رہے۔ خلقِ خدا جس سے مستفید ہوتی رہے۔