2020 پاکستان میں میڈیا فریڈم کو دشوار چیلنجز کا سامنا رہا CPNE رپورٹ

صحافیوں کو غائب، ہراساں کرنے اور جسمانی تشدد کے بے شمار واقعات پیش آئے، ملک بھر میں 10 صحافی قتل کیے گئے


Press Release February 01, 2021
متعدد صحافی مختلف انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنے، کورونا وبا سے بھی کم و بیش 8 صحافی زندگی کی بازی ہار گئے فوٹو: فائل

کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE) نے ''پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ برائے سال 2020'' جاری کر دی ،رپورٹ کے مطابق سال 2020 کا عرصہ پاکستان کے صحافیوں، دیگر میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کے لیے انتہائی نا مساعد صورتحال پر مبنی تھا اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے نئے اور مختلف چیلنجز درپیش رہے۔

سال 2020 میں مختلف ریاستی اور حکومتی اقدامات اور کارروائیوں کے ذریعے متعدد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی ادائیگی پر سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا اور کم از کم 10صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ سال بھر میں صحافیوں پر مقدمات اور گرفتاریوں سمیت صحافیوں کو غائب کرنے کے واقعات، نا معلوم فون کالز کے ذریعے ہراساں کرنے کے واقعات، آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات، ادبی مواد پر نشانہ بنائے جانے سمیت مختلف واقعات میں صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہلخانہ بھی جسمانی حملوں اور اذیت کا شکار ہوئے۔

میڈیا ہاؤسز کی بندش اور سوشل میڈیا پر کنٹرول کرنے کے لیے بھی قانون سازی کے ذریعے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ علاوہ ازیں وبائی مرض کورونا وائرس کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح پاکستانی میڈیا پر بھی اس وباء کے براہ راست اثرات ہوئے جس کے سبب میڈیا کارکنوں کو بھی سنگین مالی و معاشی مسائل اور زندگی کے خطرات درپیش رہے۔ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث ملک بھر میں کم از کم 8 سے زائد صحافی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تاہم متعدد صحافی COVID-19 کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔

میڈیا سے منسلک تمام افراد نے ملک میں COVID-19 کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ چونکہ میڈیا کارکنوں اور صحافیوں کا فرائض انجام دینے کے لیے صف اول میں رہنا لازمی تھا لہٰذا انھیں اکثر اوقات رپورٹنگ اور نیوز کوریج کی خاطر کورونا کے شکار افراد سے رابطہ کرنا پڑا اور ان کے علاج پر مامور افراد سے بھی رابطے میں آنا پڑا چنانچہ کورونا کی کوریج کے دوران صحافیوںاور کیمرہ مین و دیگر افراد بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے اس وبا کا شکار ہوئے جن میں 8 صحافی اس مہلک وبا کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے زندگی کی بازی بھی ہار گئے۔

میڈیا کارکنوں و صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی بجا آوری میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر مزید چیلنجز کا سامنا بھی رہا مثلاً وبائی صورتحال کی کس طرح رپورٹنگ کی جائے، خبروں کی تصدیق بھی ایک پیچیدہ عمل تھا کیونکہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی جعلی خبروں کا انبار موجود تھا۔

اعداد و شمار کی درستگی بھی ایک اہم مسئلہ تھا۔ علاوہ ازیں کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن کے سبب معاشی مسائل کا بھی میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کو سامنا کرنا پڑا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2020 میں مختلف ریاستی اور حکومتی اقدامات اور کارروائیوں کے ذریعے متعدد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی ادائیگی پر سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ مختلف واقعات میں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ بھی جسمانی حملوں اور اذیت کا شکار ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق صحافتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران ساجد حسین، ذوالفقار مندرانی، شاہینہ شاہین، قیص جاوید، جاوید اللہ خان، انور جان کھیتران، عابد حسین عابدی، نور حسن لنجوانی، ملک نظام تانی اور عزیز میمن سمیت کم از کم 10 صحافیوں قتل کیا گیا جبکہ متعدد صحافیوں کو اغوا، تشدد اور دھمکی آمیز فون اور آن لائن پیغامات موصول ہوئے جونہ صرف غیر ریاستی عناصر بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی براہ راست جسمانی طور پر ہراساں اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حکومتی عہدیداروں اور دیگر سرکاری محکموں نے صحافیوں کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے۔

(CPNE) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں صحافیوں کو ماورائے عدالت اور انتہائی سفاکی سے قتل کیا جاتا ہے اور ان کے قاتلوں کو غیر اعلانیہ استثنیٰ بھی مل جاتا ہے۔ صحافیوں اور میڈیا ورکروں کے کسی بھی ایک قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے۔ ملک میں ایسی فضا رہی جیسے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں پر حملے کرنے والوں کو سزا سے استثنیٰ حاصل ہو۔ ملک کا قانونی نظام صحافیوں کے دفاع و انصاف فراہم کرنے میں بے سود ثابت ہو رہا ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے دن دہاڑے اغوا کیا گیا۔ صحافی علی عمران سید جو جیوز نیوز سے وابستہ ہیں 23 اکتوبر کی شام ضلع مشرقی کراچی سے لاپتہ ہوگئے۔

صحافی احمد نورانی کو ایک رٹائرڈ فوجی افسر اور اس کے رشتہ داروں کے کاروبار کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ صحافی تراب شاہ آفریدی کو دھمکی آمیز کال کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی لیکن وسائل کی کمی کی وجہ بتا کر مقامی پولیس نے تحقیقات روک دی۔ سینئر صحافی محمد حنیف اور سہیل وڑائچ کی کتابیں لاہور اور کراچی میں حکام کی جانب سے ضبط کی گئیں۔

پاکستان رینجرز کے اہلکاروں نے کراچی پریس کلب کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے 27 جولائی 2020 کو چھاپہ مارا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ اور وسیم بادامی پر ہتک عزت کا مقدمہ کرتے ہوئے دونوں صحافیوں کو ایک ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا، ان کا مؤقف تھا کہ دونوں اینکرز نے اپنے پروگراموں میں جھوٹا الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ذمے داروں میں شوگر مافیا سمیت جہانگیر ترین بھی اجتماعی طور پر شامل ہیں۔

سال 2020 میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے متعدد مواقعوں پر ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کر کے اور غیر ضروری طور پر قانون سازی کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں میڈیا کمیونٹی میں شدید تشویش اور سراسیمگی کی صورتحال پیدا ہوئی۔ پیمرا کی جانب سے ٹی وی چینلز کو آخری نمبروں پر منتقل کر دیا گیا اور 20 ستمبر کو ہونے والی پی ڈی ایم ریلی/ جلسے کے دوران نشریات کو روک دیا گیا۔

بعدازاں پیمرا نے مفرور ملزمان کی تقاریر، مختلف سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوز اور عوامی خطابات کی نشریات کو غیر قانونی قرار دے کر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی۔ ایک اور واقعے میں خواتین کے عالمی دن کی رپورٹنگ کے حوالے سے پیمرا نے تمام الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز کو خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 8مارچ کو ہونے والی عورت مارچ کی کوریج کے دوران نعرے، پلے کارڈ اور تقاریر نشر نہ کیے جائیں۔ 25 جون کو پیمرا نےCOVID-19 کی کوریج اور رپورٹ کے حوالے سے بھی تمام الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز کو ہدایت نامہ جاری کیا۔

پیمرا نے تمام نیوز چینلز کو لاہور موٹر وے عصمت دری کے معاملے پر کوریج کرنے سے بھی روک دیا۔روایتی میڈیا کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ویب ٹی وی اور اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی) مواد کی ترسیل اور تشہیر کے مختلف قواعد و ضوابط کے ذریعے نئے میڈیا (سوشل میڈیا) کو بھی کنٹرول کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں جسے (CPNE) سمیت 18 سے زائد تنظیموں نے غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور اسے غیر آئینی اور متعصبانہ اقدام قرار دیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے ملک میں موجود سوشل میڈیا کمپنیوں نے پاکستان چھوڑنے کے ارادے کا اظہار کیا کیونکہ اس سے آن لائن میڈیا پر قدغنوں سے آزادی اظہار رائے کی صورتحال سنگین ہو گئی۔

بعدازاں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا قوانین پر نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ 18 نومبر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے سوشل میڈیا کے ''غیر قانونی آن لائن مواد کو ختم کرنے اور مسدود کرنے (ضابطے، نگانی اور حفاظتی اقدامات) کے قواعد 2020'' کے عنوان سے قانون تشکیل دیا جس کے خلاف 18دسمبر کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم اس قانون کے نفاذ کے بعد حکومت کو ڈیجیٹل مواد پر پابندی جاری رکھنے کا قانونی اختیار مل گیا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ''غیر اخلاقی مواد''کے خلاف شکایات پر ''ٹک ٹاک'' کو ملک بھر میں ممنوع قرار دے کر پابندی عائد کر دی۔ حکام کے اس فیصلے پر صارفین نے بھرپور مخالفت اور زبردست احتجاج کیا جس پر انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی کے بعد پی ٹی اے کو تفریحی ایپ ''ٹک ٹاک'' کو ایک انتباہ کے ساتھ کھولنا پڑا۔(CPNE) کی میڈیا رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے، معلومات تک رسائی کے حق، میڈیا بحران اور دیگر امور کے بارے میں بات کرتے وقت صحافیوں اور میڈیا ملازمین کو درپیش مالی مسائل اور دیگر نا انصافیوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ میڈیا کی آزادی اور صحافتی فرائض کی بجا آوری کے لیے ان مسائل کی نشاندہی اور اسے کو حل کرنا انتہائی اہم حیثیت کا حامل ہے۔

میڈیا اداروں کو درپیش مالی اور مختلف مشکلات و مسائل سے بھی پہلو تہی کی جاتی ہے۔میڈیا کا معاشی بحران نیا نہیں یہ وبائی مرض کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے قبل بھی موجود تھا لیکن COVID-19کی صورتحال کی وجہ سے یہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوچکا ہے۔ میڈیا ہاؤسز یا ان کے مختلف اسٹیشنوں کی راتوں رات بندش کی وجہ سے ہزاروں صحافی اور میڈیا کارکن بے روزگار ہو گئے۔ بلوچی زبان میں پروگرام نشر کرنے والے واحد نجی ٹی وی چینل 'وش' کو بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے سیکڑوں میڈیا ملازمین اور صحافی بے روزگار ہو گئے۔

صحافیوں کی اکثریت تنخواہوں میں ناقابل برداشت کٹوتی اور تاخیر پر مجبور ہو گئے ہیں۔میڈیا اداروں کے مسائل میں محصولات میں کمی، سرکاری اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم اور بعض علاقوں میں چند اخبارات کی ترسیل پر غیر قانونی پابندی جیسے اقدامات آزاد رائے عامہ کو روکنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پچھلے سال کے دوران متعدد اخباروں کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔ وفاقی وزارت اطلاعات نے 6 ہزار سے زیادہ اشاعتوں کو ڈمی اخبارات قرار دینے کے بعد ان کی رجسٹریشن معطل کر دی، اسی کے ساتھ ہی وفاقی وزارت اطلاعات اور پریس رجسٹرار نے ان تمام پرنٹنگ پریس کو جہاں اخبارات چھپ رہے تھے انھیں رجسٹریشن کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے 15 اپریل تک مہلت دی بعدازاں 6 جون کو پریس رجسٹرار کے حکم پر غیر رجسٹرڈ اشاعتوں، پرنٹنگ پریسوں اور خبر رساں اداروں کو بند کر دیا گیا۔اگست 2020 میں پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے ریڈیو پاکستان کے 320 ملازمین کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ملازمت سے فارغ کر دیا۔

بعدازاں 21 اکتوبر 2020 کو مزید 749 کنٹریکٹ ملازمین کی خدمات کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ختم کر دیا ہے۔ میڈیا کارکن تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سبب معاشی دباؤ برداشت نہ کر سکے اور زندگی کی بازی ہار گئے، ان میں کیپٹل ٹی وی سے وابستہ ایک کیمرہ مین فیاض علی تھا جو بغیر تنخواہ کے نوکری سے نکالے جانے پر شدید صدمہ کے باعث حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا، فیاض علی 10ماہ سے بغیر تنخواہ کام کر رہا تھا، جبکہ دوسرا بول نیوز کراچی ہیڈ آفس میں بطور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کرنے والا نوجوان معاذ اختر تھا جس نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور گھریلو مسائل سے تنگ آکر 5 نومبر 2020کو خودکشی کر لی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |