زہر آلود ہوتی سیاست
ملکی تاریخ میں اپوزیشن رہنماؤں کی حکومت کی طرف سے ماضی میں اتنی تضحیک کبھی نہیں کرائی گئی۔
اپوزیشن حکومت کے ساتھ کسی بھی معاملے پر مذاکرات یا بات کرنے حتیٰ کہ نیب کے قوانین کی شکار ہونے کے باوجود نیب میں اصلاح کرنے کی حکومتی کوشش کو بھی مسترد کرکے صاف کہہ چکی ہے کہ اب کسی بھی سطح پر حکومت سے نہیں ملا جائے گا۔
اس سے قبل ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ سیاست میں ماضی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں تو ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ آمریت کے دور میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس انتہا پر پہنچی ہو اور اپوزیشن نے حکومت سے بات کرنے کے دروازے ہی بند کردیے ہوں، ایسی نوبت کبھی پیدا نہیں ہوئی جو اب ہو چکی ہے۔
یہ وہی حکومت ہے جو سوا دو سال قبل تک حکومت کی طرف اپوزیشن کو وہ مقام دینے ہی کو تیار نہیں تھی جو ہر جمہوری دور میں اپوزیشن کو دیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان ملک کے واحد وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی حکومت کے ڈھائی سالوں میں اپوزیشن لیڈر سے ملنا ہی گوارا نہیں کیا اور نہ کبھی اپوزیشن رہنما سے ملاقات کی۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت کے بغیر نہیں ہو سکتا یہ آئینی ضرورت ہے مگر وزیر اعظم نے یہ موقعہ بھی ضایع کیا اور شہباز شریف سے مل کر یہ تقرر کرنے کے بجائے وزیر اعظم نے یہ مرحلہ تحریری مشاورت سے طے کیا۔ عمران خان تو شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے پر تیار ہی نہیں تھے بلکہ کسی اور کو اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتے تھے مگر اپوزیشن نہ مانی تو وزیر اعظم کو ضد چھوڑنا پڑی تھی۔
شریف برادران اور آصف زرداری اور لیگی اہم رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ تک کو گرفتار کرایا گیا۔ سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت کوئی اہم اپوزیشن لیڈر ایسا نہیں جو گرفتار نہ ہوا ہو۔ اعلیٰ عدالتیں نہ ہوتیں تو اپوزیشن رہنماؤں کی ضمانتیں نہ ہوتیں۔
حکومت کا سب سے بڑا دکھ نواز شریف کا ملک سے باہر چلے جانا ہے جنھیں حکومت کی مرضی کے خلاف بالاتروں نے باہر بھجوایا اور حکومت اپنے دعوؤں اور سر توڑ کوششوں کے باوجود نواز شریف کو ایک سال میں واپس لانے میں مکمل ناکام رہی ہے جس پر اپنی بے بسی کا اظہار حکومت مسلسل کر رہی ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے تو نواز شریف کو واپس لانے کی 15 جنوری کی تاریخ بھی دے دی تھی مگر حکمران قیادت کو خوش نہ کیا جاسکا اور یہ خلش باقی رہ گئی۔
ملکی تاریخ میں اپوزیشن رہنماؤں کی حکومت کی طرف سے ماضی میں اتنی تضحیک کبھی نہیں کرائی گئی۔ قومی اسمبلی کا ایوان اب بھی چور، ڈاکو، چور ڈاکو کے شور سے گونجتا ہے جواب میں انتہائی ناپسندیدہ نعرے کو سننا پڑتا ہے اور اپوزیشن انھیں اپنے مخالفانہ نعروں سے ایوان چھوڑ جانے پر مجبور کر دیتی ہے اسی وجہ سے ان کی ایوان میں حاضری بہت کم ہوتی ہے اور اپوزیشن کی غیر حاضری یا بائیکاٹ پر ہی ایوان میں تقریر کر پاتے ہیں۔
ملکی سیاست اس قدر زہر آلود کردی گئی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست سے شائستگی اور سیاسی رہنماؤں میں برداشت ختم ہو چکی۔ ہر طرف سے اپنے رہنماؤں کی خوشنودی کی کوشش میں اخلاقی و سیاسی اقدار پامال کی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن اسپیکر کو جانبدار قرار دے کر ان سے الجھتی رہتی ہے مگر سینیٹ میں ایسا کم ہے کیونکہ وہاں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔
اس سے قبل ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ سیاست میں ماضی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں تو ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ آمریت کے دور میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس انتہا پر پہنچی ہو اور اپوزیشن نے حکومت سے بات کرنے کے دروازے ہی بند کردیے ہوں، ایسی نوبت کبھی پیدا نہیں ہوئی جو اب ہو چکی ہے۔
یہ وہی حکومت ہے جو سوا دو سال قبل تک حکومت کی طرف اپوزیشن کو وہ مقام دینے ہی کو تیار نہیں تھی جو ہر جمہوری دور میں اپوزیشن کو دیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان ملک کے واحد وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی حکومت کے ڈھائی سالوں میں اپوزیشن لیڈر سے ملنا ہی گوارا نہیں کیا اور نہ کبھی اپوزیشن رہنما سے ملاقات کی۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت کے بغیر نہیں ہو سکتا یہ آئینی ضرورت ہے مگر وزیر اعظم نے یہ موقعہ بھی ضایع کیا اور شہباز شریف سے مل کر یہ تقرر کرنے کے بجائے وزیر اعظم نے یہ مرحلہ تحریری مشاورت سے طے کیا۔ عمران خان تو شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے پر تیار ہی نہیں تھے بلکہ کسی اور کو اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتے تھے مگر اپوزیشن نہ مانی تو وزیر اعظم کو ضد چھوڑنا پڑی تھی۔
شریف برادران اور آصف زرداری اور لیگی اہم رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ تک کو گرفتار کرایا گیا۔ سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت کوئی اہم اپوزیشن لیڈر ایسا نہیں جو گرفتار نہ ہوا ہو۔ اعلیٰ عدالتیں نہ ہوتیں تو اپوزیشن رہنماؤں کی ضمانتیں نہ ہوتیں۔
حکومت کا سب سے بڑا دکھ نواز شریف کا ملک سے باہر چلے جانا ہے جنھیں حکومت کی مرضی کے خلاف بالاتروں نے باہر بھجوایا اور حکومت اپنے دعوؤں اور سر توڑ کوششوں کے باوجود نواز شریف کو ایک سال میں واپس لانے میں مکمل ناکام رہی ہے جس پر اپنی بے بسی کا اظہار حکومت مسلسل کر رہی ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے تو نواز شریف کو واپس لانے کی 15 جنوری کی تاریخ بھی دے دی تھی مگر حکمران قیادت کو خوش نہ کیا جاسکا اور یہ خلش باقی رہ گئی۔
ملکی تاریخ میں اپوزیشن رہنماؤں کی حکومت کی طرف سے ماضی میں اتنی تضحیک کبھی نہیں کرائی گئی۔ قومی اسمبلی کا ایوان اب بھی چور، ڈاکو، چور ڈاکو کے شور سے گونجتا ہے جواب میں انتہائی ناپسندیدہ نعرے کو سننا پڑتا ہے اور اپوزیشن انھیں اپنے مخالفانہ نعروں سے ایوان چھوڑ جانے پر مجبور کر دیتی ہے اسی وجہ سے ان کی ایوان میں حاضری بہت کم ہوتی ہے اور اپوزیشن کی غیر حاضری یا بائیکاٹ پر ہی ایوان میں تقریر کر پاتے ہیں۔
ملکی سیاست اس قدر زہر آلود کردی گئی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست سے شائستگی اور سیاسی رہنماؤں میں برداشت ختم ہو چکی۔ ہر طرف سے اپنے رہنماؤں کی خوشنودی کی کوشش میں اخلاقی و سیاسی اقدار پامال کی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن اسپیکر کو جانبدار قرار دے کر ان سے الجھتی رہتی ہے مگر سینیٹ میں ایسا کم ہے کیونکہ وہاں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔