استحکام عارضی ثابت ڈالر نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا
انٹربینک میں 10،اوپن مارکیٹ میںڈالر کی قدر میں 20سے 25پیسے تک اضافہ
چند روز کے عارضی استحکام کے بعد ملک میں ڈالر نے ایک بار پھر ڈالر نے سراٹھانا شروع کردیا۔
جبکہ معاشی ماہرین نے ڈالر کی قیمت 98 روپے کی سطح پر لانے کے وفاقی وزیر خزانہ کے دعوے کو دیوانے کی بڑ قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 55 کروڑ ڈالر قرضے کی دوسری قسط ملنے سے زرمبادلہ ذخائر میں 43 کروڑ ڈالر کے اضافے کے باوجود گزشتہ روز بھی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 10 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 20 سے 25 پیسے تک اضافہ ہوا ہے۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین رضی الرحمن نے وزیر خزانہ کے ڈالر کو 98 کی سطح پر لانے کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اسحق ڈار نے وہ طریقہ کار نہیں بتایا کہ وہ ڈالر کو کیسے 98 روپے کی سطح پر لے آئیں گے، یہ ایک سیاسی بیان معلوم ہوتا ہے، اگر ڈالر کو نیچے لانا ہے تو خسارہ کم ، ادائیگیوں کا توازن بہتر ، برآمدات ،ترسیلات زر میں اضافہ اور سرمایہ کاری لانا ہوگی لیکن یہ سب کچھ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتا ۔ عالمی بینک کے سابق سینئر اکانومسٹ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے سابق کنسلٹنٹ غُلام قادر نے کہا کہ ڈالر سستا ہونا مُشکل ہے اور 110 سے کم ہوکر 98 روپے کی سطح پر آنا تو ناممکن معلوم ہوتا ہے۔
اگر روپے کی قدر بڑھانے کیلئے حکومت ماضی کی طرح ایک بار پھر اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدتی ہے تو اس کے انتہائی بھیانک اور خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ، اس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھے گی اور اس کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ اسی طرح اگر حکومت ڈالر زبردستی نیچے لاتی ہے تو برآمدات متاثر اور درآمدات بڑھ جائیں گی اور اس سے ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائیگا۔
معروف ماہر معیشت سرفراز قریشی نے بھی موجودہ حالات میں ڈالر کی قیمت 98 کی سطح پر لانے کا دعویٰ ناممکن قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بیان تو دیا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ ایسا کربھی سکیں، اگر ڈالر کی قدر میں کمی کیلیے حکومت نے زبردستی کی پالیسی اپنائی تو اس کے نتائج الٹے ہوں گے، ملک میں سرمایہ کاری رک جائے گی اورکساد بازاری کا خطرہ پیدا ہوجائے گا ۔
چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا کہ اگر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار 1998 کا جذبہ لے کر آگے بڑھیں اور ہماری تجاویز پر عمل کریں تو ڈالر واپس 98 روپے کی سطح پر واپس لایاجاسکتا ہے لیکن اس کیلئے آئی ایم ایف سمیت بیرونی طاقتوں کے خوف سے نکلنا ہوگا اور سونے کی درآمد پر پابندی یا پندرہ فیصد ڈیوٹی عائد کرنا ہوگی۔ دوسری جانب ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ایف بی آر نے ڈیڑھ سال سے کم عرصہ میں سیکڑوں سے زائد مرتبہ بیرون ملک سفر کرنیوالے 53 افراد کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے ایک پائی ٹیکس بھی نہیں دیا ، شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ افراد غیرملکی کرنسی سمگل کرنے میں ملوث ہیں۔ اس فہرست میں ان لوگوں کے ناموں کے ساتھ پاسپورٹ نمبر بھی درج کئے گئے ہیں ، ان میں سے سب سے کم دورے کرنیوالے شخص نے 15 ماہ میں سب سے کم 43دورے کئے ہیں۔
جبکہ معاشی ماہرین نے ڈالر کی قیمت 98 روپے کی سطح پر لانے کے وفاقی وزیر خزانہ کے دعوے کو دیوانے کی بڑ قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 55 کروڑ ڈالر قرضے کی دوسری قسط ملنے سے زرمبادلہ ذخائر میں 43 کروڑ ڈالر کے اضافے کے باوجود گزشتہ روز بھی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 10 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 20 سے 25 پیسے تک اضافہ ہوا ہے۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین رضی الرحمن نے وزیر خزانہ کے ڈالر کو 98 کی سطح پر لانے کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اسحق ڈار نے وہ طریقہ کار نہیں بتایا کہ وہ ڈالر کو کیسے 98 روپے کی سطح پر لے آئیں گے، یہ ایک سیاسی بیان معلوم ہوتا ہے، اگر ڈالر کو نیچے لانا ہے تو خسارہ کم ، ادائیگیوں کا توازن بہتر ، برآمدات ،ترسیلات زر میں اضافہ اور سرمایہ کاری لانا ہوگی لیکن یہ سب کچھ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتا ۔ عالمی بینک کے سابق سینئر اکانومسٹ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے سابق کنسلٹنٹ غُلام قادر نے کہا کہ ڈالر سستا ہونا مُشکل ہے اور 110 سے کم ہوکر 98 روپے کی سطح پر آنا تو ناممکن معلوم ہوتا ہے۔
اگر روپے کی قدر بڑھانے کیلئے حکومت ماضی کی طرح ایک بار پھر اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدتی ہے تو اس کے انتہائی بھیانک اور خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ، اس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھے گی اور اس کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ اسی طرح اگر حکومت ڈالر زبردستی نیچے لاتی ہے تو برآمدات متاثر اور درآمدات بڑھ جائیں گی اور اس سے ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائیگا۔
معروف ماہر معیشت سرفراز قریشی نے بھی موجودہ حالات میں ڈالر کی قیمت 98 کی سطح پر لانے کا دعویٰ ناممکن قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بیان تو دیا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ ایسا کربھی سکیں، اگر ڈالر کی قدر میں کمی کیلیے حکومت نے زبردستی کی پالیسی اپنائی تو اس کے نتائج الٹے ہوں گے، ملک میں سرمایہ کاری رک جائے گی اورکساد بازاری کا خطرہ پیدا ہوجائے گا ۔
چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا کہ اگر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار 1998 کا جذبہ لے کر آگے بڑھیں اور ہماری تجاویز پر عمل کریں تو ڈالر واپس 98 روپے کی سطح پر واپس لایاجاسکتا ہے لیکن اس کیلئے آئی ایم ایف سمیت بیرونی طاقتوں کے خوف سے نکلنا ہوگا اور سونے کی درآمد پر پابندی یا پندرہ فیصد ڈیوٹی عائد کرنا ہوگی۔ دوسری جانب ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ایف بی آر نے ڈیڑھ سال سے کم عرصہ میں سیکڑوں سے زائد مرتبہ بیرون ملک سفر کرنیوالے 53 افراد کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے ایک پائی ٹیکس بھی نہیں دیا ، شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ افراد غیرملکی کرنسی سمگل کرنے میں ملوث ہیں۔ اس فہرست میں ان لوگوں کے ناموں کے ساتھ پاسپورٹ نمبر بھی درج کئے گئے ہیں ، ان میں سے سب سے کم دورے کرنیوالے شخص نے 15 ماہ میں سب سے کم 43دورے کئے ہیں۔