فوج مشرف کیساتھ ہے یا نہیں خورشید شاہ کو شاید جواب مل گیا

غداری کیس چلے نہ چلے اس بات کے امکانات قوی ہوتے جارہے ہیں مشرف ملک سے باہر جائینگے


سید حسن عباس January 03, 2014
حکومت مشکل میںہے،سعودی شہزاد ہ سعود الفیصل کا دورہ پاکستان اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے ۔فوٹو:فائل

غداری کیس چلے یا نہ چلے مگر اس بات کے امکانات قوی ہوتے جارہے ہیں کہ سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اب ملک سے باہر جانے والے ہیں ان کی بیرون ملک روانگی کاکیا طریقہ کار ہوگا اس پر بھی حکومتی سطح پر سوچ بچارجاری ہے گو بظاہر یہ بات بڑی شدت سے کہی جارہی ہے کہ حکومت سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے گی مگرزمینی حقائق اس کے بالکل برعکسلگتے ہیں۔

پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کرنے کے لیے جو وقت منتخب کیا گیا وہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس وقت سانحہ راولپنڈی رونما ہوچکا تھا اور حکومت کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے تھے اس مشکل صورتحال کے وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف سری لنکا کے دورے پر تھے کہ اچانک وفاقی وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرکے اعلان کیا کہ حکومت سابق آرمی چیف کے خلاف سنگین غداری کے الزام میں مقدمے کا آغاز کررہی ہے اور اس سلسلے میں خصوصی عدالت قائم کی جارہی ہے، وزیر داخلہ نے اس معاملے پر شاید فون پر وزیر اعظم سے مشاورت کی تھی ۔ تاہم یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ جب سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو12اکتوبر99ء کو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عہدے سے ہٹایا تھا تو وہ سری لنکا کے دورے پر تھے اور جب پرویز مشرف کیخلاف حکومت نے غداری کے مقدمے کا اعلان کیا تو وزیراعظم میاں نواز شریف اس وقت سری لنکا میں تھے۔ پرویزمشرف کیخلاف مقدمے کی سماعت کیلیے تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے اس مقدمے کے آغاز پر مشرف عدالت میں سیکیورٹی خدشات کی بنا پر پیش نہیں ہوئے تھے اور انھوں نے اپنے اوپر قائم کیے گئے مقدمے کو '' سرپرائز'' قرار دیا تھا فرانسیسی خبرایجنسی کوایک انٹرویو میں سابق صدر نے یہ بات کہی تھی کہ ان کیخلاف غداری کا مقدمہ قائم کیے جانے پر فوج ناراض ہے اور انھیں فوج کی حمایت حاصل ہے ۔

اسی طرح کی باتیں انھوں نے بی سی سی کوانٹرویو دیتے ہوئے بھی کہیں تھیں اور یہ کہا تھا کہ وہ یہ بات فوج پر چھوڑتے ہیں کہ وہ غداری کے مقدمے میں ان کی حمایت میں کہاں تک جاسکتی ہے ان کاکہنا تھا کہ فوج کے اندر رائے ضرور لی جاتی ہے تاہم حتمی فیصلہ فوجی سربراہ ہی کرتا ہے تو میں یہ معاملہ جنرل راحیل شریف پر چھوڑتا ہوں ۔ پرویز مشرف کے اس بیان پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے فوج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات کی تردیدکرے کہ وہ پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی ہے تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر)کی جانب سے اس حوالے سے تا حال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ وفاقی وزیر دفاع کے طور پر خواجہ آصف نے یہ بیان ضرور دیا کہ وہ فوج کی جگہ یہ تردید کرتے ہیں اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ فوج مشرف کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ فوج اہم معاملات میں اپنا ردعمل ظاہر نہیں کرتی ہے۔



ماضی میں میموگیٹ اسکینڈل اور حال ہی میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے بیان پر آئی ایس پی آر نے واضح موقف پیش کیا تھا تاہم پرویز مشرف کے دعوے کے جواب میں کوئی تحریری ردعمل ظاہر نہ کے باوجود جمعرات کو ہونے والے واقعات سے بہت کچھ واضح ہورہا ہے، خصوصی عدالت میں پیشی کیلیے جاتے ہوئے پرویزمشرف کواچانک دل میں تکلیف کے بعدآرمڈ فورسزانسٹیٹوٹ آف کارڈیولوجی منتقل کردیا گیا یوں ان پرغداری کیس میں فردجرم عائد نہ کی جاسکی ان کی عدم پیشی پرعدالت سے ان کے وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی گئی تھیجو مستردکردی گئی، لگتا ہے کہ اس مقدمے کوشروع کرکے حکومت سخت مشکل میں پھنس چکی ہے ۔

دوسری طرف قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو بھی اپنے مطالبے کا بڑی حدتک جواب مل چکا ہے۔فوج بحیثیت ادارہ اپنے حاضر اور ریٹائرڈ افسران کو بہت عزت و احترام دیتی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ اسے سیاسی معاملات میں گھسیٹا جائے تاہم ملک کی کچھ اہم سیاسی جماعتیں درپردہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ حکومت اور فوج کو آمنے سامنے لے آئیں اس لیے پرویز مشرف کے معاملے کو بہت زیادہ اچھالا گیا۔ اس وقت ملک کے مقتدر ادارے اور حکومت میں جو تنائو ہے اسے محسوس کیا جارہا ہے۔ آئندہ دوسے تین روز ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت اختیارکرنے والے ہیں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل 6جنوری کو پاکستان پہنچ رہے ہیں اس دورے کوبہت اہمیت حاصل ہے با اثر حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ شہزادہ سعود الفیصل نواز حکومت کو مشرف کیخلاف سخت رویہ اختیار نہ کرنے اور انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے پر بات کریں گے۔ یہی ایک واحد راستہ ہوگا جس کی نتیجے میں حکومت مشکل صورت حال سے باہر نکل سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں