مشرف کے فارم ہاؤس سے نکلتے ہی مری روڑ پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی
اچانک انکشاف ہواکہ قافلہ عدالت کے بجائے اے ایف آئی سی چلا گیا،اسپتال میںصبح سے ہی سیکیورٹی انتظامات سخت تھے
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے فارم ہائوس سے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی اسلام آباد میں مری روڈ پرغیر معمولی سیکیورٹی تعینات کردی گئی تھی۔
سابق صدر پرویزمشرف کے اسٹاف میںشامل ایک افسر نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ جمعرات کو پرویزمشرف کے فارم ہائوس سے لے کر نیشنل لائبریری میںقائم خصوصی عدالت تک روٹ پر تمام رابطہ سڑکوں کوسیل رکھا گیا تھا، فارم روڑ کوعام ٹریفک کے لیے مکمل بند رکھا گیا تھا اورآپریشنل پولیس، سیکیورٹی ڈویژنل پولیس، اسپیشل برانچ، رینجرز اور ٹریفک پولیس کے تقریباً 2 ہزار افسر اوراہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق پرویزمشرف کے سیکیورٹی اسکواڈ کوآئی جی اورڈی آئی جی اسلام آبادلیڈ کررہے تھے۔سابق صدرکاقافلہ فارم ہائوس سے نکلتے ہی اسلام آبادمیںمری روڈ کے اطراف میں سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ۔ اس کے بعد اچانک انکشاف ہوا کہ سابق صدراپنے سیکیورٹی قافلے کے ہمراہ خصوصی عدالت پہنچنے کے بجائے اسلام آبادکلب کے یوٹرن سے واپس ہوکرمری روڈ سے اے ایف آئی سی چلے گئے ہیں۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق 11 بج 20 منٹ پرخصوصی عدالت کے باہر تعینات اہلکاروں کو سابق صدرکی پیشی کے موقع پرالرٹ ہونے کا پیغام دیا گیا۔
اس دوران سماعت میں وقفے کے دوران باہر آنے والے میڈیانمائندوں کوبھی اندر جانے کا کہا گیا ۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے 12 بج کر 20 منٹ تک اپنی پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں تاہم سابق صدر کا قافلہ عدالت کے بجائے راولپنڈی چلا گیا ۔ بی بی سی کے مطابق سابق صدر عدالت جانے کے لیے جب اپنے فارم ہائوس سے نکلے تو بظاہر اس طرح ہشاش بشاش نہیں لگ رہے تھے جس طرح وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل یا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمات میں عدالت میں پیش ہوتے وقت لگتے تھے۔ سابق صدر کی سیکیورٹی پرمامور ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرویز مشرف تین مرتبہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے فارم ہائوس سے نکلے تاہم پھر انھوں نے عین اس وقت جانے کا ارادہ ملتوی کردیا جب وہ گاڑی میں سوار ہورہے تھے۔
اہلکار کے مطابق بعدازاں سابق صدر عدالت جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ راستے میں ہی وائر لیس پر پیغامات آنا شروع ہوگئے کہ راول ڈیم چوک اور پھرکشمیر چوک میں دھماکا خیز مواد رکھا گیا ہے جوکسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ سابق صدر کی روانگی سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ نے روٹ کلیئر کرکے دیا تھا۔ اہلکار نے بتایا کہ عدالت جاتے ہوئے اسلام آباد کلب کے پاس اچانک وائرلیس پر پیغام نشر ہوا کہ ان گاڑیوں کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑ دیا جائے جس کے بعد پولیس کی 20 کے قریب گاڑیاں پرویزمشرف کو لے کر آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچیں جہاں انھیں داخل کرادیا گیا۔ اہلکار کے مطابق پرویز مشرف کی سیکیورٹی اب اسلام آباد پولیس کی ذمے داری نہیں رہی کیونکہ وہ اسلام آباد میں درج ہونیوالے کسی مقدمے میں پولیس کو مطلوب نہیں ، اب راولپنڈی پولیس مشرف کی سیکیورٹی کی ذمے دار ہے۔سابق صدر کی اے ایف آئی سی منتقلی کے دوران روٹ پرموبائل سروس معطل کر دی گئی تھی ۔
یہ حسن اتفاق ہے یا ۔۔۔؟کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف کے داخلے سے پہلے ہی غیراعلانیہ طور پرعسکری ادارہ قلب راولپنڈی میں جمعرات کی علی الصباح سے ہی سیکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے تھے اورکسی بھی غیرضروری وزیٹرکو داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔ مال روڈ سے اے ایف آئی سی تک داخلے کے راستے کی سیکیورٹی بھی معمول سے انتہائی زیادہ تھی اور ان سیکیورٹی اقدامات سے ٹریفک پولیس، ضلعی انتظامیہ سمیت وفاقی وصوبائی ایجنسیوں کو دور رکھا گیا تھا۔ بعدازاں سابق صدرکے داخلے کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی اور فوج کے کمانڈوزو رینجرز اہلکار تعینات کردیے گئے۔ سابق صدرکی علالت کا سن کر ان کے کارکنوں کی بڑی تعداد اسپتال پہنچ گئی تاہم اسپتال انتظامیہ نے کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔کسی بھی وزیٹر کو بھی رات گئے تک اسپتال جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک ٹی وی کے مطابق اے ایف آئی سی کی سیکیورٹی کے لیے فوج کے 61 افسروں اور جوانوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر کی سیکیورٹی کی نگرانی لیفٹیننٹ کرنل نذیر کر رہے ہیں۔
سابق صدر پرویزمشرف کے اسٹاف میںشامل ایک افسر نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ جمعرات کو پرویزمشرف کے فارم ہائوس سے لے کر نیشنل لائبریری میںقائم خصوصی عدالت تک روٹ پر تمام رابطہ سڑکوں کوسیل رکھا گیا تھا، فارم روڑ کوعام ٹریفک کے لیے مکمل بند رکھا گیا تھا اورآپریشنل پولیس، سیکیورٹی ڈویژنل پولیس، اسپیشل برانچ، رینجرز اور ٹریفک پولیس کے تقریباً 2 ہزار افسر اوراہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق پرویزمشرف کے سیکیورٹی اسکواڈ کوآئی جی اورڈی آئی جی اسلام آبادلیڈ کررہے تھے۔سابق صدرکاقافلہ فارم ہائوس سے نکلتے ہی اسلام آبادمیںمری روڈ کے اطراف میں سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ۔ اس کے بعد اچانک انکشاف ہوا کہ سابق صدراپنے سیکیورٹی قافلے کے ہمراہ خصوصی عدالت پہنچنے کے بجائے اسلام آبادکلب کے یوٹرن سے واپس ہوکرمری روڈ سے اے ایف آئی سی چلے گئے ہیں۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق 11 بج 20 منٹ پرخصوصی عدالت کے باہر تعینات اہلکاروں کو سابق صدرکی پیشی کے موقع پرالرٹ ہونے کا پیغام دیا گیا۔
اس دوران سماعت میں وقفے کے دوران باہر آنے والے میڈیانمائندوں کوبھی اندر جانے کا کہا گیا ۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے 12 بج کر 20 منٹ تک اپنی پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں تاہم سابق صدر کا قافلہ عدالت کے بجائے راولپنڈی چلا گیا ۔ بی بی سی کے مطابق سابق صدر عدالت جانے کے لیے جب اپنے فارم ہائوس سے نکلے تو بظاہر اس طرح ہشاش بشاش نہیں لگ رہے تھے جس طرح وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل یا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمات میں عدالت میں پیش ہوتے وقت لگتے تھے۔ سابق صدر کی سیکیورٹی پرمامور ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرویز مشرف تین مرتبہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے فارم ہائوس سے نکلے تاہم پھر انھوں نے عین اس وقت جانے کا ارادہ ملتوی کردیا جب وہ گاڑی میں سوار ہورہے تھے۔
اہلکار کے مطابق بعدازاں سابق صدر عدالت جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ راستے میں ہی وائر لیس پر پیغامات آنا شروع ہوگئے کہ راول ڈیم چوک اور پھرکشمیر چوک میں دھماکا خیز مواد رکھا گیا ہے جوکسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ سابق صدر کی روانگی سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ نے روٹ کلیئر کرکے دیا تھا۔ اہلکار نے بتایا کہ عدالت جاتے ہوئے اسلام آباد کلب کے پاس اچانک وائرلیس پر پیغام نشر ہوا کہ ان گاڑیوں کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑ دیا جائے جس کے بعد پولیس کی 20 کے قریب گاڑیاں پرویزمشرف کو لے کر آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچیں جہاں انھیں داخل کرادیا گیا۔ اہلکار کے مطابق پرویز مشرف کی سیکیورٹی اب اسلام آباد پولیس کی ذمے داری نہیں رہی کیونکہ وہ اسلام آباد میں درج ہونیوالے کسی مقدمے میں پولیس کو مطلوب نہیں ، اب راولپنڈی پولیس مشرف کی سیکیورٹی کی ذمے دار ہے۔سابق صدر کی اے ایف آئی سی منتقلی کے دوران روٹ پرموبائل سروس معطل کر دی گئی تھی ۔
یہ حسن اتفاق ہے یا ۔۔۔؟کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف کے داخلے سے پہلے ہی غیراعلانیہ طور پرعسکری ادارہ قلب راولپنڈی میں جمعرات کی علی الصباح سے ہی سیکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے تھے اورکسی بھی غیرضروری وزیٹرکو داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔ مال روڈ سے اے ایف آئی سی تک داخلے کے راستے کی سیکیورٹی بھی معمول سے انتہائی زیادہ تھی اور ان سیکیورٹی اقدامات سے ٹریفک پولیس، ضلعی انتظامیہ سمیت وفاقی وصوبائی ایجنسیوں کو دور رکھا گیا تھا۔ بعدازاں سابق صدرکے داخلے کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی اور فوج کے کمانڈوزو رینجرز اہلکار تعینات کردیے گئے۔ سابق صدرکی علالت کا سن کر ان کے کارکنوں کی بڑی تعداد اسپتال پہنچ گئی تاہم اسپتال انتظامیہ نے کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔کسی بھی وزیٹر کو بھی رات گئے تک اسپتال جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک ٹی وی کے مطابق اے ایف آئی سی کی سیکیورٹی کے لیے فوج کے 61 افسروں اور جوانوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر کی سیکیورٹی کی نگرانی لیفٹیننٹ کرنل نذیر کر رہے ہیں۔