مرغیاں انڈے کٹے اور اب بھنگ
بھنگ کی وسیع کاشت سے اس کے پتوں اور ٹہنیوں کو پلاسٹک، دھاگا، ادویہ اور دیگر مصنوعات میں استعمال کیا جائے گا
BEIJING:
انسان تجربات اور سفر سے سیکھتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہوا عمران خان صاحب کے ساتھ، جو یورپ کی ترقی سے متاثر ہیں۔ ان کی خوش قسمتی کہ انہیں بغیر اقتدار میں آئے دنیا گھومنے کا موقع ملا۔ جس عزت، احترام، دولت، شہرت کو پانے کےلیے لوگ ہر غلط کام کرنے کےلیے تیار رہتے ہیں، خان صاحب نے وہ مقام بغیر کوئی غلط کام کیے حاصل کیا۔
اقتدار میں آنے کے بعد ان کی خواہش تھی کہ ان کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی کرے۔ یہی وجہ تھی کہ خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہی لائیو اسٹاک کی طرف توجہ مرکوز کی۔ اور پھر ان کا وہ جملہ زبان زد عام ہوا ''انڈے ہم دیں گے''۔ 72 سال گزرنے کے باوجود ہمارے ہاں چونکہ سڑکیں، پل، اسکول، کالج ہی مطلوبہ تعداد میں نہ بن سکے، اس لیے ہم ترقی اسی کو سمجھتے ہیں کہ سڑکیں، پل، اسکول، کالج تعمیر ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب خان صاحب نے ''مرغیوں اور کٹوں'' کی بات کی تو ان کا مذاق اڑایا گیا۔ بہرحال خان صاحب بھی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔ اب ان کی سرپرستی میں بغیر کسی چرچے کے ملکی آمدن بڑھانے کےلیے بھنگ پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں عمران خان صاحب نے وزارتِ انسداد منشیات، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی تاکہ بھنگ کو ادویہ میں استعمال کرنے کے ساتھ ان ملکوں کو برآمد بھی کیا جاسکے جہاں پر یہ ادویہ سازی میں استعمال ہورہی ہے۔ اور اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بارانی یونیورسٹی نے پنجاب حکومت اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تعاون سے بھنگ کو ادویہ اور کپڑے کی صنعت میں وسیع پیمانے پر بطور خام مال استعمال کرنے کےلیے بڑا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت بھنگ سرکاری سرپرستی میں وسیع پیمانے پر کاشت کرکے، اس کے پتوں، ٹہنیوں کو پلاسٹک، دھاگا، ادویہ اور دیگر صنعتوں کے ساتھ بطور چارہ بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ حکومت اس سلسلے میں جلد قانون سازی بھی کرے گی۔ ماہرین کے مطابق بھنگ کا صنعتوں میں استعمال ایک بڑا انقلاب ثابت ہوگا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہم کوئی نیا کام کرنے جارہے ہیں؟ اگر ہم دنیا بھر پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھنگ کا کاروبار 25 ارب ڈالر تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ چین میں 40 ہزار ایکڑ پر جبکہ کینیڈا میں ایک لاکھ ایکڑ پر بھنگ کاشت کی جارہی ہے۔ امریکا کی کم از کم 20 ریاستوں میں طبی استعمال کےلیے بھنگ کی بعض اقسام اگانے کی اجازت ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھی بھنگ اور گانجے کو زیادہ سخت کنٹرول والی منشیات کی فہرست سے باہر کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں نارکوٹیک ڈرگس کے ارکان کی اکثریت نے 1961 کے شیڈول چہارم سے اسے ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا۔
ملکی ترقی کےلیے خان صاحب کا ایک اور بڑا فیصلہ پاک افغان اور پاک ایران سرحدی علاقوں میں سرحد ی مارکیٹس کا قیام ہے۔ پاک افغان سرحد پر 12 اور پاک ایران سرحد پر6، بلوچستان میں 2 اور کے پی میں ایک سرحدی مارکیٹ قائم کی جائے گی۔ بارڈر پر ان بازاروں کے قیام سے اسمگلنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بھارت سے 60 سے 100 ارب، چین سے تین کھرب روپے تک کا سامان اسمگل ہوکر ہماری معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسمگلنگ کے نتیجے میں ملکی انڈسٹری شدید دباؤ کا شکار ہے ان اشیا میں نٹ ویئر، الیکٹرانکس، کمپیوٹر، اسٹیشنری، سینیٹری، آٹو پارٹس، ٹائر اینڈ ٹیوب، موٹر سائیکل، مصنوعی پھول، کراکری، فرنیچر، کمبل، کلاک، ٹیکسٹائل، ہوزری، ٹیلی کمیونی کیشنز سیٹ اور مصنوعی لیدر شامل ہے۔
بارڈر پر بازاروں کے قیام کے علاوہ، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسمگلنگ میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، تاکہ نہ صرف اسمگلنگ پر قابو پانے میں مدد ملے بلکہ جو لوگ اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں، انہیں کڑی سزائیں دے کر دوسروں کےلیے مثال بنانے میں بھی آسانی ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے بھنگ کا منفی استعمال نہ ہوسکے۔ مزید برآں قانون سازی ایسی ہو جسے آنے والی حکومتیں مافیاز کے دباؤ میں آکر اس میں ترمیم نہ کرسکیں۔ حکومتی اقدامات کا تسلسل ہی ہماری ترقی کا ضامن ہے۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ ریاست کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے، بصورت دیگر اگر ہم روایتی ذرائع آمدن پر ہی بھروسہ کرتے رہے تو ہم یونہی قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
انسان تجربات اور سفر سے سیکھتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہوا عمران خان صاحب کے ساتھ، جو یورپ کی ترقی سے متاثر ہیں۔ ان کی خوش قسمتی کہ انہیں بغیر اقتدار میں آئے دنیا گھومنے کا موقع ملا۔ جس عزت، احترام، دولت، شہرت کو پانے کےلیے لوگ ہر غلط کام کرنے کےلیے تیار رہتے ہیں، خان صاحب نے وہ مقام بغیر کوئی غلط کام کیے حاصل کیا۔
اقتدار میں آنے کے بعد ان کی خواہش تھی کہ ان کا ملک بھی یورپ کی طرح ترقی کرے۔ یہی وجہ تھی کہ خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہی لائیو اسٹاک کی طرف توجہ مرکوز کی۔ اور پھر ان کا وہ جملہ زبان زد عام ہوا ''انڈے ہم دیں گے''۔ 72 سال گزرنے کے باوجود ہمارے ہاں چونکہ سڑکیں، پل، اسکول، کالج ہی مطلوبہ تعداد میں نہ بن سکے، اس لیے ہم ترقی اسی کو سمجھتے ہیں کہ سڑکیں، پل، اسکول، کالج تعمیر ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب خان صاحب نے ''مرغیوں اور کٹوں'' کی بات کی تو ان کا مذاق اڑایا گیا۔ بہرحال خان صاحب بھی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔ اب ان کی سرپرستی میں بغیر کسی چرچے کے ملکی آمدن بڑھانے کےلیے بھنگ پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں عمران خان صاحب نے وزارتِ انسداد منشیات، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی تاکہ بھنگ کو ادویہ میں استعمال کرنے کے ساتھ ان ملکوں کو برآمد بھی کیا جاسکے جہاں پر یہ ادویہ سازی میں استعمال ہورہی ہے۔ اور اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بارانی یونیورسٹی نے پنجاب حکومت اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تعاون سے بھنگ کو ادویہ اور کپڑے کی صنعت میں وسیع پیمانے پر بطور خام مال استعمال کرنے کےلیے بڑا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت بھنگ سرکاری سرپرستی میں وسیع پیمانے پر کاشت کرکے، اس کے پتوں، ٹہنیوں کو پلاسٹک، دھاگا، ادویہ اور دیگر صنعتوں کے ساتھ بطور چارہ بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ حکومت اس سلسلے میں جلد قانون سازی بھی کرے گی۔ ماہرین کے مطابق بھنگ کا صنعتوں میں استعمال ایک بڑا انقلاب ثابت ہوگا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہم کوئی نیا کام کرنے جارہے ہیں؟ اگر ہم دنیا بھر پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھنگ کا کاروبار 25 ارب ڈالر تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ چین میں 40 ہزار ایکڑ پر جبکہ کینیڈا میں ایک لاکھ ایکڑ پر بھنگ کاشت کی جارہی ہے۔ امریکا کی کم از کم 20 ریاستوں میں طبی استعمال کےلیے بھنگ کی بعض اقسام اگانے کی اجازت ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھی بھنگ اور گانجے کو زیادہ سخت کنٹرول والی منشیات کی فہرست سے باہر کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں نارکوٹیک ڈرگس کے ارکان کی اکثریت نے 1961 کے شیڈول چہارم سے اسے ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا۔
ملکی ترقی کےلیے خان صاحب کا ایک اور بڑا فیصلہ پاک افغان اور پاک ایران سرحدی علاقوں میں سرحد ی مارکیٹس کا قیام ہے۔ پاک افغان سرحد پر 12 اور پاک ایران سرحد پر6، بلوچستان میں 2 اور کے پی میں ایک سرحدی مارکیٹ قائم کی جائے گی۔ بارڈر پر ان بازاروں کے قیام سے اسمگلنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بھارت سے 60 سے 100 ارب، چین سے تین کھرب روپے تک کا سامان اسمگل ہوکر ہماری معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسمگلنگ کے نتیجے میں ملکی انڈسٹری شدید دباؤ کا شکار ہے ان اشیا میں نٹ ویئر، الیکٹرانکس، کمپیوٹر، اسٹیشنری، سینیٹری، آٹو پارٹس، ٹائر اینڈ ٹیوب، موٹر سائیکل، مصنوعی پھول، کراکری، فرنیچر، کمبل، کلاک، ٹیکسٹائل، ہوزری، ٹیلی کمیونی کیشنز سیٹ اور مصنوعی لیدر شامل ہے۔
بارڈر پر بازاروں کے قیام کے علاوہ، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسمگلنگ میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، تاکہ نہ صرف اسمگلنگ پر قابو پانے میں مدد ملے بلکہ جو لوگ اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں، انہیں کڑی سزائیں دے کر دوسروں کےلیے مثال بنانے میں بھی آسانی ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے بھنگ کا منفی استعمال نہ ہوسکے۔ مزید برآں قانون سازی ایسی ہو جسے آنے والی حکومتیں مافیاز کے دباؤ میں آکر اس میں ترمیم نہ کرسکیں۔ حکومتی اقدامات کا تسلسل ہی ہماری ترقی کا ضامن ہے۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ ریاست کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے، بصورت دیگر اگر ہم روایتی ذرائع آمدن پر ہی بھروسہ کرتے رہے تو ہم یونہی قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔