سیف خالد رگوں میںد وڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل 1
اس وقت مشہورکمیونسٹ رہنما سیف خالدکا زندگی نامہ میرے سامنے ہے۔
یہ فروری کی ابتدائی تاریخیں ہیں، ہم اسے غالب کی یاد گیری کے دن کہتے ہیں۔ وہ ایک ایسا شاعر تھا جو انیسویں صدی میں پیدا ہوا۔ اس کا سایہ بیسویں صدی کی ہماری ادبی، تہذیبی اور حسی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا رہا اور اب اکیسویں صدی میں بھی اس کے خیالات کی تاب و توانائی ہمیں دکھائی دیتی ہے، اس کے اشعار جب کسی کتاب کا سر نامہ بنیں تو غالب کی ان گنت جہتیں ہم پر وا ہوتی ہیں۔
اس وقت مشہورکمیونسٹ رہنما سیف خالدکا زندگی نامہ میرے سامنے ہے۔ جس کا نام بائیں بازوکے محقق اور ادیب احمد سلیم نے ''جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا '' رکھا ہے۔ اس کتاب کی ترتیب اور تہذیب کے لیے ہمیں سیف خالد کے بیٹے ندیم خالد کو داد دینی چاہیے جنھوں نے اپنے والدکی زندگی اور ان کی جدوجہد پر نازکیا اور اسے مرتب کروانے کی ٹھانی۔ سیف کا نام '' شمشیرِ وسناں اول ''کی جذباتی کیفیت کے تحت نہیں بلکہ جنگ آزادی کے ایک اہم کردار سیف الدین کچلوکے نام پر رکھا گیا۔ جو اس وقت کے غیر منقسم پنجاب میں ایک بہت بڑا نام تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیف خاندانی اعتبار سے ترقی پسند تھے اور پھر آخری سانس تک وہ بائیں بازوکی تحریک سے وابستہ رہے۔
ان کی زندگی ہمیں 1950سے1980تک پاکستان میں انقلابی اور عوامی سیاسی جدوجہد کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ہماری نئی نسل جو تحریک آزادی کے روشن ستاروں کے نام سے واقف نہیں، سیف کا یہ زندگی نامہ ہمیں بتاتا ہے کہ26 جنوری 1929کو لاہور میں انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کے لیے کامل آزادی کی قرارداد منظورکی۔ لاہورکی گلیوں میں گھوڑے پر سوار پنڈت نہروکی تصویر بہت مشہور ہوئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی پنجاب جنگ آزادی کا مرکز بن چکا تھا، جہاں سے کئی انقلابی تحریکوں نے جنم لیا۔
''پگڑی سنبھال جٹا'' تحریک، غدر پارٹی موومنٹ، ریشمی رومال تحریک، پنجاب پر سوویت انقلاب کے اثرات، جلیانوالہ باغ المیہ، ہجرت اور خلافت تحریکیں، ببرا کالی موومنٹ اور بھگت سنگھ کی نوجوان، بھارت سبھا۔ 1928میں بھگت سنگھ اور ساتھیوں کے ہاتھوں انگریز پولیس افسر سانڈرس کا قتل، 18اپریل 1929کو بھگت سنگھ اور ساتھی بی کے دت نے لیجسلیٹو اسمبلی نیو دہلی کے ہال میں ایک بے ضرر بم اس طرح پھینکا کہ اس سے کسی کی ہلاکت نہ ہو۔
بم پھینکنے کے بعد انھوں نے گیلری کی نشستوں پر انڈین سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کی طرف سے ایک پوسٹر اچھالا، جس پر فرانسیسی انقلابی شہید ویلان کے الفاط کہ ''بہرے کانوں کو سنانے کے لیے کافی اونچی آوازکی ضرورت پڑتی ہے''درج تھے۔ دراصل اس سال انگریز حکومت پبلک سیفٹی بل، ٹریڈ ڈسپیوٹس بل اور پریس سیڈیشن ایکٹ ہندوستان پر جبراً مسلط کررہی تھی اور مزدور رہنماؤں کو دھڑا دھڑگرفتارکیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میںہندوستان کے کمیونسٹ رہنماؤںکے خلاف 1929 میں میرٹھ سازش مقدمہ کا آغازکیا گیا، جو 1933تک چلتا رہا۔ اس پوسٹر میں پہلی بار انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا گیا۔
اپنی آیندہ زندگی میں سیف خالد بھگت سنگھ کو ہمیشہ ایک انقلابی ہیرو قرار دیتے رہے۔ وہ ایک جمہوریت پسند انقلابی تھے اور بھگت سنگھ کی طرح پرامن ذرایع سے انقلاب کے متمنی تھے۔ یہ حوالہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بھگت سنگھ کے سیاسی طریق کارکے طور پر انھیں عام طور پر تشدد پسند سمجھا جاتا ہے۔
سیف ایک ایسی ریاست نابھ میں پلے بڑھے جہاں مذہبی رواداری عام تھی۔ سکھ ، ہندو اور مسلمان مل جل کر ایک دوسرے کے تہوار مناتے اور ہولی دیوالی، عید، بسنت اور بیساکھی میں شریک ہوتے۔ اس رواداری اور ترقی پسندی کے خیالات نے سیف کی پرورش کی اور وہ ایک جوہر قابل بن کر سامنے آئے۔
سیف خالد کا زندگی نامہ مجھے ان کی بہو حوری نورانی کے توسط سے ملا۔ یہ ان کے اشاعتی ادارے ''دانیال'' سے شایع ہوا ہے۔ ''دانیال'' ایک ترقی پسند اشاعتی ادارہ ہے جسے ان کے والد ملک نورانی نے قائم کیا تھا اور اب حوری کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ ندیم خالد جسے ہم سب پیارسے نونی کہتے ہیں۔ حوری کا شریک زندگی ہے۔ وہ بیماروں کے لیے دوائیں بناتا ہے اور حوری ذہنی غذا کے طور پر اعلیٰ کتابیں شایع کرتی ہے۔ اس کی والدہ بیگم ممتاز نورانی انھیں ہم ممتاز آپا کہتے تھے اور انھوں نے طاہرہ مظہر علی خان کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند خواتین کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ وہ زمانے تھے جب خواب دیکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔ سبط حسن سے حسن ناصر، حبیب جالب سے سیف خالد سب ہی کے لہو میں انقلاب کی چاہت بھنور ڈالتی تھی۔
نواز بٹ جن کی زندگی بائیں بازوکی سیاست سے جڑی رہی اور اب عرصے سے بیمار رہنے کے باوجود وہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزارتے جب کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے انھوں نے روشن مستقبل کے خواب نہ دیکھے ہوں، وہ کئی دہائیوں تک سیف خالد کے جگری دوست رہے۔ انھوں نے سیف خالد کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایڈونچر سیف کی طبیعت کا حصہ تھا۔ ہماری کراچی سے شہر بدری کے دوران سی آئی ڈی کے گارڈز گھرکے باہر ہمہ وقت پہرہ دیتے تھے۔ جب میں پشاور کے ہوسٹل میں تھا تو سی آئی ڈی 24 گھنٹے مجھ پر نظر رکھتی تھی اور اسی طرح لائل پور میں مجھ پر سی آئی ڈی کا پہرہ تھا۔
آغا جعفر اور سید سعید حسن کے معاملے میں بھی یوں ہی تھا۔ ان تمام خطرات کے باوجود سیف نے نہ صرف اپنا دفتر آغا جعفر کو رہنے کے لیے دیا بلکہ مجھے بھی اپنی اسٹڈی میں رہنے کی اجازت دی۔ جہاں گلی وکیلاں میں ایک سی آئی ڈی کا آدمی میری نگرانی پر معمور تھا اوریہ بھی کہ سی آئی ڈی سے نظر بچا کر مجھے لاہور بھی لے آیا۔ کسی بھی قسم کے اقتدار کے خلاف چاہے وہ پولیس ہو یا حکومت کا کوئی دوسرا ادارہ ہو، سیف ہمیشہ لڑنے کے لیے تیار ہوتا۔
کچھ عرصہ بعد جب شہر بدری کا ایک اور دور چلا تو اس نے ہم آٹھ دوستوں کو اپنے گھر مہمان ٹھہرایا۔ صرف وہ خود ہی نہیں بلکہ اس کی اہلیہ بھابھی شمیم بھی ہمیشہ ہمارا خیر مقدم کرتی۔1972 اور 1975کے درمیان جب ہم دونوں نیشنل عوامی پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں تھے اور جب 1974-75 میں اس پر پابندی لگی۔ سیف، جالب اور میں ہمیشہ اکٹھے سفرکیا کرتے۔ بھٹو مرحوم کے دور میں مجھے متعدد بار جیل کی ہوا کھانی پڑی اور بعض اوقات مجھے زیر زمین بھی جانا پڑا۔ ان دنوں میں بھی سیف کے جوتوں کی کرائے کی فیکٹری میں ایک کمرہ تھا جہاں میں زیر زمین رہنے کے دوران قیام کرتا۔ مال روڈ لاہور پر سیف کا فلیٹ بائیں بازوکے تمام کارکنان کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا جہاں وہ آتے، قیام کرتے اور اپنے اپنے کاموںکو نکل جاتے۔
ایک دفعہ جوہر حسین مہینوں کے لیے وہاں مقیم رہے۔ جالب بھی شام کو وہاں پینے پلانے کے سامان کے ساتھ موجود ہوتے۔ بائیں بازو کے تمام کارکنوں کے لیے یہ بالکل مفت تھا۔ ہم ہمیشہ خود کو وہاں محفوظ تصورکرتے۔ جب نیپ پر پابندی لگائی گئی تو مجھے قریباً ایک سال جیل میں رکھنے کے بعد کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے امتیاز حنفی کے ساتھ سہالہ پولیس ریسٹ ہاؤس سے اچانک رہا کیا گیا۔ جہاں ہمیں ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور غلام محمد بلورکے ساتھ رکھا گیا تھا۔ ہم دونوں نے ٹیکسی لی اور چونکہ ہمارے پاس کوئی رقم نہیں تھی ، ہم نے اسلام آباد میں نیپ کی قیادت کی طرف سے کرائے پر لیے گئے گھرکا رخ کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں جمع ہونے والے دوستوں نے ہمارا خیر مقدم کیا، سیف بھی وہاں موجود تھا۔ میں نے اپنی بیوی کو فون کیا اور اسے راولپنڈی آنے کوکہا۔ سیف نے ہماری گفتگو سن لی اور اصرارکیا کہ کراچی جانے سے پہلے ہم لائل پور آئیں گے۔
جب نیپ پر پابندی لگا دی گئی تو میں اور سیف نے پورے پاکستان کا چکر لگایا تاکہ شیر بازمزاری کو نئی پارٹی بنانے پر آمادہ کیا جاسکے،جس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی تجویزکیا گیا۔ بلوچستان سے سینیٹر ہاشم غلزئی مرحوم نے بھی ہماری کاوشوں کی حمایت کی، لیکن جب نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بن گئی تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہم دونوں کو اس میں خیر مقدم نہیں کیا جا رہا۔ سیف اور میں نے مل کر نئی نیشنل پروگریسو پارٹی بنائی جس کا کنوینر سیف اور سیکریٹری جنرل میں تھا۔ وہ ایک سال میرااور سیف کا بہت قریبی ساتھ رہا۔ سیف مزدور، کسان، طلبا کمیٹی کے قیام میں بھی پیش پیش تھا اور لاہور کے ایک بڑے ہال میں ان کی جنرل باڈی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ جس میں پنجاب کے تمام 23 اضلاع سے آئے ہوئے مندوبین موجود تھے۔
(جاری ہے)
اس وقت مشہورکمیونسٹ رہنما سیف خالدکا زندگی نامہ میرے سامنے ہے۔ جس کا نام بائیں بازوکے محقق اور ادیب احمد سلیم نے ''جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا '' رکھا ہے۔ اس کتاب کی ترتیب اور تہذیب کے لیے ہمیں سیف خالد کے بیٹے ندیم خالد کو داد دینی چاہیے جنھوں نے اپنے والدکی زندگی اور ان کی جدوجہد پر نازکیا اور اسے مرتب کروانے کی ٹھانی۔ سیف کا نام '' شمشیرِ وسناں اول ''کی جذباتی کیفیت کے تحت نہیں بلکہ جنگ آزادی کے ایک اہم کردار سیف الدین کچلوکے نام پر رکھا گیا۔ جو اس وقت کے غیر منقسم پنجاب میں ایک بہت بڑا نام تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیف خاندانی اعتبار سے ترقی پسند تھے اور پھر آخری سانس تک وہ بائیں بازوکی تحریک سے وابستہ رہے۔
ان کی زندگی ہمیں 1950سے1980تک پاکستان میں انقلابی اور عوامی سیاسی جدوجہد کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ہماری نئی نسل جو تحریک آزادی کے روشن ستاروں کے نام سے واقف نہیں، سیف کا یہ زندگی نامہ ہمیں بتاتا ہے کہ26 جنوری 1929کو لاہور میں انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کے لیے کامل آزادی کی قرارداد منظورکی۔ لاہورکی گلیوں میں گھوڑے پر سوار پنڈت نہروکی تصویر بہت مشہور ہوئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی پنجاب جنگ آزادی کا مرکز بن چکا تھا، جہاں سے کئی انقلابی تحریکوں نے جنم لیا۔
''پگڑی سنبھال جٹا'' تحریک، غدر پارٹی موومنٹ، ریشمی رومال تحریک، پنجاب پر سوویت انقلاب کے اثرات، جلیانوالہ باغ المیہ، ہجرت اور خلافت تحریکیں، ببرا کالی موومنٹ اور بھگت سنگھ کی نوجوان، بھارت سبھا۔ 1928میں بھگت سنگھ اور ساتھیوں کے ہاتھوں انگریز پولیس افسر سانڈرس کا قتل، 18اپریل 1929کو بھگت سنگھ اور ساتھی بی کے دت نے لیجسلیٹو اسمبلی نیو دہلی کے ہال میں ایک بے ضرر بم اس طرح پھینکا کہ اس سے کسی کی ہلاکت نہ ہو۔
بم پھینکنے کے بعد انھوں نے گیلری کی نشستوں پر انڈین سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کی طرف سے ایک پوسٹر اچھالا، جس پر فرانسیسی انقلابی شہید ویلان کے الفاط کہ ''بہرے کانوں کو سنانے کے لیے کافی اونچی آوازکی ضرورت پڑتی ہے''درج تھے۔ دراصل اس سال انگریز حکومت پبلک سیفٹی بل، ٹریڈ ڈسپیوٹس بل اور پریس سیڈیشن ایکٹ ہندوستان پر جبراً مسلط کررہی تھی اور مزدور رہنماؤں کو دھڑا دھڑگرفتارکیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میںہندوستان کے کمیونسٹ رہنماؤںکے خلاف 1929 میں میرٹھ سازش مقدمہ کا آغازکیا گیا، جو 1933تک چلتا رہا۔ اس پوسٹر میں پہلی بار انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا گیا۔
اپنی آیندہ زندگی میں سیف خالد بھگت سنگھ کو ہمیشہ ایک انقلابی ہیرو قرار دیتے رہے۔ وہ ایک جمہوریت پسند انقلابی تھے اور بھگت سنگھ کی طرح پرامن ذرایع سے انقلاب کے متمنی تھے۔ یہ حوالہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بھگت سنگھ کے سیاسی طریق کارکے طور پر انھیں عام طور پر تشدد پسند سمجھا جاتا ہے۔
سیف ایک ایسی ریاست نابھ میں پلے بڑھے جہاں مذہبی رواداری عام تھی۔ سکھ ، ہندو اور مسلمان مل جل کر ایک دوسرے کے تہوار مناتے اور ہولی دیوالی، عید، بسنت اور بیساکھی میں شریک ہوتے۔ اس رواداری اور ترقی پسندی کے خیالات نے سیف کی پرورش کی اور وہ ایک جوہر قابل بن کر سامنے آئے۔
سیف خالد کا زندگی نامہ مجھے ان کی بہو حوری نورانی کے توسط سے ملا۔ یہ ان کے اشاعتی ادارے ''دانیال'' سے شایع ہوا ہے۔ ''دانیال'' ایک ترقی پسند اشاعتی ادارہ ہے جسے ان کے والد ملک نورانی نے قائم کیا تھا اور اب حوری کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ ندیم خالد جسے ہم سب پیارسے نونی کہتے ہیں۔ حوری کا شریک زندگی ہے۔ وہ بیماروں کے لیے دوائیں بناتا ہے اور حوری ذہنی غذا کے طور پر اعلیٰ کتابیں شایع کرتی ہے۔ اس کی والدہ بیگم ممتاز نورانی انھیں ہم ممتاز آپا کہتے تھے اور انھوں نے طاہرہ مظہر علی خان کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند خواتین کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ وہ زمانے تھے جب خواب دیکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔ سبط حسن سے حسن ناصر، حبیب جالب سے سیف خالد سب ہی کے لہو میں انقلاب کی چاہت بھنور ڈالتی تھی۔
نواز بٹ جن کی زندگی بائیں بازوکی سیاست سے جڑی رہی اور اب عرصے سے بیمار رہنے کے باوجود وہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزارتے جب کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے انھوں نے روشن مستقبل کے خواب نہ دیکھے ہوں، وہ کئی دہائیوں تک سیف خالد کے جگری دوست رہے۔ انھوں نے سیف خالد کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایڈونچر سیف کی طبیعت کا حصہ تھا۔ ہماری کراچی سے شہر بدری کے دوران سی آئی ڈی کے گارڈز گھرکے باہر ہمہ وقت پہرہ دیتے تھے۔ جب میں پشاور کے ہوسٹل میں تھا تو سی آئی ڈی 24 گھنٹے مجھ پر نظر رکھتی تھی اور اسی طرح لائل پور میں مجھ پر سی آئی ڈی کا پہرہ تھا۔
آغا جعفر اور سید سعید حسن کے معاملے میں بھی یوں ہی تھا۔ ان تمام خطرات کے باوجود سیف نے نہ صرف اپنا دفتر آغا جعفر کو رہنے کے لیے دیا بلکہ مجھے بھی اپنی اسٹڈی میں رہنے کی اجازت دی۔ جہاں گلی وکیلاں میں ایک سی آئی ڈی کا آدمی میری نگرانی پر معمور تھا اوریہ بھی کہ سی آئی ڈی سے نظر بچا کر مجھے لاہور بھی لے آیا۔ کسی بھی قسم کے اقتدار کے خلاف چاہے وہ پولیس ہو یا حکومت کا کوئی دوسرا ادارہ ہو، سیف ہمیشہ لڑنے کے لیے تیار ہوتا۔
کچھ عرصہ بعد جب شہر بدری کا ایک اور دور چلا تو اس نے ہم آٹھ دوستوں کو اپنے گھر مہمان ٹھہرایا۔ صرف وہ خود ہی نہیں بلکہ اس کی اہلیہ بھابھی شمیم بھی ہمیشہ ہمارا خیر مقدم کرتی۔1972 اور 1975کے درمیان جب ہم دونوں نیشنل عوامی پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں تھے اور جب 1974-75 میں اس پر پابندی لگی۔ سیف، جالب اور میں ہمیشہ اکٹھے سفرکیا کرتے۔ بھٹو مرحوم کے دور میں مجھے متعدد بار جیل کی ہوا کھانی پڑی اور بعض اوقات مجھے زیر زمین بھی جانا پڑا۔ ان دنوں میں بھی سیف کے جوتوں کی کرائے کی فیکٹری میں ایک کمرہ تھا جہاں میں زیر زمین رہنے کے دوران قیام کرتا۔ مال روڈ لاہور پر سیف کا فلیٹ بائیں بازوکے تمام کارکنان کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا جہاں وہ آتے، قیام کرتے اور اپنے اپنے کاموںکو نکل جاتے۔
ایک دفعہ جوہر حسین مہینوں کے لیے وہاں مقیم رہے۔ جالب بھی شام کو وہاں پینے پلانے کے سامان کے ساتھ موجود ہوتے۔ بائیں بازو کے تمام کارکنوں کے لیے یہ بالکل مفت تھا۔ ہم ہمیشہ خود کو وہاں محفوظ تصورکرتے۔ جب نیپ پر پابندی لگائی گئی تو مجھے قریباً ایک سال جیل میں رکھنے کے بعد کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے امتیاز حنفی کے ساتھ سہالہ پولیس ریسٹ ہاؤس سے اچانک رہا کیا گیا۔ جہاں ہمیں ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور غلام محمد بلورکے ساتھ رکھا گیا تھا۔ ہم دونوں نے ٹیکسی لی اور چونکہ ہمارے پاس کوئی رقم نہیں تھی ، ہم نے اسلام آباد میں نیپ کی قیادت کی طرف سے کرائے پر لیے گئے گھرکا رخ کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں جمع ہونے والے دوستوں نے ہمارا خیر مقدم کیا، سیف بھی وہاں موجود تھا۔ میں نے اپنی بیوی کو فون کیا اور اسے راولپنڈی آنے کوکہا۔ سیف نے ہماری گفتگو سن لی اور اصرارکیا کہ کراچی جانے سے پہلے ہم لائل پور آئیں گے۔
جب نیپ پر پابندی لگا دی گئی تو میں اور سیف نے پورے پاکستان کا چکر لگایا تاکہ شیر بازمزاری کو نئی پارٹی بنانے پر آمادہ کیا جاسکے،جس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی تجویزکیا گیا۔ بلوچستان سے سینیٹر ہاشم غلزئی مرحوم نے بھی ہماری کاوشوں کی حمایت کی، لیکن جب نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بن گئی تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہم دونوں کو اس میں خیر مقدم نہیں کیا جا رہا۔ سیف اور میں نے مل کر نئی نیشنل پروگریسو پارٹی بنائی جس کا کنوینر سیف اور سیکریٹری جنرل میں تھا۔ وہ ایک سال میرااور سیف کا بہت قریبی ساتھ رہا۔ سیف مزدور، کسان، طلبا کمیٹی کے قیام میں بھی پیش پیش تھا اور لاہور کے ایک بڑے ہال میں ان کی جنرل باڈی اجلاس کی صدارت بھی کی۔ جس میں پنجاب کے تمام 23 اضلاع سے آئے ہوئے مندوبین موجود تھے۔
(جاری ہے)