سینٹ انتخابات اپوزیشن کی بھرپور تیاری حکومت کے لئے بڑا چیلنج
کپتان اور اسکی جماعت کی ساکھ کو کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔
پاکستان میں اس وقت سینٹ انتخابات ملکی سیاست کا محور بنے ہوئے ہیں ۔اپوزیشن بھی عوامی دباو اور احتجاجی سیاست کے ذریعے حکومت گرانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے کیونکہ استعفوں کیلئے دی گئی ڈیڈ لائن تو گزر گئی نہ استعفے پیش ہوئے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے اس بارے کوئی ٹھوس موقف سامنے آیا ہے البتہ یہ کہا جا رہا ہے کہ جلد پی ڈی ایم کا اجلاس ہونے جا رہا ہے اب اس اجلاس میں کیا نکلے گا جبکہ اپوزیشن کے بیانیہ کی ہوا تو پہلے ہی نکل چکی ہے۔
اب حکومتی رہنما اس معاملے میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور حکومتی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ تو پہلے سے یہ کہہ رہے ہیں نہ اپوزیشن استعفے دے گی نہ ان ہاوس تبدیلی آنا ہے نہ کپتان کی حکومت کہیں جا رہی ہے ، عمران خان اپوزیشن کے سینے پر اسی طرح مونگ دلتا رہے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سینٹ انتخابات کے چیلنج سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے کیونکہ لگ یہی رہا ہے کہ اپوزیشن نے احتجاجی سیاست و سخت گیر بیانیہ کی ناکامی کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا رخ سینٹ انتخابات کی طرف موڑ دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سینٹ انتخابات میں جانے کا اعلان کیا اور اب جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھی کہہ دیا ہے کہ سینٹ میں حکومت کیلئے میدان خالی چھوڑ کر ایوان بالا جاہلوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
ملکی سیاست میں پیدا ہونیوالی دلچسپ صورتحال کو لے کر وفاقی دارالحکومت ایک بار پھر حسب روایت افواہوں کی زد میں ہے ۔ بعض حلقوں کی جانب سے تو دعوی کیا جا رہا ہے کہ تبدیلی سرکار کی تبدیلی کا وقت ہوا چاہتا ہے اور فیصلہ کن قوتیں تبدیلی کا ٹھان چکی ہیں جس کیلئے ماحول بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا سینٹ انتخابات کے حوالے سے بیان بہت معنیی خیز ہے۔
بعض حلقوں کا تو یہ تک کہنا ہے کہ اگلی ممکنہ تبدیلی میں اہم عہدے کیلئے مولانا فضل الرحمن کا قرعہ بھی نکلنے کے امکانات ہے جس کیلئے پہلے مولانا فضل الرحمن کو سینٹر بنایا جائیگا اور پھر چیئرمین سینٹ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
اسی طرح پنجاب میں تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں اس کیلئے ق لیگ کے چوہدری پرویز الہی اور چوہدری نثار کے نام گردش کر رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگلی متوقع تبدیلی میں چوہدری نثار کو بھی اہم ذمہ داریاں دی جا سکتی ہیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما میاں نوازشریف کی خاموشی اور ن لیگ خصوصا مریم نواز کے بیانیہ میں تبدیلی سے بھی یوں لگ رہا ہے کہ مقتدر قوتوں سے کوئی امید دلائی گئی ہے، اب یہ تو وقت بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیا پھر سے اپوزیشن کے ساتھ کوئی بڑا ہاتھ ہونے جا رہا ہے یا پھر عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کا بوریا بستر گول ہونے جا رہا ہے کیونکہ حکومت بھی اپنے پتے بہت سمارٹ انداز میں کھیل رہی ہے۔
کپتان عمران خان اور انکی جماعت کے خلاف جیسے ہی غیر ملکی فنڈنگ کیس میں تیزی آئی اور ہواوں کے رخ بدلنے کی باتیں ہوئیں تو کپتان اور اسکی جماعت نے کمال مہارت سے براڈ شیٹ والے معاملے کو اتنی ہوا دیدی کہ پی ٹی آئی کے پارٹی فنڈ کیس کا معاملہ اسکے نیچے دبتا معلوم ہو رہا ہے اور پھر جسٹس (ر) عظمت سعید کو براڈ شیٹ والے معاملے کی انکوائری دے کر اپوزیشن کیلئے سیاسی گھتی کو مزید الجھا دیا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ اپوزیشن جیسے جیسے حکومت کے خلاف محاذ کھولے گی اور آگے بڑھے گی تو کپتان اور اسکی ٹیم اسی طرح اپوزیشن کو الجھانے کی کوشش کرے گی اور ن لیگ کے رہنماوں کے خلاف خصوصی طور پر پنجاب میں قبضہ مافیاسے زمین واگزار کروانے کے نام پر جس شدت سے کاروائی ہو رہی ہے وہ ایک کڑی آزمائش ہے۔
کپتان اور اسکی جماعت نے اپنی حکومت کیلئے خطرہ سمجھی جانے والی اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں ٹف ٹائم دینے کی مہم شروع کر دی ہے اور آنے والے دنوں میں سندھ میں بھی سیاسی افراتفری عروج پر ہوگی اور سندھ میں بھی تبدیلی کی کوشش کی جائے گی اور پیپلز پارٹی کے لوگ توڑ کر سندھ حکومت بھی پیپلز پارٹی سے لینے کی کوشش کی جائے گی لہٰذا سیاسی میدان میں ایک جانب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان چومکھی لڑائی جاری ہے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے درمیان آپسی سیاسی شطرنج کا کھیل بھی جاری ہے ۔
کچھ ایسا ہی حال حکومت کا ہے، وزیراعظم عمران خان عمران خان جہاں معاشی و سیاسی ،سفارتی اور دفاعی سمیت دیگر چیلنجز سے بیک وقت نبرد آزاما ہیں تو وہیں کپتان عمران خان کا اپنے ہی کھلاڑیوں سے میچ پڑا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومتی اتحادی اپنے تیور بدل رہے ہیں اور تو اور کپتان کے سب سے قریب سمجھے جانے والے پرویز خٹک کی لیک ہونیوالی حالیہ گفتگو نے ہلچل مچا رکھی ہے تو ادھر پنجاب میں ق لیگ اور دوسرے اتحادی پر تول رہے ہیں۔ جوڑ توڑ عروج پر ہے اور سینٹ انتخابات کے حوالے سے بھی بولیاں لگ رہی ہیں جس کی کپتان نے بھی تصدیق کردی ہے۔ اب سینٹ انتخابات کیلئے اپوزیشن اور حکومت داو پیچ لگا رہی ہے۔
دوسری جانب کپتان اور اسکی جماعت کی ساکھ کو کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے شدید دھچکا پہنچا ہے اور اس رپورٹ نے کپتان کے بیانیئے کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اور یقینی طبور پر یہ رپورٹ کپتان عمران خان اور اسکی حکومت کیلئے کسی چارج شیٹ سے کم نہیں ہے اور یہ رپورٹ بھی کس مخالف سیاسی جماعت کا شائع کردہ وائٹ پیپر نہیں ہے بلکہ اس ادارے کی رپورٹ ہے جسکی کریڈیبلٹی کی عمران خان خود تصدیق کرتے ہوئے ماضی میں اپنے مخالفین کے خلاف اس ادارے کی رپورٹس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔
اس پر اپوزیشن نے بھی کپتان اور اسکی جماعت کے سرکردہ رہنماوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور رہی سہی کسر کپتان اور اسکے معتمد خاص سمجھے جانے والے ٹیم ممبران نے پوری کر دی ہے اور جو لوگ کپتان کو قریب سے جانتے ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ کپتان کانوں کے معاملے میں بہت کچے اور ہاضمے کے بہت کمزور ثابت ہوئے ہیں اور جو کوئی پہلے کپتان کے کان میں آکر کہہ دیتا ہے کپتان بغیر تصدیق کے اسے نہ صرف مان لیتا ہے بلکہ فوری طور پر پبلک بھی کر دیتا ہے اور کچھ اسی قسم کا معاملہ انڈوں، مرغیوں والے معاشی پلان کا ہے جس پر ن لیگ کے رہنما زبیر عمر نے تو میڈیا پر کہا ہے کہ کپتا ن عمران خان کو راہ چلنے جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے کسی غیر ملکی نے بات کی اور کپتان نے تقریب میں اس معاشی پلان کا اعلان کردیا۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ وزیراعظم عمران خان کی پیر کو ٹیلی فون کے ذریعے براہ راست عوامی رابطہ مہم کے ساتھ ہے۔ کپتان کے کھلاڑیوں کی جانب سے یہ دعوے سامنے آئے اور کہا جا رہا تھا کہ عوام کی ٹیلی فون کالزپہلی دفعہ کوئی وزیراعظم سنے گا لیکن یہ روایت بہت پرانی نکلی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور کپتان عمران خان پاکستانی قوم کو تیس سال پیچھے لے گئے کیونکہ یہ روایت تیس سال قبل نوے کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ڈالی تھی، اور اس مرتبہ عمران خان نے بھی لائیو کال لینے کی بجائے ریکارڈ شدہ کالز اور انکے جوابات کا پروگرام سرکاری ٹی وی پر نشر کیا، جس کے شواہد اب سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر عمران خان نے نواز شریف کی سنت پر ہی عمل کرنا تھا تو کچھ مختلف کر لیتے کم ازکم عوام سے لائیو کالز لیتے اور جوابات دیتے ۔
اب حکومتی رہنما اس معاملے میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور حکومتی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ تو پہلے سے یہ کہہ رہے ہیں نہ اپوزیشن استعفے دے گی نہ ان ہاوس تبدیلی آنا ہے نہ کپتان کی حکومت کہیں جا رہی ہے ، عمران خان اپوزیشن کے سینے پر اسی طرح مونگ دلتا رہے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سینٹ انتخابات کے چیلنج سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے کیونکہ لگ یہی رہا ہے کہ اپوزیشن نے احتجاجی سیاست و سخت گیر بیانیہ کی ناکامی کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا رخ سینٹ انتخابات کی طرف موڑ دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سینٹ انتخابات میں جانے کا اعلان کیا اور اب جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھی کہہ دیا ہے کہ سینٹ میں حکومت کیلئے میدان خالی چھوڑ کر ایوان بالا جاہلوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
ملکی سیاست میں پیدا ہونیوالی دلچسپ صورتحال کو لے کر وفاقی دارالحکومت ایک بار پھر حسب روایت افواہوں کی زد میں ہے ۔ بعض حلقوں کی جانب سے تو دعوی کیا جا رہا ہے کہ تبدیلی سرکار کی تبدیلی کا وقت ہوا چاہتا ہے اور فیصلہ کن قوتیں تبدیلی کا ٹھان چکی ہیں جس کیلئے ماحول بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا سینٹ انتخابات کے حوالے سے بیان بہت معنیی خیز ہے۔
بعض حلقوں کا تو یہ تک کہنا ہے کہ اگلی ممکنہ تبدیلی میں اہم عہدے کیلئے مولانا فضل الرحمن کا قرعہ بھی نکلنے کے امکانات ہے جس کیلئے پہلے مولانا فضل الرحمن کو سینٹر بنایا جائیگا اور پھر چیئرمین سینٹ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
اسی طرح پنجاب میں تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں اس کیلئے ق لیگ کے چوہدری پرویز الہی اور چوہدری نثار کے نام گردش کر رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگلی متوقع تبدیلی میں چوہدری نثار کو بھی اہم ذمہ داریاں دی جا سکتی ہیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما میاں نوازشریف کی خاموشی اور ن لیگ خصوصا مریم نواز کے بیانیہ میں تبدیلی سے بھی یوں لگ رہا ہے کہ مقتدر قوتوں سے کوئی امید دلائی گئی ہے، اب یہ تو وقت بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیا پھر سے اپوزیشن کے ساتھ کوئی بڑا ہاتھ ہونے جا رہا ہے یا پھر عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کا بوریا بستر گول ہونے جا رہا ہے کیونکہ حکومت بھی اپنے پتے بہت سمارٹ انداز میں کھیل رہی ہے۔
کپتان عمران خان اور انکی جماعت کے خلاف جیسے ہی غیر ملکی فنڈنگ کیس میں تیزی آئی اور ہواوں کے رخ بدلنے کی باتیں ہوئیں تو کپتان اور اسکی جماعت نے کمال مہارت سے براڈ شیٹ والے معاملے کو اتنی ہوا دیدی کہ پی ٹی آئی کے پارٹی فنڈ کیس کا معاملہ اسکے نیچے دبتا معلوم ہو رہا ہے اور پھر جسٹس (ر) عظمت سعید کو براڈ شیٹ والے معاملے کی انکوائری دے کر اپوزیشن کیلئے سیاسی گھتی کو مزید الجھا دیا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ اپوزیشن جیسے جیسے حکومت کے خلاف محاذ کھولے گی اور آگے بڑھے گی تو کپتان اور اسکی ٹیم اسی طرح اپوزیشن کو الجھانے کی کوشش کرے گی اور ن لیگ کے رہنماوں کے خلاف خصوصی طور پر پنجاب میں قبضہ مافیاسے زمین واگزار کروانے کے نام پر جس شدت سے کاروائی ہو رہی ہے وہ ایک کڑی آزمائش ہے۔
کپتان اور اسکی جماعت نے اپنی حکومت کیلئے خطرہ سمجھی جانے والی اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں ٹف ٹائم دینے کی مہم شروع کر دی ہے اور آنے والے دنوں میں سندھ میں بھی سیاسی افراتفری عروج پر ہوگی اور سندھ میں بھی تبدیلی کی کوشش کی جائے گی اور پیپلز پارٹی کے لوگ توڑ کر سندھ حکومت بھی پیپلز پارٹی سے لینے کی کوشش کی جائے گی لہٰذا سیاسی میدان میں ایک جانب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان چومکھی لڑائی جاری ہے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے درمیان آپسی سیاسی شطرنج کا کھیل بھی جاری ہے ۔
کچھ ایسا ہی حال حکومت کا ہے، وزیراعظم عمران خان عمران خان جہاں معاشی و سیاسی ،سفارتی اور دفاعی سمیت دیگر چیلنجز سے بیک وقت نبرد آزاما ہیں تو وہیں کپتان عمران خان کا اپنے ہی کھلاڑیوں سے میچ پڑا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومتی اتحادی اپنے تیور بدل رہے ہیں اور تو اور کپتان کے سب سے قریب سمجھے جانے والے پرویز خٹک کی لیک ہونیوالی حالیہ گفتگو نے ہلچل مچا رکھی ہے تو ادھر پنجاب میں ق لیگ اور دوسرے اتحادی پر تول رہے ہیں۔ جوڑ توڑ عروج پر ہے اور سینٹ انتخابات کے حوالے سے بھی بولیاں لگ رہی ہیں جس کی کپتان نے بھی تصدیق کردی ہے۔ اب سینٹ انتخابات کیلئے اپوزیشن اور حکومت داو پیچ لگا رہی ہے۔
دوسری جانب کپتان اور اسکی جماعت کی ساکھ کو کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے شدید دھچکا پہنچا ہے اور اس رپورٹ نے کپتان کے بیانیئے کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اور یقینی طبور پر یہ رپورٹ کپتان عمران خان اور اسکی حکومت کیلئے کسی چارج شیٹ سے کم نہیں ہے اور یہ رپورٹ بھی کس مخالف سیاسی جماعت کا شائع کردہ وائٹ پیپر نہیں ہے بلکہ اس ادارے کی رپورٹ ہے جسکی کریڈیبلٹی کی عمران خان خود تصدیق کرتے ہوئے ماضی میں اپنے مخالفین کے خلاف اس ادارے کی رپورٹس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔
اس پر اپوزیشن نے بھی کپتان اور اسکی جماعت کے سرکردہ رہنماوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور رہی سہی کسر کپتان اور اسکے معتمد خاص سمجھے جانے والے ٹیم ممبران نے پوری کر دی ہے اور جو لوگ کپتان کو قریب سے جانتے ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ کپتان کانوں کے معاملے میں بہت کچے اور ہاضمے کے بہت کمزور ثابت ہوئے ہیں اور جو کوئی پہلے کپتان کے کان میں آکر کہہ دیتا ہے کپتان بغیر تصدیق کے اسے نہ صرف مان لیتا ہے بلکہ فوری طور پر پبلک بھی کر دیتا ہے اور کچھ اسی قسم کا معاملہ انڈوں، مرغیوں والے معاشی پلان کا ہے جس پر ن لیگ کے رہنما زبیر عمر نے تو میڈیا پر کہا ہے کہ کپتا ن عمران خان کو راہ چلنے جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے کسی غیر ملکی نے بات کی اور کپتان نے تقریب میں اس معاشی پلان کا اعلان کردیا۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ وزیراعظم عمران خان کی پیر کو ٹیلی فون کے ذریعے براہ راست عوامی رابطہ مہم کے ساتھ ہے۔ کپتان کے کھلاڑیوں کی جانب سے یہ دعوے سامنے آئے اور کہا جا رہا تھا کہ عوام کی ٹیلی فون کالزپہلی دفعہ کوئی وزیراعظم سنے گا لیکن یہ روایت بہت پرانی نکلی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور کپتان عمران خان پاکستانی قوم کو تیس سال پیچھے لے گئے کیونکہ یہ روایت تیس سال قبل نوے کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ڈالی تھی، اور اس مرتبہ عمران خان نے بھی لائیو کال لینے کی بجائے ریکارڈ شدہ کالز اور انکے جوابات کا پروگرام سرکاری ٹی وی پر نشر کیا، جس کے شواہد اب سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر عمران خان نے نواز شریف کی سنت پر ہی عمل کرنا تھا تو کچھ مختلف کر لیتے کم ازکم عوام سے لائیو کالز لیتے اور جوابات دیتے ۔