اپوزیشن احتجاج بھول کر حکومت کی سیاسی چالوں کا شکار ہو گئی
سپریم کورٹ نے ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں امیدواروں کا انتخاب کس طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا۔
جہاں ایک جانب اپوزیشن کا حکومت مخالف اتحاد پاکستان جمہوری تحریک اسمبلیوں سے باہر کی راہ لینے پر تلی ہوئی تھی وہیں تحریک انصاف نے پی ڈی ایم کو واپس اسمبلیوں کی راہ پر لانے کے لیے قبل ازوقت سینٹ انتخابات کا پتا پھینکا تھا جس پر شور بھی ہوا اور ہنگامہ بھی، لیکن سینٹ انتخابات قبل ازوقت کرانے کی بات ہاتھی کے دانت تھے جو صرف دکھائے گئے جبکہ اصل معاملہ اسمبلیوں کو آنے کی راہ ہموار کرنا مقصود تھا۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے ضمنی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا اور چاروں صوبوں میں خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے انتخابی مہم زوروں پر جاری ہے کیونکہ اگلے ماہ کی 19تاریخ کو یہ انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں جس کے ساتھ ہی مارچ کے پہلے ہفتے میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات کا شیڈول بھی ماہ فروری میں جاری ہو جائے گا جس کے بعد تمام جماعتوں کا سارے کا سارا فوکس سینٹ کے انتخابات پر ہی ہو گا اور ہر پارٹی جوڑ توڑ کی راہ پر گامزن دکھائی دے گی کیونکہ کوئی بھی پارٹی اس اہم مرحلے پر پیچھے نہیں رہنا چاہے گی۔
سپریم کورٹ نے ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں امیدواروں کا انتخاب کس طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا تاہم دوسری جانب حکومت اپنی الگ منصوبہ بندی بھی بنائے تیار بیٹھی ہے اور وہ قانون سازی کی راہ اپنا رہی ہے تاکہ سینٹ انتخابات کے حوالے سے شفافیت پیدا کی جا سکے، اگر اپوزیشن جماعتیں ان ترامیم کی مخالفت کرتی ہیں تو اس صورت میں نیک نامی حکومت کے حصہ میں آئے گی کیونکہ پی ٹی آئی حصہ بقدر جثہ کا اصول اپنانا چاہتی ہے۔
جس کا فائدہ اگر آج پی ٹی آئی لے گی تو آنے والے کل دیگر جماعتیں بھی اس سے مستفید ہونگی اور سینٹ انتخابات میں خریدوفروخت کی راہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی، وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک اس مرتبہ بھی خیبرپختونخوا سے سینیٹرز کے انتخاب کے معاملے میں اہم کردار ادا کریں گے جنھیں یقینی طور پر پارٹی کے دیگر اہم رہنمائوں اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی معاونت بھی حاصل رہے گی کیونکہ اس مرتبہ پی ٹی آئی سینٹ انتخابات میں خیبرپختونخوا سے بارہ میں سے 10نشستیں ہر صورت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
چونکہ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے عددی اکثریت رکھنے کے باوجود ایک سینٹ نشست کھو دی تھی اس لیے اس مرتبہ وہ اپنے ارکان کی عددی اکثریت کا بخوبی اور بھرپور طریقہ سے استعمال کرنا چاہتی ہے جس کے لیے وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک معاملات کو موثر انداز میں سنبھالیں گے کیونکہ وہ اپنوں کے علاوہ مسلم لیگ(ق)کے ایک رکن اور ساتھ ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ چار آزاد ارکان کو بھی وہ قابو کرنے کے لیے تگ ودو کریں گے۔
ان حالات میں اپوزیشن کیا حکمت عملی اپناتی ہے؟ یہ اب تک واضح نہیں ہے کیونکہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں آیا سینٹ انتخابات کے لیے مشترکہ امیدواروں کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں یا پھر الگ سے اپنی ڈھائی، ڈھائی اینٹوں کی مسجدیں بناتی ہیں، اس سوال کا جواب ابھی ملنا باقی ہے اور ماہ فروری شروع ہونے پر ہی اس بارے میں صورت حال واضح ہوگی کہ اپوزیشن جماعتیں سینٹ انتخابات کے حوالے سے اپنے کارڈ کیسے کھیلتی ہیں؟
تاہم اپوزیشن کو منتخب ایوانوں کی راہ پر رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا پتا بھی پھینک دیا ہے، صوبائی کابینہ نے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جو مرحلہ وار منعقد ہونگے اور اس کے لیے 15ستمبر کی تاریخ دی گئی ہے گویا بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
اس لیے اپوزیشن اتحاد کے پاس سینٹ انتخابات کے بعد انتہائی کم وقت باقی بچے گا کہ وہ حکومت کے خلاف کچھ کرنا چاہے تو کرے بصورت دیگر صورت حال یہ بنے گی کہ ماہ اپریل میں روزے شروع ہو جائیں گے اور عید کے بعد بجٹ بھی ہونگے اور ساتھ ہی گرمی بھی جس کی وجہ سے اپوزیشن کی تحریک برقرارنہیں رہ پائے گی ان حالات میں یقینی طور پرپی ڈی ایم کو اپنی صفوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے وہ بھی خصوصی طور پر ایسے حالات میں کہ جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اتحاد میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سے خوش بھی نہیں اور اس ناراضگی کا اظہار انہوں نے اتحاد کی سربراہی چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے کر بھی دیاہے اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
اب مولانا فضل الرحمٰن اتحاد سے علیحدگی اختیارکرتے ہیں یا پھر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز انھیں منالیتے ہیں، یہ معاملہ تو یقینی طور پر پی ڈی ایم کے ماہ فروری میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں زیر بحث آئے گا اور اس صورت حال کی وجہ سے یہ اجلاس گرما گرم بھی رہے گا، مذکورہ معاملہ اس اجلاس میں نمٹ جاتا ہے یا نہیں؟ یہ تو اجلاس میں ہی معلوم پڑے گا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کی جانب سے سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان اور پیپلزپارٹی کی جانب سے اسلام آباد لانگ مارچ کی مخالفت کی وجہ سے پی ڈی ایم مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور اب اپوزیشن اتحاد کو دائو پر لگی ہوئی اپنی عزت بچانے کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنے ہونگے یا پھر اس اتحاد کو بھی ماضی کے قبرستان کے سپرد کرنے کی تیاری کرنا ہوگی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پی ٹی آئی،اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ چومکھی کھیل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک جانب وزیراعظم سے لے کر صوبوں میں ان کی ٹیم تک سب ہی اپوزیشن کو سانس لینے کا موقع دیئے بغیر ان پر الفاظ کی گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کے ساتھ انتخابات،انتخابات بھی کھیل رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی مذہبی عناصر کا توڑ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی نے جمعیت علماء اسلام(س) اور دارالعلوم حقانیہ کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے روابط کو بحال کر لیا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اور وزیر مملکت علی محمد خان کو لیے دارالعلوم حقانیہ پہنچ گئے۔ اب جبکہ یہ رابطے دوبارہ بحال ہوگئے ہیں اور مذاکرات کے لیے دونوں جانب سے تین،تین رکنی کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں تو لگ یہی رہا ہے کہ یہ یارانہ دور تک چلے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے سینٹ انتخابات میں جے یوآئی (س)کو کچھ حصہ بھی دے دے کیونکہ تعلق ٹوٹنے کی وجہ بھی سینٹ انتخابات ہی تھے اور تعلقات واپس جوڑنے کے لیے بھی سینٹ انتخابات کا استعمال کیا جا سکتا ہے،اس معاملے پر بات ہوتی ہے یا نہیں تاہم پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمٰن کا توڑ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر دینی حلقہ کی سپورٹ لیتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے ضمنی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا اور چاروں صوبوں میں خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے انتخابی مہم زوروں پر جاری ہے کیونکہ اگلے ماہ کی 19تاریخ کو یہ انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں جس کے ساتھ ہی مارچ کے پہلے ہفتے میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات کا شیڈول بھی ماہ فروری میں جاری ہو جائے گا جس کے بعد تمام جماعتوں کا سارے کا سارا فوکس سینٹ کے انتخابات پر ہی ہو گا اور ہر پارٹی جوڑ توڑ کی راہ پر گامزن دکھائی دے گی کیونکہ کوئی بھی پارٹی اس اہم مرحلے پر پیچھے نہیں رہنا چاہے گی۔
سپریم کورٹ نے ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں امیدواروں کا انتخاب کس طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا تاہم دوسری جانب حکومت اپنی الگ منصوبہ بندی بھی بنائے تیار بیٹھی ہے اور وہ قانون سازی کی راہ اپنا رہی ہے تاکہ سینٹ انتخابات کے حوالے سے شفافیت پیدا کی جا سکے، اگر اپوزیشن جماعتیں ان ترامیم کی مخالفت کرتی ہیں تو اس صورت میں نیک نامی حکومت کے حصہ میں آئے گی کیونکہ پی ٹی آئی حصہ بقدر جثہ کا اصول اپنانا چاہتی ہے۔
جس کا فائدہ اگر آج پی ٹی آئی لے گی تو آنے والے کل دیگر جماعتیں بھی اس سے مستفید ہونگی اور سینٹ انتخابات میں خریدوفروخت کی راہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی، وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک اس مرتبہ بھی خیبرپختونخوا سے سینیٹرز کے انتخاب کے معاملے میں اہم کردار ادا کریں گے جنھیں یقینی طور پر پارٹی کے دیگر اہم رہنمائوں اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی معاونت بھی حاصل رہے گی کیونکہ اس مرتبہ پی ٹی آئی سینٹ انتخابات میں خیبرپختونخوا سے بارہ میں سے 10نشستیں ہر صورت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
چونکہ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے عددی اکثریت رکھنے کے باوجود ایک سینٹ نشست کھو دی تھی اس لیے اس مرتبہ وہ اپنے ارکان کی عددی اکثریت کا بخوبی اور بھرپور طریقہ سے استعمال کرنا چاہتی ہے جس کے لیے وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک معاملات کو موثر انداز میں سنبھالیں گے کیونکہ وہ اپنوں کے علاوہ مسلم لیگ(ق)کے ایک رکن اور ساتھ ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ چار آزاد ارکان کو بھی وہ قابو کرنے کے لیے تگ ودو کریں گے۔
ان حالات میں اپوزیشن کیا حکمت عملی اپناتی ہے؟ یہ اب تک واضح نہیں ہے کیونکہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں آیا سینٹ انتخابات کے لیے مشترکہ امیدواروں کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں یا پھر الگ سے اپنی ڈھائی، ڈھائی اینٹوں کی مسجدیں بناتی ہیں، اس سوال کا جواب ابھی ملنا باقی ہے اور ماہ فروری شروع ہونے پر ہی اس بارے میں صورت حال واضح ہوگی کہ اپوزیشن جماعتیں سینٹ انتخابات کے حوالے سے اپنے کارڈ کیسے کھیلتی ہیں؟
تاہم اپوزیشن کو منتخب ایوانوں کی راہ پر رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا پتا بھی پھینک دیا ہے، صوبائی کابینہ نے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جو مرحلہ وار منعقد ہونگے اور اس کے لیے 15ستمبر کی تاریخ دی گئی ہے گویا بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
اس لیے اپوزیشن اتحاد کے پاس سینٹ انتخابات کے بعد انتہائی کم وقت باقی بچے گا کہ وہ حکومت کے خلاف کچھ کرنا چاہے تو کرے بصورت دیگر صورت حال یہ بنے گی کہ ماہ اپریل میں روزے شروع ہو جائیں گے اور عید کے بعد بجٹ بھی ہونگے اور ساتھ ہی گرمی بھی جس کی وجہ سے اپوزیشن کی تحریک برقرارنہیں رہ پائے گی ان حالات میں یقینی طور پرپی ڈی ایم کو اپنی صفوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے وہ بھی خصوصی طور پر ایسے حالات میں کہ جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اتحاد میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سے خوش بھی نہیں اور اس ناراضگی کا اظہار انہوں نے اتحاد کی سربراہی چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے کر بھی دیاہے اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
اب مولانا فضل الرحمٰن اتحاد سے علیحدگی اختیارکرتے ہیں یا پھر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز انھیں منالیتے ہیں، یہ معاملہ تو یقینی طور پر پی ڈی ایم کے ماہ فروری میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں زیر بحث آئے گا اور اس صورت حال کی وجہ سے یہ اجلاس گرما گرم بھی رہے گا، مذکورہ معاملہ اس اجلاس میں نمٹ جاتا ہے یا نہیں؟ یہ تو اجلاس میں ہی معلوم پڑے گا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کی جانب سے سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان اور پیپلزپارٹی کی جانب سے اسلام آباد لانگ مارچ کی مخالفت کی وجہ سے پی ڈی ایم مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور اب اپوزیشن اتحاد کو دائو پر لگی ہوئی اپنی عزت بچانے کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنے ہونگے یا پھر اس اتحاد کو بھی ماضی کے قبرستان کے سپرد کرنے کی تیاری کرنا ہوگی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پی ٹی آئی،اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ چومکھی کھیل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک جانب وزیراعظم سے لے کر صوبوں میں ان کی ٹیم تک سب ہی اپوزیشن کو سانس لینے کا موقع دیئے بغیر ان پر الفاظ کی گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کے ساتھ انتخابات،انتخابات بھی کھیل رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی مذہبی عناصر کا توڑ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی نے جمعیت علماء اسلام(س) اور دارالعلوم حقانیہ کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے روابط کو بحال کر لیا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اور وزیر مملکت علی محمد خان کو لیے دارالعلوم حقانیہ پہنچ گئے۔ اب جبکہ یہ رابطے دوبارہ بحال ہوگئے ہیں اور مذاکرات کے لیے دونوں جانب سے تین،تین رکنی کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں تو لگ یہی رہا ہے کہ یہ یارانہ دور تک چلے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے سینٹ انتخابات میں جے یوآئی (س)کو کچھ حصہ بھی دے دے کیونکہ تعلق ٹوٹنے کی وجہ بھی سینٹ انتخابات ہی تھے اور تعلقات واپس جوڑنے کے لیے بھی سینٹ انتخابات کا استعمال کیا جا سکتا ہے،اس معاملے پر بات ہوتی ہے یا نہیں تاہم پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمٰن کا توڑ کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر دینی حلقہ کی سپورٹ لیتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔