مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے مودی نے کمر کس لی
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021ء سے 2026ء تک ملتوی کردی ہے
مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے بھارتی ہتھکنڈے جاری ہیں۔ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے مودی نے کمر کس لی۔
ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو ثبوتاژ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر رقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں 58% رَقبہ لَداخ، 26%جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے۔ ریاست کی 55 % آبادی مقبوضہ وادی کشمیر، 43% جموں اور 2% لَداخ میں رہتی ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا 68% حصہ مسلمانوں، 28% ہندوؤں، اور 4% سِکھ اوربُدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ مودی سرکار کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کرنا اور مسلمانوں کو اقلیت بنانا ہے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021ء سے 2026ء تک ملتوی کردی ہے۔ اسی عرصہ میں آبادی کا تناسب بدلنے کی تیز تر کوششیں کی جائیں گی اور کشمیر کے مُسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے۔
اس گھناؤنے منصوبے پر انڈیا کو اندرونی اور بیرونی مذمت کا سامنا ہے۔ حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا۔
مودی نے منصوبے کی تکمیل کے لیے کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کی آباد کاری کا ریلہ چھوڑ دیا اور نئے ڈومیسائل لاء کے تحت ساڑھے 18 لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا جبکہ لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جا ری ہے۔ اس سلسلے میں گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا۔
اب ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے اور ہزاروں باہر سے آئے مزدوربھی ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے۔ اس حوالے سے 10 ہزار سے زائد مزدوروں کو بہار سے کشمیر میں منتقل کر دیا گیا۔ 4-5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔
اسی طرح شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستا ن میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیاہے۔ آرٹیکل 35-A کے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے۔
سیکیورٹی فورسز کیلئے اب زمین حاصل کرنے کیلئے خصوصی سر ٹیفیکیٹ (NOC) کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ صرف بارہ مُولا میں فوجی کیمپ کے لیے 129کنال اراضی ہتھیا نے کا عمل جاری۔
ایک تو بھارتی افواج پہلے ہی کشمیر میں 53,353 ہیکٹرز اراضی پر قابض ہیں اور اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کو سٹریٹجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سینکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ء تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی کُھلی ڈھیل دے دی ہے۔ اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریژن سٹی بنانے کی سازش کھل کر سامنے آگئی۔
محبوبہ مُفتی نے بھی جنوری 2018ء میں بھارتی فوج کی قبضہ گیری کے خلاف آواز اُٹھائی تھی کہ زمین کی خریداری کی اجازت دے کر مقبوضہ کشمیر پر ہندو سر مایہ داروں کے قبضے کا راستہ ہموار کر دیا گیا۔
مودی سرکار نے 20 ہزار کنال زمین کوڑیوں کے دام ہندو سرمایہ داروں کیلئے ہتھیا لی ہے اور مقامی لوگوں کی زمینیں ضبط اور نیلام کی جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر گلوبل انوسٹرز سمٹ میں 43 کمپنیوں کی 137000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری دراصل مقبوضہ وادی کی اراضی اور وسائل کے استحصال کا منصوبہ ہے۔
بھارتی حکومت 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی خرید نے جا رہی ہے ان میں 15000 ایکڑ دریاؤں سے ملحقہ اراضی شامل ہے۔
24جولائی 2020 کو بھارتی حکومت نے35 مختلف جگہوں پر (488 ہیکٹر / 1205ایکٹر) ریاستی اراضی کو صنعتوں کیلئے منظور کر دی۔ قبضہ گیری کی ہمہ گیر مہم سے کشمیر کے وجود کو خطرہ ہے اور ان کارستانیوں سے مقبوضہ کشمیر میں معاشی و معاشرتی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیری معیشت کو5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
جموں و کشمیر میں BJPکا ہندو وزیر اعلیٰ لانے کیلئے بڑے پیمانے پر سازشیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اورجموں و کشمیر اپنی پارٹی(JKAP) کا قیام بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے اور Delimitation Commission کو ایک سال میں کام مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نئے منصوبہ کے تحت قانون ساز اسمبلی کی7 سیٹیں بڑھائی جائیں گی اور یہ سیٹیں کشمیر کی بجائے جموں کو دی جائیں گی حالانکہ کشمیر کی آبادی زیادہ ہے۔
اس وقت آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے کشمیر کی 46 جبکہ جموں کی 37 سیٹیں ہیں۔BJP کو سادہ اکثریت کیلئے 44 سیٹیں درکار ہیں جو کہ آج تک ہاتھ نہیں آسکیں۔ نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونک رچاکر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے بعد 5 اگست 2019ء کے کالے اقدامات کی توثیق کرا کر دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی کیا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثر رَسوخ کم کیا جا سکے۔ مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کُلگم کے اضلاع شامل ہونگے۔
۔ دوسری طرف علاوہ مقبوضہ کشمیر کی گجر قبائلی آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ مقبو ضہ کشمیر میں 12فیصد آبادی بکروال پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مسلمان ہے۔ آئے روز ان خانہ بدوشوں کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے۔ ایک لاکھ سے زائد بکروال آبادی پر معاشی اور معاشرتی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جنوری2008ء میں ضلع کٹوہا کے علاقے رسانہ میں 8سالہ بکروال بچی آصفہ کا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں گینگ ریپ اور قتل ایسا ہی اندوہناک واقعہ ہے۔ بڑھتے ہوئے خوف و ہراس، تشدد اور عدم تحفظ کے باعث 20ہزار سے زائد خانہ بدوش بکروال مجبوراََ پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور اتر کھنڈ کو ہجرت کر چکے ہیں۔ ہزاروں مسلم بکروا ل خاندانوں کو جنگلوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھیں انڈیا کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ بھارت کے غاصبانہ منصوبوں اور استحصالی ہتھکنڈوں نے کشمیریوں میں نفرت اور آزادی کے جذبہ کو مزید تقویت دی ہے۔
ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو ثبوتاژ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر رقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں 58% رَقبہ لَداخ، 26%جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے۔ ریاست کی 55 % آبادی مقبوضہ وادی کشمیر، 43% جموں اور 2% لَداخ میں رہتی ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا 68% حصہ مسلمانوں، 28% ہندوؤں، اور 4% سِکھ اوربُدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ مودی سرکار کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کرنا اور مسلمانوں کو اقلیت بنانا ہے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021ء سے 2026ء تک ملتوی کردی ہے۔ اسی عرصہ میں آبادی کا تناسب بدلنے کی تیز تر کوششیں کی جائیں گی اور کشمیر کے مُسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے۔
اس گھناؤنے منصوبے پر انڈیا کو اندرونی اور بیرونی مذمت کا سامنا ہے۔ حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا۔
مودی نے منصوبے کی تکمیل کے لیے کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کی آباد کاری کا ریلہ چھوڑ دیا اور نئے ڈومیسائل لاء کے تحت ساڑھے 18 لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا جبکہ لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جا ری ہے۔ اس سلسلے میں گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا۔
اب ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے اور ہزاروں باہر سے آئے مزدوربھی ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے۔ اس حوالے سے 10 ہزار سے زائد مزدوروں کو بہار سے کشمیر میں منتقل کر دیا گیا۔ 4-5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔
اسی طرح شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستا ن میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیاہے۔ آرٹیکل 35-A کے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے۔
سیکیورٹی فورسز کیلئے اب زمین حاصل کرنے کیلئے خصوصی سر ٹیفیکیٹ (NOC) کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ صرف بارہ مُولا میں فوجی کیمپ کے لیے 129کنال اراضی ہتھیا نے کا عمل جاری۔
ایک تو بھارتی افواج پہلے ہی کشمیر میں 53,353 ہیکٹرز اراضی پر قابض ہیں اور اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کو سٹریٹجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سینکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ء تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی کُھلی ڈھیل دے دی ہے۔ اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریژن سٹی بنانے کی سازش کھل کر سامنے آگئی۔
محبوبہ مُفتی نے بھی جنوری 2018ء میں بھارتی فوج کی قبضہ گیری کے خلاف آواز اُٹھائی تھی کہ زمین کی خریداری کی اجازت دے کر مقبوضہ کشمیر پر ہندو سر مایہ داروں کے قبضے کا راستہ ہموار کر دیا گیا۔
مودی سرکار نے 20 ہزار کنال زمین کوڑیوں کے دام ہندو سرمایہ داروں کیلئے ہتھیا لی ہے اور مقامی لوگوں کی زمینیں ضبط اور نیلام کی جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر گلوبل انوسٹرز سمٹ میں 43 کمپنیوں کی 137000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری دراصل مقبوضہ وادی کی اراضی اور وسائل کے استحصال کا منصوبہ ہے۔
بھارتی حکومت 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی خرید نے جا رہی ہے ان میں 15000 ایکڑ دریاؤں سے ملحقہ اراضی شامل ہے۔
24جولائی 2020 کو بھارتی حکومت نے35 مختلف جگہوں پر (488 ہیکٹر / 1205ایکٹر) ریاستی اراضی کو صنعتوں کیلئے منظور کر دی۔ قبضہ گیری کی ہمہ گیر مہم سے کشمیر کے وجود کو خطرہ ہے اور ان کارستانیوں سے مقبوضہ کشمیر میں معاشی و معاشرتی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیری معیشت کو5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
جموں و کشمیر میں BJPکا ہندو وزیر اعلیٰ لانے کیلئے بڑے پیمانے پر سازشیں ہو رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اورجموں و کشمیر اپنی پارٹی(JKAP) کا قیام بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے اور Delimitation Commission کو ایک سال میں کام مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نئے منصوبہ کے تحت قانون ساز اسمبلی کی7 سیٹیں بڑھائی جائیں گی اور یہ سیٹیں کشمیر کی بجائے جموں کو دی جائیں گی حالانکہ کشمیر کی آبادی زیادہ ہے۔
اس وقت آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے کشمیر کی 46 جبکہ جموں کی 37 سیٹیں ہیں۔BJP کو سادہ اکثریت کیلئے 44 سیٹیں درکار ہیں جو کہ آج تک ہاتھ نہیں آسکیں۔ نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونک رچاکر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے بعد 5 اگست 2019ء کے کالے اقدامات کی توثیق کرا کر دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی کیا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثر رَسوخ کم کیا جا سکے۔ مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کُلگم کے اضلاع شامل ہونگے۔
۔ دوسری طرف علاوہ مقبوضہ کشمیر کی گجر قبائلی آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ مقبو ضہ کشمیر میں 12فیصد آبادی بکروال پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مسلمان ہے۔ آئے روز ان خانہ بدوشوں کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے۔ ایک لاکھ سے زائد بکروال آبادی پر معاشی اور معاشرتی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جنوری2008ء میں ضلع کٹوہا کے علاقے رسانہ میں 8سالہ بکروال بچی آصفہ کا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں گینگ ریپ اور قتل ایسا ہی اندوہناک واقعہ ہے۔ بڑھتے ہوئے خوف و ہراس، تشدد اور عدم تحفظ کے باعث 20ہزار سے زائد خانہ بدوش بکروال مجبوراََ پنجاب، ہماچل پردیش، ہریانہ اور اتر کھنڈ کو ہجرت کر چکے ہیں۔ ہزاروں مسلم بکروا ل خاندانوں کو جنگلوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھیں انڈیا کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ بھارت کے غاصبانہ منصوبوں اور استحصالی ہتھکنڈوں نے کشمیریوں میں نفرت اور آزادی کے جذبہ کو مزید تقویت دی ہے۔