قومی اسمبلی کا اجلاس مچھلی منڈی بن گیا حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں ہاتھا پائی
آغا رفیع اللہ کے دھکے سے پی ٹی آئی رکن عطا اللہ گر پڑے
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے قادر پٹیل نے عمر ایوب کو لوٹا کہا، جس پر عمر ایوب خان نے طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کتنی پارٹیاں بدلیں وہ بھی پتہ کرلیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیربجلی عمر ایوب خان نے تحریری جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی کمی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی، لوڈ ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے کافی مقدار میں بجلی کی پیداوار دستیاب ہے۔
عمرایوب کا کہنا تھا کہ واجبات کی وصولی میں بہتری اور بجلی چوری کو روکنے کے لیے ڈسکوز کی جانب سے اے ٹی اینڈ سی کی بنیاد پر لوڈ مینجمنٹ کی جاتی ہے، متعلقہ ایس ڈی اوز اور ایکسئینز کے تحریری اجازت نامہ کے بغیر شٹ ڈاون نہیں کیا جاتا، شٹ ڈاون کی منظوری مجاز اتھارٹی ایس ڈی او اور ایکسئینز کی منظوری کے بعد ہی کی جاتی ہے۔
وزیرتوانائی نے بتایا کہ این اے 183 میں بجلی کے کمبے تبدیل کرنے کے دوران کرنٹ لگنے سے قائم مقام لائن مین محمد مبارز جان جاں بحق اور محمد پرویز زخمی ہوئے تھے، ایس ای مظفر گڑھ نے متعلقہ ایکیسن کو تبدیل کردیا، 11 کے وی لائن پر خطرے کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی جس سے واقعہ پیش آیا، تحقیقات کی بنیاد پر غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیاں کی جا چکی ہیں، مروجہ پالیسی کے تحت متاثرہ ملازمین کو معاوضہ دیا گیا ہے۔
عمر ایوب کی جانب سے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دینے پر اپوزیشن ارکان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور عمرایوب کی تقرریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ کیا، اپوزیشن ارکان نشستوں پر کھڑے ہو کر سیٹیاں اور ڈیسک بجانے لگے۔
پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا تھا کہ آپ بتائیں 10 جنوری کو بریک ڈاوٴن کیوں ہوا آپ ہمیں بھاشن نہ دیں، ہم آپ کی تقاریر نہیں سننے آئے، یہ جلسہ نہیں ہو رہا اسمبلی ہے، سوالات کا درست جواب دیں، آپ کی نااہلی کی وجہ سے 3 کھرب گردشی قرض بڑھا۔
وزیر توانائی عمر ایوب نے ایک بار پھر اظہارخیال کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی کی حکومتوں نے پاور سیکٹر میں بارودی سرنگیں بچھائیں، (ن) لیگ نے اپنے دور میں ترسیلی نظام پر سرمایہ کاری نہیں کی، ہم لوگ بجلی کی تقسیم و ترسیل کے نظام پر خرچ کر رہے ہیں، سندھ میں بڑے ناموں پر ہاتھ ڈالا توچیف منسٹر آفس سے آئی جو کو فون گیا کہ ان کو نہ پکڑیں، سندھ میں جو لوگ بجلی چوری میں ملوث تھے ان کے خلاف کارروائی رکوائی گئی، سی ایم ہاوٴس سے آئی جی کو فون گیا کہ کارروائی نہیں کرنی۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کی وجہ سے 2013 میں کیپسٹی چارجز 185ارب روپے تھے، 2018 میں کیپسٹی چارجز 468 ارب روپے تک بڑھ گئے، 2020 میں کیپسٹی چارجز 860ارب روپے تک بڑھے، 2023 تک کیپسٹی چارجز 1455ارب روپے تک جانے کا خدشہ ہے۔
عمر ایوب کے خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے لوٹا لوٹا کے نعرے لگائے گئے اور ایک بار پھر سیٹیاں اور ڈیسک بجائے گئے، حزب اختلاف ارکان کے سوال کے دوران بھی شور جاری رہا، پیپلزپارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے کہا کہ یہاں ایک ایسا لوٹا ہے جو پہلے ق لیگ میں تھا، پھر ن لیگ میں شامل ہو گیا اور ق لیگ کو برا کہنے لگا، اب پی ٹی آئی میں ہے اور ن لیگ کو برا کہہ رہا ہے، اس ایوان میں سب سے بڑا لوٹا سوالات کے درست جواب نہیں دیتا۔
قادر پٹیل کی ضمنی سوال پر عمرایوب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے گھر میں کتاب ہے جس میں ایک لفظ زلفی لکھا ہوا ہے جو ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا، وہ ان کی جماعت کا سیکرٹری جنرل تھا مگر انہیں نااہلی کی وجہ سے کابینہ سے نکالا گیا تھا، یاد رکھیں زلفی صدر ایوب خان کی کابینہ میں تھا نااہلی پر نکالا گیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے کتنی پارٹیاں بدلیں وہ بھی پتہ کرلیں۔
دوران اجلاس پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ارکان آپس میں لڑ پڑے، پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور آغا رفیع اللہ کا پی ٹی آئی کے فہیم خان اور عطاء اللہ سے ہاتھا پائی بھی ہوئی، جب کہ آغا رفیع اللہ کے دھکے سے پی ٹی آئی رکن عطا اللہ گر پڑے، اور پی ٹی آئی کےفہیم خان اور نوید قمر میں بھی جھڑپ ہوگئی، اس دوران پی ٹی آئی کے عامر کیانی میدان میں آگئے، اور مجبوراً حالات خراب ہونے پر سیکورٹی طلب کر لی گئی، تاہم حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا ایک دوسرے کےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ جاری رہا۔
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان میں ہنگامہ آرائی اور جھگڑے کا نوٹس لیتے ہوئے ہنگامہ اور لڑائی کرنے والوں کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کرلیا، اسپیکر نے ایوان میں لگے کیمروں کی فوٹیج طلب کر لی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیربجلی عمر ایوب خان نے تحریری جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی کمی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی، لوڈ ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے کافی مقدار میں بجلی کی پیداوار دستیاب ہے۔
عمرایوب کا کہنا تھا کہ واجبات کی وصولی میں بہتری اور بجلی چوری کو روکنے کے لیے ڈسکوز کی جانب سے اے ٹی اینڈ سی کی بنیاد پر لوڈ مینجمنٹ کی جاتی ہے، متعلقہ ایس ڈی اوز اور ایکسئینز کے تحریری اجازت نامہ کے بغیر شٹ ڈاون نہیں کیا جاتا، شٹ ڈاون کی منظوری مجاز اتھارٹی ایس ڈی او اور ایکسئینز کی منظوری کے بعد ہی کی جاتی ہے۔
وزیرتوانائی نے بتایا کہ این اے 183 میں بجلی کے کمبے تبدیل کرنے کے دوران کرنٹ لگنے سے قائم مقام لائن مین محمد مبارز جان جاں بحق اور محمد پرویز زخمی ہوئے تھے، ایس ای مظفر گڑھ نے متعلقہ ایکیسن کو تبدیل کردیا، 11 کے وی لائن پر خطرے کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی جس سے واقعہ پیش آیا، تحقیقات کی بنیاد پر غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیاں کی جا چکی ہیں، مروجہ پالیسی کے تحت متاثرہ ملازمین کو معاوضہ دیا گیا ہے۔
عمر ایوب کی جانب سے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دینے پر اپوزیشن ارکان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور عمرایوب کی تقرریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ کیا، اپوزیشن ارکان نشستوں پر کھڑے ہو کر سیٹیاں اور ڈیسک بجانے لگے۔
پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا تھا کہ آپ بتائیں 10 جنوری کو بریک ڈاوٴن کیوں ہوا آپ ہمیں بھاشن نہ دیں، ہم آپ کی تقاریر نہیں سننے آئے، یہ جلسہ نہیں ہو رہا اسمبلی ہے، سوالات کا درست جواب دیں، آپ کی نااہلی کی وجہ سے 3 کھرب گردشی قرض بڑھا۔
وزیر توانائی عمر ایوب نے ایک بار پھر اظہارخیال کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی کی حکومتوں نے پاور سیکٹر میں بارودی سرنگیں بچھائیں، (ن) لیگ نے اپنے دور میں ترسیلی نظام پر سرمایہ کاری نہیں کی، ہم لوگ بجلی کی تقسیم و ترسیل کے نظام پر خرچ کر رہے ہیں، سندھ میں بڑے ناموں پر ہاتھ ڈالا توچیف منسٹر آفس سے آئی جو کو فون گیا کہ ان کو نہ پکڑیں، سندھ میں جو لوگ بجلی چوری میں ملوث تھے ان کے خلاف کارروائی رکوائی گئی، سی ایم ہاوٴس سے آئی جی کو فون گیا کہ کارروائی نہیں کرنی۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کی وجہ سے 2013 میں کیپسٹی چارجز 185ارب روپے تھے، 2018 میں کیپسٹی چارجز 468 ارب روپے تک بڑھ گئے، 2020 میں کیپسٹی چارجز 860ارب روپے تک بڑھے، 2023 تک کیپسٹی چارجز 1455ارب روپے تک جانے کا خدشہ ہے۔
عمر ایوب کے خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے لوٹا لوٹا کے نعرے لگائے گئے اور ایک بار پھر سیٹیاں اور ڈیسک بجائے گئے، حزب اختلاف ارکان کے سوال کے دوران بھی شور جاری رہا، پیپلزپارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے کہا کہ یہاں ایک ایسا لوٹا ہے جو پہلے ق لیگ میں تھا، پھر ن لیگ میں شامل ہو گیا اور ق لیگ کو برا کہنے لگا، اب پی ٹی آئی میں ہے اور ن لیگ کو برا کہہ رہا ہے، اس ایوان میں سب سے بڑا لوٹا سوالات کے درست جواب نہیں دیتا۔
قادر پٹیل کی ضمنی سوال پر عمرایوب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے گھر میں کتاب ہے جس میں ایک لفظ زلفی لکھا ہوا ہے جو ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا، وہ ان کی جماعت کا سیکرٹری جنرل تھا مگر انہیں نااہلی کی وجہ سے کابینہ سے نکالا گیا تھا، یاد رکھیں زلفی صدر ایوب خان کی کابینہ میں تھا نااہلی پر نکالا گیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے کتنی پارٹیاں بدلیں وہ بھی پتہ کرلیں۔
دوران اجلاس پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ارکان آپس میں لڑ پڑے، پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور آغا رفیع اللہ کا پی ٹی آئی کے فہیم خان اور عطاء اللہ سے ہاتھا پائی بھی ہوئی، جب کہ آغا رفیع اللہ کے دھکے سے پی ٹی آئی رکن عطا اللہ گر پڑے، اور پی ٹی آئی کےفہیم خان اور نوید قمر میں بھی جھڑپ ہوگئی، اس دوران پی ٹی آئی کے عامر کیانی میدان میں آگئے، اور مجبوراً حالات خراب ہونے پر سیکورٹی طلب کر لی گئی، تاہم حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا ایک دوسرے کےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ جاری رہا۔
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان میں ہنگامہ آرائی اور جھگڑے کا نوٹس لیتے ہوئے ہنگامہ اور لڑائی کرنے والوں کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کرلیا، اسپیکر نے ایوان میں لگے کیمروں کی فوٹیج طلب کر لی۔