مسلح تنازعات سے 63 کروڑ خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہے رپورٹ

جنگ زدہ حالات اور بدامنی سے مرنے والے تقریباً 75 لاکھ بچوں کی عمریں ایک سال یا اس سے بھی کم تھیں


ویب ڈیسک February 04, 2021
خانہ جنگی، بدامنی اور مسلح تنازعات میں سب سے زیادہ نقصان عورتوں اور بچوں کا ہورہا ہے۔ (فوٹو: اقوامِ متحدہ/ اسٹوارٹ پرائس)

SAN FRANCISCO: علاقائی جنگوں، جھڑپوں، مسلح تصادم اور تنازعات سے دنیا بھر میں کم از کم 63 کروڑ خواتین اور بچوں کی صحت کسی نہ کسی صورتی متاثر ہوئی ہے جبکہ 5 سال سے کم عمر کے ایک کروڑ بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔

2017 تک دنیا کی ہر 10 میں سے ایک خاتون، جبکہ ہر 6 میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی مسلح تنازعے کے علاقے سے 50 کلومیٹر یا اس سے بھی کم فاصلے پر رہ رہے تھے، یا پھر اسی بناء پر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہ انکشافات معروف و معتبر طبّی جریدے ''دی لینسٹ'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے، تحقیقی مضامین کے ایک خصوصی مجموعے میں کیے گئے ہیں۔

یہ مجموعہ جسے ''تصادم زدہ حالات میں خواتین اور بچوں کی صحت'' کا عنوان دیا گیا ہے، پاکستان کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ (ایف آر ایس) کی سربراہی میں مرتب کیا گیا ہے، جن کا نام عالمی طبّی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔

مضامین کے مذکورہ مجموعے میں گزشتہ 20 سال یا زیادہ مدت سے 35 ممالک میں جاری، قومی سطح کے 54 مسلح تنازعات کے بارے میں 2019 تک دستیاب اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار سیکڑوں مقامی، علاقائی اور بین الاوقوامی تنظیموں کے فراہم کردہ ہیں۔

''یہ نئے تخمینہ جات، جدید جنگوں اور مسلح تنازعات میں بالواسطہ (indirect) جانی نقصان کا باعث بننے والے اُن اسباب کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں جن سے بہ آسانی بچا جاسکتا تھا۔ ان اسباب میں متعدی امراض، ناقص غذا، جنسی تشدد اور خراب ذہنی صحت کے علاوہ پانی اور اور طبّی سہولیات کی فراہمی سے متعلق بنیادی تنصیبات کی تباہی تک شامل ہیں،'' ڈاکٹر بھٹہ نے بتایا۔

ان خصوصی مضامین میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سال کے دوران مرنے والے ایک کروڑ بچوں کی عمریں نہ صرف 5 سال یا اس سے کم تھیں، بلکہ ان میں سے بھی تقریباً 75 لاکھ شیر خوار بچے تھے؛ یعنی وہ بچے ''دودھ پینے کی عمر'' کے تھے، جو زیادہ سے زیادہ 1 سال تک ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ اور ان کے رفقائے کار نے اس حوالے سے اپنے تبصرہ جاتی مقالے (کمنٹری آرٹیکل) میں لکھا ہے کہ آج دنیا کی 50 فیصد سے زائد خواتین اور بچے ایسے ممالک میں رہ رہے ہیں جنہیں ''سرگرم تنازعات'' کا سامنا ہے۔ ''عالمی برادری اس تشویشناک کو مزید نظرانداز نہیں کرسکتی۔

دیگر اہم اور لرزہ خیز نکات کے علاوہ، مذکورہ مجموعے میں یہ بات بھی بطورِ خاص نوٹ کی گئی ہے کہ جنگ/ مسلح تنازعات کے شکار علاقوں میں عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے اور شہری آبادی والے علاقوں پر دھماکہ خیز اور ہلاکت خیز کیمیائی ہتھیار تک کھلے عام استعمال کیے جارہے ہیں۔

بے رحمانہ جنسی تشدد بھی ایسے تنازعات میں بہت زیادہ دیکھا گیا ہے۔

فریقین اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے کےلیے سائبر حملوں سمیت، کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز نہیں کرتے؛ اور نتیجتاً وہاں عام شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔

جنگوں اور مسلح تنازعات میں براہ راست حملوں سے مرنے والوں کی بڑی تعداد ان اعداد و شمار کا حصہ نہیں بلکہ ان کا تعلق صرف جنگ، بدامنی اور خانہ جنگی کے باعث طبّی مسائل کا شکار ہونے والوں سے ہے۔

مسلح چپقلش/ جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والی نوجوان خواتین کےلیے پُرامن علاقوں میں رہائش پذیر خواتین کے مقابلے میں مرنے کا خطرہ تین گنا زیادہ دیکھا گیا، جبکہ نوزائیدہ بچوں کےلیے یہی خطرہ 25 فیصد زیادہ رہا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان حالات میں کچھ بہتر ضرور آئی ہے لیکن اب بھی اسے کافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں